نومبر 2022 - Page 2 of 3 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں یا ظالم ہیں اور یا فاسق ہیں مگر کیوں؟۔

جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں یا ظالم ہیں اور یا فاسق ہیں مگر کیوں؟۔

سورہ المائدہ میں اللہ کے نازل کردہ حکم پر فیصلہ نہ کرنے والوں کے تین الگ الگ گروہ ہیں۔1:علماء ومشائخ،2:حکمران اور3:عوام الناس

علماء ومشائخ کے فیصلے سے دین بدل جاتا ہے اسلئے ان پر کفر کا فتویٰ ہے، حکمران عدل قائم نہیں کرتے اسلئے ظالم ہیں اور عوام صرف فاسق بنتے ہیں

سورۂ المائدہ میں اللہ نے3فتوے بیان فرمائے ۔ پہلا یہ کہ ” علماء ومشائخ کا کام دین کی حفاظت ہے ۔ علماء یہود تورات کی حفاظت کرتے مگر انہوں نے خوف اور لالچ کیلئے کتاب کو بدل ڈالا۔ اے امت مسلمہ کے علماء تم خوف و لالچ کیلئے دین کو مت بدلو اور جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے تو وہی لوگ کافر ہیں”۔ علماء کی طرف سے اللہ کے نازل کردہ حکم پر فیصلہ نہ کرنے سے اللہ کا دین بدل جاتا ہے اسلئے ان پر سب سے زیادہ بڑا فتویٰ کفر کا لگایا گیاہے۔
اللہ نے دوسرا فتویٰ یہ لگایا کہ بنی اسرائیل میں بہت سے بادشاہ بنادئیے تھے اور واضح کیاتھا کہ ” ہم نے توراة میں ان پر لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان ، دانت کے بدلے دانت، ناک کے بدلے ناک ، کان کے بدلے کان اور زخموں کا قصاص ہے اور جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے تو وہی لوگ ظالم ہیں”۔ چونکہ معاشرے میں عدل وانصاف کا نام قائم کرنا حکمرانوں کا کام ہے اسلئے یہود کے حکمرانوں پر ہی اس آیت میں ظالم ہونے کا فتوی لگایا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اقتدار نہیں ملا تھا اور انجیل میں حکومت سے متعلق احکام نہیں ہیں۔ یہودی علماء و حکمرانوں کا قبضہ رہاتھا اور تورات کے حوالے سے پہلے دو سخت فتوے جاری کئے گئے ۔ اللہ نے تیسرا فتویٰ اہل انجیل عوام پر اللہ کے نازل کردہ حکم پر فیصلہ نہ کرنے کے حوالے سے فاسق کا لگادیا۔ کیونکہ عوام کی وجہ سے نہ دین بدل سکتا ہے اور نہ ظلم کا نظام قائم ہوسکتا ہے۔
شاہ ولی اللہ نے نظام کو تلپٹ کرنے کا کہا تو انگریز نہیں تھا بلکہ اسکے باپ نے فتاوی عالمگیریٰ میں اورنگزیب بادشاہ کیلئے دین کا فتویٰ بدلاتھا۔آج پھر علماء یہود کے عالمی بینکنگ کے نظام کیلئے زکوٰة اور سود کے احکام بدل رہے ہیں۔

مزید تفصیلات درج ذیل عنوانات کے تحت دیکھیں۔
”مرتد کو قتل کا فیصلہ صرف اسلامی حکومت کرسکتی ہے! امام کعبہ ڈاکٹر شیخ صالح عبد اللہ بن حمید”
”کوئی نبوت کا دعویٰ کرے میں قتل کروں گا۔ سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ”

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کوئی نبوت کا دعویٰ کرے میں قتل کروں گا۔ سید عطا ء اللہ شاہ بخاری

کوئی نبوت کا دعویٰ کرے میں قتل کروں گا۔ سید عطا ء اللہ شاہ بخاری

کچھ مفتی گھٹنوں میں سر دے بیٹھے لیکن سید بولتا تھا
جب ریاست پاکستان مرزائیوں کو مسلمان کہنے پر تلی ہوئی تھی تو کئی بڑے علماء ومفتیا ن دُم دبا کر بیٹھے تھے!

حکومت نے بیان درج کرانے کیلئے امیر شریعت کو سکھر جیل سے لاہور سینٹرل جیل منتقل کردیا۔ پیشی پر امیر شریعت اور انکے قیدی رفقاء کو سخت پہرے میں لایا گیا۔ عدالتی ہرکارے نے آواز لگائی ، سرکار بنام عطاء اللہ شاہ بخاری۔ اب اسیر ختم نبوت امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری پورے قلندرانہ جاہ وجلال والی جرأت و وقار کے ساتھ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔ سرفروشان احرار نے پورے ہائیکورٹ کو حصار میں لے رکھا تھا۔ عدالت کے دروازے پر ہزاروں فدایانِ ختم نبوت اور شمع ناموس رسالت ۖ کے پروانے نعرہ زن تھے۔ نعرہ تکبیر اللہ اکبر، تاج و تخت ختم نبوت زندہ باد، مرزائیت مردہ باد۔ امیر شریعت نے عدالت کے درواز پر کھڑے ہوکر ہتھکڑیاں فضاء میں لہرائیں اور ہاتھ سے اشارہ کیا ، حکم ہوا خاموش۔ تمام مجمع ساکت و جامد ہوا۔ امیر شریعت عدالت میں داخل ہوگئے۔ جسٹس منیر بغض و حسد سے بھرا ہوا غصے سے لال پیلا گردن تنی ہوئی تکبر غرور کا پیکر بنا کرسی پر بیٹھا تھا۔ مرد مؤمن کے چہرہ انور پر نگاہ پڑی تو اس کی آنکھیں جھک گئیں۔ جسٹس منیر دوسری مرتبہ آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کرسکا۔ عدالت کی کاروائی شروع ہوئی۔ امیر شریعت نے اپنا تحریری بیان عدالت میں پیش کیا۔ جسٹس منیر نے ایک نظر بیان کو دیکھا۔ جسے اس نے منیر انکوائری رپورٹ میں شامل نہیں کیا اور پھر اس نے اپنے مخصوص چبھتے ہوئے انداز میں سوالات کا آغاز کردیا۔ جسٹس منیر:ہندوستان میں اس وقت کتنے مسلمان ہیں؟۔ امیر شریعت : سوال غیر متعلق ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں پوچھیں۔ جسٹس منیر: ہندوستان اور پاکستان میں جنگ چھڑجائے تو ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ امیر شریعت: ہندوستان میں علماء موجود ہیں وہ بتائیں گے۔ جسٹس منیر : آپ بتادیں؟۔ امیر شریعت: پاکستان کے بارے میں پوچھیں کہ پاکستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟۔ جسٹس منیر : مسلمان کی کیا تعریف ہے؟۔ امیر شریعت: اسلام میں داخل ہونے اور مسلمان کہلانے کیلئے صرف کلمہ شہادت کا اقرار و اعلان ہی کافی ہے۔ لیکن اسلام سے خارج ہونے کیلئے ہزاروں وجوہات ہیں، ضروریات دین میں کسی ایک کا انکار کفر کے ماسوا کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے کسی ایک کو بھی انسانوں میں مانا تو مشرک، قرآن کریم کی کسی ایک آیت یا جملہ کا انکار کیا تو کافر۔ اور نبی کریم ۖ کے منصب ختم نبوت کے بعد کسی انسان کو کسی بھی حیثیت میں نبی مانا تو مرتد۔ جسٹس منیر: (قادیانی وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) انکے بارے میں کیا خیال ہے؟۔ امیر شریعت: خیال نہیں عقیدہ ہے جو انکے بڑوں کے بارے میں ہے۔ مرزائی وکیل: نبی کی کیا تعریف ہے؟۔ امیر شریعت: میرے نزدیک اسے کم از کم ایک شریف آدمی ہونا چاہیے۔ جسٹس منیر بدتمیزی کے انداز میں: آپ نے مرزاقادیانی کو کافر کہا؟۔ امیر شریعت: میں اس سوال کا آرزو مند تھا کوئی بیس برس پہلے کی بات ہے یہی عدالت تھی جہاں آپ بیٹھے ہیں یہاں چیف جسٹس مسٹر جسٹس ڈگلس ینگ تھے اور جہاں مسٹر کیانی بیٹھے ہیں یہاں رائے بہادر جسٹس رام لال تھے۔ یہی سوال انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا وہی جواب آج پھر دوہراتاہوں۔ میں نے ایک بار نہیں ہزاروں مرتبہ مرزا کو کافر کہا ہے اور کافر کہتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں کافر کہتا رہوں گا، یہ میرا ایمان اور عقیدہ ہے اور اسی پر مرنا چاہتا ہوں۔ مرزا قادیانی اور اسکی ذریت کافر و مرتد ہے۔ مسیلمہ کذاب اور ایسے ہی دیگر جھوٹوں کو دعویٰ نبوت کے جرم میں قتل کیا گیا۔ جسٹس منیر: (غصے سے بے قابو ہوکر دانت پیستے ہوئے) اگر غلام احمد قادیانی آپ کے سامنے دعویٰ کرتا تو آپ اسے قتل کردیتے؟۔ امیر شریعت: میرے سامنے اب کوئی دعویٰ کرکے دیکھ لے۔ حاضرین عدالت: نعرہ تکبیر اللہ اکبر، ختم نبوت زندہ باد، مرزائیت مردہ باد۔ کمرہ عدالت نعروں سے لرز گیا۔ جسٹس منیر نے بوکھلا کر کہا: توہین عدالت۔ امیر شریعت نے جلال میں آکر فرمایا: توہین رسالت۔ محترم قارئین! جسٹس منیر (دم بخود، خاموش، مبہوت، حواس باختہ) پسینہ پوچھنے لگا۔عدالت امیر شریعت کی جرأت ایمانی اور جذبہ حب رسول ۖ دیکھ کر سکتے میں آچکی تھی۔ امیر شریعت نے گرج دار آواز میں پوچھا :کچھ اور؟جسٹس منیرپریشانی میں بڑبڑاتے ہوئے : میرا خیال ہے ہمیں اور کچھ نہیں پوچھنا، عدالت برخواست ہوتی ہے۔ وہ صداقت جس کی بے باکی تھی حسرت آفریں ۔ قارئین ! امیر شریعت کا مکالمہ امید ہے بہت اچھا لگا ہوگا!۔

مزید تفصیلات درج ذیل عنوانات کے تحت دیکھیں۔
”مرتد کو قتل کا فیصلہ صرف اسلامی حکومت کرسکتی ہے! امام کعبہ ڈاکٹر شیخ صالح عبد اللہ بن حمید”
”جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں یا ظالم ہیں اور یا فاسق ہیں مگر کیوں؟۔”

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مرتد کو قتل کا فیصلہ صرف اسلامی حکومت کرسکتی ہے!امام کعبہ

مرتد کو قتل کا فیصلہ صرف اسلامی حکومت کرسکتی ہے!امام کعبہ

ہمارے فقہاء اور علماء نے یہ واضح کیا ہے کہ مرتد سے قاضی یا جج پوری تفتیش کرے گا۔ امام کعبہ ڈاکٹر شیخ صالح عبد اللہ بن حمید
یہ کسی فرد کا کام نہیں کہ مرتد کوخود قتل کردے۔ایک انسان کا بے گناہ قتل تمام انسانیت کاقتل ہے
سعودی عرب کیساتھ شامل اسلامی ممالک کا اتحاد کسی اسلامی ملک کیخلاف نہیں خوش آئند ہے

سلیم صافی: شیخ صاحب! پاکستانیوں کو آپ کی رہنمائی کی بہت ضرورت ہے۔ یہاں بات بات پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں۔ لوگوں کو مرتد اور واجب القتل قرار دیا جاتا ہے۔ تو اس پر رہنمائی کی جائے کہ شرعی لحاظ سے ایک مسلمان کس وقت مرتد یا کافر قرار پاتا ہے اور کسی مسلمان کو کافر، مرتد یا واجب القتل قرار دینے کا اختیار وہ صرف ریاست کے پاس ہے یا کہیں افراد کو بھی وہ حق دیا جاسکتا ہے یا علماء کو بھی؟۔
امام کعبہ ڈاکٹر شیخ صالح عبد اللہ بن حمید: یہ معاملہ تو علماء اور فقہاء کے نزدیک بڑا واضح ہے اوراُمت مسلمہ اس کو بڑی گہرائی کے ساتھ بیان بھی کرچکی ہے۔ ارتداد اور کفر سے متعلق جتنے بھی معاملات ہیں یہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی ایک فرد اٹھے اور کسی کو بھی کافر یا مرتد قرار دے دے۔ اور وہ کافر یا مرتد یا واجب القتل سمجھا جائے۔ جس پر بھی اس قسم کا کوئی الزام لگے گا وہ معاملہ عدالت میں جائے گا۔ حکومتی جو ذمہ داران ہیں، جو قاضی ہے، جو جج ہے وہ اس معاملے کے متعلق ثبوت اور گواہیاں اکھٹی کرے گا۔ اور استفسار کرے گا پھر جس شخص پر یہ الزام لگایا اس سے گہرے سوالات کئے جائیں گے کہ آیا جس نے اس پر یہ الزام لگایا وہ اس کو تسلیم کرتا ہے یا اس کا انکار کرتا ہے۔ اپنا کوئی بھی مؤقف جو وہ بیان کرتا ہے اس کیلئے وہ کوئی تاویل بیان کرتا ہے یا وضاحت کے ساتھ ارتداد کا ارتکاب کرتا ہے۔ اور ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص کچھ باتیں تو کررہا ہو لیکن ذہنی طور پر ٹھیک نہ ہو۔ یا اس کی ذہنی حالت ایسی نہ ہو جس میں اس کو اپنی گفتگو کی سنجیدگی کا انداز ہو۔ تو اس حوالے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چاہے کفر کا معاملہ ہو چاہے کسی کو مرتد قرار دینے کا یا قتل کرنے کا معاملہ ہو یہ صرف اور صرف اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسکے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کہہ دیا ہے کہ جس نے ایک بھی جان کو ناحق قتل کیا تو ا س نے تمام انسانیت کو قتل کیا۔
سلیم صافی: سعودی عرب کی قیادت میں جو اسلامی اتحاد کی فوج بن گئی ہے عام تاثر یہ ہے کہ وہ ایک اور اسلامی ملک کیخلاف یا ایک فقہ کیخلاف بنایا جارہا ہے اس اتحادی فوج کا اصل مقصداور مدعا کیا ہے؟۔ اور اس سلسلے میں پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام سے آپ کی توقعات کیا ہیں؟۔
امام کعبہ: میرے خیال میں تو اسلامی کسی بھی قسم کا کوئی اتحاد ہو وہ ایک خوشی کی بات ہے۔ میرے پاس زیادہ تفصیلات تو نہیں کیونکہ یہ میری فیلڈ نہیں لیکن بہرحال اگر یہ کسی اور مسلمان ممالک کی طرف سے بھی ہوتا تب بھی اس کو خوشی کی نظر سے دیکھا جاتا۔ اور اس طرح کے اگر مزید اتحاد بھی بنتے ہیں جو اسلامی ممالک کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں تو اسکے بارے میں خوش گمانی رکھنی چاہیے۔ اسمیں سب مسلمان ممالک شامل ہوسکتے ہیں کسی کا نام نہیں کہ شامل نہیں ہوسکتا۔
مزید تفصیلات درج ذیل عنوانات کے تحت دیکھیں۔
”کوئی نبوت کا دعویٰ کرے میں قتل کروں گا۔ سید عطا ء اللہ شاہ بخاری”
”جو اللہ کے نازل کردہ پر فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں یا ظالم ہیں اور یا فاسق ہیں مگر کیوں؟۔”

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

امت کے تمام طبقات اسلامی بینکاری پر اضطراب میں مبتلا ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان

امت کے تمام طبقات اسلامی بینکاری پر اضطراب میں مبتلا ہیں۔ مولانا سلیم اللہ خان

مفتی محمد تقی عثمانی کے نام مولانا سلیم اللہ خان کا خط
مروجہ اسلامی بینک اور حضرت شیخ مولانا سلیم اللہ خان کا کردار : مفتی رفیق احمد بالاکوٹی

https://www.banuri.edu.pk/bayyinat-detailماہنامہ بینات ، جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی، پاکستان۔

جامعہ فاروقیہ کے الفاروق نے مفتی تقی عثمانی کی توہین وذاتی عناد، مولانا سلیم اللہ خان کی معافی اور متفقہ فتویٰ کے مقابلے میں غلط متفقہ فتوے کی نشاندہی کی ،یہ اقتباسات لئے ہیں!
جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی رفیق احمد بالا کوٹی نے یہ مکمل مضمون جامعہ فاروقیہ کے ماہنامہ ”الفاروق” کی اجازت سے ”البینات” میں شائع کیا ہے اور نیٹ پر اس کو دیا ہے۔ مضمون سابقے اور لاحقے کی وجہ سے اچھا خاصا طویل ہے جس بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے گلستان کی مانند ہے اور شہد کی مکھی کی طرح اس کا رس بھی اچھا خاصا دشوار ہے۔ تاہم کچھ اقتباسات سے یہ اندازہ لگانے میں مشکل نہیں ہوگی کہ سود کو جواز فراہم کرنے والے کس طرح اس عالمی سازش کو چھپا رہے ہیں اور ذاتی عناد وتعصبات سے لیکر جھوٹے توبہ تائب اور جعلی فتوؤں کا سہارا لینے سے بھی شرم نہیں کھاتے ہیں ۔ اقتباسات دیکھ لیجئے۔
شیخ المشائخ، استاذ الاساتذہ، سرخیلِ علماء حق، پاسبانِ مسلکِ دیوبند، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مد نی کے فکری وعملی جا نشین ، حق گوئی …. حضرت مولا نا سلیم اللہ خان15جنوری2017کو راہیِ آخرت ہوگئے…..
فرمایاکہ اگلا اجلاس ہمارے ہاں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی میں ہوگا۔ یہ اجلاس قریبی تاریخ اوروقت میں منعقد ہوا، جس میں شہر کے متعدد اہلِ فتویٰ کو مدعو فرمایا گیا تھا، جن میں شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا زرولی خان صاحب، حضرت مفتی عبدالمجید دین پوری شہید، حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید، حضرت مولانا منظور احمد مینگل، حضرت مولانا مفتی حبیب اللہ شیخ، حضرت مولانا مفتی احمد ممتاز وغیرہ شامل تھے۔ ……حضرت (مولانا سلیم اللہ خان) نے شرکاء مجلس کی اس رائے سے اتفاق فرمایا اور اپنے بزرگانہ مقام پر جاکر یہاں تک فرمایا کہ : بھئی! (حضرت کے بیان کو اپنی تعبیر کیساتھ عرض کررہا ہوں، اگرچہ حضرت کے الفاظ مجھے اچھی طرح یاد ہیں، وہ کلمات نقل کرنا میرے لئے شاید مناسب نہ ہوں، ان کے ارشاد کا مفہوم یہ تھا)ان لوگوں (مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی محمد رفیع عثمانی) کیساتھ مجلس اور مشاورت کا کوئی فائدہ نہیں، بلکہ الٹا نقصان ہوگا، اسلئے ان کو اپنے ارادے سے آگاہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ……
میں نے ان حضرات (مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی محمد رفیع عثمانی)کے سامنے اپنا ارادۂ ملاقات رکھا تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ حضرت! (مولانا سلیم اللہ خان صاحب) آپ تشریف نہ لائیں، ہم آپ کے پاس حاضر ہوجاتے ہیں…
حسب ارشاد قبل از عصر حاضر ہوئے تو حضرت مولانا زر ولی خان ، مفتی احمد ممتاز، مفتی حبیب اللہ شیخ اور جامعہ فاروقیہ کے کچھ حضرات بھی تشریف فرما تھے۔
اس کے بعد نماز عصر ادا کی اور حسب مشورہ حضرت کے ہمراہ مفتی محمد تقی عثمانی کیساتھ مجوزہ اطلاعی مجلس منعقد ہوئی۔ مفتی تقی عثمانی کو اپنے اتفاقی روانگی کا پروگرام بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں نے یہ تحریر تیار کی، جو آپکی خدمت میں سنا کر اجازت چاہوں گا۔ اسکے بعد حضرت نے مندرجہ ذیل تحریر پڑھ کر سنائی:
الحمد للہ و کفیٰ و سلام علیٰ عبادہ الذین الصطفیٰ و بعداحقر کو علم و فضل کے اعتبار سے جناب سے کوئی نسبت نہیں ہے، علم و فضل سے ہے ہی نہیں تو نسبت کیا ہوگی؟ البتہ اللہ نے ایمان نصیب کیا ہے، دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ یہ زندگی ایمان والی زندگی اور کلمہ والی موت پر ختم فرمائے۔
1: اسلامی بینکاری پر تشویش و اضطراب ہے، علمائ، عوام، بینکنگ سے متعلق افراد، تاجر سب اسلامی بینکاری کو اسلامی تعلیمات کیخلاف سمجھتے ہیں۔
2: جتنے معتبر اور معروف دار الافتاء ہیں سب میں اس سلسلے کے استفتاء ہوتے ہیں اور جواز و عدم جواز سے متعلق سوالات کئے جاتے ہیں۔
3: دوسرے ملکوں میں بھی یہ اضطراب ہے، وہ بھی سوالات کرتے ہیں۔
4: اس صورت حال سے دوسروں کی نسبت جناب کو زیادہ سابقہ رہتا ہوگا، کیونکہ آپ ہی پاکستان میں اس کے موجد ہیں۔
5: علم و ضل کے اعتبار سے جو آپ کا مقام ہے وہ محتاج بیان نہیں، لیکن عصمت حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کیساتھ خاص ہے، دوسرا کوئی معصوم نہیں، اس کا امکان بہر حال موجود ہے اسلامی بینک کا نظام جاری کرنے میں آپ سے غلطی ہوئی ہے۔نمبر1، نمبر2، نمبر3پر جو باتیں ہیں، غلطی کے ارتکاب کیلئے واضح دلیل ہیں، اضطراب غلطی پر ہوتا ہے ، ایسا اضطراب جس نے تمام طبقات کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، صحیح بات پر اضطراب نہیں ہوتا اور کوئی معاند مضطرب ہوتا ہے تو اس کی وجہ عناد ہوتی ہے، جبکہ امت کے تمام طبقات اسلامی بینکاری پر تشویش و اضطراب میں مبتلاء ہیں، یہاں عناد کا سرے سے کوئی احتمال موجود نہیں ہے، ان کا اضطراب اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔
6: ”ربا” کا معاملہ انتہائی نازک و سنگین معاملہ ہے، اس سلسلے کی وعیدوں سے آپ ہرگز بے خبر نہیں ہیں، چنانچہ احتیاط واجب و لازم ہے۔
7: ”ربا” میں ”شبھة الربا” بھی حرام ہے، اگر حقیقت ”ربا” کو قبول نہیں کیا جاسکتا تو ”شبھة الربا”سے تو انکار ممکن نہیں۔
8: ارباب فتویٰ اورجو بینکنگ کے امور سے باخبر ہیں، بیانات مسلسل اخبارات و رسائل میں چھپتے رہتے ہیں، جو اسلامی بینکاری کو اسلام کیخلاف قرار دیتے ہیں، اپنے دلائل بھی پیش کرتے ہیں، یقیناً آپکے علم میں ہونگے، ضروری تھا کہ آپ ان کو مطمئن کرتے اور جوابات شائع کرتے اور نہیں تو ارباب فتویٰ جو آپ ہی کے حلقے کے حضرات ہیں ان سے رابطہ کرکے ان کی تسلی کا انتظام کیا جاتا جو نہیں کیا گیا، اگر کبھی کوئی مشاورت ہوئی ہے تو اس کے نتیجے میں اختلاف ختم نہیں ہوا، اعتراضات بدستور موجود ہیں اور تشویش و اضطراب برقرار ہے۔
9: سننے میں آیا ہے کہ بینکاری پر آپ اپنے آپ کو ”اعلم الناس” سمجھتے ہیں،دوسروں کی معلومات کو ناقص فرماتے ہیں، مجھے تو آپ کی طرف اس قول کی نسبت درست معلوم نہیں ہوتی، اگر آپ کا یہ دعویٰ نہیں تو پھر وہی سوال ہوگا کہ آپ نے اشکال کرنے والوں کو مطمئن کیوں نہیں کیا؟ تاکہ اضطراب رفع ہوتا اور اگر آپ واقعی اپنے آپ کو عالم اور دوسروں کو ”ناقص العلم” سمجھتے ہیں ”فھو کما تراہ” یہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات ہوگی، سور جاثیہ میں: افرایت من اتخذ الٰھہ ھواہ و اضلہ اللہ علیٰ علم و ختم علیٰ سمعہ و قلبہ و جعل علیٰ بصرہ غشٰوہ فمن یھدیہ من بعد اللہ افلا تذکرونO”کیا تو نے دیکھا ہے جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنالیا اور اس کو اللہ نے گمراہ کردیا علم کے باوجود۔ اور اسکے کان اور دل پر مہر لگادی اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تو کون ہے اللہ کے بعد اس کو ہدایت دینے والا، کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟”۔ہم نے فیصلہ کیا کہ اضطراب و تشویش کو دور کرنے کیلئے علماء و اہل فتویٰ کی وسیع مشاورت سے فتویٰ اسلامی بینکاری کے ”عدم جواز” پر جاری کیا جائے اور پورے ملک میں تشہیر کا اہتمام کیا جائے، ہم ہرگز تصادم کے خواہاں نہیں ہیں، ہم تو دل و جان سے آپ کیساتھ رہتے ہیں اور آپ کا احترام کرتے ہیں، امت کو ”ربا” کی لعنت سے بچانے کیلئے اپنا شرعی فرض ادا کرنا چاہتے ہیں، اس میں ذرا بھی تردد نہیں کہ فرض کی ذمہ داری ہم پر لازم اور ضروری ہے اور اب تک جو کوتاہی ہم سے ہوئی ہے اس پر ہم استغفار کرتے ہیں، آپ کیلئے بھی دنیا و آخرت کی فلاح کا واضح تقاضہ ہے کہ ہمارے ساتھ تعاون فرمائیں اور غلط مفادات کیلئے اس پر مشورہ دینے والوں سے اپنے آپ کو بچائیں۔ ”ان فی ذٰلک لذکریٰ لمن کان لہ قلب او القیٰ السمع و ھو شھید”۔دستخط: مولانا سلیم اللہ خان ۔17جون2005۔
……….. وہ مطلوبہ دستاویزات دینے کیلئے کئی شرائط بار بار دہراتے رہے، ارشاد یہ تھا کہ: ”یہ دستاویزات یہیں پر دیکھی جاسکتی ہیں، باہر نہیں لے جاسکتے۔ اگر…… پھر ان دستاویزات کے مندرجات کا حوالہ نہیں دے سکتے۔ اگر حوالہ دینا چاہیں تو اس سے قبل ہم سے مشاورت اور مذاکرہ کرلیا جائے۔”…
اسلامی بینکوں کا اسٹیٹ بینک کی سودی پالیسیوں سے آزاد مستثنیٰ ہونے کا دعویٰ محض ”خود فریبی” یا ”دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے” کے …
جامعہ دار العلوم کراچی میں حضرت شیخ رحمة اللہ علیہ کی وہاں کے اکابرسے ملاقات کے حوالے سے ”نارساراوی” ….. ….حضرت فرمانے لگے کہ : اس دن میرے سفرِ ملتان کی وجہ سے جلدی کو مولانا محمد تقی عثمانی نے شاید محسوس فرمایا تھا ……ہمارے بے تکلفانہ روئیے سے اگر انہیں رنج ہوا تو ہم اس پر ان کی دلجوئی کرلیں۔ ہم اسلئے دار العلوم چلے گئے تھے۔ یہ عنوان دیا کہ ”سلیم اللہ” مولانا تقی عثمانی وغیرہ سے معافی مانگنے آیا تھا۔ بھئی! معافی تو زیادتی یا غلطی کی ہوتی ہے۔ ہم نے بینکوں کے خلاف فتویٰ دیکر پھر ازراہِ ہمدردی و خیر سگالی اس کی پیشگی اطلاع کرکے کونسی غلطی اور زیادتی کی تھی، جس پر ہم معافی مانگتے۔ معافی کی اس میں کیا بات ہے؟! کیا ”سلیم اللہ” اس پر کسی سے معافی مانگے گا؟۔ …
واضح قرائن بتاتے ہیں کہ یہ پروپیگنڈہ ایک قسم کی دفاعی مہم کا حصہ تھا، بینکوں سے وابستہ بعض حضرات نے اپنے بینک کاری سفر کے مخالفانہ فتوے کو قبل از وقت متنازع بنانے کیلئے اور اس فتویٰ کو محض مخالفت و عناد کا شاخسانہ قرار دینے کیلئے ”باہمی توہین و توقیر” کا مسئلہ بناکر پیش کیا تھا۔
مگر الحمد للہ! پہاڑوں جیسا حوصلہ رکھنے والے سالارِ قافلہ حضرت شیخ کے عزم و استقلال پر اس پروپیگنڈے کا کوئی اثر نہیں پڑا، بلکہ ان کی اس کرامت کا ظہور بھی ہوا، جسے اولِ وہلہ میں ہمارا طفلانہ اصرار سمجھنے سے قاصر تھا۔…
یہ فتویٰ کتنا مؤثر ثابت ہوا ؟ ….مجوزین کے سٹپٹاتے رویوں سے ہوتا ہے، تفصیل چھوٹے بڑے کئی دفتروں کی متقاضی ہے۔ تین طرح پر اکتفاء کروں گا:
1: متفقہ فتویٰ کو ذاتیات، ذاتی رنجشوں اور بغض و عناد کا شاخسانہ قرار دینے کیلئے رنگا رنگ دروغ گوئیوں کا سہارا لیا گیا، جس کی معمولی جھلک اوپر ہے۔
2: مجوزین نے ان بزرگوں کی عزت اور بے عزتی کا مسئلہ باور کرانا شروع کردیا، جنکے نام اور کام پر یہ لوگ اپنا کاروبار چلارہے تھے۔ حالانکہ متفقہ فتویٰ کو اختلاف تو کہا جاسکتا ہے جو ہر صاحب علم کا حق ہے، ان کے خلاف مہم قرار دینا کسی طور پر درست اور سچ نہیں تھا، لیکن کیا کریں عصری تقاضوں کے سامنے ”سچ” اہمیت نہ پاسکا اور اختلاف کو خلاف کہہ کر شدید پروپیگنڈہ فرمایا گیا۔
3: متفقہ فتویٰ کو جوازی فتویٰ کی مخالفانہ مہم قرار دینے والوں کو کہیں سے خدائی خدمت گار کے طور پر اپنے مزاج کے مطابق متفقہ فتویٰ کیلئے مخالفانہ مہم کی ایک بے ساکھی میسر آئی، جس نے ملک کے مختلف نامی اور بے نامی اداروں کو شرفِ یاوری بخشا اور ایسے اداروں کی ہر نوع خدمت سے وابستہ علماء کرام اور قراء عظام سے مروجہ بینکوں کے حق میں دستخط لئے۔ جس کی اہمیت و حیثیت وہ لوگ ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ (یہ اقتباسات متفقہ فتویٰ سے لئے گئے ہیں)
اسلامی بینکاری کیخلاف متفقہ فتویٰ پر دستخط کرنیوالے مفتیانِ عظام
حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ۔مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل، مفتی سمیع اللہ، مفتی احمد خان ، جامعہ فاروقیہ کراچی۔مفتی حمید اللہ جان ، جامعہ اشرفیہ لاہور ۔ مولانا سعید احمد جلال پوری ،مولانا مفتی عبد القیوم دین پوری، دارالافتاء عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی۔ مولانا مفتی عبد المجید دین پوری، مفتی انعام الحق، مفتی رفیق احمد بالاکوٹی، مفتی شعیب عالم ،جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی۔مولانا مفتی غلام قادر دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سرحد ۔ مفتی محمد مدنی، معہد الخلیل الاسلامی، بہادر آباد، کراچی ۔ مفتی احمد خان، جامعہ عمر کوٹ، سندھ ۔مفتی قاضی سلیم اللہ ، دار الہدیٰ ٹھیڑی ، خیرپور، سندھ۔ مولانا مفتی احتشام الحق آسیا آبادی، جامعہ رشیدیہ آسیا آباد، تربت بلوچستان۔ مفتی امداد اللہ، مولانا کلیم اللہ،جامعہ دھورو نارو، سندھ۔مولانا مفتی روزی خان، دار الافتاء ربانیہ کوئٹہ ، بلوچستان۔مفتی عاصم عبد اللہ جامعہ حمادیہ کراچی۔مولانا مفتی احمد ممتاز ،مفتی امان اللہ صاحب، جامعہ خلفاء راشدین، کراچی۔مفتی عبد الغفار جامعہ اشرفیہ، سکھر۔مولانا مفتی حامد حسن، دار العلوم کبیر والا، پنجاب۔مولانا مفتی عبد اللہ جامعہ خیر المدارس ملتان۔مفتی حبیب اللہ شیخ جامعہ اسلامیہ کلفٹن۔ مفتی نذیر احمد شاہ جامعہ فاروق اعظم ، فیصل آباد۔مفتی سعید اللہ جامعہ عربیہ تعلیم الاسلام، کوئٹہ۔مولانا گل حسن بولانی، جامعہ رحیمیہ سرکی روڈ کوئٹہ۔ مولانا مفتی زر ولی خان ، جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال، کراچی۔مولانا مفتی سعد الدین جامعہ حلیمیہ، لکی مروت، مفتی عبد السلام چاٹگامی ، جامعہ معین الاسلام، بنگلہ دیش۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کٹاکٹ بنے گا یا دودھ نکلے گا؟

کٹاکٹ بنے گا یا دودھ نکلے گا؟

مولانا سلیم اللہ خان، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر.. اسلامی بینک کیخلاف مگر شیخ بضدہیں کہ مینڈھے کے کپور ے دودھ دینگے۔اُٹھو! شیطانی بد چلنی پر ورنہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں!
مرزائیت جہاد اور اسلامی بینکاری اسلامی معیشت کے خلاف بڑی بین الاقوامی سازش؟

گردوں اور کپوروں کے لذیذکٹاکٹ۔برنس روڈ اور شاہراہ قائدین کراچی ہوٹلوںکے بڑے سائن بورڈ۔ اسلامی بینکاری سے کٹا کٹ نہیں بنے گا اور نہ ہی کپوروں سے دودھ نکلے گا!

صیہونیت کے عالمی سودی نظام کی وجہ سے ”فرنگ کی رگِ جان پنجہ یہود میں ہے” اور اب عرب حکمرانوں کے بعد ایٹمی قو ت پاکستانی حکومت کو بھی یہود کے پنجے میں دیا جارہاہے؟

ہندوستان اوراکثردنیاپر انگریز تاج برطانیہ کا قبضہ تھا تو اقبال نے کہاکہ ”فرنگ کی جان پنجہ یہود میں ہے”۔ وجہ بینکوں کا صیہونی نظام تھا۔ جرمن کے ہٹلر نے یہودیوں کو بڑی تعداد میں قتل اور ملک بدر کیااور کہا کہ تھوڑے یہودی رہ جائیں تو دنیا کو پتہ چلے گا کہ میں کیوں مجبور ہواتھا ۔اب اسرائیل کے مظالم دنیا کے سامنے ہیں۔ اسرائیل کو مصر، ترکی اورکئی سارے مسلم ممالک مان چکے۔ افغانستان پر طالبان حکومت کو مسلم ممالک یہاں تک کہ پاکستان نے بھی نہیں مانا۔ جب پاکستان سمیت چند ممالک نے طالبان کو مان لیا تھا توافغانستان کے سفیر ملاضعیف کوپاکستان نے امریکہ کے حوالے کیا تھا۔افغانستان کے نائب سفیر حبیب اللہ فوزی ڈاکٹر اسرار احمد کے پروگرام ”انٹرنیشنل خلافت کانفرنس” میں میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھے تھے اور اس پروگرام میں برطانیہ وغیرہ سے بھی کچھ تنظیموں کے قائدین نے شرکت کی تھی اور مجھے آخری مقرر ہونے کے شرف سے نوازا گیا تھا۔ جب افغانستان پر حملہ ہونا تھا تو حبیب اللہ فوزی نے میڈیا پر ملاعمر کے خلاف بیان دیا تھا۔ طالبان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ امیر امان اللہ خان سے صدر نجیب اللہ تک پہلے اور بعد میں افغانی ہی افغانیوں کے خلاف استعمال ہوئے اسلئے پاکستان سے گلہ کم اور خود سے زیادہ کرنا چاہیے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی بات انتظامی وسیاسی ہے لیکن یہود کے سودی بینکوں کے نظام کو اسلامی قرار دینے کا تعلق کفر و اسلام سے تھا اسلئے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر ترکی ومصر وغیرہ کے خلاف مذہبی طبقہ فتوے کے میدان میں نہیں اترا ۔ اگر سودی نظام اسلامی بن جائے تو اس قانون سے کیا فرق پڑے گا کہ مریم نواز دوپٹے کو پگڑی بناکر مرد مولانا مریم نواز شریف زندہ باد اور مولانا اپنے رومال کو سر سے اُتارکر دوپٹہ بنالے اور بی بی فضلہ الرحمن زندہ باد بن جائے؟۔
1980کی دہائی میں امریکیCIAکے کرائے کی جنگ کو جہاد قرار دیا گیا اور بینکوں سے سود کی کٹوتی کو زکوٰة قرار دیا گیا۔ مفتی محمود اس پر پان کھلانے اور حلق میں خصوصی گولی ڈالنے سے شہید ہو گئے ۔ مولانا فضل الرحمن اس کو ”شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل ”قرار دیتا تھا۔ مولانا نے1996میں بینظیربھٹو حکومت میں شمولیت کی تو جمعیت کے علماء کو زکوٰة کمیٹی کا چیئرمین بنایا۔ شراب کی بوتل شراب طہور بن گئی۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے ” عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں”حکمرانوں اور علماء ومفتیان کے کردار کو واضح کیا۔ جس میں یہ تھا کہ ” کسی عالم سے کوئی بات شیطان کہلوادے تو اس پر برگشتہ مت ہو، اسلئے کہ رجوع کرسکتاہے۔ پوچھاگیاکہ یہ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ شیطان نے کہلوایا؟۔فرمایا : جب لوگوں کو تعجب ہو کہ کیا بات کی ؟، پوچھا :اگر وہ توجہ دلانے پر رجوع نہ کرے توفرمایا: پھر وہ عالم حق نہیں بلکہ سراپا شیطان ہے”۔ عصر حاضر میں یہ بھی ہے کہ ”علماء انبیاء کے امین اور دین کے محافظ ہیں جب تک حکمرانوں سے گھل مل کر دنیا میں گھس نہ جائیں اور جب وہ حکمرانوں سے گھل مل کر دنیا میں گھس جائیں تو ان کو چھوڑدیں”۔ مشہور عالم شیخ عبداللہ ناصح علوان کی کتاب ”تربیت اولاد” سعودی عرب ، دبئی اور دنیا بھر کے ائیرپورٹ پر ملتی ہے لیکن ”مسلمان نوجوان” جسکا ترجمہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے پرنسپل ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید نے کیا تھا سعودیہ اور دبئی کے کتب خانوں سے بھی غائب ہے۔ جس میںفتنہ اباحیت اور اقتصادی غیر مسلم ماہرین کے سودی نظام کو دنیا کیلئے تباہ کن قرار دینے کا ذکر ہے ۔ ڈاکٹر حبیب اللہ مختار، مولانا یوسف لدھیانوی، مولانا عبدالمجید دین پوری ، مفتی نظام الدین شامزئی اور بہت سے علماء ومفتیان کو عالمی سازشوں کیخلاف زبان کھولنے اور لکھنے پر شہید کیا گیا ۔ ان کی وہ کتابیں بھی مارکیٹ سے غائب ہیں۔ یہ موجودہ دور کاہی المیہ نہیں بلکہ تاریخ کے ہردور میں اسلام کا حلیہ بگاڑنے والے حکمرانوں اور علماء سوء نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ۔ مفتی تقی عثمانی کی مفتی محمود اور مولانا سلیم اللہ خان ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، بنوری ٹاؤن ، فاروقیہ ، حقانیہ، اشرفیہ ،خیرالمدارس، قاسم العلوم اور پاکستان کے معروف علماء ومدارس کے سامنے کیا حیثیت تھی؟ ۔امریکی CIA، صیہونی لابی اور مقتدر طاقتوںکی پشت پناہی سے ایک شخص جیت گیا اورباقی سب ہار گئے۔
جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مفتی محمد نعیم نے حلالہ کے مسئلے پر ہماری تائید کی، مفتی تقی عثمانی نے ڈرایا۔ انہوں نے سودی بینکاری پرہمارے سامنے مفتی تقی عثمانی کی مخالفت بھی کی اور ہماری اس بات کی تائید کی کہ” قرآن کی جو تعریف مدارس میں پڑھائی جاتی ہے اس سے قرآن کی توہین اور تحریف ہوتی ہے”۔ جس کی بنیاد پر بڑے فقہاء نے لکھا کہ ” سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے” جس پر مفتی تقی عثمانی کو ہم نے رجوع اور کتابوں سے نکالنے پر مجبور کردیا تھا۔اس وقت صرفMQMکے رہنماؤں نے ہمارا ساتھ دیا تھا۔یہ اس گستاخی کا نتیجہ تھا کہ نبیۖ پر فلاتمنن تستکثر (احسان نہ کریں کہ بڑی تائید کی امید رکھو)کی تفسیر میں سود کی تہمت لگادی۔ کراچی میں شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کی لین دین پر سود اور اپنی ماں سے زنا کے برابر گناہ کا الزام لگانے کی جسارت کرنے والا مفتی محمد تقی عثمانی بہت بڑاخدا ہے۔ اتخذوا احبارھم و رھبانہم ارباباً من دون اللہ”انہوں نے اپنے علماء ومشائخ کواللہ کے سواء اپنا رب بنایا تھا” یہودی سے صحابیبننے والے نے نبیۖ سے عرض کیا کہ ہم نے ان کو خدا تو نہیں بنایا تھا؟۔ نبیۖ نے فرمایا : کیا انکے حلال کردہ حرام کو حلال نہیں سمجھا؟، صحابی نے عرض کیا : یہ تو ہم کرتے تھے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ”یہی تو رب بنانا ہے”۔ صحیح بخاری ومسلم۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کے علماء اپنا بھرپور کردار اداکریں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مجھے پاکستان دشمن ایک طاقتور ملک کے سربراہ نے استعمال کرنا چاہا: حامد میر کا انکشاف

مجھے پاکستان دشمن ایک طاقتور ملک کے سربراہ نے استعمال کرنا چاہا: حامد میر کا انکشاف

کیا وجہ تھی کہ اتنی تھریٹس، اقدام قتل کی کوشش کے باوجودبھی آپ پاکستان سے باہر نہیں گئے؟،رؤف کلاسرا

ہرکوئی ہماری طرح اپنے اور اپنی فیملی کومشکل میں ڈالنے کا خطرہ مول نہیں لیتا، مجبوراً جاتاہے توغلط نہیں حامد

حامدمیر:پابندی کے دوران میں بیرون ملک گیا تو وہاں ایک ملک کے سربراہ نے مجھے اور بینظیر بھٹو کو کیا بڑی آفر کی؟ بینظیر نے عین موقع پر مجھے کیسے بچایا، حامد میر نے دھمکیوںکے باوجود ملک نہ چھوڑنے کی سنسنی خیز وجہ بتادی۔
رؤف کلاسرا: میں آج ارشد شریف کے گھر گیا ۔ ان کی مسز، والدہ اور بچوں سے بڑی دیر تک بات ہوئی اور انکے گھر آنا جانا بہت تھا ہر ہفتے جانا ہوتا تھا۔ تو جو سوالات آپ بتارہے ہیں انہوں نے بھی اسی طرح کے سوالات اٹھائے ۔میں پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ آپ کو بھی بہت ساری تھریٹس مسلسل رہی ہیں، اب تک آپ نے بڑا بھگتا اور ان کا سامنا کیا ۔ کیا وجہ تھی اتنی تھریٹس، اقدام قتل کی کوشش کے باوجود آپ پاکستان سے باہرنہیں گئے ارشد بھی نہیں جانا چاہ رہا تھا۔ میرا بھی یہی خیال تھا میرے دوست ہیں سب کو پتہ ہے کہ ارشد کو نہیں جانا چاہیے تھا۔ وہ پاکستان میں دوسری جگہ کی نسبت زیادہ محفوظ تھا۔ جبکہ انکے پاسUKاورUSAکے ویزے نہیں تھے ۔ میں بھی کئی دفعہ ان کو کہہ چکا تھا۔ ہم سب دوستوں نے کہا وہ انٹرسٹڈ نہیں تھے۔ تو آپ سمجھتے ہیں ارشد کو باہر جانا چاہیے تھا ان حالات میں؟۔ اور آپ خود کیوں نہیں گئے تھے سر؟۔
حامد میر: رؤف کلاسرا صاحب ! آپ نے ایسا سوال مجھسے پوچھاہے، بہت سے لوگ پوچھتے ہیں تو میں نے آج تک کسی کو تفصیل سے جواب نہیں دیا تو اگر آپ چاہتے ہیں تو میں اس کا تفصیل سے جواب دیتا ہوں۔ (جی سر۔ میرا خیال ہے لوگ سننا چاہیں گے آپ سے : رؤف کلاسرا)۔ پہلی دفعہ2007میں مجھ پر پابندی لگی تھی پرویز مشرف کا دور تھا تو میں5،6دن کیلئے پاکستان سے باہر ایک کانفرنس کیلئے گیا۔ وہاں پر بہت سے لوگوں نے رابطہ کیااور وہ چھوٹے موٹے لوگ نہ تھے بہت بڑے بڑے لوگ تھے۔ مثلاً ایک بہت بڑی بین الاقوامی شخصیت نے رابطہ کیا، انہوں نے کہا کہ ہم بہت بڑا ٹی وی چینل لانچ کررہے ہیں آپ جوائن کرلیں تو میں بڑا حیران ہوا کہ یار یہ ایک ملک کا سربراہ ہے یہ مجھے ٹی وی چینل جوائن کرنے کیلئے آفر مار رہا ہے تو یہ کیا چکر ہے؟۔ یہ دیکھا کہ میں زیادہ مائل نہیں تو اس نے کہا کہ بینظیر بھٹو صاحبہ بھی ہمارا ٹی وی چینل جوائن کررہی ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ کیا کریں گی ٹی وی چینل میں؟۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو ہر ہفتے ایک لیکچر دیا کریں گی۔ وہ جو تھا ساؤتھ ایشین چینل تھا بہت بڑا اور گلف کی ایک کنٹری میں اس کا ہیڈ کوارٹر بننا تھا۔ میں بینظیر بھٹو صاحبہ کے پاس گیا ۔ کہا جی اس اس طرح پیشکش ہوئی تو بتائیں کیا کرنا ہے؟۔ تو بینظیر صاحبہ بڑی محتاط تھیں وہ مجھے اپنے لان میں لے گئیں اور کہا کہ موبائل فون وغیرہ اندر رکھ کر آؤ۔ لان میں انہوں نے کہا کہ بالکل جوائن نہیں کرنا اور یہ پاکستان کے دشمن ہیں ان کا اینٹی پاکستان ایجنڈہ ہے۔ یہ آپ اور مجھے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ آپ بھی اسٹیٹ کے اداروں سے لڑ رہے ہیں اور میرا بھی پھڈہ ہے ۔تو میں تو بات چیت کیلئے راستہ نکالنے کی کوشش کررہی ہوں۔ انشاء اللہ اس کا راستہ نکل آئیگا ، انکے ہاتھ نہ چڑھنا یہ پاکستان کیخلاف استعمال کریں گے۔تو جناب میں اگلے دن کی فلائٹ لیکر فوراً پاکستان آگیا۔ اسکے بعد میں ذرا ہوگیا محتاط۔2012میں میری گاڑی کے نیچے بم لگا تو ایک دفعہ پھر لوگوں نے مجھ سے کہا کہ پاکستان سے باہر چلے جاؤ۔ میں نے انکار کردیا۔ پھر2014میں حملہ ہوا، اسکے بعد یہاں تک ہوگیا کہ میں آغا خان ہسپتال میں ایڈمٹ تھا تو ایئر ایمبولینس مجھے اٹھانے کیلئے کراچی ایئر پورٹ پہنچ گئی۔ تو میں نے کہا کہ آپ مجھے پاکستان سے باہر نہ ہی لیکر جائیں۔ انہوں نے کہا کیوں؟۔ میں نے ان کو بتائی تو نہیں وہ بات لیکن میرے ذہن میں2007والی بات تھی کہ باہر جاکر بندہ زیادہ کمزور ہوجاتا ہے۔ اسکے بعد یہ ہوا کہ میں پاکستان میں ہی رہا لیکن دو گولیاں میرے جسم کے اندر تھیں۔ ان کو نکلوانے کیلئے ملالہ یوسفزئی نے برمنگھم کے ایک ہسپتال میں جہاں ان کی اپنی ٹریٹمنٹ ہوئی تھی تو وہاں پر انہوں نے میرا انتظام کیا۔ تو جب میںUKگیا تو کلاسرا صاحب وہاں پر بھی میرے پیچھے لوگ لگ گئے۔ انہوں نے کہا جی کہ آپ نے صرف ایک کتاب لکھنی ہے اور وہ کتاب ایسی ہٹ ہوگی پوری دنیا میں آپ اس کا ایڈوانس بھی لے لیں۔ آپ کو پاکستان جانے کی ضرورت ہی نہیں۔ اور میری فیملی کے سامنے ہورہا تھا یہ کام۔ تو میں نے جناب جان چھڑائی اپنی اور میں پاکستان واپس آگیا۔ ابھی پچھلے سال بھی یہی صورتحال تھی۔ پچھلے سال یہ ہوا کہ مجھے6مہینے کیFellowshipمل رہی تھی اور پھر کتاب ہی لکھنی تھی۔ میں بالکل جانے کیلئے تیار تھا اور پچھلے واقعات بھی میرے ذہن میں تھے لیکن میں نے کہا کہ چلیں اب اتنا ٹائم گزر چکا، میں اتنا تو سمجھدار ہوں کہ میں کسی کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہوسکتا۔ لیکن پھر میرے ایک مہربان نے مشورہ دیا کہ آپ کو نہیں پتہ کہ کریمہ بلوچ کیساتھ کینیڈا میں کیا ہوا؟۔ آپ کو نہیں پتہ کہ ایک اور صحافی کیساتھ ناروے میں کیا ہوا ہے؟۔ باہر مت جائیں آپ (vulnerable)کمزور ہوتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ پاکستان سے باہر نہیں جانا چاہیے لیکن میں نے تو پاکستان سے باہر ایک دفعہ2007میں جاکر دیکھ لیا کہ ایک تو پاکستان کے اندر آپ کے دشمن آپ کو جینے نہیں دیتے۔ پھر پاکستان سے باہر جو پاکستان کے دشمن ہیں وہ آپ کے پیچھے لگ جاتے ہیں وہ بھی آپ کو استعمال کرناچاہتے ہیں۔ لیکن ارشد شریف جن حالات میں گئے وہ ذرا مختلف حالات ہیں۔ کیونکہ مجھے ذاتی طور پر پتہ ہے کہ ارشد شریف باہر جانے کیلئے تیار نہیں تھا بہت سے دوست یہ گواہی دینے کیلئے تیار ہیں۔ لیکن اگر ان کو بھیجا گیا تو شاید ان کا یہ خیال ہوگا کہ میں کچھ دن میں واپس آجاؤں گا لیکن وہ واپس نہیں آئے ۔ان کے پاس ویزہ بھی کوئی نہیں تھا۔ میرے پاس تو ویزے تھے لیکن انکے پاس ویزہ نہیں تھا وہ نہUKجاسکے نہUSA۔ سارے معاملات کو دیکھنے کی ضرورت ہے لیکن میں یہ دوہرانا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی ان حالات میں پاکستان سے باہر چلا جاتا ہے تو غلط نہیں ۔ ہر کوئی بندہ ہماری طرح اپنے آپ کو اور اپنی فیملی کو مشکل میں ڈالنے کا خطرہ مول نہیں لیتا۔ تو اگر کوئی چلا جاتا ہے تو بہت مجبوری میں جاتا ہے۔ ہر کوئی اپنی خوشی سے پاکستان نہیں چھوڑتا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قوم جانتی ہے کہ پاک فوج اور اس کا جرنیل کیا چیز ہے؟ ڈاکٹر اثر الاسلام سید

قوم جانتی ہے کہ پاک فوج اور اس کا جرنیل کیا چیز ہے؟ ڈاکٹر اثر الاسلام سید

جنرل ندیم انجم اور جنرل بابر افتخار کیا خوبصورت ہیں اور کس نرم لہجے میں بات کرتے ہیں!

ان بیچاری لڑکیوں کا قصور نہیں ہے ان کواسٹیج شو چاہیے اور عمران خان کورنگ رچانا آتا ہے!

عمران خان کیا جانے کہ ایک بہادر جرنیل کیا ہوتا ہے ۔ اثر الاسلام سید
DGISPRصاحب میں ان کو سلام پیش کرتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ خدا کے واسطے آپ پلیز
do not feel tense
مت سمجھئے کہ آپ یکہ و تنہا ہیں پوری قوم آپ کیساتھ ہے اسلئے کہ قوم جانتی ہے کہ پاک فوج کیا ہے اور پاک فوج کا جرنیل کیا چیز ہوتا ہے۔ کتنے پراسیس سے گزر کر جرنیل بنتا ہے۔ میں کیڈٹ کالج حسن ابدال کا پراڈکٹ ہوں۔ میں نے وہاں تعلیم حاصل کی۔ حب الوطنی میں نے وہاں سے سیکھی اور میرے ساتھی جو ہیں میں جانتا ہوں کہ ان میں سے جوجو جرنیل بنے کیسے کیسے چنیدہ قسم کے وہ نوجوان تھے۔ میرے کلاس فیلوز میں سے چار جرنیل ہیں۔ تو یہ جو ہمارے جرنیل ہیں جن کی تضحیک کی گئی اور ان کو ایسے ایسے یعنی ایک آدمی انکے خلاف بولنا توہین آمیز لفظ یعنی ان کو کبھی اندازہ نہیں ہے عمران خان کو یا اسکے چو چوں کو کبھی زندگی میں ایک دن بنکر میں بارڈرپر بیٹھ کر دیکھو !۔میں نے1971کی وار میں ایک دن گزارا تھا فاضلکا کے بارڈر کے بینکر میں۔ میرے باپ نے کہا تھا کہ یہاں رہ تاکہ تجھے پتہ لگے یہ زندگی کیا ہے۔ اس وقت میں میڈیکل اسٹوڈنٹ تھا۔ جنگ کا زمانہ تھا ادھر سامنے انڈین آرمی اور یہ سارا کچھ، تو ایک دن میں ایسا تھا کہ سپاہی مجھے کہہ رہا ہے کہ سر نیچا کرو سر نیچا کرواور میں نے کہا کہ یہ کیا حکم دے رہا ہے ۔ اس نے دیکھا کہ ادھر سامنے ایک گن موو کررہی ہے اور پچاس گز کا بھی فاصلہ نہیں۔ ذرا سا یہاں سے سر کوئی اٹھے تو ہم اس پر فائر کریں۔ وہاں تو71کی وار کے بعد جو صورتحال تھی ۔ ان لوگوں کو اندازہ نہیں، ہمارے سپاہی جوان روٹی کئی کئی دن وہاں نہیں کھائی ہوتی ان کو اندازہ نہیں کہ ان کی عزت کیسے کرنی ہے۔ ہمارے بزرگ غلام احمد پرویز نے ایک بات لکھی ہے کہ65کی وار میں وہ بارڈ ر کے اوپر گئے تو انہوں نے دیکھا ایسے ہی جیسے میں گیا تو71میں ، کہتے ہیں سپاہی میں نے دیکھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کچھ کھاندے پیندے وی ہو تو سپاہی نے آگے سے جواب دیا کھاڑاں کھانا تو ویلوں دے کم ہیں۔ یعنی یہ سپاہی جو خالی پیٹ بینکروں میں بیٹھتا ہے آپ کبھی اس کا راشن دیکھیں وہ جو دال کی مٹھیاں کھا رہا ہے اس کی زندگی دیکھیں۔ کس طریقے سے وہ پاکستان کا پہرہ دے رہا ہے اور یہ چند لفنگے گپتے بے شرم لوگ جن کو اپنی ماں باپ کی عزت بھی نہ آئی یہ جو یوتھیا مخلوق ہے یہ جو سڑک پر اس کو پتا ہے ان بیچاری لڑکیوں کا قصور نہیں۔ ان کو ایک شو اسٹیج چاہیے ایک اسٹیج پر آنے کیلئے خان صاحب کو یہ رنگ رچانا آتا تھا، اس کیساتھ پورا ٹولہ سب سے بڑی بات یہ ہے
He has million of Dollars, He has money
اور آپ مجھے صرف اس کے پیسوں کا بتادیں جس کا نام سلمان اقبال ہے۔
He is Elon Musk of Pakistan
اتنی دولت والا آدمی ہے یہ جوARYچینل والا۔ ان لوگوں نے ایک مقصد کے تحت یہ مہم چلائی
Because the goal is to weaken Pakistan
پاکستان کو اس پوائنٹ پر لے آؤ کہ جب یہ لوگ ڈکٹیٹ کریں کہ ہمیں یہ چاہیے ہمیں وہ چاہیے یہ پاکستان آرمی کو بلیک میل کرسکیں ڈکٹیٹ کریں۔ جس بات کا بڑے ہی خوبصورت حسین انداز میں جنرل ندیم احمد انجم، اُف اتنے خوبصورت انسان ہیں اور اتنا شستہ اور اتنا حسین لب و لہجہ ہے ان کا یعنی مجھے اتنی خوشی ہوئی اور ان کے ساتھ جنرل بابر افتخار صاحب اتنی خوبصورتی سے انہوں نے ، اور میں کہتا ہوں عجز و انکساری کے ساتھ اللہ کی قسم یہاں پر اس جگہ کوئی تگڑا اس قسم کی پرسنیلٹی والے جرنیل بیٹھے ہوتے ناں جو بولنے نہیں دیتے تھے یہ تو انہوں نے ڈیلے کردی ، ڈیلے اسلئے کی کہ طول دینا ہے کہ دیکھتے ہیں کہ شاید اس انسان کو ہوش آجائے ، شاید اس کے اندر کوبھی کوئی حب الوطنی کا مادہ جاگے کہ دیکھو آرمی ہی نے تجھے چانس دیا تھا تو بڑا پھڑک رہا تھا اتنے سالوں سے کہ میں وزیر اعظم بن کر یہ کردوں گا وہ کردوں گا۔ آرمی اس کو لے کر آئی۔ انہوںنے خود کہا ہے کہ اس بارے میں تو شک کسی کو ہونا نہیں چاہیے ، اور اس کا تو میں خود ذاتی طور پر شاہد ہوں آپ کو یاد ہوگا اور جو لوگ میرے سننے والے ہیں کہ آرمی کے خلاف جتنا زیادہ میں بولا ہوں اس دور میں اتنا کوئی نہیں بولا۔ میری دیکھا دیکھی لوگوں نے بولنا شروع کیا۔ اسلئے کہ میں پرسنلی افیکٹڈ تھا۔ کیوں؟ کیونکہ میں نے ایک پیٹریاٹ حب الوطن انسان کی حیثیت سے جنت پاکستان پارٹی بنائی رجسٹرڈ کرائی۔ کینڈیڈیٹس کو فائی نینس کیا کہ جو جو ان کو تھوڑی بہت چیزیں چاہئیں انہوں نے آرمی کے لوگوں نے جو کنٹرول کررہے ہیں الیکشن کو میرا نام و نشان نہیں اٹھنے دیا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی پیرالل پارٹی اٹھے اور عمران خان کے سوا لیڈر شپ آسکے۔ نام و نشان جنت پاکستان تحریک کا کس طریقے سے مٹایا گیا وہ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ جو نہیں جانتے وہ دیکھ لیں جاکر فیس بک پر پیجز، ویب سائٹ ، جب پارٹی لانچ کی گئی تو ہزاروں لائک تھے دس دن میں۔ اور اسکے بعد کیا ہوا؟ اسکے بعد ٹوٹل بلاک سینسر شپ کردی گئی۔ آرمی ہماری بڑے خلوص کیساتھ یہthoughtکہ
Imran Khan is the best
انہوں نے عمران خان کو لایا اب اس کا اقرار بھی کیا لیکن وہ کیا کہتے ہیں مولے نوں مولا ہی ماردا ہے۔ مجھے گلہ ہے آج جو بات ہورہی ہے کہ سارا کا سارا بیانیہ لفافہ امریکہ کا کاغذہلارہا تھا وہ سب ایک جھوٹ ایک ڈرامہ تھا۔ آج آرمی کے چیف نے یہ بات علی الاعلان کی ہے کاش اسی وقت اس کتے کا منہ توڑا جاتا۔ اسی وقت اس کتے کے منہ پر چنڈ ماری جاتی کہ سٹ ڈاؤن شٹ اپ۔ اس کو شٹ اپ کال دی جاتی کہ
You are a liar
تو جھوٹ بول رہا ہے۔

ڈاکٹر اثر الاسلام سید کے بیان پر تجزیہ
ڈاکٹر صاحب نے فوج کا بھرپور دفاع کیا ہے۔ حسن ابدال کیڈٹ کالج پاکستان کا قابلیت کے اعتبار سے پہلے نمبر کا ادارہ ہے۔ ایک اور بیان میں ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے کہ مراسلہ کا مطلب رسالت ہے۔ امریکہ نے ایک مراسلہ بھیج دیا اور پورا سیاسی نظام بدل دیا۔ عمران خان کو کیا معلوم کہ امریکہ کتنا طاقتور ہے۔ جنرل ایوب نے زبردست کام کیا کہ امریکہ سے پاکستان کو جوڑ دیا۔
فوج کا بیانیہ اس قسم کے لوگ پیش کریں تو لوگوں پر کیا اثر پڑیگا؟۔ جنرل ایوب کے دور میں فاطمہ جناح ، مسلم لیگ فوج سے بدظن ہوگئی تو سرکارنے نئی نئی ناجائز مسلم لیگیںجنم دینی شروع کیں۔ جو پاکستان کے بانی کا دعویٰ کرتی ہیں۔ اللہ کرے ن لیگ اور ق لیگ آخری ہوں۔ عمران خان کو بھی اللہ ہدایت دے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

50، 60سال سے اوپر والے سر ہتھیلی پر رکھ کر احتجاج کرنے نکلو۔ ارشد شریف کی خدائی ماں

50، 60سال سے اوپر والے سر ہتھیلی پر رکھ کر احتجاج کرنے نکلو۔ ارشد شریف کی خدائی ماں

وہ حکومت جس نے ارشد شریف کو قتل کروایا، گیند سمیع اللہ سے کلیم اللہ اور کلیم اللہ سے سمیع اللہ ہونے لگی

ارشدشریف کی شہادت پر ماحول سے جذباتی ارشد شریف کی خدائی ماں کا لقب پانے والی خاتون کی ویڈیو

السلام علیکم ! انا للہ و انا الیہ راجعون۔ پاکستانیو! انہوں نے بہت ظلم کردیا۔ یہ بپھرے ہوئے سفید ہاتھیوں نے، یہ بپھرے ہوئے ریچھوں نے ، جو اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے ہیں، جو کرپٹ حکومت میں بیٹھے ہیں، یہ ارشد شریف کو شہید کروانے والے ٹارگٹ کلنگ میں مروانے والے پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں حکومت کا حصہ ہیں۔ جن کے بزنس ہیں کینیا میں اور ارشد شریف کے قاتل وردیوں میں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ میںISPRکو جواب دینا چاہتی ہوں۔ آپ اپنی بکواسات میڈیا پر آکر مت کریں۔ عوام کو اتنا غصہ مت دلائیں اب آپ کو وردیوں سے نکال کر آپ کی لاشوں کو چوراہوں پر لٹکایا جائے گا۔ آپ نے جس وردی کو گالی خود بنادیا ہے6لاکھ فوج جب اندھی ہوگئی ہے یہ ادارہ فوج کا جب گالی بن گیا ہے ہم سے کوئی توقع نہ رکھو ہم نے اختیار دیا تھا اس کا ناجائز استعمال کرکے ہمیں ڈراتے ہو ڈنڈے سے؟ ۔ پاکستانیو! انویسٹی گیشن میں جو تماشہ کررہے ہیں کہ حکومت کمیشن بنائے گی عدلیہ ہمیشہ کی طرح غدارانہ کردار ادا کرتی ہے کہ حکومت وہ حکومت جس نے اس کو قتل کروایا ہے۔ گیند سمیع اللہ سے کلیم اللہ اور کلیم اللہ سے سمیع اللہ ہونے لگی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ اس کی ہائی لیول انوسٹی گیشن ہونی چاہیے۔ پھر تمہیں وردی اتاردینی چاہیے۔ اتنے لمبے پروسیجر سے کیوں گزرتے ہو۔ تم صرف آئینہ لو ۔آئینہ دیکھو تمہیں ارشد شریف کا قاتل سمجھ میں آجائے گا۔ انویسٹی گیشن سے پاکستانیو ں انہیں گزرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں آئینہ لگادیا جائے شیشہ لگادیا جائے اور اسی طرح اسٹیبلشمنٹ میں آئینہ لگادیا جائے تو ہر گزرنے والوں کو آئینہ دکھاؤ ہر گلی ہر چوراہے ملک کے ہر شہر کے داخلے میں بڑے بڑے شیشے لگاؤ جہاں سے ان کا گزر ہو۔ انہیں بتاؤ ارشد شریف کے قاتل کو پہنچان لیں تاکہ یہ آسانی سے۔ پاکستانیو! انوسٹی گیشن ہونی ہے تو یہاں سے ہو۔ پاکستان میں کس نے اس کو رہنے نہیں دیا۔ کس نے پاکستان میں اسکا جینا محال کردیا۔ کون گھر میں چھاپے مارتا تھا۔ کون اس کے گھر میں جاکر اسکے گھر کے باہر گاڑیوں کو کھڑا کرتا تھا اس کو اریسٹ کرنے کی دھمکی دیتا تھا؟۔ کون ہے وہ خبیث، خنزیر، سور جس نے اسے نوکری سے نکلوایا؟۔ جس نے اس چینل کو عبرت کا نشانہ بنوایا۔ پاکستانیو! کون ہے وہ؟۔ ان سے پوچھو جس نے اسے ملک میں رہنے نہ دیا۔ کون ہے وہ جس نے اسے دوبئی میں بیچارہ رہ رہا تھا اسے دوبئی سے نکلنے پر مجبور کیا ۔ حکومت سے حکومت کیوں؟۔ فیفا فٹبال میں جنہوںنے سیکورٹی کا وعدہ کیا تھا انہوں نے کہا کہ ہماری جو آپ سے ڈیل ہے اس کا تقاضہ ہے کہ اسے یہاں سے نکلنے دے۔ ہماری پینٹیں اتار رہا ہے کیونکہ یہ ہماری کرپشن کو بے نقاب کررہا ہے۔ پاکستانیو! کس نے دوبئی میں خط لکھا؟۔ وہ کونسا حرام النسل ہے ؟ کون سی اپنی ماں کی غلطی کا نتیجہ ہے؟۔ جس نے وہ خط لکھا اور اسے دوبئی میں نہ رہنے دیا۔ کون حرام النسل ہے جن کے بزنس ہیں کینیا میں؟۔ وہ کون تھا جو گاڑی میں اس کا بھائی بن کر بیٹھا ہوا تھا؟۔ کہ اسے پکڑا جائے۔ کیا بات ہے9گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی ایک گولی نہ ڈرائیور کو لگی نہ اس نام نہادی بھائی کو لگی اور ارشد شریف کو بہیمانہ بزدلانہ طریقے سے شہید کیا گیا۔ اگر ارشد شریف کے پاس ایک رائفل ہوتی تو مزا تو تب تھا مقابلے کا۔ میں اپنی اسٹیبلشمنٹ کو کہتی ہوں کہ چوڑیاں پہن لو تم بے شرموں نے ایک معصوم محب الوطن کو کافر ٹارگٹ کلروں سے پیسے دے کر تم نے اسے مروایا ہے۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے تمہیں شرم آنی چاہیے دنیا والے تمہارے منہ پر جوتے مار رہے ہیں۔ دنیا والے تمہیں بے نقاب کررہے ہیں۔ کینیا کے صحافی بول رہے ہیں دنیا کی باقی انویسٹی گیشن کھلیں گی۔ پاکستانیو! ارشد شریف کے قاتل تمہارے میں ہیں۔ ارشد شریف شہید ہوا ہے اور شہید زندہ ہوتا ہے۔ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہم سے تقاضہ کررہا ہے کہ میری قربانی کو ضائع مت ہونے دینا۔ یہاں سے میرا مشن نامکمل رہ گیا ہے اس مشن کو اب مکمل کرنے کیلئے نکلو۔ ہم سے پہلے غلطی ہوئی اسے ہمیں باہر نہیں جانے دینا چاہیے تھا ۔ اسے انڈر گراؤنڈ کردیتے۔ جئیں گے تو مل کر مریں گے تو مل کر۔ اب سارے پاکستانی مل کر ارشد شریف کا بدلہ لیں گے۔ ہر فرد ارشد شریف بن کر ہر گلی سے ہر چوراہے سے نکلے۔ اور اس کے قاتلوں سے اس کا بدلہ لے۔ پاکستان کو جو غلامی میں ڈالنا چاہتے ہیں پاکستانی قوم کو جو غلام بنانا چاہتے ہیں اس مشن کے خلاف کام کررہا تھا ارشد شریف۔ یہ جو پاکستان کو لوٹ لوٹ کر پاکستان کے خزانے باہر لے کر جاتے ہیں اور اس کو اپنی طاقت بناکر پاکستانیوں پر ظلم کرتے ہیں انہیں اپنا غلام بناتے ہیں ارشد شریف اس مشن پر کام کررہا تھا کہ وہ انہیں اس ظلم سے روکے گا۔ پاکستانیو! ارشد شریف کی قربانی تم سے تقاضہ کرتی ہے۔ شہید زندہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں شہید زندہ ہے تمہیں ادراک نہیں اس کی زندگی کا۔ وہ ہم سے رزق لیتا ہے ۔ پاکستانیو! ارشد شریف دیکھ رہا ہے۔ اب کس نے اسے دوبئی سے کینیا تک بھیجا اور کس نے اس کا پیچھا کیا؟۔ کس نے اس کے فون ریکارڈ کئے؟۔ اس کا فون کہاں ہے؟۔ وہ نام نہاد بھائی کہاں ہے انویسٹی گیشن تو پاکستان سے بنتی ہے۔ پاکستان میں اس کے قاتل ہیں اور اب یہ ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہیں۔ یہ انویسٹی گیشن حکومت کرے گی؟۔ مگر مچھ کے آنسو بہاکر ہمارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ان کرپٹ حکومت کو کرپٹ وزیر اعظم وزیر خارجہ کو بتادینا چاہتے ہیں کہ ہم تمہاری لاشوں کو بھی ٹانگیں گے۔ ہم جنرلوں کی لاشوں کو چوراہوں پر ٹانگیں گے۔ ان بپھرے ہوئے سفید ہاتھیوں کو جو ہم نے وردی اور ہتھیار دئیے ہم ان سے چھیننا جانتے ہیں۔ پاکستانیو! سارے پاکستانی مل کر ارشد شریف کی قبر پر اس کے جنازے پر قسم اٹھاؤ کہ تم سب لوگ ارشد شریف کا بدلہ لینے کیلئے ایک ساتھ احتجاج کیلئے باہر نکلو گے۔ ان لوگوں کو مستعفی ہونے کیلئے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کردو گے۔ انہیں پکڑ کر لٹکاؤ گے۔ پاکستانیو! ارشد شریف کے اس نامکمل مشن کو تم لوگ مکمل کروگے اور احتجاج کیلئے میں اپنے بزرگوں سے التماس کرتی ہوں کہ آپ لوگوں کو فرنٹ لائن پر ہونا ہے۔ جن کی عمر50سے اوپر ہے60سال سے اوپر ہے۔ اب اور کتنا جینا ہے۔ اپنے جوانوں کو اپنی کمر پر رکھ کر اپنی کمر بناؤ۔ فرنٹ لائن پر آؤ۔ دیکھتے ہیں بپھرے ہاتھیوں کو ۔ اپنی ماؤں سے التماس کروں گی اور کتنا جئیں۔ اپنے جوانوں کو اپنی کمر بناؤ۔ انہیں پیچھے رکھو یہ سوچ کر کہ یہ ملک و قوم کی بقاء سنبھالیں گے۔ اور ہم ان بپھرے ہاتھیوں کا مقابلہ کریں گے۔ اللہ کی لعنت ہے سفید بپھرے ہاتھیوں پر قرآن میں بھی۔ ان کا انجام وہی کریں گے جو اللہ نے ان کا قرآن میں کیا ہے۔ نکلو پاکستانیو! اور میرے بزرگو!۔ اور میں صحافی برادری سے کہوں گی یہ ایک ارشد شریف نہیں ہے۔ یہ مت سمجھنا تم لوگ کہ اپنوں میں جو تفریق تم نے پیدا کر رکھی ہے خدا کا خوف کھاؤ اسے ختم کرو۔ ظالم کی فطرت نہیں بدلتی۔ وقت سے اس کا مکار طریقہ بدل جاتا ہے اس کے مفادات بدل جاتے ہیں اس کی فطرت نہیں بدلتی۔ آج ارشد شریف ہے تو کل کوئی اور ہوگا۔ میرا خیال ہے سب کو ایک پیج پر ہوکر اس ظلم کا بدلہ لینا چاہیے اس ظالم کی عقل کو ٹھکانے لگانا چاہیے۔ اس ظالم کو مٹانا چاہیے اوران کے بھی بچوں کی تصویریں ڈالو۔ اگر ٹارگٹ کلر کو یہ پیسے دے سکتے ہیں تو کیوں نہ ہم ان کو فالو کریں۔ ان کا جینا بھی اسی طرح حرام کریں جو اپنے بچوں کو باہر بھیجتے ہیں کیا ٹارگٹ کلروں کو ان کے ساتھ کونسی ہمدردی ہوگی۔ ان کو بھی تو پیسے کا ہی لالچ ہوگا۔ یہی ہمیں طریقہ سکھاتے جائیں۔ پاکستانیو! ان کو ان کی اولادوں کا جینا حرام کردو۔ پاکستان کی بقاء کیلئے اپنی نسلوں کی بقاء کیلئے اس کرپٹ مافیا سے ان غداروں سے پاکستان کو آزاد کرانا ہے۔ پاکستانیو! زندہ باد پاکستان پائندہ باد۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاکستان کی ریاست اور سیاست جی ٹی روڈ لاہور سے اسلام آباد تک کے گرد گھومتی ہے۔

پاکستان کی ریاست اور سیاست جی ٹی روڈ لاہور سے اسلام آباد تک کے گرد گھومتی ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے آزادی مارچ کی ٹرین میںPDMکی جماعتوں کو شامل کیا تھا اور پھر پیپلز پارٹی اورANPکو الزام لگاکر نکال دیا تھا

عمران خان نے حقیقی آزادی کا سفر شروع کیا تو ضمنی الیکشن میں حکومتی اتحاد کو شکست کا سامنا کرنا پڑا پھر ریاست سے بھی زبردست ٹکر لی ہے۔

مولانا فضل الرحمن چند سیٹوں کیساتھ آزادی مارچ کرکے عمران خان کو اس جمہوری ایوان سے باہر پھینکنے کی بات کررہا تھا اور پھرPDMکی جماعتیں بھی اس ٹرین کے ڈبے بن گئیں۔ پھر پیپلزپارٹی اور اے این پی کوPDMسے اس بنیاد پر باہر کیا کہ تمہارے اسٹیبلشمنٹ کیساتھ رابطے ہیں۔ مریم نواز نے کہا تھا کہ زرداری نے باپ پارٹی کو اپنا باپ بنالیا ہے۔ نوازشریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اورDGISIجنرل فیض حمید کا نام لیکر تمام خرابی کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔PDMکا اعلان تھا کہ کٹھ پتلی عمران خان سے نہیں فوج سے ہمارا مقابلہ ہے۔ اب وہی ہتھیار عمران خان نے اٹھالیا ہے۔ جس جرأت کے ساتھ عمران خان بات کرتا ہے، یہ جرأت نوازشریف اور مریم نواز میں نہیں ہے۔ اور جب رانا ثناء اللہ پر16کلو ہیروئن کا الزام لگا تھا اور جسٹس شوکت صدیقی نے عدلیہ کے جوڑ توڑ میںISIکو ملوث قرار دیا تھا تو شریف خاندان کی منافقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب جب حکومت میں آگئے ہیں تو اپنے عزائم کا اظہار تک نہیں کرتے۔ عمران خان فوج کے گڑھ لاہور سے پنڈی تک جی ٹی روڈ پر جو کچھ بھی کررہے ہیں اس سے کسی کو اختلاف ہو یا اتفاق؟ لیکن اس سیاسی میدان اور پنجاب وپاکستان کے بہت سارے عوام کا دل جیت چکے ہیں اور اتحادی حکومت بالکل زمین میں گڑھ گئی ہے اور منافقت کا شکار نظر آتی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv