دسمبر 2022 - Page 2 of 2 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

علماء کرام و مفتیانِ عظام کون ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے اورامام مہدی کون ہیں اور حقیقت کیا ہے؟

علماء کرام و مفتیانِ عظام کون ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے اورامام مہدی کون ہیں اور حقیقت کیا ہے؟

امام مہدی کون ہیں؟، کب آئیںگے اور اس کا علماء کرام ومفتیانِ عظام سے کیا اختلاف ہوگا اور اس کو مہدی کیوں کہا جائیگا، علماء کرام ومفتیان عظام اور عام تعلیم یافتہ میںکیا فرق ہے؟

سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ علماء کرام ومفتیان عظام کون ہیں اور یہ کس طرح علماء ومفتیان بنتے ہیں؟۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے زندگی قرآن کریم پڑھنے ، پڑھانے اور خلافت قائم کرنے میں گزاردی لیکن عالم دین نہیں کہلائے اور نہ خود کو وہ عالم دین سمجھتے تھے اور نہ وہ عالم دین تھے۔ ایسے کئی سارے مذہبی اسکالر ہیں۔ ایک آدمی قرآن کے ترجمہ وتفسیر کو سمجھتا اور سمجھاجاتا ہے مگر عالم دین نہیںہے۔ ایک آدمی احادیث صحیحہ علماء ومفتیان سے زیادہ سمجھتا ہے اور تبلیغ بھی کرتا ہے لیکن پھر بھی عالم دین نہیں ہے اور ایک آدمی قرآن کے ترجمہ وتفسیر کو بھی سمجھتا ہے اور احادیث صحیحہ کو بھی لیکن پھر بھی وہ عالم دین نہیں ہے۔ اگر ایک آدمی فقہی مسائل کو علماء دین سے زیادہ ازبر کرلیتا ہے اور قرآن وحدیث کو بھی علماء دین سے زیادہ سمجھتا ہے تب بھی اس کو عالم دین نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ عالمِ دین کیلئے بنیادی چیز درس نظامی ہے اور اصولِ فقہ ہے جس میں قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس کو فرقِ مراتب اور ائمہ کے اختلافات کیساتھ پڑھایا جاتا ہے۔
برصغیر پاک وہند کے علاوہ جامعہ ازہر مصر اور مدینہ یونیورسٹی میں بھی کافی عرصہ سے اصول فقہ کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ جس نے اصول فقہ سے قرآن واحادیث کی بنیادوں اور حفظ مراتب کو نہیں سمجھا تو وہ عالم دین نہیں ہے اور اس بات میں کوئی ابہام بھی نہیں ہے۔ اصولِ فقہ ایک بنیادی علم ہے۔
پاکستان میں دیوبندی بریلوی مکتبۂ فکر کا تعلق حنفی مسلک سے ہے اور ان کا تعلیمی نصاب ”درسِ نظامی ” ایک ہے ۔ مسلک حنفی اور دیگر فقہی مسالک کے حوالے سے دونوں مکاتب فکر کا یکساں مؤقف ہے۔ دونوں کے اکابرنے ایک ہی طرح کی کتابوں اور اساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کی ہے۔
اصولِ فقہ چار ہیں۔پہلا کتاب اللہ ، دوسرا حدیث ، تیسرا اجماع ہے اور چوتھا قیاس ہے۔ کتاب سے مراد سارا قرآن نہیں بلکہ500آیات جو احکام سے متعلق ہیں۔ باقی کتاب وعظ اور قصے ہیں جن کا احکام سے تعلق نہیں ہے۔
مولانا عبیداللہ سندھی کے مرشد بھرچنڈی شریف والے تھے جس کے اب جانشین بریلوی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کا تعلق بھی دیوبندی مکتبۂ فکر سے تھا لیکن پہلے مرشد حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف تھے۔ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے خلفاء میں دیوبندی اور بریلوی دونوں تھے۔
اگر دونوں مل کر قرآن کریم کی ان500آیات کو نکالتے ،جن سے احکام نکلتے ہیں تو ان پانچ سو آیات کی برکت سے دونوں فرقہ واریت میں تقسیم ہونے کے بجائے متحد ومتفق رہنے میں اپنی عافیت سمجھتے۔500آیات ان سب کیلئے رشد وہدایت کا بہترین ذریعہ ہوتیں۔ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی والے بھی ان کے اس نصاب سے بھرپور ہدایت حاصل کرتے اور ہدایت عام ہوتی۔
ہوتا کیا ہے کہ اصول فقہ کی تعلیم میں ایک طرف آیت کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے جس کے سیاق وسباق سے اصول فقہ پڑھنے والا طالب علم اور پڑھانے والا استاذ دونوں ناواقف ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک طرف قرآنی آیت کا ایک ٹکڑا حتی تنکح زوجاً غیرہ ” یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ دوسری طرف حدیث ایماامرأة نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحھا باطل باطل باطل ” جس بھی عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے”۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ قرآن میں عورت کی طرف نکاح کی نسبت ہے کہ ”یہاں تک کہ وہ نکاح کرے” تو حدیث صحیحہ خبر واحد کا اس قرآنی حکم پر اضافہ نہیں ہوسکتا ہے۔ لہٰذا یہ حدیث ناقابل عمل ہے۔ عورت کو ولی کی اجازت کے بغیر بھی مسلک حنفی میں نکاح کا حق حاصل ہے۔ وہ بھاگ کر اور کورٹ میرج سے نکاح کرسکتی ہے۔ جبکہ جمہور مسالک شافعی، مالکی ، حنبلی، اہلحدیث اور جعفری میں حدیث صحیح ہے اور اگر عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ یہ نکاح نہیں حرامکاری ہے۔
حنفی مسلک والے کے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ حدیث صریح وصحیح اور جمہور فقہی مسالک کے مقابلے میں حنفی مسلک قرآن کے مطابق ہے اور باقی باطل ہیں۔ یہ پختہ ذہن بنتا ہے کہ قرآن کی باقی آیات ،احادیث صحیحہ ،دیگر مسالک کے دلائل اور نئی اجتہادی فکر کی طرف دیکھنے کے بجائے بس حنفی مسلک کی تقلید ہی نجات ، رشد وہدایت اور کامیابی وکامرانی کا ذریعہ ہے۔
طالب علمی کے دوران جب ایک واضح حدیث کو اسلئے رد کردیا جائے کہ وہ قرآن کے منافی ہے۔ بھلے قرآنی آیت کے سیاق وسباق کو جانتا ہے یا نہیں ؟۔ اور بہت سارے طلبہ کوتو یہ بھی پتہ نہیں چلتا ہے کہ قرآن کا جو مفہوم اصولِ فقہ کی کتاب میں لکھا ہے وہ کیا ہے اور کس طرح حدیث سے ٹکراتا ہے؟ لیکن انہوں نے یہ رٹا لگانا ہوتا ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف ہے اسلئے اس کو قابلِ عمل نہیں سمجھا جاسکتاہے۔ پھر احادیث کے ذخائر سے بھی ان کا اعتمادبالکل اٹھتاہے ۔ اصول فقہ میں حنفی مسلک کی بڑی پریکٹس احادیث کو رد کرنے کی ہوتی ہے۔
اصولِ فقہ میں ہے کہ طلاق کی عدت ثلاثة قروء ” تین ادوار ہیں”۔ لفظ تین خاص ہے۔ طلاق کیلئے عدت میں عورت کے پاکی کے دن اور حیض کے دن ہوتے ہیں۔ شریعت میں پاکی کے دنوں میں طلاق دینے کا حکم ہے۔ جب پاکی کے دنوں میں طلاق دی جائے تو جس طہر میں طلاق دی جائے ،اس کا کچھ وقت گزرنے کے بعد یہ طہر ادھورا ہوگا۔ تین طہر شمار کئے جائیں تو ایک طہر ادھورا ہونے کی وجہ سے ڈھائی بن جائیںگے اسلئے قرآن کے لفظ خاص ”تین” پر پورا پورا عمل کرنے کیلئے عدت کے تین ادوار سے ”تین حیض ” مراد لئے جائیں۔ تاکہ قرآن پر عمل ہو۔ جبکہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ” طلاق کی عدت میں تین قروء سے تین اطہار مراد ہیں”۔ عربی میں گنجائش ہے کہ قروء سے تین حیض مراد لئے جائیں یا تین طہر ۔ حضرت عائشہ نے تین اطہار مراد لئے ۔ جمہور نے بھی حضرت عائشہ کی وجہ سے تین اطہار مراد لئے ہیں لیکن حنفی مسلک قرآن کے مطابق ہے اسلئے حضرت عائشہ ، صحابہ ، جمہور فقہاء اور سب کے مقابلے میں حنفی مسلک کی تقلید قرآن کا تقاضاہے۔ امام ابوحنیفہ کیلئے نبیۖ نے فرمایا کہ ”فارس میں سے ایک شخص ہوگا ، اگر دین، ایمان اورعلم ثریا پر پہنچ جائے تب بھی وہاں سے واپس لے آئیگا”۔قرآنی آیت واٰخرین منھم لما یلحقوا بھم ”اور ان میں سے آخرین جو ابھی پہلوں سے نہیں ملے ہیں” (سورہ جمعہ)
اصول فقہ میں ہے کہ فان طلقہا کا تعلق اپنے ماقبل سے متصل فدیہ سے ہے ۔ لغت میں ف تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے۔ اس طلاق کا تعلق اسلئے خلع سے ہے۔شافعی مسلک میں فدیہ یعنی خلع جملہ معترضہ ہے۔ تاکہ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری طلاق بھی واقع ہوسکے۔ جبکہ فدیہ خلع بذات خود طلاق ہے اور تیسری طلاق کے بعدچوتھی طلاق بن جائے گی۔
جس امام ابوحنیفہ کے نام پر احادیث اورحضرت عائشہ کی علمی حیثیت نہ ہو اسلئے کہ قرآن ، عربی لغت اور ریاضی کے حساب سے امام ابوحنیفہ نے علم کو ثریا سے واپس لوٹا یا ہو توکسی اسلامی سکالر کی کیا حیثیت رہتی ہے جس نے اصول فقہ کی گہرائی نہ پڑھی ہو اور قرآن وحدیث کا ترجمہ کیاہو؟۔جب درسِ نظامی میں ترجمہ قرآن، تفسیر، احادیث ، فقہ ،اصول فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے تو سب کے اپنی اپنی جگہ پر اپنے فن کی مہارت رکھتے ہیں اور جو کتاب بار بار پڑھاتے ہیں وہ بھی طلبہ کو اچھی طرح سمجھانے کی صلاحیت بھی مشکل سے حاصل کرتے ہیں۔ ایک علم کا دوسرے علم سے کوئی ربط بھی نہیں ہوتاہے۔ فقہی مسائل کے انبار ہوں تو ان کا اصول فقہ سے تعلق نہیں ہوتا اور اصول فقہ میں آیات کے ٹکڑوں کا تفسیر وترجمہ سے کوئی ربط نہیں ہوتا ہے اور قرآن کی آیات کا احادیث سے ربط نہیں ہوتاہے۔
اساتذہ کرام فرماتے تھے کہ درسِ نظامی میں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں وہ صرف ان علوم وفنون پڑھنے کی صلاحیت حاصل کرنے کیلئے ہوتی ہیں اس کاہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ فارغ التحصیل بن گئے ہیں۔ گویا عالم بننے کی صلاحیت درسِ نظامی سے پیدا ہوتی ہے۔ اسلئے درسِ نظامی کے بڑے علماء کرام ہمیشہ خود کو ایک طالب علم ہی قرار دیتے ہیں۔ وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ علم پر گرفت حاصل کرنا بہت زیادہ مطالعہ و صلاحیت کا تقاضا کرتا ہے۔ درس نظامی کا پڑھا ہوا نہیں ہوتا ہے تو انجینئر محمد علی مرزا، جاوید احمد غامدی اور غلام احمد پرویز کی طرح یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس جیسا کوئی دوسرا پیدا نہیں ہواہے۔
اصول فقہ کی کتابیں ہمیں شیخ التفسیر مولانا بدیع الزمان نے پڑھائی تھیں۔ جوجامعہ بنوری ٹاؤن سے پہلے دارالعلوم کراچی اور مفتی تقی عثمانی کے استاذ تھے۔ مفتی محمد شفیع جب دارالعلوم کراچی میں طالب علم تھے تو شیخ الہند مولانا محمودالحسن حدیث کے استاذتھے۔شیخ الہند چار سال مالٹا کی جیل سے رہا ہوکر آئے تو مفتی شفیع اس وقت درسِ نظامی سے فارغ ہوکر دارالعلوم دیوبند میں استاذ تھے مگر مفتی محمد شفیع نے اپنی ویڈیو میں کہا ہے کہ وہ شیخ الہند کی باتیں سمجھنے سے قاصر تھے۔
جب میں ساتویں، آٹھویں، نویں ، دسویں جماعت میں تھا تو آزادی ہند، قادیانیت اور سیاسی جماعتوں کی تحریکوں کو نہ صرف سمجھتا تھا بلکہ انقلابی ذہن بھی بن گیا تھا۔ بریلوی دیوبندی اور شیعہ سنی مناظرانہ کتابوں میں بھی دسترس حاصل کی تھی ۔ بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلہ لیا تو نصاب کی کتابوں پر ایسے سوالات کا ریکارڈ بنایا کہ ہمارے چھوٹے اساتذہ اپنے بڑے اساتذہ کے پاس جواب کیلئے بھیج دیتے تھے لیکن ان کے پاس بھی کوئی جواب نہیں ہوتا تھا تو مجھے دادملتی تھی۔ اور اساتذہ نے یہ کریڈٹ دیا کہ نصاب کی اصلاح تم خود ہی کرلوگے۔
مولانا بدیع الزمان کے سامنے جب میں نے یہ بات رکھی کہ فقہ حنفی کا مسلک یہ ہے کہ جب قرآن وحدیث کی تطبیق ہوسکے تو دونوں کو قابلِ عمل بنایا جائیگااور آیت اور حدیث میں مسلک حنفی کے اس اصول پر عمل ہوسکتا ہے۔ قرآن میں طلاق شدہ عورت کو بااختیار قرار دیا گیا ہے اور حدیث میں کنواری کیلئے ولی سے اجازت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ استاذ کی آنکھوں میں خوشی کی چمک پیدا ہوئی اور آئندہ کیلئے اس پر مزید تصفیہ کی طرف جانے کاارشاد فرمایا۔ قرآن میں بیوہ کو بھی عدت کے بعد مزید زیادہ وضاحت کیساتھ خود مختار قرار دیا گیا ہے۔ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ قرآن کی دھیمی اور کھلی وضاحت کے باوجود طلاق شدہ اور بیوہ پر ولی کی اجازت لازم ہے اور یہ احناف کے مقابلے میں زیادہ گمراہی کی بات ہے اور کنواری ہی کا ولی ہوتا ہے ۔ شادی کے بعد طلاق یافتہ اور بیوہ خود مختار ہوجاتی ہے۔ اسلئے حدیث میں ولی کی اجازت کا تعلق کنواری سے ہے ۔ قرآن میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ الایامیٰ یعنی طلاق شدہ وبیوہ کا نکاح کراؤ۔ اور اپنی کنواری لڑکیوں کو بغاوت پر مجبور مت کرو،اگر وہ نکاح چاہتی ہوں۔ اگران پر جبر کیا گیا تو پھر اللہ ان کے جبر کے بعد غفور رحیم ہے۔ معاشرے میں کنواری کیلئے جبر کا تصور عام ہے۔ اللہ نے ایک طرف ان کو بغاوت سے منع کیا ہے اور ان کی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا حکم دیا ہے اور دوسری طرف اگر ان کو مجبور کیا گیا تو بغاوت کی طرح جبر بھی غلط ہے۔ لیکن اس پر حرام کاری کا اطلاق نہیں ہوتا۔
بفضل تعالیٰ قرآنی آیات میں زبردست تفصیل ہے جس سے حدیث صحیحہ کی مزید توثیق بھی ہوتی ہے لیکن بغاوت اور جبر پر حرامکاری کا بھی اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ اگر ایک وسیع مشاورت قائم ہوجائے تو پھر مدارس و عوام کیلئے مشترکہ اور متفقہ مسائل کا حل نکالنے میں بھی کوئی دیر نہیں ہوگی۔اسی طرح ثلاثة قروء میں3کے لفظ کی ریاضی کے حوالے سے بالکل غلط نقشہ کھینچا گیا ہے۔ جس طہر میں طلاق دی ہے اور پھر اس کے بعد تین حیض شمارکئے جائیں تو عدد ساڑھے3سے بھی بڑھ جائے گا۔ یہ سوال بھی زمانہ طالب علمی میں اپنے اساتذہ کرام کے سامنے اٹھایا تھا۔ اب اپنی کتاب اور اخبارمیں یہ مسائل ایسے حل کردئیے ہیں کہ کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرسکتا ہے جومیرے اساتذہ کرام کیلئے اعزازہے۔
جہاں تک ف تعقیب بلامہلت سے تیسری اور دومرتبہ طلاق کے درمیان خلع کا تعلق ہے تو اس پر بھی تشفی بخش جوابات دیکر مسئلہ حل کردیا ہے۔ حنفی مسلک اور عربی قاعدے کا تقاضا ہے کہ دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ ف تعقیب کی وجہ سے فامساک بمعروف او تسریح باحسان کیساتھ ہو۔جو حدیث میں بھی واضح ہے اور اس کے بعد خلع کا کوئی ذکر بنتا بھی نہیں ہے جس کی تفصیل صفحہ نمبر2پر دی گئی ہے۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی اس معاملے میں ٹھوکر کھائی ہے۔ اگر قرآنی آیات کا فطری ترجمہ سیاق وسباق کیساتھ کیا جائے توپھر اس گمراہی کے دلدل سے بہت جلد نکل سکتے ہیں۔ جب اصول فقہ کی کتابوں کا درست مفہوم بھی سمجھ نہیں آتا ہو اور قرآن کا ترجمہ وتفسیر بھی الٹاسیدھا کیا جائے تو اس کے نتائج ہدیت کی جگہ پر گمراہی والے ہی نکل سکتے ہیں۔البقرہ آیت229کاترجمہ ومفہوم سب نے غلط لکھا ہے اور یہ ایک دوسرے سے نقل کرنے کا نتیجہ ہے۔ اس میں خلع کا ذکر نہیں ہے۔ خلع کا ذکر سورہ النساء آیت19میں ہے اور اس کا بھی بالکل غلط ترجمہ کیا گیا ہے اور اس کی تفسیر بھی غلط لکھی گئی ہے۔
جب تک سنی یا شیعہ کا امام مہدی آئے تو اس سے پہلے پہلے غلطیوں کا ازالہ اور گمراہی کا خاتمہ اچھی بات ہے بلکہ فرضِ عین ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے بیہودہ فقہی مسائل تضحیک کا نشانہ بننے سے پہلے باہمی مل کر ان کو درست کرینگے تو ایک بہت بڑا معاشرتی اسلامی انقلاب برپا ہوجائے گا۔ بڑے علماء ومفتیان سود کو حلال کرکے حرمت سود سیمینار سے بھی نہیں شرماتے تو قرآن واحادیث سے ہدایت حاصل کرنے میں کیا چیز حائل ہوسکتی ہے؟۔ درس نظامی میں قرآن کریم کی جو تعریف کی گئی ہے وہ اگر اسلامی اسکالروں کو سمجھ میں آگئی تو علماء ومفتیان کو آڑے ہاتھوں لینے میں دیر نہیں لگائیںگے۔ ان کو پتہ نہیں اسلئے جاہل ہیں۔
قرآن کی500آیات درج کرنے کے بجائے یہ تعریف کی گئی ہے
المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلاً متواتر بلا شبة ” لکھا ہوا ہے جو قرآنی نسخوں میں نقل کیا گیا ہے جوآپ(ۖ ) سے متواتر بلاشبہ”۔ یہ بہت عمدہ اور بہترین تعریف ہے اسلئے کہ قرآنی نسخوں میں کسی بھی حرف اور زیر،زبر،پیش کا بھی معمولی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن یہ جان کر قارئین حیرت کی انتہاء کو پہنچیںگے کہ اس تعریف کی یہ تشریح کی گئی ہے کہ ” نسخوں میں لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا قرآن نہیں ہے کیونکہ یہ محض نقوش ہیں۔ متواتر کی قید سے مشہور اور خبر احاد کی آیات نقل گئی ہیں ۔ اگر چہ وہ بھی اللہ کی کتاب ہیں لیکن اس تعریف میں شامل نہیں ہیں۔ بلاشبہ کی قید سے بسم اللہ نکل گئی اسلئے کہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ بھی اللہ کا کلام ہے لیکن اس میں شبہ ہے اسلئے کتاب اللہ کی تعریف سے خارج ہوگئی”۔ اگر مساجد کے منبروں پر عوام کو قرآن کی یہ تعریف پڑھائی جائے کہ لکھا ہوا نسخہ اللہ کی کتاب نہیں ہے۔ اسلئے فتاویٰ قاضی خان، صاحب ہدایہ اور فتاویٰ شامیہ نے سورۂ فاتحہ کو علاج کی غرض سے پیشاب سے لکھنے کو جائز قرار دیا ہے۔ جب لکھائی کی شکل میں اللہ کا کلام نہیں تو پھر پیشاب سے لکھنے میں حرج کیا ہوسکتاہے؟۔ یہ کتنی بڑی حماقت ، جہالت اور گمراہی ہے کہ لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا نہیں ہے؟۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ مولوی سے کہا جائے کہ تمہارے باپ سے مراد تمہارا باپ نہیں بلکہ تمہاری ماں کا آشنا ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ کے کلام کو اسکے بارے میں یہ غلاظت پڑھائی جائے کہ لکھے ہوئے سے مراد لکھا ہوا نہیں ہے۔ قرآن کتب یکتب کتاباسے لکھنے کی بات کرتا ہے۔ قلم اور سطروں میں موجود کلام کی قسم کھاتا ہے لیکن گمراہ مولوی اس بات پر ڈٹا ہواہے کہ میں اس گمراہی کو پڑھاؤں گا اور اس کی غرض اللہ کے کلام کی حفاظت نہیں ہے بلکہ اپنے پیٹ پوجا کی وجہ سے مدرسے کی روٹیاں توڑ رہاہے۔ قرآن سے باہر کوئی آیات نہیں ہیں۔ رجم و رضاعت کبیر کی آیات بکری کھاجانے والی ابن ماجہ کی روایت بالکل لغو اور بکواس ہے۔ بسم اللہ کے قرآن ہونے میں کوئی شبہ نہیں جو یہ عقیدہ پڑھاتا ہے تو اس کے اپنے نسب میں شک وشبہ ہوسکتا ہے۔
ہمارے اساتذہ کے سامنے یہ حقائق کبھی نہیں آئے اور اگر آتے تو وہ ضرور اپنے نصاب سے ان خرافات کو نکلوانے کیلئے میدان میں اترتے۔ امام مہدی کا بھی اس سے بڑا کردار اور کیا ہوسکتا ہے کہ قر آن کی حفاظت کیلئے مدارس کی اس غلط تعریف سے جان چھڑادے۔ صدیوں سے الجھے ہوئے گمراہانہ مسائل سے امت مسلمہ کے گمراہ فرقوںمیں مبتلاء مذہبی طبقات کو ہدایت کی طرف لائے؟۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے اول میں میں ہوں، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ لیکن درمیانہ زمانے میں کجرو جماعت ہوگی وہ میرے طریقے پر نہیں ہے اور میں اسکے طریقے پر نہیں ہوں”۔
علامہ جلال الدین سیوطی نے لکھا ہے کہ نبیۖ نے بارہ خلفاء قریش کی خبردی ہے جن میں سے ہر ایک پر امت کا اجماع ہوگا اور اب تک ان میں سے کوئی بھی خلیفہ نہیں آیا ہے۔ اور یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ مہدی کے بعد جابر، سلام اور امیرالعصب ہوں گے۔ یہ روایت بھی درج کی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ قحطانی امیر مہدی کے بعد ہوں گے۔ جس کی تشریح میں یہ روایت نقل کی ہے کہ مہدی چالیس سال تک رہیںگے۔ پھر قحطانی امیر منصور ہوںگے جن کے دونوں کانوں میں سراخ ہونگے۔ وہ بھی مہدی کی سیرت پر چلیںگے۔ اس کے بعد امت محمدۖ کے آخری امیر ہوں گے جو نیک سیرت ہوںگے اور ان کے دورمیں حضرت عیسیٰ کا نزول ہوگا۔ مفتی محمد رفیع عثمانی نے اپنی کتاب ” علامت قیامت اور نزول مسیح ”میں یہ روایات نقل کی ہے لیکن کجروی کا یہ عالم تھا کہ ایکطرف درمیانہ زمانے کے مہدی کی روایت کو نقل کرنا اور دوسری طرف جس مہدی کا قحطانی امیر سے پہلے ذکر ہے اور ساتھ میں اس روایت کو بھی نقل کرنا کہ مہدی کے بعد قحطانی منصور اور پھر امت محمد ۖ کے آخری امیر ۔ لیکن پھر بھی عوام کو اپنی کج رو ی کے سبب حقائق سے آگاہ نہ کرنا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی مہدی ، قحطانی امیر منصور اور پھر آخری امیر کی یہ روایت علامہ جلال الدین سیوطی سے نقل کی ہے لیکن الگ الگ مہدیوں کا تصور نہیں بتاتے ہیں۔
جس دن مذہبی طبقات، سیاستدانوں ، حکمرانوں اور عوام الناس نے اسلام کے فطری نظام ، درس نظامی کی طرف سے اسلام کے بگاڑے ہوئے حلیہ ، آخری امیر اُمت محمد ۖ سے قبل مہدی اور گیارہ خلفاء کے سلسلے کی طرف توجہ دے دی تو علم کی درستگی سے بھی بہت بڑا انقلاب آجائے گا۔ بارہ خلفاء قریش کی حدیث کے بارے میں مشکوٰة کی شرح مظاہر حق میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ مہدی کے بعد پانچ افراد اہل بیت کا تعلق حضرت حسنکی اولاد سے ہوں گے اور پانچ افراد حضرت حسین کی اولاد سے ہوں گے اور آخری فرد پھر حضرت حسن کی اولاد سے ہوگا۔ پیر مہرعلی شاہ گولڑہ شریف نے اپنی کتاب ”تصفیہ مابین الشیعہ والسنی” میں یہی لکھا ہے کہ بارہ خلفاء قریش آئندہ آئیںگے اور اہل تشیع کی کتابوں میں بھی یہ روایت موجود ہے کہ مہدی کے بعد گیارہ مہدی اور آئیںگے جو حکومت بھی کریںگے۔ لیکن پھر اس روایت پر سند کی صحت کا نہیں صرف عقلی اعتبار سے ایک خدشے کااظہار کیا گیا ہے کہ اگر مہدی کے بعد گیارہ افراد حکومت کرینگے تو پھر مہدی آخری امیر کیسے ہوںگے؟۔ جس کا جواب یہی بن سکتا ہے کہ جب ان سے پہلے ہوں گے تو پھر اس کے آخری امیر امت میں کوئی شک نہیں رہے گا اور اہل تشیع نے یہ بھی لکھا ہے کہ درمیانہ زمانہ کے مہدی سے حضرت عباس کی اولاد کے مہدی بھی مراد ہوسکتے ہیں ۔ (الصراط السوی فی الاحوال المہدی )
علامہ طالب جوہری نے اپنی کتاب ”ظہور مہدی ” میں لکھا کہ ” مشرق کی طرف سے دجال نکلے گا تو اہل بیت کا فرد قیام کرے گا”۔ اس قیام قائم سے مراد آخری امیر مہدی غائب نہیں ہیں ۔ آخری امیر سے پہلے مختلف قیام قائم کا ذکر ہے۔ مشرق کے دجال کے مقابلے میںقیام قائم حضرت حسن کی اولاد سے ہوگا اور اس سے مراد ”سید گیلانی ” ہے جس کی تفصیلات روایات میں موجود ہیں۔ اہل سنت کی روایات میں بھی ایک دجال کا تعلق خراسان سے ہے جس کی مختلف اقوام ہتھوڑے اور ڈھال جیسے چہرے رکھنے والے لوگ پیروکار ہونگے۔اس طرح ایک مہدی کا تعلق بھی خراسان سے ہے۔ جس کا شاہ اسماعیل شہید نے ذکر کیا ہے۔ جب ہم پر تحریک طالبان پاکستان نے حملہ کیا تھا تو مولانا فضل الرحمن نے تعزیت کے موقع پر جمعہ کی نماز میں خطاب کرتے ہوئے تحریک طالبان پر ہی خراسان کے دجال کی حدیث فٹ کی تھی ۔ مولانا عطاء الرحمن نے سیکیورٹی فورس کو فتویٰ جاری کیا تھا کہ ان دہشت گردوں کومارنا صرف سرکاری نہیں بلکہ مذہبی فریضہ بھی ہے۔ مولانا عطاء الرحمن کا فتویٰ مشرق پشاور نے شائع کیا تھا مگر مولانا فضل الرحمن کا بیان پریس نے شائع نہیں کیا۔اس وقت ہماری ریاست یا میڈیا کی پالیسی ان لوگوں کو سپورٹ کرنا تھا اور اب حقائق سامنے لانے ہوں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سراج الحق، سعد رضوی، مولانا فضل الرحمن بمقابلہ زرداری، نواز شریف، عمران خان: اوریا مقبول جان

سراج الحق، سعد رضوی، مولانا فضل الرحمن بمقابلہ زرداری، نواز شریف، عمران خان: اوریا مقبول جان

سیاسی جماعتیں بمقابلہ مذہبی جماعتیں کس نے بدترین گالی بریگیڈ پالا ہے؟ اوریا مقبول جان اور عرفان صدیقی

پاکستان کی سیاسی زندگی گذشتہ50سال سے اس قدر تلخ ہو چکی کہ یہاں اپنا نقطہ نظر بیان کرنا خود کو خوفناک جنگل میں اتارنا ہے۔ طعن و تشنیع، گالی گلوچ، ذاتیات ، اہلِ خانہ تک کی کردار کشی جیسی بلائوں کا سامنا کرنا پڑیگا، عرفان صدیقی جیسے صاحبِ علم اور حسنِ کردار سے آراستہ شخص کو سراج الحق کے بیان پر مخالفانہ تبصرہ کرنا پڑا، تو انہوں نے کالم کے آغاز میں ہی سراج الحق کی تعریف و توصیف کر کے خوبصورت پیش بندی کی، انیس کے شعر کو نثری قالب میں ڈھالا۔
خیالِ خاطر احباب چاہئے ہر دم انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
سراج الحق کی درویشی اور قلندری کا تذکرہ کرکے انہیں ”عالی مقام”کے منصب پر سرفراز کرنے کے بعد ہی اپنے لئے ان سے اختلاف کی گنجائش نکالی۔ عرفان صدیقی کیساتھ میرا احترام و محبت کا رشتہ ہے،ان کی نفاستِ طبع کا مداح ہوں۔مجھے مکمل ادراک ہے کہ سراج الحق خود نہ بھی چاہیں، مگر انکے بیان سے اگر کوئی اختلاف کی جرات کرے تو پھر جماعتِ اسلامی کی ”جدید سوشل میڈیائی ذریت”اس ”ناہنجار”کے ساتھ ”ہولناک”سلوک کرتی ہے۔جماعتِ اسلامی کی سوشل میڈیا ٹیم تو ایک ”لفظ ”بھی زبان سے نکالنے کی معافی نہیں دیتی۔ آپ نے خواہ انکے حق میں لکھتے ہوئے ایک عمر گزاری ہو مگر وہ ایکدم آپ کے گذشتہ کئی دہائیوں کے تعلق پر پانی پھیرتے ہوئے، سیدھا سیدھا ”منافق”، بِکائو اور گمراہ کے القابات سے نواز دینگے۔ ان کی دشنام طرازی کی ”لغت”میں جو فصاحت و بلاغت ہے پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اورن لیگ کے جدید”لونڈوں”کو یہ ”دولتِ علم” میسر ہی نہیں ۔ عبداللہ بن ابی کے نقشِ جدید تک یہ سب کچھ کہہ ڈالتے ہیں۔یہ المیہ صرف جماعتِ اسلامی کو درپیش نہیں بلکہ ہر وہ مذہبی سیاسی جماعت درجہ بدرجہ اس مرض کا شکار ہے جو انتخابی سیاست کی ”غلاظت نگری” میں اتر چکی۔ سب سے کم عمر جماعت تحریکِ لبیک پاکستان ہے۔ آپ انکے سوشل میڈیا پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں تو آپ کو اور کچھ نیا ملے نہ ملے، مگر آپ کی گالیوں کے ذخیرہ الفاظ میں خاطر خواہ اضافہ ضرور ہوگا۔
یہی عالم مولانا فضل الرحمن کے عقیدت مندوں کا ہے۔ ان ”علما ء و فضلائ” کی گالیوں کا ذخیرہ الفاظ تو عربی و فارسی لغت سے ”مرصع” ہے۔ ن لیگ، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی والوں کو ایسی ”علمی بصیرت”واقعی میسر نہیں جس میں یہ تمام مذہبی جماعتیں بدرجہ اتم کمال رکھتی ہیں۔ یہ”مذہبی سیاسی میڈیا ماہرین” انتہائی آسانی سے کسی پر کافر، قادیانی، یہودیوں کا ایجنٹ، کے فتوے لگا سکتے ہیں۔اس طرح کے فتوے پی ٹی آئی، ن لیگ یا پیپلز پارٹی کے ”کارندے” لگانے کی جرات نہیں کر پاتے۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر ایسا فتوی لگایا تو مقابلے میں ان تمام مذہبی جماعتوں کے دارالافتاء کھل جائیں گے، جسکے نتیجے میں کئی”سرفروش” اگر جوش میں آ کر ان کی جانب بندوقیں تان لیں، تو پھر موت یقینی ہے۔
عرفان صدیقی کے کالم کا پہلا پیرا انکے اسی خوف کی عملی تصویر نظر آتا ہے۔ میں نے منور حسن امیر جماعتِ اسلامی سے دست بستہ کہا تھا کہ جماعتِ اسلامی کو کم از کم 5سال کیلئے تمام تر سیاسی سرگرمیاں ترک کر کے صرف اپنے اراکین کے تزکیہ پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے تاکہ جماعتِ اسلامی کا سنہرادور لوٹ آئے کہ جب خلقِ خدا کہتی تھی کہ ہم جماعتِ اسلامی والوں کو ووٹ دیں یا نہ دیں ہم ان کے اخلاق، حسنِ سیرت، کردار اور ایمانداری کی گواہی ضرور دے سکتے ہیں۔
مذہبی سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا جنگجوئوں کا عالم اس قدر غضب ناک ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمن، سراج الحق یا سعد رضوی کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالیں، ان کی پالیسیوں پر بھی تنقید نہ کریں، بالکل خاموش رہیں، مگر ایک غلطی سرزد ہو جائے کہ آپ ان کے انتخابی مخالف مثلا ”عمران خان”کے ہی کسی موقف کے حق میں کوئی بات کہہ دیں تو پھر دیکھیں”میڈیا کے مذہبی جرنیل” فوراً آپ پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دینگے، کردار کشی شروع کر دینگے اور پھر ان کا ہر کارکن ثواب سمجھ کر اس میں شریک ہو جائیگا۔ان سے پوچھو کہ میں نے کیا آپ کے اکابرین کو کچھ کہا، کیا آپ کی کسی پالیسی پر تنقید کی تو یہ ایک دم آگ بگولا ہو کر بولیں گے تم نے”فلاں ابن فلاں”کا ساتھ دیا، اس لئے اب ہمارے نزدیک تم بھی ”فلاں ابن فلاں”ہو۔ کاش!یہ تمام مذہبی جماعتیں اپنے تمام سوشل میڈیا محبان کو اپنے ”پیجز”اور اکائونٹس پر رسول اکرم ۖ کی یہ حدیث اور قرآنِ پاک کی یہ آیت لکھنے کا حکم دیں تو عین ممکن ہے یہ سدھر جائیں۔
رسول اکرم ۖ نے فرمایا،”مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے”(صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔ اس کے ساتھ ہی اگر قرآنِ پاک کی یہ آیت بھی تحریر ہو جائے، ”بے شک اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا”(المنافقون:6)۔ یعنی آپ گالی دینے سے فاسق ہو جاتے ہیں تو پھر آپ ہدایت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں آخرت پر ایمان رکھنے والوں کے لئے یہ آیت اور حدیث کافی ہے۔
اس موضوع پر بہت کچھ ہے جو ضبطِ تحریر میں لانا لازمی ہے۔ فساد خلق سے ڈر کر اگر مذہبی سیاسی جماعتوں کی نسلوں کی غلطیوں کی طرف اشارہ نہ کیا تو روزِ حشر ہم سب لکھنے والے جواب دہ ہونگے، یہ وبا زہر کی طرح تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کے نوجوانوں میں سرایت کر چکی ہے۔ لیکن اس دفعہ میری مشکل بہت آسان ہے کیونکہ مجھے سراج الحق کے بیان اور اسکے جواب میں عرفان صدیقی کے کالم دونوں میں سے مجھے سراج الحق کے بیان کا دفاع کرنا ہے، اس لئے عین ممکن ہے اس دفعہ میں جماعتِ اسلامی کی گولہ باری سے بچ جائوں گا۔
رہا عرفان صدیقی کا معاملہ تو انکے نہ تو پروانے اور فروزانے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی سوشل میڈیا سیل ہے، جسکا ”گالی بریگیڈ” ان کے دفاع پر مامور ہو۔ اسلئے مجھے کوئی خوف نہیں۔ ویسے بھی ان جیسے وسیع القب اور عالی ظرف لوگ تو پاکستانی معاشرے کا جھومر ہیں۔ شریف خاندان سے تمام محبتوں اور وابستگیوں کے باوجود ان کی مجھ سے محبت میں کمی نہیں آئی۔ بلکہ عین ان ایام میں جب میں شہباز شریف کے زیرِ عتاب تھا تو ان کے حج کے سفر نامے کی کتاب شائع ہوئی، جس پر پاکستان ٹیلی ویژن نے ان سے انٹرویو کا اہتمام کرنا تھا۔عرفان صدیقی نے ٹیلی ویژن والوں کو ہدایات دیں کہ اس کتاب پر صرف اوریا مقبول جان کو انٹرویو دوں گا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ارباب حل و عقد مشکل میں پڑ گئے کہ مجھے کیسے بلائیں؟، تو انہوں نے کہاکہ اوپر والوں کی ناراضگی کی فکر مت کرو، میں سنبھال لوں گا۔ اس رشتے اور تعلق کی نزاکت اور عرفان صدیقی کی محبتوں کے احترام کیساتھ میں ان سے اختلاف اور سراج الحق کے بیان کی حمایت کی جسارت کر رہا ہوں، جو خالصتاً علمی، تاریخی اور نظریاتی ہے۔
سراج الحق نے ایک اساسی اور بنیادی نوعیت کا مشورہ دیا، جس میں مملکتِ خداداد پاکستان کی لاتعداد سیاسی و انتظامی بیماریوں کا علاج پوشیدہ ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ آرمی چیف کی تقرری کیلئے وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ختم ہونا چاہئے اور یہ تقرری چیف جسٹس آف پاکستان کی طرح (سنیارٹی کی بنیاد)پر ہونی چاہئے۔میں نے آغاز میں ہی سراج الحق کے اس بیان کی مکمل حمایت کر دی تاکہ کالم میں دلائل کی یکسوئی قائم رہے۔ مکمل حمایت کے باوجود مجھے اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ سراج الحق کی یہ خواہش کم از کم موجودہ عالمی اور ملکی حالات کے تناظر میں پوری نہیں ہو سکتی مگر اچھی خواہش امید کو سینوں میں پروان چڑھانے میں کیا حرج ہے۔75سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ”قانوناً” پاکستانی فوج کے سربراہ کو تعینات کرنے کا اختیار بظاہر گورنر جنرل، صدر یا وزیر اعظم کو حاصل رہا ہے لیکن یہ اختیار کچھ ”ناقابلِ بیان” عوامل کی رسیوں میں ہمیشہ جکڑا رہا۔
لیاقت علی خان26مئی کو امریکہ کے ڈھائی ماہ کے دورے سے واپس لوٹے تو ان کی”زنبیل” میں لاتعداد وعدوں کے کھلونے تھے، جن کی قیمت ملک نے آہستہ آہستہ ادا کرنا تھی۔ امریکی اس دوران منظورِ نظر کا انتخاب کر چکے تھے جس نے آئندہ حقیقت میں(De’-fecto) سربراہ بننا تھا۔ ”حقیقت میں حکمران” اسلئے لکھا کہ تمام امریکی صدور خفیہ خط و کتابت میں پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ کو ہی اصل حکمران لکھتے رہے اور اب تو یہ تمام خط و کتابت امریکی سکیورٹی آرکائیوز نے طشت ازبام کر دی ہے۔ اس بڑے عالمی کردار کے علاوہ گزشتہ کافی عرصے سے کچھ دوست و مربی ممالک کا کردار بھی اب ڈھکا چھپا نہیں رہ گیا۔ ان ممالک سے ہم مصیبت کی گھڑی میں مدد حاصل کرتے ہیں۔
ویسے بھی جدید سیاسیات میں ریاست کا اہم ترین جزو”اقتدارِ اعلی” ہوتا ہے اور دنیا متفق ہے کہ کمزور ریاستوں کا کوئی”اقتدارِ اعلی” نہیں ہوتا،پاکستان ان میں ایک ہے۔ اسی لئے جو بھی مقتدر یا ”حقیقت میں حکمران”ہوتا ہے، اسے مسند پر بٹھانے اور اتارنے دونوں صورتوں میں عالمی طاقتیں خصوصا امریکہ ضرور شریک ہوتا ہے۔اس عالمی جکڑ بندیوں کے اندر رہتے ہوئے اگر ہم فیصلہ کر لیں کہ پاکستان کی فوج کا سربراہ ان کی ”رینک اینڈ فائل” سے ویسے ہی آئے گا، جیسے تمام لیفٹیننٹ جنرل ترقی کرتے ہوئے پہنچتے ہیں اور ان ترقیوں کا کسی سیاسی سربراہ کو علم تک نہیں ہوتا، تو پھر شاید یہ مسئلہ عمر بھر کیلئے حل ہو جائے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ایسی ہی شفاف تعیناتی خود سپریم کورٹ نے اپنے مشہور” ججز سنیارٹی کیس”کے فیصلے سے حاصل کر لی۔ الجہاد ٹرسٹ کیس والا یہ فیصلہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ، اجمل میاں، فضل الٰہی خان، منظور حسین سیال اور جسٹس میر ہزار خان کھوسہ نے دیا۔ جس میں یہ اصول طے کر دیا کہ جو جج سینئر ہوگا، وہی چیف جسٹس بننے کا حق دار ہوگا۔ بینچ کے سربراہ خود سجاد علی شاہ کو بینظیر بھٹو نے جونیئر ہونے کے باوجود اپنے صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے چیف جسٹس لگایا تھا۔ بہت معرکہ خیز دور تھا۔ اسی سجاد علی شاہ کے خلاف نواز شریف کی مسلم لیگ سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑی تھی اور ججوں کو جان بچانے کیلئے چیمبرز میں گھسنا پڑا تھا۔ ججز سنیارٹی کیس کو بنیاد بنا کر کوئٹہ میں سپریم کورٹ رجسٹری کے تین ججوں ناصر اسلم زاہد، خلیل الرحمن اور ارشاد حسن نے اپنے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو سنیارٹی کی بنیاد پر نااہل قرار دیا تھا۔ اسی دوران ناراض نواز شریف نے فاروق لغاری سے سجاد علی شاہ کو برطرف کر کے قائمقام چیف جسٹس لگانے کیلئے کہا لیکن شریف النفس فاروق لغاری عزت سمیٹے مستعفی ہو گئے۔ رفیق تارڑ صدر منتخب کر لئے گئے جنہوں نے سپریم کورٹ رجسٹری کوئٹہ کے فیصلے کے مطابق سجاد علی شاہ کو23دسمبر1997کو برطرف کر کے اجمل میاں کو چیف جسٹس لگا دیا۔آج پچیس سال گزرنے کے بعد قوم کم از کم دوبارہ کبھی اس بحران سے نہیں گزری کہ آئندہ چیف جسٹس کون ہوگا اور وہ کس کا منظورِ نظر ہوگا۔ عرفان صدیقی نے عدلیہ کے متنازعہ فیصلوں کو جواز بنایا ہے۔ کاش وہ ان تمام ججوں کے کیریئر پر ایک نظر دوڑائیں اور پھر ان کو ہائی کورٹ کا جج لگانے والے ایسے تمام وزرائے اعظم کے دستخط ملاحظہ فرمائیں تو انہیں اپنے ممدوح نواز شریف کے دستخط سب سے زیادہ ملیں گے۔
تمام وزرائے اعظم نے اپنی پارٹیوں سے سیاسی وابستگی رکھنے والے وکلا کو جج لگایا اور پھر ان سے جیسی توقعات وابستہ کی تھیں، اگر انہوں نے اسکے برعکس کام کیا تو انہی کو مطعون کر دیا جیسے کوئی غلام حکم عدولی کرے تو بہت غصہ آتا ہے۔ ججوں کی تقرری کی خشتِ اول اقربا پروری، سفارش اور سیاسی وابستگی کی بنیاد پر نہ رکھی جاتی تو آج آپ یہ گلہ کبھی نہ کرتے۔ آج بھی اگر ججوں کی تعیناتی کا نظام سول سروس کی طرح براہِ راست میرٹ پر ہو اور اعلی عدالتوں میں وکلا کا کوٹہ مکمل ختم کر دیا جائے تو پاکستان کی عدلیہ میں ایک سنہرا دور لایا جا سکتا ہے۔
سیاسی مداخلت اور وزیر اعظم کے صوابدیدی اختیار نے ملک کے سب سے قابل ادارے سول سروس کو جس طرح تباہ و برباد کیا، اس کی کہانی المناک ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر1973تک ملک پر جو بھی سیاسی افتاد آئی، حکومتیں بدلیں مارشل لاء آئے لیکن سول سروس کے مضبوط ڈھانچے نے ملک کو جو1947میں پسماندہ اور بے یار و مددگار تھا، دنیا میں ایسے مقام پر کھڑا کیا کہ انگلینڈ کی گریجویشن میں ترقیاتی معاشیات (Development Economics)کے کورس کی کتاب میں پاکستان صنعتی اور زرعی ترقی کو مثال کے طور پر پڑھایا جاتا تھا۔ چودہ اگست1947کو سول سرونٹ جو کامن پن نہ ہونے کی وجہ سے جھاڑیوں سے کانٹے چن کر فائلیں مرتب کیا کرتے تھے انہی کی شبانہ روز محنتوں نے صرف25سال میں پاکستان کو دنیا بھر میں صنعتی، زرعی اور اقتصادی شعبے میں روشن مثال بنا دیا اور پاکستان پر کل قرضہ صرف3.5ارب ڈالر تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے1973میں جو متفقہ آئین دیا اس میں وہ تمام آئینی ضمانتیں ( Guarantees)ختم کر دیں جو ایک سول سرونٹ کو حاصل تھیں جس کی وجہ سے وہ اپنی ایمانداری کو برقرار رکھ سکتا تھا۔ ۔بھٹو کے آئین نے سول سرونٹس کو سیاسی آقائوں کے رحم و کرم پر ڈال کر انہیں ان کا غلام بنا دیا ۔ آج ادارے کی تباہی بربادی سب کے سامنے واضح ہے۔ ناکام، ناکارہ، سیاسی آقائوں کے اشارے پر چلنے والی سول سروس جس میں نہ ایمانداری ہے اور نہ اخلاق، نہ خود پر یقین ہے اور نہ ہی اپنے مستقبل پر بھروسہ۔پاکستان کی افواج ابھی تک صرف ایک آرمی چیف کی تعیناتی کے علاوہ باقی ہر معاملے میں کسی بھی قسم کے تنازعے سے پاک ہیں۔ یہ عہدہ بھی اس لئے متنازعہ ہوا کیونکہ طالع آزما جرنیلوں نے اقتدار پر قبضہ کر کے متنازعہ بنایا۔75 سال انکی نرسری میں سیاستدان دانا دنکا چگتے رہے۔ یہ خود برسراقتدار نہیں ہوتے تو جسکے سر پر انکا ”ہما”بیٹھ جاتا وہ اقتدار میں آ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں گزشتہ50سالوں میں ایک ایسی تباہی پھیلی، ایسا زوال آیا کہ اب چاروں اور ماتم برپا ہے۔
جب تک سیاستدان اس مرکز طاقت کو رام کرنے کے چکر میں رہیں گے، یہ وہ خواہ اس کا سربراہ لگا کر کریں یا ان سے مدد کی بھیک مانگ کر، اور جب تک سول بیوروکریسی کبھی سیاستدانوں اور کبھی فوجی سربراہوں کی دستِ نگر، زیرِ سایہ اور محتاجِ محض رہے گی یہ ملک نہ ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی پرامن رہ سکتا ہے۔
پاکستانی فوج کے سربراہ کی تعیناتی ویسا معمول کا عمل ہونا چاہئے جیسے چیف جسٹس کی تعیناتی ہے ورنہ ہر تین سال بعد رونق تو خوب لگتی رہے گی۔

__اوریا مقبول جان کی تحریر پر تبصرہ__
پہلے تو اوریا مقبول جان سے معذرت کہ صاحب کا لفظ اور کچھ جملے کو مختصر کرنے کی وجہ سے کاٹنا پڑگیا۔ دوسرا یہ کہ جب تحریر یا تقریر سے جان جاتی ہو توپھر خود کش اور بندوق وپستول کے حملوں سے کتنی جان جاتی ہوگی۔ لوگ سمجھتے تھے کہ اوریامقبول جان طالبان ، تحریک لبیک، تحریک ختم نبوت، ناموس رسالت اور مذہب کے نام پر چلنے والی جماعتوں کے واقعی بڑے ہمدرد بلکہ نجأت کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن اب معلوم ہواکہ معاملہ کچھ اور ہے۔ آرمی چیف کے معاملے کو متنازعہ بنانے کا دکھ اچھی بات ہے لیکن اس میں اوریا مقبول جان اور ان چہیتی سیاسی جماعتوں نے کتنا کردار ادا کیا اور مذہبی جماعتوں کا کتنا کردار تھا؟۔ جبکہ عمران خان نے سب سے پہلے سینئر موسٹ کو لگانے کی بات کی تھی ۔نوازشریف نے کسی خاص کی نفی کرتے ہوئے سب کو یکساں قرار دیا مگرتماشا تو اوریامقبول جان جیسے لوگوں نے ہی لگایا تھا۔ آرمی چیف کی تقدیر کا فیصلہ وزیراعظم کا اختیار ہے لیکن کوئی آرمی چیف اس بنیاد پر کسی کا داماد تو نہیں بن جاتا ہے۔ اس کی ایک سروس ہوتی ہے اور اپنا ادارہ اور اس کی خیرخواہی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
پہلے اوریامقبول جان نے ایک بہت سنسنی پھیلائی تھی کہ حافظ سید عاصم منیر شاہ کسی صورت بھی آرمی چیف نہیں بن سکتے۔ اب جب بن گئے تو سراج الحق کو ٹوپی سے پکڑلیا کہ ” سنیارٹی کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی ہونی چاہیے” تاکہ یہ تأثر پھیل جائے کہ موجودہ سینارٹی لسٹ کے مطابق تعیناتی پر اور یا مقبول بھی بہت خوش اور متفق ہیں۔ عرفان صدیقی کے دامن کو پیچھے سے پکڑلیا کیونکہ اب آرمی چیف ن لیگ کی خواہش کے مطابق تعینات ہوا ہے اور عرفان صدیقی بھی اس ٹیم کا ایک حصہ ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ عرفان صدیقی کی تجویز پر منتخب کیا گیا تھا لیکن عرفان صدیقی کو اسی کے دور میں جیل کی ہوا کھانی پڑگئی تھی اور جنرل باجوہ کی تائید میں اوریا مقبول جان نے ایک خواب بھی میڈیا پر بتایا تھا۔ لوگوں کو اس کے مشرف دور کے پروگرام یاد ہیں کہ فوج کے حق میں کہتا تھا کہ” بڑے معصوم فوجی جرنیل ہمیشہ اچھے رہے اور سول بیوروکریسی تمام خرابیوں کی جڑ رہی ہے”۔ اب فوج بری لگ رہی ہے اور بیوروکریسی کا کردار زبردست ہوگیا؟۔
عرفان صدیقی اپنے لہجے میں مٹھاس اور نزاکت خیزی کی جگہ حق کی خاطر بہت کڑوے بلکہ گالی برگیڈ بن جائیں لیکن معاشرے میں زہر گھولنے کیلئے کوئی جھوٹ مت بولیں۔ جب عرفان صدیقی نے کہا کہ ”رفیق تارڑ پر پانچ جرنیلوں نے بندوق تان کر دباؤ ڈالا کہ استعفیٰ دو لیکن رفیق تارڑ ڈٹ گئے ”۔ جس پر حامد میر نے بڑے مذاحیہ لہجے میں کہا کہ ” رفیق تارڑ نے ”۔ محترم قاری اللہ داد صاحب سے کہا کہ ” قرآن نے زانیوں پر لعنت نہیں بھیجی لیکن جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجی ہے”۔ عرفان صدیقی لال کرتی کے بدنام مکانات میں جاتے مگر نواز شریف کیلئے جھوٹ نہ بولتے ۔ ن لیگ جماعت اسلامی ،سپاہ صحابہ، مولانا سمیع الحق اورطالبان کیساتھ کھڑی ہوتی تھی اور اب مولانا فضل الرحمن کیساتھ کھڑی ہوگئی لیکن جونہی پیپلزپارٹی سے اتحاد ناگزیر ہوگیا اور تحریک لبیک سے خطرہ پیدا ہوگیا تو عرفان صدیقی نے بہت باریکی سے مذہبی طبقے پر وار کیا۔ اوریا مقبول جان کو مذہبی اسٹیج پر بولنے کا موقع ملتاتھا لیکن مرد کے بچے نے نصیحت نہیںکی؟۔
آخرت کو سنوارنے کیلئے اسلام کے بنیادی معاشرتی معاملات پر علمی گفتگو کرنی چاہیے تاکہ حلالہ کی لعنت اور عورت کی حق تلفی کے مسائل کا خاتمہ ہو۔ اگر مذہبی طبقہ طاقت میں آتا تواوریا مقبول اور عرفان صدیقی کو طالبان بنتے دیکھا ۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

غلام علی کو گورنر پختونخواہ لگانے پر مولانا عصام الدین کا مولانا فضل الرحمن کو چھوڑنے کا اعلان

غلام علی کو گورنر پختونخواہ لگانے پر مولانا عصام الدین کا مولانا فضل الرحمن کو چھوڑنے کا اعلان

ہمارا جمعیت علماء اسلام نے یہ ذہن بنایا تھا کہ بندوں کی غلامی چھوڑ کر اللہ کی غلامی کرنی ہے۔ آج ہمارے ذہن کو اس طرف مائل کیا جارہا ہے کہ ہم غلاموں کی غلامی کریں۔

جس کو گورنر شپ دی اس میں اور کوئی کمال نہیں ، صرف یہ ہے کہ وہ جو کماتا ہے اس میں مولانا کا حصہ ہے۔ اس وجہ سے اپنی بیٹی دی آگے لیکر آیا حالانکہ پشاور کے علماء مخالف تھے

جمعیت علماء اسلام جنوبی وزیرستان اور ضلع ٹانک کے معروف رہنما عالم دین مولانا عصام الدین محسود نے کثیر تعداد میں قومی مشیران کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو خیر باد کہہ دیا ہے ۔ جن میں نامور شخصیات ملک محمد ہاشم خان، ملک سیف الرحمن، حاجی کرامت خان، ملک نعیم جان، ملک گل کرام خان، ملک عبد الحمید خان، ملک رحمت اللہ (رام تل)،ملک سلطان خان، حاجی محمد اقبال خان، نور محمد برکی، ملک بہرام خان، دارو خان، حاجی شاہ محمود خان، ملک فیض اللہ خان اور ڈاکٹر عبد المجید خان وغیرہ شامل ہیں۔ قوم شمن خیل ، لاتعداد عبدالائی، منزائی وغیرہ محسود قوم کی اکثریت نے مولانا عصام الدین کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے مولانا عصام الدین محسودنے دکھ بھرے لہجے میں40سالہ رفاقت کو چھوڑنے کی مجبوری پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا:

ٹانک شہر میں مولانا عبد الحق ، قاضی عطاء اللہ اور مولانا فتح خان جمعیت علماء اسلام کی خدمت کررہے تھے۔ جب1983میں مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علماء اسلام کی خدمت کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔ مولانا عبید اللہ انور، مولانا عبد اللہ درخواستی پیچھے ہٹے ۔ مولانا فضل الرحمن آگے آئے تو چونکہ ہماری جوانی تھی ۔ ہم نے ساتھ دیا ، ہر محاذ پر بہت قربانیاں بھی دیں۔ اس نے ہمارا ذہن یہ بنایا تھا کہ لنخرج العباد من عبادة العباد الیٰ عبادة رب العباد ہمارا جمعیت نے یہ ذہن بنایا تھا کہ بندوں کی غلامی چھوڑ کر اللہ کی غلامی کرنی ہے۔ آج ہمارے ذہن کو اس طرف مائل کیا جارہا ہے کہ ہم غلاموں کی غلامی کریں۔ ان لوگوں کی غلامی جن کا اپنا ذہنی میلان غلامی کا ہے ۔ مجھے جو دکھ درد پہنچا، اس کا میں مکمل اظہار نہیں کرسکتا اسلئے کہ میرا دل بہت کمزور ہے۔ آج جب میں جمعیت کو چھوڑ رہا ہوں تو میرے لئے کوئی خوشی کی بات اور اچھا دن نہیں۔ آج جیسا میں مرچکا اور ختم ہوچکا ہوں۔ پارٹی کی آپ40سال خدمت کرو اور اس کو خیر باد کہو تو یہ بہت بڑی بات ہے۔KPKکی لیڈر شپ اوراختیارات مولانا نے ایک ایسے آدمی کو دئیے جو میری موجودگی میں تین مرتبہ مجلس عمومی کے اجلاس سے کرپشن اور بدنامی کی بنیاد پر نکالا گیا۔ اس کو میٹنگ میں آنے سے منع کرتے تھے۔ آج اس کو خیبر پختونخواہ کا گورنر لگایا۔KPKمیں جتنے پرانے علماء کرام اور قربانیوں کے لوگ ہیں سب کو چھوڑ دیا۔ رشتے دار بیٹی کے سسر کو گورنری دی۔ میں جمعیت علماء اسلام کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ مجھ پر بھاری، تکلیف دہ ہے اسلئے کہ یہ جھنڈا میرے باپ نے بھی گھمایا ۔ مفتی محمود کے وقت میں میرے والد قبائل کی ساتوں ایجنسی کے صدر تھے۔ اس جمعیت کی بنیاد وزیرستان میں میں نے رکھی ۔ سراروغہ میں انصار الاسلام سے جمعیت کو منتقل کیا پھر کل قبائل جمعیت بھی الحمد للہ میری کوششوں سے وجود میں آئی تھی۔ بڑے جلسوںاور پروگرام کا اہتمام میرے گھر سے ہوتا تھا۔ وہ نظریہ جو مولانا نے متعارف کرایا تھا اسکے خلاف مولانا خود چل پڑے۔ اسلئے اپنی سیاسی وابستگی سے دستبرداری کا اعلان کرتا ہوں اور مستقبل کیلئے میں اپنی قوم اور عوام کی رائے سے قدم اٹھاؤں گا۔ میرا گلہ ہے کہ مولانا صاحب بہت سارے علماء نے آپ کیساتھ بڑی قربانیاں دیں ۔ جنکے باپ دادا جمعیت میں بوڑھے اور فوت ہوگئے۔DIخان کو دیکھیں! مولانا علاؤ الدین ، مفتی عبد القدوس اور کلاچی کے قاضی عبد الکریم یہ جتنے علمی گھرانے تھے مولانا فضل الرحمن کی کوشش سے جمعیت کی قیادت سے نکلے بلکہ انکے نام کو مٹانے کی کوشش کی۔ ٹانک میں مولانا قاضی عطاء اللہ، مولانا عبد الحق مولانا فتح خان، مولانا عبد الرؤف کی جماعت کیلئے قربانیاں تھیں۔ ان کی اولاد کو کسی شمار و قطار میں نہیں سمجھتا بلکہ ان کی بے عزتی کی کوشش کرتا ہے۔ میں ڈرتا تھا کہ میری بے عزتی نہ ہوجائے۔KPKمیںمولانا جمعیت کو وراثت میں تبدیل کرچکا ۔ ڈی آئی خان میں اس کی خاندانی ، بنوں میں اکرم درانی اور پشاور میں غلام علی کی بالادستی ہے۔ علماء کو چاہیے کہ آج اٹھ جائیں اور اپنے آپ کا خود پوچھ لیں اگر وہ پوچھیں نہ تو ان کیلئے یہ وقت نقصان دہ ہوگا۔ اللہ کرے کہ جمعیت علماء اسلام کے اکابرین اس طرح سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ وہ کس طرف جارہے ہیں؟۔ کس کیساتھ جارہے ہیں؟ اور کس لئے جارہے ہیں؟۔
صوبے کے علماء سے مطالبہ ہے کہ اٹھ جاؤ اور اپنا اختیار اپنے ہاتھ میں لو ۔ آج جمعیت سرمایہ داروں کے ہاتھ میں گئی۔ میں نے اس دن استعفیٰ دیا تھا جس پر امیر اور جنرل سیکریٹری گواہ ہیں کہ جس دن ساؤتھ وزیرستان محسود ایریا سروکئی تحصیل اور لدھا تحصیل کے میئر کے نام آگئے تو اس دن میں نے دستخط کردئیے اور کہا کہ اسکے بعد مولانا صاحب میں کابینہ میں ساتھ نہیں ہوں گا۔ اس نے کہا کہ کیوں؟ ۔ میں نے کہا اسلئے کہ محسود ایریا کے لوگ جمعیت علماء اسلام کو مفت میں ووٹ دیتے تھے۔ آپ نے سرمایہ داروں کوآ گے کردیا اور ان کو ٹکٹ دیا۔ مولانا صاحب نہیں چاہتا کہ کوئی غریب عالم بھی آگے آئے۔ حالانکہ علماء کی اکثریت ہے اور اب بھی پوچھ سکتے ہیں کہ میئر کیلئے اکثریت علماء کے حق میں تھی کہ ٹکٹ علماء کو ملیں لیکن جب بات مولانا تک پہنچی تو مولانا سرمایہ دار کے حق میں فیصلہ کرتا تھا۔ اس طرح مولانا صالح شاہ کے بیٹے کو ٹکٹ دیا۔ اس دن بھی آپ لوگوں نے مجھے داد دی تھی اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو کامیابی عطا فرمائے۔ اس کے علاوہ کی باتیں اور اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنے دوستوں کے ساتھ مشورہ کروں گا۔ اگر سیاست کیلئے دل چاہا تو جماعتیں بہت ہیںاور اگر نہیں چاہا تو بھی اپنے لئے لائحہ عمل بناؤں گا۔ جمعیت موروثی جماعت بن گئی، علماء کی جماعت نہیں ، ان پڑھ لوگوں میں بھی صرف مالداروں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ میں جماعت کیلئے یہ گناہ سمجھتا ہوں اور اسکے بعد میں شامل نہ ہوں گا، و آخر دعوانا ان الحمد للہ ۔
سوال: مولانا صاحب یہ بتاؤ کہ گورنری کیلئے جمعیت علماء اسلام سے کوئی مشاورت ہوئی تھی؟۔ یا ایسے ہی نامزد کردیا؟۔ اور لوگوں نے اتفاق کرلیا؟۔
جواب: مولانا ہر بات میں مشاورت کرتا ہے لیکن پہلے کارکنوں کا یہ ایسا ذہن بناتا ہے جو اس کا اپنا ہوتا ہے۔ اگرچہ ایک رسمی مشاورت ہوتی ہے۔
سائل: مطلب ہے کہ پہلے سے کسی ایک کیلئے ذہن بنایا ہوتا ہے۔
جواب: ہاں بالکل! جس کیلئے مولانا چاہتے ہیں اسی کو لاتے ہیں۔
سوال: کیا یہ بات جماعت کی مرکزی اور صوبائی سطح پر پہلے بھی آپ نے کبھی اٹھائی ہے کہ ہمیں یہ شکایات ہیں؟ یا پہلی مرتبہ یہاں بیان کررہے ہیں؟ ۔
جواب: میں نے بالکل پہلے بھی کی ہے لیکن جو لوگ ان کے گھر سے باہر کے تھے تو وہ کہتے تھے کہ اگر ہم نے یہ بات کی تو ہمیں عہدوں سے ہٹادے گا۔ عصام الدین صاحب یہ مہربانی کرو کہ چند سال مجھے اس عہدے پر رہنے دو۔ اگر آپ مخالفت کرو تو پھر آپ کی جگہ جماعت میں نہیں ہے۔
سوال: جس طرح پاکستان میں گرما گرمی بہت تیزی کے ساتھ جاری ہے ایسے میں بنیادی رکنیت سے آپ کا مستعفی ہونا تو کیا کسی سیاسی جماعت میں کوئی جانے کا فیصلہ کیا ہے؟۔ یا پھر آپ خاموش رہیں گے؟۔
جواب: اگر میرے مفاد کی بات ہوتی تو غلام علی کو میں بہت عرصہ سے جانتا ہوں جب وہ کونسلر بھی نہ تھا پھر میں استعفیٰ نہ دیتا بلکہ گورنر سے مفادات اٹھاتا۔ لیکن الحمد للہ کہ میں نے پہلے بھی کبھی جماعت میں مفادات نہیں اٹھائے ہیں۔ اور نہ آئندہ کسی اور پارٹی سے میرے مفادات کا خیال ہے۔ ہر بندے کا حق ہے کہ سیاست کرے لیکن وہ اپنے لئے اس پارٹی کو چنے گا کہ جس میں میرے دوستوں ، میری قوم کے لوگوں اور میرے علاقے کے لوگوں کو پسند ہواور اس میں میری عزت ہو، بے عزتی نہ ہو۔ میں جمعیت فضل الرحمن کو چھوڑ رہا ہوں تو مجھے اپنی عزت کا خطرہ ہے۔ یہ تین چار سال سے جو ہورہا ہے کہ انہوں نے مجھے اپنا سرپرست بنایا ہے تو میں نے جو کچھ بھی دیکھا، اس کو سر عام بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے40سال گزارے اسلئے میں وہ باتیں نہیں کرسکتا کہ کیوں جماعت کو خیر باد کہہ دیا۔ لیکنKPKکے گورنر سے مجھے یقینی طور پربہت تکلیف پہنچی۔ اسلئے میں نے آج نو دس بجے ہنگامی فیصلہ کیا کہ آج تمام علماء ، پرانے دوستوں کو نظر انداز کرکے سسرالی رشتہ دار کو گورنری دی تو کیا کوئی اس کی اہلیت نہیں رکھتا تھا؟۔ میں نے بتایا کہ ہمارے وقت میں اس کو تین دفعہ اجلاس سے نکال دیا گیا تھا۔ بس یہ میرے لئے برداشت کے قابل بات نہیں تھی۔
سوال: اس نے تو ایم پی اے کا ٹکٹ بھی بغیر داڑھی والے کودیا ہے جو جماعتی فرد نہ تھا۔ اسی طرح گلستان بھی ایساتھا اور… بیٹنی بھی ۔
جواب: ہاں اسکا رویہ یہی ہے جوMPAاسکےMNAکا خرچہ برداشت کرتا ہے اسی کو ٹکٹ دیتا تھا۔ جو علماء ، کارکن خرچہ نہیں اٹھاسکتے تو ٹکٹ نہیں دیتا تھا۔ گلستان اور جس کو ابھی ٹکٹ دیا ہے وہ صرف اسلئے دیا کہ وہ خرچہ اٹھاتا ہے۔
سائل: یعنی جو مالی طور پر مولانا کے خرچے کو اٹھاسکتا ہے جماعتی طور پر نہیں!
جواب: ہاں بالکل۔ جماعت برائے نام معاملہ ہے ۔ آپ کا جماعت سے کوئی تعلق نہ ہو تو ٹکٹ بھی مل جائیگا جب دولت ہو تو۔ اگر دولت نہ ہو تو پھر آپ کی کوئی حیثیت نہیں۔ میرے گھر مولانا فضل الرحمن اورمولانا عطاء الرحمن نے بہت راتیںگزاری ہیں۔ جماعت کا کوئی لیڈر نہیں جس نے اس بیٹھک میں رات نہ گزاری ہو۔ یہ جماعت اولیاء اللہ کی جماعت تھی اور اچھے لوگوں کی جماعت تھی۔ مولانا حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا احمد علی لاہوری اور یہ مفتی محمود کی جماعت ہے۔ اس جماعت کو اس طرف نہ لے جاؤ جس میں علماء کی بے قدری ہو اور سرمایہ دار کی عزت ہو۔ اللہ ہم پر رحم کرے اور ہماری جمعیت علماء کے پرانے ساتھیوں کو یہ فکر دے کہ آخر ہم کس طرف جارہے ہیں۔
سوال: جب جمعیت علماء اسلام کے مرکزی شوریٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان سرمایہ داروں کو بھی جماعت میں شامل کریں گے اور ٹکٹ دیں گے تو پھر ؟ ۔
جواب: سرمایہ دارں میں جو لوگ جماعت کیلئے قربانی دیتے ہیں ان کو بھی ٹکٹ دینے کا حق پہنچتا ہے ایسا نہیں کہ کوئی سرمایہ دار ہے اور وہ جماعت میں نہیں آسکتا ہے۔ جماعت میں بہت سرمایہ دار لوگ ہیں ان کی قربانیاں ہیں۔ وہ بچپن سے جماعت کیلئے قربانیاں دیتے آئے ہیںاور ان کی داڑھیاں نہیں ہیں لیکن ان کا نظریہ جمعیت علماء اسلام کا ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسا ہے کہ جسکا تعلق جماعت سے ہے لیکن کردار جماعت کیخلاف ہے تو اس کی مخالفت ہم کرتے تھے۔ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ سرمایہ دار کو ٹکٹ نہ دیا جائے مگر اقرباء پروری نہ ہو جس کو گورنر شپ دی اس میں اور کوئی کمال نہیں ، صرف یہ کمال ہے کہ وہ جو بھی کماتا ہے اس میں مولانا کا حصہ ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اپنی بیٹی دی اور آگے لیکر آگیا حالانکہ پشاور کے علماء مخالف تھے اور یہ غلام علی پشاور نہیں دیر کا ہے ۔
سوال: جب جمعیت علماء اسلام سے مولانا محمد خان شیرانی اور مولانا گل نصیب خان وغیرہ کو نکال دیا گیا کہ یہ اپنے ذاتی مفادات کیلئے لگے ہوئے ہیں تو کیا اس وقت آپ مولانا فضل الرحمن اور جمعیت کے فیصلے سے متفق تھے؟۔
جواب: مجھ پر کوئی یہ ثابت نہیں کرے گا کہ میں نے کبھی مولانا شیرانی اور مولانا گل نصیب خان کی مخالفت کی ہو۔ بلکہ میں کسی بھی عالم کی مخالفت کرنے کا قائل نہیں ہوں۔ شیرانی صاحب کی جو قربانیاں جماعت کیلئے ہیں وہ مولانا فضل الرحمن نے آنکھوں سے بھی نہیں دیکھی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے جو کیا ،اپنی لیڈر شپ کیلئے کیا اور مولانا شیرانی نے جو قربانیاں دیں وہ جماعت کیلئے دی ہیں کسی اور کیلئے نہیں دی ہیں۔ اس نے ہر موقع پر مولانا شیرانی کے خلاف جماعت کو استعمال کیا ہے اور میں اس میں بھی اس کے ساتھ متفق نہیں تھا۔ اگر میری کوئی آئی ڈ ی دیکھ لے تو میرا اس میں اس وقت بھی بیان موجود ہے کہ جو جماعت نے ان لوگوں کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے یہ بہت دلخراش ہے۔ اس کو آپ دیکھ لیں میرا مؤقف اس وقت بھی یہ تھا کہ ان علماء کو جماعت سے نکالنا درست نہیں ۔ یہ اختیار بھی غلط ہے کہ اتنے بڑے بڑے علماء کو جماعت سے نکالو۔ مجھے آج کے اس احتجاج سے یہ امید ہے کہ آئندہ الیکشن میں علماء اپنے لئے کچھ سوچیں گے۔

__تبصرہ__

سوسالہ تاریخ میں جمعیت علماء اسلام کو چند خاندانوں تک محدود کرنے کی کوششوں اور اکابر کی جانب سے مختلف ادوار میں اصلاح کی طویل جدوجہدکے
نشیب وفراز
حالات وواقعات کے زبانی اندرونی حقائق پہلی مرتبہ کارکنوں کے لئے منظر عام پرلانے والی کتاب ، جس کو پڑھنے کے بعد ہر کارکن جمعیت علماء اسلام کی دوبارہ احیاء کی مخلصانہ مساعی کا دست وبازو بننے کا آرزو مند ہوگا۔
مصنف :محمد اسماعیل الحسنی (بلوچ)
ناشر: دارالبصیرة کوئٹہ۔ تاریخ اشاعت2022صفحات720
فون :03217888483تعداد:1100قیمت850
انتساب : جمعےة علماء اسلام کے ان بے لوث اکابرین اور بے غرض کارکنوں کے نام جو مختلف ادوار میں اپنی ہی جماعت میں مظلوم اور معتوب ٹھہریں۔
مختصر تبصرہ:ازنوشتۂ دیوار:کتاب پر مولانا گل نصیب خان کی تقریظ ہے۔ مولانا محمد اسماعیل الحسنی نے دار العلوم دیوبند کا ایک انقلابی نظریہ اور دوسرا سرمایہ دارانہ استحصالی نظریہ پر بہت گرانقدر موادپیش کیا ہے۔ مولانا محمد خان شیرانی و مولانا فضل الرحمن ، مولانا غلام غوث ہزاروی و مفتی محمود کی چپقلش پر تحقیق ہے۔
محمد اسماعیل الحسنی ”لیفٹیننٹ گورنر سر جیمس کی دار العلوم آمد اور مہتمم کو اعزاز” کے عنوان سے لکھتے ہیں : شمس العلماء مولانا محمد احمد (مہتمم دار العلوم دیوبند) انگریز کے وفادار اور بہی خواہ تھے۔ اسکے بدلے میں انہیں خصوصی سند ، زمین، وظیفہ اور حیدر آباد دکن میں ایک عالیشان ملازمت بطور احسان عنایت کئے گئے بحکم ھل جزاء الاحسان الا الاحسان شمس العلماء نے بھی انکے احسان کا نقد بدلہ مولانا عبید اللہ سندھی کے دیوبند سے اخراج اور شیخ الہند کو گرفتار کرواکر ادا کیا تھا بانیان دیوبند کی اولاد غیرت دینی و حمیت ملی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انگریز گورنر کو سپاسنامہ پیش کرکے دار العلوم کی لائبریری میں خوشامدانہ جذبات کا اظہار کررہے تھے۔ گورنر انکے چہروں پر نظر حقارت ڈال رہے تھے۔ صفحہ81

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

نکاح وطلاق کی غلط فہمیاں اور وضاحتیں

نکاح وطلاق کی غلط فہمیاں اور وضاحتیں

نمبر1:اللہ تعالیٰ نے نکاح کے بعد طلاق کا حق مرد کو اور خلع کا حق عورت کو دیا ہے۔ عورت خلع لے تو اس کو دئیے ہوئے گھر، جائیداد اور تمام غیرمنقولہ اشیاء سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ لیکن دی ہوئی چیزیں کپڑے، زیورات،گاڑی، پیسہ اور تمام غیرمنقولہ اشیاء میںبعض بھی شوہر واپس نہیں لے سکتا ہے۔ جب شوہر طلاق دے تو پھر دی ہوئی منقولہ وغیرمنقولہ تمام چیزیں چاہے بہت سارامال دیا ہو ، کوئی چیز بھی واپس نہیں لے سکتا۔ یہ دونوں باتیں سورۂ النساء کی آیات19،20اور21میں بالکل واضح ہیں۔ خلع وطلاق میں مالی حقوق کا فرق ہے۔ خلع عورت کا مکمل اختیار اور طلاق مرد کامکمل اختیار ہے۔علماء ومفتیان آج ہماری معیشت کو سودی نظام میں بدلنے کی خوشخبریاں سنارہے ہیں تو پہلے یہ ہمارے معاشرتی نظام کو بھی اپنی کم عقلی ، مفاد پرستی اور ہوس پرستی سے تباہ کرچکے ہیں۔
اگر سید پیر مہر علی شاہ ، سید علامہ محمد انور شاہ کشمیری ،سید عطاء اللہ شاہ بخاری ، سیدابوالحسنات قادری، سید ابولاعلی مودودی اور سید علامہ یوسف بنوری نہ ہوتے توان غیر سادات نام نہاد علماء ومفتیان مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کو بھی قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ پاکستان کے مرزائی وزیرخارجہ سرظفر اللہ قادیانی نے خود قائداعظم محمد علی جناح کے نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی تھی ،اگر وہ شرکت کرنا چاہتا تو شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع روکنے کی جرأت تو بہت دور کی بات ہے اس کا والہانہ استقبال کرتے۔ ان لوگوں کا کوئی دین ایمان نہیں تھا۔ مولانا ابولاکلام آزاد اور سید سلیمان ندوی کو تصویر کے جواز کا فتویٰ دینے کے بعد اپنی کم علمی وکم عقلی سے مجبور کیا لیکن جب حکومت پاکستان کے قیام میں سرکاری اور درباری بن گئے تو شرک اور اللہ سے مقابلے والی تصویر کو بھی حکومت اور تجارت کی غرض سے جائز قرار دیدیا۔ اپنے اکابر مفتی محمود ، مولانا غلام غوث ہزاروی ، مولانا عبداللہ درخواستی سے حاجی عثمان تک انتہائی لغو، دروغ گوئی ، جہالت اور مفادپرستی پر فتوے دئیے لیکن سرکاری اور درباری ملاؤں نے قادیانیوں ، شیعہ اور مودودی کے خلاف کبھی زبان اسلئے نہیں کھولی کہ جب تک ریاست کی طرف سے اشارہ نہ ہو یہ نہیں ہوسکتا تھا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی مرضی سے طلاق وحرامکاری کے فتوے دئیے۔
جب یہ واضح ہے کہ طلاق کا حق شوہر اور خلع کا حق عورت کو حاصل ہے اور دونوں صورتوں میں مالی حقوق کا فرق پڑتا ہے۔ خلع میں صرف دی ہوئی منقولہ جائیداد اور طلاق میں عورت کو منقولہ وغیرمنقولہ سب دی ہوئی چیزیں اس کا حق ہے تو اگر عورت دعویٰ کرے کہ شوہر نے اس کو طلاق دی ہے اور شوہر انکار کرے تو یہ ممکن ہے کہ عورت نے زیادہ سے زیادہ مالی حقوق کے حصول کیلئے جھوٹا دعویٰ کیا ہو۔ اسلئے طلاق کے مالی حقوق لینے کیلئے اس کو قاضی یا جج کے سامنے دو گواہ لانے پڑیںگے۔ گواہ بھی معقول اور قابلِ قبول۔ اگر اس کے پاس گواہ نہ ہوئے تو شوہر حلف اٹھائے گا۔ اگر شوہر نے حلف اٹھالیا تو پھر قاضی یا جج طلاق کا حکم جاری نہیں کرے گا۔ اگر عورت چاہے تو خلع لیکر الگ ہوسکتی ہے لیکن اگر علیحدگی نہیں چاہتی ہو تو پھر طلاق بھی نہیں ہوگی۔ نکاح میں جڑے رہ سکتے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی کا یہ فتویٰ ہے جو اس نے مولانا اشرف علی تھانوی کے نام پر ”حیلہ ناجزہ” میں شائع کیاکہ ایسی صورت میں عورت شوہر سے حرامکاری پر مجبور ہوگی اسلئے کہ اگر ہوسکے تو جتنا مال شوہر مانگ رہا ہو ،اس کو خلع کے نام پر دیدے اور اگر شوہر پھر بھی خلع نہیں دینا چاہتا ہو تو عورت پھر نکاح میں بھی رہے گی اور یہ تعلق بھی حرامکاری کا ہوگا۔ جب شوہر جماع کرے تو عورت لذت نہ اٹھائے ورنہ گناہ گار ہوگی۔ جس جعلی اسلام میں عورت کو خلع کا حق نہ ہو اور وہ حرامکاری پر مجبور ہو تو یہ اللہ اور اسکے رسول ۖ کا اسلام نہیں ہوسکتا ہے بلکہ درباری علماء کی طرف امت میں رائج ہوا ہے۔ درباریوں کا فقہ ہمیشہ رائج الوقت سکہ رہا ہے۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں مغل بادشاہ اورنگزیب کیلئے بھائیوں کے قتل کا قصاص معاف کیا تھا اور یہ سلسلہ کربلا کے میدان سے لیکر موجودہ دور تک اہل حق کے خلاف چل رہاہے لیکن اب ان کے چہروں سے اسلام کا جھوٹا نقاب اٹھانا پڑے گا۔
نمبر2:اللہ تعالیٰ نے کسی صورت میں بھی طلاق کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کا راستہ نہیں روکا ہے لیکن جب عورت راضی نہ ہو تو پھر ایک طلاق اور ناراضگی کی صورت میں بھی شوہر کو رجوع کا حق نہیں دیا ہے۔ فقہی مسائل میں طلاق صریح وکنایہ کے ذخیرۂ الفاظ کا فائدہ فقہاء حق نے عورت کو پہنچایا ہے اور حضرت عمر وحضرت علی اور ائمہ مجتہدین کا طلاق ورجوع کے حوالے سے آپس میں کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن بعد والے درباری شیخ الاسلاموں نے مسائل کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ جتنے جھوٹے انقلابی منظور پشتین وغیرہ عورت کے حقوق کی پاسداری میں مذہبی طبقے کیساتھ کھڑے ہیں انکے نعروں سے کبھی انقلاب نہیں آسکتا ہے۔ انقلاب معاشرے ، گھروں اور افراد کی حقیقی آزادی سے آتا ہے۔ خاتم الانبیاء والمرسلینۖ نے جو انقلاب برپا کیا تھا اس کی وجہ سے دنیا بھر کی ظالم سپر طاقتوں قیصر روم اور کسریٰ ایران کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نمبر3:نکاح وطلاق کے غلط مذہبی رسوم ورواج کا قرآن نے خاتمہ کیا تھا لیکن درباری طبقات نے اسی جگہ معاملہ پہنچادیا ہے جہاں سے شروع ہوا تھا۔ اللہ نے ان مذہبی علماء کو گدھوں سے تشبیہ دی جنہوں نے کتابیں لاد رکھی ہوں۔ اور چالاک وعیار قسم کے مفادپرست علماء کو کتے سے تشبیہ دی تھی۔ کتے گدھے ہنکانے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں لیکن گدھوں کو پتہ بھی نہیں چلتا ہے کہ کہاں سے کہاں ان کو ہنکایا جارہاہے۔ کل سارے مدارس ”حرمت سود” پر متفق تھے اور آج ”حرمت سود” کے نام پر سیمینار میں ” حلت سود” میں گدھوں کو کھڑا کردیا گیا ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن نے بڑے فائدے اٹھالئے لیکن جن کو بلایا گیا تھا ان کو بھی چارہ ، بھوسہ اور کرائے کے نام پر کچھ جیب گرم کی ہوگی۔ سود کی حرمت کو چھوڑ کر علماء ومفتیان نمازجنازہ میں فاتحہ پڑھنے کے پیچھے لگے۔
نمبر4:قرآنی آیات، احادیث صحیحہ ، خلفاء راشدین اور ائمہ مجتہدین میں طلاق ونکاح کے حوالہ سے کوئی حلال وحرام کا اختلاف نہیں تھا حضرت عمر کی طرف سے عورت کو ”حرام ” قرار دینے پر اسلئے رجوع کا فتویٰ دیا گیا کہ عورت راضی تھی اور حضرت علی کی طرف سے ” حرام” کے لفظ پر اسلئے رجوع کا فتویٰ نہیں دیا گیا کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ بعد والوں نے عجیب وغریب اقسام کے تضادات سے اسلام کو اجنبیت کی طرف دھکیل دیا ہے اسلئے آج اسلام کی نشاة ثانیہ کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی کی چاہت تھی کہ امام ابوحنیفہ کے اصل مسلک قرآن کی طرف رجوع سے انقلاب لایا جائے لیکن علماء ومفتیان اور مولانا مودودی تک کسی نے بھی انقلاب کی تائید نہیں کی بلکہ مولانا عبیداللہ سندھی پر کفر، الحاد ، گمراہی اور دماغی خلل کے الزامات لگادئیے۔ اسلئے انہوں نے بہت سختی کی وجہ سے لکھا تھا کہ ” جس طرح ابوجہل و سرداران قریش مسلمان انقلابی نوجوانوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے،اسی طرح ہم بھی جب تک ان مقدس ہستیوں کو قتل نہیں کریںگے جو انقلاب اور اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہیں کبھی یہ عوامی سطح پر اسلام کی طرف رجوع اورانقلاب کو کامیاب نہیں ہونے دیںگے”۔ مولانا عبیداللہ سندھی کے دور میں سوشل میڈیا نہیں تھا اور موجودہ دور کی طرح تعلیم یافتہ معاشرہ بھی نہیں تھا اسلئے سختی کی وجہ سے قتل اور قتال کی باتیں ایک مجبوری ہوسکتی تھی۔ آج بہت آسانی سے انقلاب آسکتا ہے۔ جن خود کش حملہ آوروں کو درباریوں کے خلاف استعمال ہونا چاہیے تھا وہ ہمارے خلاف استعمال ہوگئے لیکن انشاء اللہ خلافت کے قیام کا مشن کامیاب ہوگا۔
نمبر5:اسلام کے نام پر حلالے کی لعنت قرآن واحادیث صحیحہ سے انحراف اور علماء ومفتیان کی کم عقلی وہوس پرستی کا نتیجہ ہے۔ بڑے مدارس کے بڑے علماء و مفتیان اور انکے دارالافتاء میں بیٹھے ہوئے چھوٹے مفتیان کو بات سمجھ آگئی ہے لیکن اپنی انانیت اور ہوس پرستی کی وجہ سے غریب اور جاہل طبقے کو حلالہ کے نام پر لعنت کا نشانہ بنارہے ہیں۔ یہ اب خود کش کے نشانہ بننے کے قریب ہیں۔

شرعی پردہ اور شرعی حدود کا درست تصور
ایران میں ایک لڑکی کو سر کے کچھ بال کھلے ہونے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا توبہت بڑے پیمانے پر ہنگامے پھوٹ پڑے۔ طالبان نے کابل ائیر پورٹ پر پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کا استقبال کیا تو اسکے کچھ بال کھلے ہوئے تھے۔ طالبان ملاعمر کے دور سے بہت بدل چکے ہیں جہاں وہ داڑھی نہ ہونے پر سزائیں دیتے تھے اور بااثر لوگوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ علماء ومفتیان کو بھی اپنے غلط نصاب تعلیم کی وجہ سے درست اسلام کا پتہ نہیں ہے تو طالبان بھی کم علم اور شعور سے عاری ہونے کی وجہ سے معذور ہیں۔ اس جہالت سے کبھی ہمارا بھی گزر ہوا ہے لیکن اب جس طرح طالبان کے شعور میں اضافہ ہوا ہے اس طرح ہمارے شعور نے بھی تھوڑی بہت ترقی کرلی ہے۔
طالبان اعتدال کا راستہ اپناتے ہوئے نہ تو خواتین کو نقاب اٹھانے پر مجبور کریں اور نہ لگانے پر مجبور کریں۔ اسلام کا سب سے بڑا مرکز مکہ مکرمہ میں حج و عمرے کے دوران مردوں نے واجبی لباس احرام پہنا ہوتا ہے اور عورتوں کا چہرہ نقاب سے ڈھکا ہوا نہیں ہوتا ہے۔ حرم کعبہ میں نماز، طواف اور صفا ومروہ کی سعی میں خواتین و حضرات شانہ بشانہ چلتے ہیں۔ چودہ سوسال سے اسلامی فریضے کی ادائیگی میں جتنی روشن خیالی اسلام نے سکھائی ہے ،کسی دوسرے مذہب میں اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ لونڈیوں کا ستر لباس بھی بہت مختصر ہوتا تھا۔
شرعی پردے کا حکم عورتوں کو اللہ نے دیا ہے لیکن زبردستی سے مسلط کرنے کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ہے۔ غیرمسلم عورتوں کیلئے تو اس کا تصور بھی نہیں ہے اور اگر طالبان اعلان کردیں کہ بدھ مت کے پیروکاردنیا بھر سے افغانستان میں آسکتے ہیں تو چین، جاپان، شمالی وجنوبی کوریا، برما، تھائی لینڈ ، بھارت اور یورپ وامریکہ وغیرہ سے بڑے پیمانے پر بدھا کے آثارقدیمہ دیکھنے کیلئے لوگ آئیں گے اورافغانستان کے سفارتی تعلقات کے علاوہ بڑے پیمانے پر سیاحوں کی آمد سے عوام کی غربت بھی ختم ہوجائے گی۔ جس برقعہ کا افغانی عورتوں کو پابند بنایا جارہاہے یہ افغانستان اور پشتونوں کا لباس نہیں ہے بلکہ پنجاب کا لباس ہے اور اس کو پشتونوں کے کلچر میں متعارف اور رائج کرنے والا بھی ہمارا خاندان ہے۔ یہ میرے بچپن اور یاد اشت کی بات ہے ، وزیرستان سے سوات تک کہیں بھی یہ برقعہ نہیں تھا۔ شرعی پردے کا جو تصور علماء ومفتیان نے اپنی طرف سے ایجاد کیا تھا اس پر علماء ومفتیان نے کبھی خود بھی عمل نہیں کیا ہے اسلئے مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا ہے کہ ” اشرافیہ کا یہ پردہ ترک کردیا جائے کیونکہ یہ شرعی پردہ نہیں ہے اور اس کی وجہ سے معاشرے میں قوم لوط کا عمل بڑھتا ہے”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے اسلام قبول کیا تھااور علماء کے علم وعمل کو دیکھا اور سمجھا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں جب اپنے ماں باپ، بھائی ، بہن، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی اور اپنے دوستوں کے گھروں میں انفرادی اور اجتماعی کھانے کی ااجازت ہے جس پر صحابہ کرام سے لیکر میرے آباء واجداد (جو سید عبدالقادر جیلانی کی آل تھے اور علماء ومشائخ تھے ) تک فقہاء کے غلط اور خود ساختہ شرعی پردے کا کوئی تصور نہیں تھا تو مجھے بھی ان کی جہالتوں پر عمل نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن میں نے کسی دور میں اس پر عمل کرکے بھائی، ماموں ، چچا اور قریبی رشتہ داروں سے شرعی پردے کے نام پر عمل کرکے اپنے خاندان اور دوستوں میں دوریاں پیدا کرنے میں کردار ادا کیا تھا۔ جب معلوم ہوا تو اپنی جہالت سے نکل گیا ۔ مولانا عبیداللہ سندھی شرعی پردے کے درست تصور کو جانتے تو شریعت چھوڑنے کی دعوت نہ دیتے۔
یہ مولانا عبیداللہ سندھی کی توہین نہیں بلکہ اسلام کی اجنبیت کی دلیل اور ان کی توثیق ہے۔ اگر اسلام کی حقیقت شرعی پردے کے نقاب میں غائب نہ ہوتی تو امام انقلاب مولانا سندھی کیلئے اپنا مشن بہت آسان ہوجاتا۔ رسول اللہ ۖ کی رہنمائی وحی کے ذریعے سے ہوتی تھی لیکن آپۖ کے وصال کے بعد وحی کی ہر معاملے میں رہنمائی کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ حضرت ابوبکر نے مانعین زکوٰة کے خلاف قتال کیالیکن حضرت عمر پہلے بھی تشویش میں تھے اور آخر میں بھی تشویش کا اظہار کیا۔ اگر حضرت ابوبکر کے ساتھ مل کر حضرت عمر نے مانعین زکوٰة کیخلاف جہاد کیا اور اپنے دور میں اس کو غلط قرار دیتے تو یہ اجتہادی خطاء تھی۔ طالبان نے بھی ملاعمر کے دور میں جو اقدامات کئے اور اب ان کو صحیح نہیں سمجھتے تو ان کیلئے اس اجتہادی غلطی کی زیادہ گنجائش ہے۔ رسول اللہ ۖ نے وحی کی رہنمائی سے قبل بیت المقدس کا پہلا قبلہ بنایا تھا اور جب تک وحی نازل نہیں ہوئی تھی تو اہل کتاب کے حکم کے مطابق مسلمان وکافر اور مرد وعورت پر سنگساری ، کوڑے وجلاوطنی کے احکام جاری کردئیے۔ جب زانی مرد وعورت کیلئے سورۂ نور میں100کوڑوں کی سزا کا حکم واضح ہوا تو تورات کے مطابق حکم پر عمل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اسلئے کہ اللہ نے واضح فرمایا تھا کہ تورات میں تحریف ہوئی ہے اور قرآن محفوظ ہے۔ اگر یہودی بھی تورات کے مطابق فیصلہ کروانا چاہتے ہوں تو ان کو منع کردو اسلئے کہ اپنی کتاب سے بھی فتنہ میں ڈال دیںگے۔ حضرت علی سے یہ منسوب ہے کہ اگر آپ اقتدار کرتے تو سب پر انکی کتابوں کے مطابق سزاؤں کا حکم جاری کرتے ۔ حالانکہ یہ قرآن کے منافی ہے۔ حضرت عمر نے مسلمانوں پر بھی تورات کے مطابق باہمی رضامندی سے زنا میں پکڑے جانے پر سنگساری کا حکم جاری کرنے کا اعلان کیا مگر جب بصرہ کے گورنر حضرت مغیرہ ابن شعبہ پر چار افراد گواہی کیلئے آگئے تو مسئلہ اتنا خراب کردیا گیا کہ آج تک لوگوں کا دماغ سن ہے۔ حنفی اور جمہور فقہاء کے نزدیک الگ الگ مسالک اس پر بن گئے اور بخاری وغیرہ میں گواہوں کے نام اور ملزم کو بچانے کیلئے عجیب طریقے کا ذکر ہے اور ان پر حدِ قذف جاری کرنے کی وضاحت ہے۔ مولانا مودودی نے لکھ دیا کہ” وہ تو حضرت مغیرہ کی اپنی بیگم تھی”۔ حالانکہ ام جمیل کوئی اور عورت تھی۔
اگر تین تین افراد کی گواہی پر حدقذف لگے تو طالبان بے پردگی پر سزا کیسے دے سکتے ہیں؟۔ مولانا فضل الرحمن بھی ووٹ مانگنے کے دور میں کہتا ہے کہ تین چشم دید گواہ مردعورت کو ننگے بدکاری کرتے ہوئے دیکھ لیں اور گواہی دیں تو پھر ان تینوں پر حدِ قذف لگے گی۔ علماء ومفتیان افغانستان کے طالبان کو مشکل سے نکالنے میں مدد کریں اور اپنے شرعی قوانین کی غلط تشریح کو بھی درست کرلیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب اپنے پر آتی ہے تو حد کیلئے تیار ہونا مشکل کام ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے مفتی عزیز الرحمن اور صابرشاہ کو مینارِ پاکستان سے گرانے کی باتیں ہورہی تھیں کہ اس کی شرعی سزا ہے ۔ حالانکہ قرآن میں دونوں مردوں کو اذیت دینے کا حکم ہے اور جب وہ توبہ کرلیں تو ان کا پیچھا چھوڑنے اور طعنہ نہ دینے کا حکم ہے۔ قوم لوط کے فعل کو قرآن نے غیرفطری قرار دیا ہے کہ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس آتے ہو؟۔ حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا کہ ”یہ میری بیٹیاں ہیں اگر تم کرنے والے ہو”۔ مدارس میں طلبہ کیساتھ بدفعلی ہیرامنڈی میں عورتوں سے تعلق کے مقابلے میں زیادہ بری ہے۔
سعودی عرب میں پردے کی سخت پابندی تھی تو گھروں میں حالات بہت خراب ہوگئے تھے۔ محرموں کے آپس میں معاملات بگڑنے کی خبریں تھیں۔ اگر طالبان بر وقت اپنی طرف سے ان پابندیوں کو اٹھادیں جو نہ اسلام کا تقاضاہے اور نہ افغانستان کے اپنے کلچر کا تو اس کی وجہ سے یہ قوم بہت سے اندرونی وبیرونی مسائل سے بچ سکے گی۔ جب افغانستان میں اسلامی تعلیم کا درست نقشہ پیش ہوگا تو پوری دنیا میں اسلام کے فطری دین کو پھیلنے کا موقع ملے گا۔ مولانا سندھی نے پاکستان بننے سے پہلے وفات پائی اور انکاتعلق جمعیت علماء اسلام، مسلم لیگ، جمعیت علماء ہند میں سے کسی کے ساتھ بھی نہیں تھا بلکہ کانگریس کے رکن تھے۔ انہوں نے اپنی تفسیر المقام المحمود میں سورةالقدر کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ” پنجاب، سندھ، بلوچستان، کشمیر ، سرحد اور افغانستان میں بسنے والی قومیں امامت کی حقدار ہیں ۔ حنفی مسلک اور قرآن کے احکام سے اسلام کی نشاة ثانیہ ہوگی۔ اگر پوری دنیا کو ہندو ہمارے مقابلے میں لائے تو ہم یہا ں سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ اسلام کی نشاة کا مرکزی خطہ یہی ہے اور ایران بھی اس انقلاب کو قبول کریگا”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حرمت سُود نہیں حلت سُودسیمینار

حرمت سُود نہیں حلت سُودسیمینار

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سود کو حرام قرار دیا تو رسول ۖ نے مزارعت کوبھی سُود قرار دیا۔ نبی ۖ نے فرمایا ”جب یہ اُمت شراب کو مشروب ، سُود کو منافع اور رشوت کو تحفے کے نام سے حلال کرے اور زکوٰة سے تجارت کرنے لگے گی تو یہ ان کی ہلاکت کا وقت ہوگا گناہوں میں زیادتی کے سبب”۔ کنز العمال، دیلمی
مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے یہ حدیث اپنی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” نقل کی ۔مفتی تقی عثمانی نے ”حرمت سُود سیمینار” کے نام پر ”حلت سُود ” کاارتکاب کیا۔ مولانا سلیم اللہ خان ، ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، مفتی زر ولی خان، مفتی عبد المجیددین پوری شہید ، مفتی شیخ حبیب اللہ، مولانا یوسف لدھیانویاور مفتی نظام الدین شامزئی کے بعد اندھوں میں کانا راجا مفتی تقی عثمانی کی قیادت میں سُود کو حلال قرار دیا گیا۔ سودی زکوٰة کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دینے والے مولانا فضل الرحمن نے عالمی سودی نظام کے اسلامی ہونیکی حمایت کرکے حد کردی ہے۔ نبی ۖ کی پیشگوئی سچ ثابت ہوئی۔
چاروں فقہی امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل متفق تھے کہ مزارعت سود اور حرام ہے لیکن پھر بعد کے شیخ الاسلاموں نے اسلام کو جس اجنبیت کی طرف دھکیل کر حیلے سے مزارعت کے سود کو جائز قرار دیا تھا آج اس کی انتہا ہوگئی ہے۔ اسرائیل و امریکہ کے سودی معاشی نظام کو اسلامی قرار دینے کے بعد اسرائیل و امریکہ کے ممالک اور ان کے نظام کو مشرف بہ اسلام قرار دیں اور خنزیر کو بھی اسلام کے نام پر حلال قرار دیں تو کیا حرج ہے؟۔ جبکہ اضطرارکی حالت میں خنزیر کے گوشت کو حلال سمجھے بغیر اور دوبارہ کھائے بغیر گنجائش ہے اور اللہ اور اسکے رسولۖ کے ساتھ اس کو سود کی طرح جنگ نہیں قرار دیا گیا ہے۔ اور نا ہی اس کو حدیث کی طرح70گناہوں سے زیادہ میں سے کم از کم اپنی ماں کے ساتھ زنا کے برابر جرم قرار دیا گیا ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی و مولانا فضل الرحمن کو چاہیے کہ اپنی غلطی سے توبہ کرکے ملک و ملت میں اخلاق باختگی کا قلع قمع کریں۔ اصل جنگ تو یہود و نصاریٰ نے سودی نظام کے ذریعے سے اسلامی معاشی نظام کے خلاف شروع کر رکھی ہے۔ ان طبلہ بجانے والے مراثیوں نے اس کو حیلے سے حلال قرار دے کر اپنے خبث باطن کا ثبوت پیش کیا ہے۔ اللہ ہدایت دے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مجاہد کالونی کراچی کی60،70سالہ آبادی مسمار کرنے پر خواتین، بچوں اور بزرگوں کی سسکیاں!

مجاہد کالونی کراچی کی60،70سالہ آبادی مسمار کرنے پر خواتین، بچوں اور بزرگوں کی سسکیاں!

مجاہد کالونی کراچی کی60،70سالہ پرانی آبادی کے مکانات کو مسمار کردیا گیا تو متاثرین کی خواتین ، بچوں اور بزرگوں کے دلخراش آہ و بکا اور سسکیوں سے عرش الٰہی بھی ہل گیا ہوگا۔ حکومتوں کا کام اپنی رعایا کو سہولیات فراہم کرنا ہے مگر مجاہد کالونی کے مکینوں سے آبا و اجداد کی محنت اور تگ و دو سے بنائے ہوئے اپنے مکانات بھی چھینے جارہے ہیں۔ ایک خاتون کہہ رہی تھیں کہ اللہ بھی ہماری آواز کو نہیں سن رہا ہے۔ پتہ نہیں ہم سے ناراض ہے یا کیوں ؟۔ ایک خاتون کہہ رہی تھیں کہ میری جوان لڑکی اس صدمے سے پاگل ہوگئی ہے۔ ایک اور کہہ رہی تھی کہ جوان لڑکیوں کو سڑکوں پر بے چھت اور بے گھر دیکھ کر دل چھلنی ہوگیا ہے۔
متاثرین کی بڑی تعداد نے ڈاکٹر فاروق ستار کی آمد پر پرجوش نعروں سے استقبال کیا۔ANPکے کارکن اور شاہی سید کے علاوہ جمعیت علماء اسلام کے قاری عثمان اور مولانا عبد الرشید نعمانی وغیرہ بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر عاصم کا نام لیا جارہا تھا کہ ساری جگہ حکومت سے سستے دام خرید لی جس کا ہسپتال نالے پر ہے۔ حکومت اور ریاست اللہ کے قہر سے خوف کرے۔ جس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پریشان حال لوگوں کو یہ لوگ بیلوں، گایوں، بچھڑوں کا غول سمجھتے ہیں۔ انور مقصود

پریشان حال لوگوں کو یہ لوگ بیلوں، گایوں، بچھڑوں کا غول سمجھتے ہیں۔ انور مقصود

عوام کیلئے دل دکھانے کا تصورقدم قدم پر میسرہے۔ہر حکومت نے غریبوں کو جانور سمجھاجو گٹھن میں ، روٹی کے لالے، رات کی نیند حرام

60فیصد آبادی غریب،40فیصد فوج۔امیروں کا ملک سے تعلق نہیں، بچے مسلمان کروانے باہر بھیجتے ہیں کہ اسلام کی سہولت میسر نہیں!

میں نے پریس کانفرنس میں کہا83برس کی عمرتک کپڑے خود اتارے، الٹا سیدھا بول کر پنجاب پولیس سے کپڑے اتروانا نہیں چاہتا۔

قیامت کی نشانیاں ہیں، جب عدالتیں کسی اور کے فیصلے کا انتظار کرنے لگیں، مولانا ماں کی گالی دے ،گویا اسکی ماں نہیں دونوں باپ ہیں؟

معز ز خواتین و حضرات۔ اس بے ادبی کے زمانے میں احمد شاہ صاحب ادب کو زندہ رکھنے کی کوشش میں مبتلا ہیں۔ سب سے کہتے ہیں ادب پر بات صرف مجھ سے کہتے ہیں پاکستان پر بات کریں۔ جبکہ پاکستان کا ادب سے کوئی تعلق نہیں۔ 15ویں اردو کانفرنس کے اشتہار میں لکھا4دسمبر6بجے شام اختتامی انور مقصود۔ اختتامی کے بعد لکھا, رقص۔ چلو سب کچھ ختم اب ناچو۔ عوام کیلئے دل دکھانے کا تصور پاکستانی سربراہوں کے دورِ حکومت میں قدم قدم پر میسر ہے۔ ہر حکومت نے غریبوں کو جانور سمجھا۔75برسوں سے یہ جانورگھٹن کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ روٹی کے لالے، رات کی نیند حرام۔ گرد و غبار میں چھپے ہوئے چہروں کو یہ صرف الیکشن کے زمانے میں دیکھ لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے معاشرہ دلسوزی کے نام سے آگاہ نہیں ۔ پریشان حال لوگوں کو یہ لوگ بیلوں، گایوں ،بچھڑوں کا غول سمجھتے ہیں۔بڑی بڑی سیاہ شیشوں والی گاڑیوں میں بیٹھے خود کو خدا سمجھتے ہوئے ، کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں ان کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ سائرن بجاتے ہوئے غول کو اِدھر اُدھر بھگادیتے ہیں۔ بریانی کے پیکٹ پھینکتے جاتے ہیں۔ بچے بھاگ کر پیکٹ اٹھا لیتے ہیں، بڑے نہیں اٹھاتے وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو تو زندہ رہنا چاہیے۔ ان مناظر کا اثر سیاستدانوں پر نہیں ہوتا۔ گاڑیاں گزرنے کے بعد لوگ خاموشی سے واپس جس طرح جنازے کا خاموش جلوس دفن کرنے کے بعد گھر لوٹتا ہے مایوس!75برسوں سے ہم یہ منظر دیکھ رہے ہیں۔ بھئی کتنا کماؤ گے؟ کتنا لوٹو گے؟ کتنا جھوٹ بولوگے؟ کتنا اپنے اوپر خرچ کرو گے؟۔ غریب تو اب کہتے ہیں کوئی طاقت ہی نہیں آپکی طاقت کے سوا کچھ بچا ہی نہیں میرے لئے جنت کے سوا
غریبوں کیلئے کھانے باورچی خانے چلانے کے سلسلے میں ہمارے وزیر اعظم6،7ملکوں کے سربراہوں کے سامنے ہاتھ پھیلا چکے ہیں۔ غریب کہتے ہیں ہمیں بدنام نہ کریں اپنے لئے مانگیں۔ ٹک حرص و حوس کو چھوڑ میاں مت دیس بہ دیس پھرے مارا (یہاں میاں کا لفظ بہت اچھا لگ رہا ہے)جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری ڈھل جائے گی ….اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے پائیگی…..یہ کھیپ جو تونے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جائیگی …. . دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آئے گی …… سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
بات یہ ہے کہ حالات مسلسل اس طرح کیو ں ہیں؟ ۔ بھائی جب بندوق کی زبان قومی زبان بن جائے تو حالات ایسے ہی ہوجاتے ہیں۔ آرٹس کونسل کی عمارت65برس سے اسی جگہ موجود ہے۔ ایک وقت تھا کہ اسکے ایک کونے میں اکڑوں بیٹھے صادقین تصویریں پینٹ کرتے۔ سیڑھیوں سے فیض اتر رہے ہیں ۔ آرٹس کونسل کے پھسل منڈے سے صوفی پھسلتے آرہے ہیںکیونکہ وہ سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے۔ عالی، رئیس امروہوی ، بخاری، سبط حسن، حاجرہ آپس میں باتیں کررہے ہیں۔ انتظار حسین ساقی فاروقی سے بچتے پھر رہے ہیں۔ محمد حسن عسکری خاموش بیٹھے ہیں۔..20،22برس پہلے احمد شاہ یہاں آگئے اور جانے کا نام نہیں لیتے۔ جانا چاہتے ہیں مگر عوام نہیں جانے دیتے۔ ویران کھنڈر کو شاہ نے خوبصورت عمارت میں تبدیل کردیا۔ دنیا بھر سے ادیب کانفرنس میں شریک ہوتے کچھ عصری کچھ ادیبوں کے بھیس میں۔ ہندوستان سے بھی شاعر اور ادیب آجاتے تھے۔ سب مرگئے۔ اب کوئی نہیں۔ میں نے پوچھا شاہ! ہندوستان سے کون آرہا ہے؟۔ کہنے لگے بھائی! ہندوستان سے صرف دھمکیاں آرہی ہیں۔ اسٹیج پر آنے سے پہلے شاہ نے کان میں کہا انور بھائی پاکستان پر سب کی تعریف کرنا ہے۔ خاص طور پر نئے آرمی چیف کی۔ میں نے کہاعاصم منیرکی تعریف تو سب کررہے ہیں۔ فوجی ، انکے دوست ، محلے والے۔ نیک ، شریف، نمازی، ایماندار، بہادر، اپنے پیشے سے محبت، وطن کی عزت، پرچم کی قدر، انکے ایک پڑوسی نے ٹیلی ویژن پر کہا میرے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتے تھے۔ اب فرق ہوگیا گلی پڑوسی کے ہاتھ میں ، ڈنڈا عاصم منیر کے ہاتھ میںآگیا ۔ دعا ہے یہ ایسے فوج کے سربراہ ہوں جو صرف فوج کا خیال رکھے اور عوام کا۔ باجوہ نے الوداعی تقریر میں کہا فروری2022فوج نے فیصلہ کیا کہ سیاست سے پرہیز کریگی۔ بہت اچھا فیصلہ، مطلب74برس فوج نے سیاست سے بدپرہیزی کی؟۔ بدپرہیزی کا مطلب بے اعتدالی، بے احتیاطی، عیش، فضول خرچی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ فوج ہماری ضرورت ہے ، پڑوسی بہت خراب ہیں۔ ہم بھی زیادہ اچھے نہیں ۔ اسی لئے فوج کبھی سرحد کی طرف دیکھتی ہے کبھی اپنے ملک کی طرف پھر سوچتی ہے، اُدھر جاؤں یا اِدھر جاؤں۔ بڑی مشکل میں ہوں کدھر جاؤں۔ پھر ادھر آجاتی ہے۔پاکستان کی60فیصد آبادی غریب،40فیصد فوج ۔ امیروں کا پاکستان سے تعلق نہیں۔ اپنے بچوں کو مسلمان کروانے بھی لندن بھیجتے ہیں کہتے ہیں یہاں مسلمان ہونے کی سہولت نہیں۔ بیروزگاری، بدحالی، مہنگائی، پریشانی، پشیمانی، اداسی ملکوں پر بادلوں کی طرح چھاگئی ۔ کسی کو احساس نہیں کہ ملک کیساتھ کیا کر رہے ہیں؟، قرضہ ملتا ہے تو ایوان تالیوں سے گونجتے ہیں۔ اسکے باوجود احمد شاہ کا اصرار ہے پاکستان پر بات کروں۔ پاکستانی کہانی سناؤں۔ حالات بدل گئے ۔
جو ہے زباں پر دل کو نہیں اس سے فائدہ جو دل میں ہے وہ لا نہیں سکتے زبان پر
میں نے پریس کانفرنس میں کہا83برس کی عمر میں ہمیشہ اپنے کپڑے خود اتارے ۔ الٹا سیدھا بول کر پنجاب پولیس سے نہیں اتروانا چاہتا۔ پاکستان75کا۔ میںاس سے8برس بڑا ہوں۔ میری ان گنہگار آنکھوں نے پاکستان کو پروان چڑھتے کم اورپروان اترتے زیادہ دیکھا۔ غریب غریب ترین ہوگئے امیر امیر ترین۔14اگست1947نیا ملک نیا آسمان خوبصورت سرزمین۔24سال بعد آدھی زمین بنگالیوں نے واپس لی۔ آدھی زمین جو بچی تھی یہاں لوگوں نے خرید لی یا بیچ دی۔اب سرزمین میں خالی زمین غائب ہوگئی، انگریزی سر بچے ۔ خریدی زمین پر مجبوراً کہتے ہیں سر! زمین کہاں گئی؟۔ اسکے باوجود پاک سر زمین شاد باد سن کرکھڑے ہوجاتے ہیں۔ پرچم ستارۂ و ہلال سے آنسو پوچھتے ہیں اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں کہانی پاکستان کی سنیں گے؟
قصہ میرا سنو گے تو جاتی رہے گی نیند آرام چشم مت رکھو اس داستاں سے تم
یہ کہہ کے جو رویا تو لگا کہنے نہ کہہ میر سنتا نہیں میں ظلم رسیدوں کی کہانی
کہانی ظلم رسیدوں کی ہے۔ مجھے شاہ کی بات یاد آگئی۔ انور بھائی بولنے کا چیک جب ملے گا آپ لوگوں کو خوش اور ہنستا ہوا رکھیں۔ شاہ ! جو کام حکومت کا ہے مجھے سونپ دیا۔ حکومت کا کام ہے لوگوں کو خوش اور ہنستا ہوا رکھنا۔ حکومت نے عوام کو ہنستا ہوا تو رکھا۔عوام وزیر اعظم اور تمام وزیروں کے بیانات پر گھنٹوں ہنستے رہتے ہیں مگر خوش نہیں۔ پاکستان کی کہانی فلم کی طرح75سال سے ہے۔ ہدایتکار پنجاب ، شوٹنگ بلوچستان میں۔ پس پردہ موسیقی آرمی کا بینڈ۔ فلم کا انٹرویل1971میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ انٹرویل کے بعد فلم ملی نغمے سے شروع ہے، اے وطن کے سجیلے جوانو! اسکے بعد فلم کا ہیرو جو سندھی ہے بڑھئی کے پاس جاتا ہے، کہتا ہے ایسا تختہ چاہیے جوالٹا نہ جائے۔ بڑھئی کاتختہ6فٹ چوڑا،4فٹ لمبا ہے۔ درمیان میں3فٹ اور ڈھائی فٹ کا سوراخ ہے۔ بڑھئی کہتا ہے تختہ کوئی الٹ نہیں سکتا مگر تختے کے سوراخ سے تم نیچے جاسکتے ہو۔ اس کے بعد آرمی بینڈ ہے ، اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا۔ فلم کے آخری منظر میں ایک آدمی امریکہ سے پیسے مانگ رہا ہے، چین ، برطانیہ، سعودیہUAEسے مانگ رہا ہے۔ اور کہہ رہا ہے اگر ترکی سے قرضہ مل گیا تو قسم خداکی سب کے پیسے واپس کردیں گے۔ ایک چھوٹا بچہ آکر ایک شعر پڑھتا ہے۔ خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہو اے مفلس! یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد
وہ آدمی بچے سے کہتا ہے اللہ میاں ڈالر کیسے بھیج سکتے ہیں؟۔ پچھلے سیلاب سے بڑا سیلاب تو بھیج سکتے ہیں۔ پھر دامن میں ڈالروں کی بارش۔ اب صرف تباہی بربادی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ جتنی تباہی اتنی بہتری۔ بیٹے تم تو قیامت کی بات کررہے ہو۔ محترم قیامت تو آچکی۔ نشانیاں پتہ کیا ہیں؟ جب برے لوگ اچھے لوگوں پر حکومت کرنے لگیں۔جب جھوٹ سچ کو ماردے۔ عدالتیں کسی اور ادارے سے فیصلہ کا انتظار کرنے لگیں۔ مولانا وطن کی ماؤں بیٹیوںاور بہنوں کیلئے گندی زبان استعمال کرنے لگیں۔ جیسے ان کی ماں نہیں دونوں باپ تھے۔
تمہیں کیسے معلوم برے لوگ اچھے لوگوں پر حکومت کا؟۔ آج کی بات نہیں75برسوں کی بات کررہا ہوں۔ صرف بچوں کی تعلیم پر دھیان دیں۔ ایک یونیورسٹی کے بجائے100اسکول کھول دیں۔ بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں دے دیں تاکہ مستقبل میں زیادہ اچھے لوگ اچھے لوگوں پر حکومت کرسکیں۔ اچھا یہ بتاؤ بیٹے ہم اس ملک کو ٹھیک کرسکتے ہیں؟۔ ا لف ب والے قاعدے سے پ اور ع نکال دیں۔ پھر جو مرضی آئے وہ کریں۔ ع نکال دیں کیا ہوگا؟۔ قاعدہ سے ع نکال دیں تو عسکری غائب ، عروج غائب، عدالت غائب، عذاب غائب، عزت غائب، عریاں غائب، عیش غائب۔ بیٹے اگر پ نکال دیں تو؟۔ پبلک غائب،پریشان غائب، پارلیمان غائب، پیشی غائب، پھر مانگ غائب، پشیمان غائب، پامال غائب، پاکستان غائب۔ بیٹے کچھ اوربتاؤ۔ آج کے پاکستان کی کہانی سنارہا تھا۔ سب سرگزشت سن چکے اب چپ کے ہورہو آخر ہوئی کہانی میری تم بھی سو رہو نام تو بتادو بیٹے ۔ محمد علی ۔ لڑکا غائب ہوجاتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سکول ماسٹر خطیب مسجد کا بیٹا حافظ عاصم منیر شاہ ہمارا آرمی چیف

سکول ماسٹر خطیب مسجد کا بیٹا حافظ عاصم منیر شاہ ہمارا آرمی چیف

اللہ پاک اپنے قرآن پاک کی برکت سے اس اسلامی انقلاب کااب آغاز کردے جس سے آسمانوں اور زمین والے دونوں خوش ہوں اور اسلام کو اجنبیت کی دَلدَل سے نکال دے!

اللہ نے جنت باپ کے مونچھ نہیں ماںکے قدموں کے نیچے رکھی ہے۔ محمود خان اچکزئی

میں طالبان بھائیوں سے کہتا ہوں کہ نبیۖ نے حضرت عائشہ کی ایسی تربیت فرمائی کہ ہزاروں احادیث آپ سے نقل ہیں،جب شیرخداعلی سے اختلاف ہوا تو لشکر کی قیادت کی تھی

محمود خان اچکزئی نے کوئٹہ ایوب اسٹیڈیم میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے بہت بڑے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ملک وقوم اور خطے کیلئے اہم نکات پیش کئے

افغانستان سے امن وامان کے حوالے سے بات کرنے پر سب سیاسی قائد خاموش ہیں، محمود خان اچکزئی نے اپنی جماعت کے کچھ بڑے بڑوں کی قربانی کارسک بھی لیا اور یہ بھی کہا کہ مقامی سطح سے بین الاقومی سطح تک مثبت بات کی ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی کے اخونزادہ چٹان مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے ۔ اب حنا ربانی کھر نے افغانستان کا دورہ کیا تو طالبان نے کابل ائیر پورٹ پراستقبال کیا۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ رسول اللہ ۖ اللہ کے آخری پیغمبر اور رحمت للعالمینۖ ہیں۔ میں عالم انسانیت کا سب سے بڑا لیڈر حضرت محمدۖ کو عقیدے کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلئے مانتا ہوں کہ آپ ۖ پڑھے لکھے نہ تھے اور صرف23سال میںپوری دنیا میں سب سے بڑا انقلاب برپا کردیا۔ عورت کی کوئی عزت نہیں تھی ، لونڈیوں کے لشکر لوگ پال کر رکھتے تھے۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیگم کی حیثیت سے عزت دی تو انقلاب برپا ہوا۔ عورت کو تعلیم، فن سپاہ گری، نرسنگ اور ہر شعبے میں صلاحیت منوانے کا حق دیا۔ طالبان کو کہتا ہوں کہ اسلام نے عورت کو حقوق دئیے اور تم حقوق سے محروم کرکے کیا اسلام نافذ کرسکتے ہو؟۔ عورت کے بغیر معاشرے کی ترقی نہیں ہوسکتی ۔…..
محمود خان اچکزئی نے خطے کے امن وامان، پشتونوں کے حقوق، قانون کی بالادستی کے لائحۂ عمل اور آئین کی تابعداری کرتے ہوئے سب کو اپنے دائرہ کار میں رہنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کی گول میزکانفرنس کی تجویز بھی پیش کی ہے۔
مولوی کہتا ہے کہ اسلام۔ مذہبی جماعتیں و تنظیمیں کہتی ہیں کہ اسلام۔ قوم پرست اور قومی سیاست کا کھیل کھیلنے والے کہتے ہیں کہ اسلام۔ ریاست کہتی ہے کہ اسلام۔ آئین کہتا ہے کہ اسلام۔مجاہد اور دہشتگرد کہتا ہے کہ اسلام۔ افسانہ نگار کہتا ہے کہ اسلام۔ ڈرامہ باز کہتا ہے کہ اسلام۔ امام حرم کہتا ہے کہ اسلام۔ سعودی عرب، ترکی ، ایران اور افغانستان کا حکمران کہتا ہے کہ اسلام۔ ٹک ٹاکرز کہتے ہیں کہ اسلام۔ اسلام اسلام اسلام مگرپھرہم کیوں ہیں اس میں ناکام ؟۔
جب اسلام نازل ہوا تھا تو یہود نے عورت کے حقوق یہ رکھے کہ حق مہر برائے نام تھا۔ بات بات پر طلاق کا حق مرد کو حاصل تھا۔ عیسائی مذہب میں شادی کے بعد عورت کو مرد تاحیات طلاق نہیں دے سکتا تھا ۔ افراط وتفریط نے عورت کی حیثیت مسخ کردی تھی۔ حضرت ابراہیم کی طرف منسوب مشرکین نے جہالت کی حد کردی تھی۔ نکاح کے مختلف اقسام اور طلاق کے مختلف اقسام کے علاوہ بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے سے لیکر بہت کچھ ہوتا تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کہلانے والے ہندؤوں نے عورت کیلئے بیوہ ہونے کے بعد ستی کی رسم جاری کی تھی ، شوہر کی وفات کے بعد اس کی بیگم کو بھی نذرِ آتش کردیا جاتا تھا۔
اہل مغرب اور ترقی یافتہ ممالک نے دورِ جاہلیت اور اپنے مذاہب کی رسوم اور مسائل سے جان چھڑاکر جمہوری بنیادوں پر بیگم اور شوہر کیلئے نکاح وطلاق پر قانون سازی کا سلسلہ جاری رکھا۔ آزاد و ترقی یافتہ، خوشحال وخود مختار اور جدید ترین تہذیب وتمدن کی بنیاد رکھ دی اور مذہب کو کھڈے لائن لگادیا گیا تو ہمارے معاشرے میں بھی اس بنیاد پر ترقی پسند تحریکوں، سیاسی جماعتوں اور ممالک نے آغاز کیا۔ ایران، ترکی ، افغانستان، لبنان، مصر ، دوبئی اورکئی مسلم ممالک کا حلیہ تبدیل ہوگیاتھا۔ اب سعودی عرب بھی اس پر گامزن ہے۔ ایران میں احتجاج شروع ہے۔ طالبان ہی دنیا میں تنہاء رہ گئے ۔جس سے نکلنا چاہتے ہیں۔
پاکستان، افغانستان، سعودی عرب، ترکی ، مصر ، ایران اور دنیا بھر کے مسلم ممالک کا ایک اجلاس طلب کیا جائے اور ان کے سامنے اسلام سے پہلے خواتین کیلئے غلط مذہبی رسوم ورواج اور اسلامی اصلاحات کا تفصیل سے ذکر کیا جائے۔ اللہ نے ایک ایک مسئلے کا حل پیش کیامگر کم بخت مذہبی طبقہ سننے پر آمادہ نہیں بلکہ کمزوری سے آگاہی پر جانور کی طرح اپنی دُم سے اپنی پچھاڑی چھپارہاہے۔
نمبر1:دنیا میں عورت کے خلاف انتہائی خطرناک مذہبی مسئلہ یہ تھا کہ جب اس کا شوہر کچھ الفاظ کہتا تھا تو ان میں صلح کا دروازہ بند ہوجاتا ۔عورت شوہر سے محروم بے سہارا بن جائے تومعاشرے پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ فتویٰ خدا کے نام پر کھیلاجارہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ مجادلہ اور سورۂ احزاب کی ابتداء میں اس کی مذہبی حساسیت اور اس کی تردید کا زبردست نقشہ کھینچا ہے۔
سورۂ البقرہ میں آیت224میں واضح کیا کہ اللہ کو اپنے عہد وپیمان کیلئے ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی ، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں رکاوٹ بنو۔ یہ آیت طلاق کے مسائل کیلئے ایک مقدمہ ہے۔ جس کی زبردست طریقے سے آئندہ کی آنے والی آیات میں225سے232تک وضاحتیں ہیں۔
نمبر2:خطرناک مسئلہ یہ تھا کہ بھول بھلیوں کی طرح طلاقِ صریح وکنایہ کے بہت الفاظ تھے جن کی وجہ سے میاں بیوی کو شیطان وسوسہ ڈالتا تھا کہ رجوع ہوسکتا ہے یانہیں؟۔ مذہبی اتھارٹی سے پوچھا جاتا تھا کہ صلح ہوسکتی ہے یا نہیں؟۔ اللہ نے ان تمام الفاظ کا تدارک کردیا اور آیت225البقرہ میںہے کہ اللہ لغو الفاظ پر نہیںپکڑتا مگر دل کے گناہ پر پکڑتا ہے۔ یعنی صلح کرنے اور کرانے کے حوالے سے طلاق میں اہمیت الفاظ کی نہیں بلکہ نیت وعزم اور طرزِ عمل کی ہے۔
نمبر3:ایک بڑا خطرناک مسئلہ یہ تھا کہ جب تک زبانی طلاق نہ دی جاتی عورت زندگی بھر بیٹھی رہتی ۔ اسکا حق اور نہ عدت تھی۔ نکاح کا یہ طوق عورت سے بڑا ظلم تھا۔ قرآن نے عورت کی جان اس ظلم سے چھڑائی ۔ آیت226البقرہ میں ناراضگی کی عدت کو واضح کردیا کہ طلاق کا اظہار نہ کیا جائے تو عورت پر4ماہ عدت کا انتظار ہے۔ باہمی رضامندی کیساتھ عدت میں رجوع ہوسکتا ہے اور4مہینے کی عدت کے بعدعورت دوسرے شوہر سے شادی کرنے میں آزاد ہے۔ بیوہ کی عدت4ماہ دس دن اورطلاق شدہ کی عدت3ماہ ہے۔
آیت نمبر227البقرہ میں اللہ نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ اگر شوہر کا طلاق کا عزم تھا تو پھر اللہ سمیع علیم ہے۔ جو عزم کو سنتا اور جانتا ہے ۔ یہ دل کا گناہ ہے اسلئے کہ اگر طلاق کا عزم تھا اور اسکااظہار کردیتا تو عورت4ماہ تک انتظار کرنے کے بجائے3ماہ کی عدت میں فارغ ہوجاتی۔ ایک مہینے اضافی عدت کا انتظار کرانا ہی دل کا گناہ ہے جس پر آیت225البقرہ میں پکڑ کی بات ہے۔
نمبر4:ایک انتہائی غلط مسئلہ یہ تھا کہ شوہر ایک ساتھ تین طلاق دیتا تھا تو حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تھا۔ دوسرا انتہائی ظالمانہ مسئلہ یہ تھا کہ عورت کو ایک طلاق کے بعد عدت میں بار بار رجوع و طلاق کا سلسلہ شوہر جاری رکھ سکتا تھا۔یہ دونوں مسئلے عورت اور معاشرے کے استحصال کیلئے استعمال ہوتے تھے۔
اللہ نے آیت228البقرہ میں ایک تیرسے دوشکار کردئیے، ایک ساتھ 3 طلاق پر حلالے کی لعنت کا خاتمہ کیا اور صلح کے بغیر بار بار رجوع کا حق ختم کردیا۔ وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحاً ”اورانکے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں ،اگر اصلاح چاہتے ہوں”۔ حیض وپاکی کے 3مراحل تک عورت کوانتظار کا حکم ہے اورعدت میں اصلاح کی شرط پر باہمی رضامندی اور صلح کرکے شوہر عورت کو لوٹاسکتاہے۔ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالے کا فتویٰ باطل کردیا گیا اور عورت کی اجازت کے بغیر باربار طلاق کی غلط رسم بھی ختم کردی گئی لیکن قرآن پر توجہ نہیں دی گئی۔
نمبر5:آیت نمبر228میں طلاق کی عدت کے تین مراحل ہیں ۔یہ واضح کرنا ضروری تھا کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے تین مراحل ہی سے ہے اور ایک انتہائی غلط مسئلہ یہ تھا کہ طلاق کے بعد شوہر کی طرف سے دی ہوئی چیزوں سے عورتوں کو محروم کیا جاتا۔ آیت229البقرہ میں واضح ہے کہ ”طلاق دو مرتبہ ہے۔پھر معروف طریقے سے رجوع کرنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ رسول اللہ ۖ نے واضح فرمایا ہے کہ تین مرتبہ طلاق کا تعلق ہی عدت کے تین مراحل سے ہے۔ ( بخاری کتاب التفسیر سورۂ طلاق)۔ نبی ۖ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ ”قرآن میں تیسری طلاق آیت229میں تسریح باحسان ہے”۔
جب آیت228میں اصلاح کی شرط پر عدت میں رجوع کی اجازت ہے تو آیت229میں یہ تضاد نہیں ہوسکتا کہ دو مرتبہ غیرمشروط رجوع کی اجازت ہو اور تین مرتبہ کے بعد عدت میں بھی رجوع کی اجازت نہ ہو۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ نے معروف رجوع کی اجازت دی اور فقہاء نے منکر رجوع کی بنیادیں کھڑی کردیں۔ عورت کے حق صلح کی شرط کوغائب کردیا تو حنفی فقہاء نے لکھ دیا کہ ” نیت نہ ہو اور غلطی سے شہوت کی نظر پڑگئی یا نیند میں ہاتھ لگا تو رجوع ہے”۔ اور شافعی فقہاء نے لکھ دیا کہ ”نیت نہ ہوتو مباشرت سے بھی رجوع نہیں ہوگا”۔ قرآن کے معروف رجوع کے مقابلے میں فقہاء کا منکررجوع واضح ہے۔
آیت229میں یہ واضح ہے کہ جب پہلے دومرحلے میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دینے کا فیصلہ کیا تو دی ہوئی چیزوں میں کوئی چیز واپس لینا حلال نہیں ۔ مگر جب دونوں یہ خوف رکھتے ہوں کہ اگر کوئی خاص چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کے حدودوں کو توڑنے کا خوف رکھتے ہوں۔ اس کاواضح مطلب تین مرتبہ طلاق کے بعد ایسی چیز کی نشاندہی ہے جو شوہر نے دی ہے اور وہ واپس کرنا حلال نہیں لیکن اگرخوف ہے کہ وہ چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں طلاق شدگان ناجائز جنسی تعلق کا شکار ہوکر اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیںگے اور فیصلہ کرنے والے بھی اسی نتیجے پر پہنچ جائیں کہ اگر وہ دی ہوئی خاص چیز واپس نہ کی گئی تو بڑاکھڑاک ہوگا اور دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے تو شوہر کی طرف سے دی ہوئی اس چیز کوعورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں حرج نہیں ہے اور بال کی کھال اتارنے والے صحافی، وکیل، سیاستدان، جج، مولوی، تعلیم یافتہ لوگ اور بالکل ان پڑھ عوام قرآن کی اس بھرپور وضاحت کو سمجھ سکتے ہیں۔
یہ قرآن میں معمول کے بالکل واضح جملے ہیں مگر بڑے بڑوں نے الجھادیا ہے اور اس کے نتیجے میں سیدابوالاعلیٰ مودودی اور جایداحمد غامدی جیسے لوگوں نے بھی بہت بڑی ٹھوکر کھائی ہے۔ اللہ نے عورت کو مالی تحفظ دیا ہے اور علماء وجدید اسکالروں نے اس سے خلع مراد لیکر عورت کے استحصال کا ذریعہ بنایا ہے۔ پہلے اللہ کے کلام قرآن سے اپنے اکابر کی غلط تفسیر سے توبہ کرکے اپنا معاملہ سلجھاؤ اور پھر دوسروں سے گلے شکوے کرو۔ آیت229کے پہلے حصے میں3مرتبہ طلاق اور دوسرے حصے میں عورت کو مالی تحفظ دینے کی بھرپوروضاحت ہے۔
نمبر6:عورت کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ جب شوہر ایسی طلاق دیتا تھا کہ اس کو دوبارہ بسانے کا خیال بھی دل سے نکال دیتا تھا یا عورت خلع اور طلاق کے بعد اپنی مرضی سے کسی سے بھی شادی کرنا چاہتی تھی تو شوہر اس کو اپنی غیرت اور انا کا مسئلہ بنالیتا تھا، اس پر قدغن لگاتا تھا، اپنی مرضی سے کسی اور سے اس کو نکاح نہیں کرنے دیتا تھا۔ آج بھی جانور، چرندوں، پرندوں اور درندوں تک کی اکثریت میں اپنی مادہ سے کسی اور نر کیلئے جنسی تعلق پر غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ انسانوں کی اکثریت میں بھی یہ غیرت کا مادہ پایا جاتاہے۔ لیڈی ڈیانا کے قتل میں بھی اس غیرت کی وجہ سے عدالتوں میں مقدمہ چلا ہے۔ انسان کی اس کمزوری کا14سوسال پہلے قرآن میں اللہ نے جو علاج کیا ہے ،اگر آیت کا حکم سمجھ میں آگیا تو پورے عالم کے انسانوں کیلئے اس کی حکمت وہدایت کافی ہے۔
اللہ نے آیت230البقرہ میں فرمایا ہے کہ ” پھر اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ پھر اگر دوسرے شوہر نے طلاق دی تو دونوں پر حرج نہیں کہ اگر وہ رجوع کرلیں بشرط یہ کہ وہ یہ گمان رکھتے ہوں کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکیںگے”۔
آیت230البقرہ میں جس طلاق کا ذکر ہے اس کا تعلق حنفی مسلک کے مطابق آیت229کے دوسرے حصے فدیہ دینے کی صورتحال سے متعلق ہے۔ جس پرعلامہ تمنا عمادی نے اپنی مشہور کتاب ” الطلاق مرتان” میں لکھ دیا ہے کہ ”خلع سے آیت230کی طلاق کا تعلق ہے، جس میں جرم بھی عورت کرتی ہے اور اس کی سزا بھی حلالہ کی صورت میں عورت کو ملتی ہے”۔ لیکن یہ سزا نہیں ہے ۔ ایک غلط رسم کا خاتمہ ہے۔ عورت جب کسی بھی طلاق کے صلح اور معروف طریقے سے رجوع پرراضی نہ ہو تو پھر شوہر کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت اپنی مرضی سے جس سے بھی نکاح کرنا چاہے تو وہ بالکل آزاد ہے۔ شوہر نے ایک طلاق دی ہو تب بھی، دومرتبہ طلاق دی ہو تب بھی اور تین مرتبہ طلاق دی ہو تب بھی۔ عورت نے خلع لیا ہو تب بھی اور شوہر نے طلاق دینے کی جگہ صرف ناراضگی سے چھوڑا ہو تب بھی۔یہ عورت کی مرضی کیلئے بہت بڑی بنیاد اور اس کی غلط مردانہ غیرت سے جان چھڑانے کا زبردست ذریعہ ہے۔
سورۂ بقرہ کی آیات231اور232میں عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش بالکل واضح الفاظ میں کی گئی ہے تو مذہبی طبقہ کیسے صلح میں رکاوٹ بن سکتا تھا؟۔ کچھ لوگ باہمی اعتماد کی وجہ سے نادانی میں بہہ گئے اور کچھ دیدہ دانستہ بااثر طبقے اور نفسانی خواہشات کا شکار ہوگئے۔ عوام تو عوام ، بڑے بڑے معروف مدارس کے علماء ومفتیان، مدرسین اور اصحابِ علم وکردار بھی سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح پہلے اکابر علماء کی طرف سے سودی بینکاری کو اسلامی قرار دینے کے خلاف متفقہ فتویٰ دیا گیا ۔ پھر وہ مرگئے یا مار دئیے گئے تو علماء حضرات بے شرموں کی طرح سیمینار میں شریک ہو گئے؟۔
سورۂ بقرہ کی ان آیات میں عدت کے اندر اوطر عدت کی تکمیل کے فوراًبعد اور کافی عرصہ بعد رجوع کا دروازہ بالکل کھلا رکھا گیا ہے ۔ علماء ومفتیان نے لکھا ہے کہ ” اگر عورت نے آدھے سے زیادہ بچہ جن لیا تو رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور اگر آدھے سے کم بچہ نکلا ہوا ہے تو رجوع ہوسکتا ہے”۔ کوئی پوچھ لے کہ اگر تیری ماں کو تیرے حمل کے دوران طلاق ہوتی اور جب نصف جننے کے بعد رجوع ہوتا تو کیا رجوع درست ہوتا یا غلط؟۔ تو علماء اپنا کیا جواب دیتے؟۔ قرآنی تعلیمات کو مسخ کرنے اور پھر اس پر ڈٹ جانے والوں کے دن بہت قریب لگتے ہیں۔
سورۂ طلاق میں بھی عدت کے اندر ، عدت کی تکمیل کے فوراًبعد اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی باہمی رضامندی سے رجوع کی گنجائش ہے۔ جب حضرت رکانہ کے والد نے ام رکانہ کو سورۂ بقرہ اور سورہ ٔ طلاق کے مطابق مرحلہ وارتین طلاقیں دیں۔پھر کسی اور خاتون سے شادی کرلی۔ اس نے اسکے نامرد ہونے کی شکایت کردی تو نبیۖ نے اس دوسری خاتون کو طلاق دینے کا فرمایا اور ابورکانہ سے فرمایا کہ ام رکانہ سے رجوع کیوں نہیں کرتا؟۔ انہوں نے عرض کیا وہ تو تین طلاق دے چکا ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور پھر سورۂ طلاق کی ابتدائی تلاوت فرمائیں۔ (ابوداؤد شریف)
سورۂ طلاق میں مرحلہ وار تین طلاق اور عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع یا پھر معروف طریقے سے چھوڑنے کا حکم ہے اور دوعادل گواہ بھی مقرر کرنے کا حکم ہے۔ پھر یہ بھی واضح ہے کہ جو اللہ سے ڈرا اس کیلئے آئندہ بھی اللہ راستہ کھول دے گا۔ سورۂ طلاق کی پہلی دوآیات میں سورۂ بقرہ کی آیات کا خلاصہ ہے۔ اتنی تفصیل کے باوجود بھی علماء ومفتیان قرآن کی طرف رجوع کرنا اپنے فقہی مسالک اور فرقہ واریت کی موت سمجھتے ہیں۔
محمود خان اچکزئی کا خاندان لکھا پڑھا گھرانہ ہے۔ پشتونستان کا نعرہ بلند کرنے کیساتھ ساتھ پشتون مذہبی قیادت کے ذریعے سے پشتون قوم کو حلالہ کی لعنت سے بچانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی حافظ قرآن ہیں۔PDMکی قیادت ، جماعت اسلامی اور عمران خان کے علماء کو بھی دعوت دیں۔ محمود خان اچکزئی کو میں اپنے بڑے بھائی کا کلاس فیلو ہونے کی وجہ سے اپنے سگے بھائی کا درجہ دیتا ہوں۔ سیاسی پارٹیوں کے اختلافات اپنی جگہ لیکن اسلام کی بنیاد پر جو معاشرتی مسائل حل ہوسکتے ہیں اس کیلئے پہل کرنے سے ایک اچھی فضاء قائم ہوجائے گی۔ اگر اتفاق رائے کے بعد مدارس، سکول، کالج ، یونیورسٹی اور مذہبی جماعتوں میں خواتین کے حقوق واضح کئے گئے تو ہمارا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔ آرمی چیف ان مسائل پر علماء ومفتیان کے ذریعے قوم کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔محمود خان اچکزئی کے بھائی حامد خان اچکزئی نے ایک تقریب خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انگریز کے دور میں جو غلامی بلوچستان پر مسلط تھی اور عبد الصمد خان اچکزئی نے جس طرح کی آزادی کیلئے محنت کی تھی اس کی ایک تاریخ ہے۔ جب انہوں نے سندھ ،پنجاب وغیرہ کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ لوگ آزادانہ تقاریر کرتے ہیں اپنے حقوق کا مطالبہ بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں آزادی کی یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے مسجد میں قرآن کا ترجمہ شروع کردیا۔ انگریز افسرنے کہا کہ مجھے اوپر سے آرڈر ہے کہ اس قسم کی سرگرمیوں سے آپ کو روکوں۔ انہوں نے کہا کہ یہ میرا مذہب ہے اور اپنے مذہب سے روکنا تمہارا کام نہیں ہے۔ انگریز نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے میں بھی آپ کی جگہ ہوتا تو یہی سوچتا لیکن مجھے روکنے کا ہی حکم ہے۔ مساجد میں قرآن کا ترجمہ کرنا مولوی اور مذہبی طبقے کا کام ہے۔ مذہبی طبقہ بھی انہی کے حکم سے چلتا تھا۔ جب پاکستان آزاد ہوا تو ہم نے ووٹ کا حق مانگا اور اس پر ہمیں کافر قرار دیا گیا۔ آج مسلم لیگ اور جمعیت علماء ہم پر غداری و کفر کے فتوے نہیں لگاتے اور ہماری راہ پر آئے ہیں تو ہم نے ٹھیک اتحاد کیا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv