zarbehaq, Author at ضربِ حق - Page 5 of 39

پوسٹ تلاش کریں

خالد خان مروت کااحتجاج رنگ لایا

خالد خان مروت کااحتجاج رنگ لایا

ویلی کونسل ناظم خالد خان مروت عمر خیل ضلع ٹانک نے یہ احتجاج نوٹ کراتے ہوئے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ اسلحہ اٹھاؤ مگر ہم کس لئے اسلحہ اٹھائیں۔ تنخواہیں سیکورٹی فورسز کو ملتی ہیں اور جب ان سے ہم کہتے ہیں کہ مسلح افراد کے خلاف کاروائی یا کوئی طریقہ کریں تاکہ وہ یہاں سے چلے جائیں تو جواب نہیں دیا جاتا اور پھر اچانک لڑائی میں عوام ماری جاتی ہے۔ یہ احتجاج عمر اڈہ ٹانک میں کچھ بے گناہ افراد کے مارے جانے پر ہوا تھا جس کی قیادت صدر بیٹنی اتحاد مولانا نقیب اللہ نے کی تھی اور کہا تھا کہ فوج اور طالبان آبادیوں کو میدان جنگ نہ بنائیں۔ اگر کافر بھی مظلوم ہو تو اس کا ساتھ دینے کا اسلام حکم دیتا ہے۔
خالد خان کے فوجی قیادت کیساتھ کامیاب مذاکرات پر عبد اللہ ننگیال و دیگر مہمانوں کا وقت پر ساتھ دینے کیلئے شکریہ ادا کیا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مسلح افراد کیلئے کبھی احتجاج نہیں کیا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

مسلح افراد کیلئے کبھی احتجاج نہیں کیا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

اسلام آباد میں دھرنے میں شریک لواحقین کے4لاپتہ افراد کو مچھ واقعہ کے بعد زندان سے نکال کر قتل کردیا گیا
ریاست پرامن جدوجہد کا راستہ اپنانے والے بلوچوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ناکام کرنا چاہتی ہے

معزز صحافی حضرات ! آپ اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ گذشتہ دو مہینے سے زائد عرصے تک بلوچستان انسانی حقوق کی سنگین پامالی بلوچ نسل کشی جس میں سر فہرست ہے۔ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کیخلاف کیچ سے دھرنے کی شکل میں اسلام آبادکی طرف مارچ کیا بلوچستان کے ہر شہر اور گاؤں سے ہزاروں لوگوں نے ریاستی ظلم کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیااور سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ بلوچ عوامی رد عمل کے باوجود ریاست بلوچستان میں اپنی پالیسیوں میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کیلئے تیار نہیں۔ لانگ مارچ میں سینکڑوں لاپتہ افراد کے لواحقین نے اس امید اور بھروسے پر لانگ مارچ میں حصہ لیا کہ انکے پیاروں کو فیک انکاؤنٹر میں قتل نہیں کیا جائے۔ بدقسمتی سے ریاست ظالمانہ پالیسی کو جاری رکھنے کی خواہش رکھتی ہے۔ حالیہ مچھ واقعہ میں جس طرح زندان سے لاپتہ افراد کو نکال کر قتل کیا گیا یہ ظلم اور جبر کی انتہاء ہے۔ ریاست مسلح افراد کی کاروائیوں کا جواز بنا کر لاپتہ افراد کو قتل کرکے غیر انسانی عمل کا ارتکاب کررہی ہے۔ ریاست نے جھوٹے بیانئے پر بلوچ نسل کشی جاری رکھی ہے کہ لاپتہ افراد پہاڑوں پر ہیں۔ لیکن حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔ جو لوگ مسلح لڑائی لڑ رہے ہیں ان کیلئے کبھی بھی لاپتہ افراد کے لواحقین نے احتجاج نہیں کیا ریاست مسلح جدوجہد کا جواز بناکر جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کا قتل عام کررہی ہے اور قتل عام کو جھوٹے بیانئے کے ذریعے متنازع بنارہی ہے۔ لیکن ہم ریاست پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے پر ہم کسی بھی صورت خاموشی اختیار نہیں کریں گے۔
مچھ واقعہ میں جتنے مسلح افراد شامل رہے ہیں ان میں سے کسی ایک کا نام بھی لاپتہ افراد کی لسٹ میں شامل نہیں۔ اور ناہی ان کے خاندان نے ان کے جبری طور پر گمشدہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ریاست روزانہ کی بنیاد پر درجنوں افراد اٹھاتی ہے۔ انہیں دو مہینے چار مہینے حتیٰ کہ کئی کئی سالوں تک خفیہ زندانوں میں رکھا جاتا ہے۔ اور بعد ازاں انہیں رہائی حاصل ہوتی ہے۔ جن کی خبریں میڈیا اور لواحقین کی جانب سے آتی ہیں۔ ان افراد کی تعداد اندازاً لاکھوں میں ہوگی۔ ہمارا اصولی مؤقف قائم ہے کہ جبری گمشدگی اقوام متحدہ سمیت ازخود پاکستان کے اپنے آئین اور قانون کے مطابق سنگین جرم ہے۔ اگر ریاست کسی کو مجرم سمجھتی ہے یا کوئی الزام ہے تو عدالتیں موجود ہیں۔ ملکی قوانین کے تحت انہیں پیش کیا جائے تاکہ عدالتیں اور قانون فیصلہ کریں کہ یہ لوگ بے گناہ ہیں یا مجرم ہیں۔ اگر کوئی بھی جرم ثابت ہوتا ہے تو انہیں سزا دینے کیلئے عدالتیں موجود ہیں۔ لیکن غیر قانونی طور پرلوگوں کو جبری گرفتار کرکے انہیں مہینوں اور سالوں خفیہ زندانوں میں قید رکھنا اور کسی بھی مسلح کاروائی کے رد عمل میں جبری گمشدگی کے شکار افراد کو حراست سے نکال کر قتل کرنا انسانیت کی دھجیاں اڑانے اور ریاستی قانون اور آئین کو توڑنے کے مترادف ہے۔ مچھ واقعہ کے بعد پانچ میں سے چار لاشوں کو ان کے لواحقین نے شناخت کیا ہے۔ جو پہلے سے ریاستی اداروں کے پاس جبری گمشدہ تھے۔ ایک لاش کا ہمیں خطرہ ہے کہ وہ بھی جبری گمشدگی کا شکار فرد ہی ہے۔ جن کی شناخت ہوگئی ہے ان میں بشیر احمد مری ولد حاجی خان اور ارمان مری ولد نہال خان مری جنہیں2جولائی2023کو اٹھایا گیا، تیسراصوبیدار ولد گلزار خان ہرنائی بازار سے9ستمبر2023کو جبری طور پر گمشدہ کیا گیا تھا۔ ان تینوں لاپتہ افراد کے لواحقین نے اسلام آباد دھرنے میں شرکت کرتے ہوئے بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔ اور چوتھی لاش کی شناخت شکیل احمد ولد محمد رمضان سکنہ زہری سے ہوئی ہے۔ جن کی شناخت ان کے خاندان نے کی۔ خاندان کے مطابق4جون2023کو جبری گمشدہ کیا گیا تھا۔ جن لواحقین کے افراد نے دھرنے میں شرکت کرکے بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔ آج وہ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے آئے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ریاست بلوچستان میں پرامن جدوجہد کی تمام راہیں بندکرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ لوگ ریاست سے مایوس ہوں۔ جبکہ دوسری جانب سول ہسپتال میں لائی گئی لاشوں کیلئے آنے والے خاندانوں کو ذہنی کوفت سے گزارا گیا وہ قابل افسوس ہے۔ آج بلوچستان میں ریاست کے حوالے سے بڑھتی مایوسی کی ذمہ دار ریاستی ادارے ہیں۔ جو مسلسل غیر قانونی اور غیر انسانی کاروائیوں سے خوف پیدا کرنے میں لگے ہیں۔ ارمان مری اور بشیر مری اور صوبیدار کے لواحقین اس امید سے اسلام آباد آئے تھے کہ انہیں اس ریاست سے انصاف ملے گا جو کہ ہر شہری امید رکھتا ہے۔ لیکن انصاف کے بجائے انہیں انکے بچوں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں۔ جبکہ ایک لاش اتنی مسخ کی گئی کہ اس کی شناخت نہیں ہوپارہی ہے۔ جو بلوچ دشمنی اور بلوچوں سے نفرت کی واضح مثال ہے۔ جن پانچ لاشوں کو کل سول ہسپتال کوئٹہ لایا گیا تھا ان کے حوالے سے ریاستی ادارے یہ جھوٹا بیانیہ قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ پانچ افراد مسلح تھے جو اس واقعہ میں مارے گئے ہیں۔ لیکن ریاست اس چھوٹی سے بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ جھوٹے بیانئے بنانے سے ریاست اپنے ظلم اور جبر کو چھپا نہیں سکتی۔ ان خاندانو ںکو اپنے بچوں کی لاشو ںکو لینے کیلئے ایک غیر قانونی فارم زبردستی دستخط کرنے کیلئے دیا جارہا ہے۔ جن میں زبردستی ان کے بچوں کو دہشت گرد ثابت کیا جارہا ہے۔ لہٰذا جن جبری گمشدگی کے شکار افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا انکے خاندان کسی صورت غیر قانونی فارم پر دستخط نہیں کریں گے۔ جبکہ ہم ایک مرتبہ پھر دنیا پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں اس وقت بلوچ قوم کی نسل کشی جاری ہے اور اس میں روز بروز شدت لائی جارہی ہے۔ لاپتہ افراد کو پھر جعلی مقابلوں میں قتل کرکے ریاست نے پیغام دیا ہے کہ وہ بلوچستان میں اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرے گی۔ ہم اقوام متحدہ سمیت ہیومن رائٹس اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ان واقعات کا نوٹس لیں۔ جبکہ بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے لوگوں کی جبری گمشدگیوں پر خاموشی کے بدلے سیاسی جدوجہد کی راہ اپنائے۔ اور ہم اس پریس کانفرس کے ذریعے بلوچستان کی کوئٹہ کی عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد سول ہسپتال پہنچیں اور جو لاپتہ افراد کے لواحقین اتنے عرصے سے درد اور کرب میں مبتلا تھے جن کے پیاروں کی لاشیں یہاں پر پھینکی گئی ہیں ان لاشوں کو ان لاپتہ افراد کے لواحقین کوہینڈ اوور کرنے میں ان کی مدد کریں۔
ایک صحافی کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ یہ لاپتہ افراد کے لواحقین آج نہیں تو کل اپنی لاشیں یہاں سے لیکر جائیں گے پیچھے جو رہ جائیں گی وہ صرف نفرتیں ہوں گی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

لشکر ساتھ تھا تو خاور کی بیگم چھین لی تعلق خراب ہوا تواپنی بیگم چھن گئی؟کیا تأثر پھیل رہاہے؟

لشکر ساتھ تھا تو خاور کی بیگم چھین لی تعلق خراب ہوا تواپنی بیگم چھن گئی؟کیا تأثر پھیل رہاہے؟

کہ اللہ دسرہ مل نہ وی رحمانا کہ لشکرے دسرہ وی یک تنہا یے (رحمان بابا)ترجمہ : اگر اللہ ساتھ نہ ہو اے رحمان تو لشکربھی ساتھ ہوں گے تو اکیلے ہو!
کہ لشکر در سرہ مل نہ وی عمرانا کہ خلق در سرہ وی یک تنہایے ترجمہ: اگر لشکر ساتھ نہ ہو اے عمران ! تو اگر عوام ساتھ ہوں گے پھر بھی تم اکیلے ہو!

عمران خان و بی بی کو عدت میں نکاح پر سزاہوئی ؟ بنیاد یہ ہے کہ خاور مانیکا نے کہا کہ اس کا حق رجوع کا حق مجروح ہوا۔ حالانکہ خاور مانیکا نے بشریٰ کے کہنے پر خلع دیا ۔ خلع میں شوہر کو رجوع کا حق نہیں ۔عدت بھی ایک ماہ ہے۔ طلاق میں بھی شوہرعورت کی رضا کے بغیر رجوع نہیں کرسکتا لیکن فقہاء نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو روند ڈالا۔ اگرمولانا فضل الرحمن، مفتی تقی عثمانی، مفتی سعیدخان اور تمام فرقوںکے علماء ومفتیان کو حافظ عاصم منیر کورکمانڈرز کانفرنس میں بلالیں تو خواتین سے زیادتی رک جا ئے گی۔ عورت کو قرآن وسنت نے یہ واضح حق دیا کہ عدت میں اس کی مرضی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا تو جج نے کس طرح5سال بعد شوہر کا حق رجوع کو تسلیم کرکے نکاح کو ناجائز قرار دیا؟۔یہ عمران خان کا نہیں بلکہ قرآن وسنت، انسانیت اور امت کا مسئلہ ہے۔یہ ریاستی منہ پربہت بڑا طمانچہ ہے کہ کس کس طرح اپنے معزز شہریوں سے انتقام لیتی ہے؟۔
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی اندھے کو اندھیرے میں بڑی دُور کی سوجھی

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کیا قرآن و سنت کے مطابق آئین سازی اسلئے نہیں ہوسکی کہ مدارس نے معاملہ بگاڑا ہے؟

کیا قرآن و سنت کے مطابق آئین سازی اسلئے نہیں ہوسکی کہ مدارس نے معاملہ بگاڑا ہے؟

اللہ نے فرمایا: ”اپنے یمین کو ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔آیت224البقرہ۔قرآن نے صراط مستقیم عطاء کی مولوی نے برج اُلٹ دیا؟
نیکی کرنا توبڑی قربانی ہے۔تقویٰ اختیار کرنا بھی بڑی تربیت مانگتا ہے لیکن لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں کوئی مشکل نہیں اور قرآن کو بالکل الٹا پیش کرکے صلح پر پابندی کا ذریعہ بنایا گیا!

آئین کہتا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ رب العالمین کی ہوگی ، اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، تمام قوانین قرآن اور سنت کے تابع ہوںگے، قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنے گا، پھر1973سے لیکر آج تک کوئی قانون سازی ہوئی کیوں نہیں؟۔ اسلئے کہ ایوانوں کو ایسے لوگوں سے بھردیا جاتا ہے کہ جن کو قرآن و سنت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ لہٰذا ہمیں اس رُخ پر بھی سوچنا ہوگا۔ اس پہلو کو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ ہمارے ملک کا ایک قومی المیہ ہے آج تک جس کا ہم سامنا کررہے ہیں۔ جس کو ہم اہمیت نہیں دینا چاہتے۔ تو یہ چیزیں مد نظر رہیںآپکے۔ قائد جمعیت علماء اسلام حضرت مولانا فضل الرحمن

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے ٹھیک کہا ہے کہ1973کے آئین کے بعد ایسے لوگ پارلیمنٹ میں نہیں لائے گئے جو قرآن وسنت کے مطابق آئین سازی کو یقینی بناتے۔قومی اتحادجمع تحریک نظام مصطفی ۖ، ضیاء الحق کا اسلامی ریفرینڈم، اسلامی جمہوری اتحاد،اسلامی جمہوری محاذ اور اسلامک فرنٹ سے لے کر متحدہ مجلس عمل اور عمران خان کے ریاستِ مدینہ و جنرل سید حافظ منیر کی طرف سے قرآنی آیات کے حوالے دینے تک عوام سب پر اپنا اعتماد کھوچکے ہیں۔
قرار داد مقاصد سے پاکستان کا مطلب کیا ؟لاالہ الا اللہ ! اور پاکستان دولخت ہونے تک دھوکہ بازی کے سیاہ دھوئیں ہی نظر آتے ہیں۔ کیا انگریز کی آمد سے پہلے اورنگزیب مغل بادشاہ کے دور میں جن500علماء نے فتاوی عالمگیریہ مرتب کیا تھا تو وہ قرآن وسنت کے مطابق تھا؟۔جس پر شاہ ولی اللہ کے والد شاہ عبدالرحیم نے مہر تصدیق ثبت کی تھی؟۔ جس میں بادشاہ پر قتل ،زنا،چوری اور ڈکیتی کی کوئی سزا نہیں ہے؟۔ جیو ٹی وی پر سلیم صافی نے اپنے جرگہ پروگرام میں مفتی عبدالرحیم کو بڑاہی مستند ومعتبر بناکر پیش کیاتھا جس نے یہ شریعت بھی واضح کردی کہ حجاج بن یوسف نے لاکھوں بے گناہ لوگوں کوقتل کیا مگر اسکے خلاف بھی بغاوت جائز نہیں تھی؟۔ حالانکہ امام ابوحنیفہ نے یہ واضح کیا تھا کہ بنوامیہ کے ظالم حکمرانوں سے جہاد ایسا ہے جیسے نبی ۖ نے بدر میں مشرکینِ مکہ کے خلاف جہاد کیا تھا۔جب امام زید نے خروج کیا تھا تو امام ابوحنیفہ نے اس کو شریعت کے منافی نہیں قرار دیا تھا بلکہ کامیابی کی امید نہیں تھی۔یزید کے خلاف امام حسین کا قیام خلاف شریعت نہیں تھا لیکن کوفیوں سے وفا کی امید نہیں تھی۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل نے کتاب ” شہید اہل بیت امام ابوحنیفہ” لکھ کر شائع کی ہے۔
درباری مولوی بے چارہ توہمیشہ طاقتور کیساتھ ہی رہاہے اور اگر یزید کے مقابلے میں امام حسین کی فتح ہوتی تو یہ خوف تھا کہ مولوی شیعہ بن کر حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور امیر معاویہ کی خلافت وامارت کو بھی باطل قرار دیتا۔ شیعہ سنی فرقے اللہ نے نہیں بنائے ہیں بلکہ شیعہ سنی علماء نے پیٹ کیلئے بنائے ہیں۔
جب بنوامیہ کا تخت الٹ دیا گیا تو علماء ومفتیان نے فتویٰ دیا کہ خلافت بنو عباس کا حق ہے اسلئے کہ حضرت عباس نے ہی اسلام قبول کیا تھا،نبی ۖ کے چچا ابوطالب نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔چچا کی موجودگی میں چچازاد بھائی حضرت علی اپنے نبی ۖ کی وراثت کا حقدار نہیں تھا۔ لہٰذا علی کی اولاد سے زیادہ چچا عباس کی اولاد خلافت کی حقدار ہے۔ ایک طویل عرصہ تک فقہ کی دنیا پر بادشاہت کرنے والے عباسی خلفاء کو سادات سے نفرت دلانے کیلئے فتوے دیتے رہے۔ حالانکہ پھر تو فتوے کی زد میںوہ خلفاء راشدین اور بنوامیہ کے حکمران بھی آرہے تھے جو نہ چچا تھے ، نہ چچازاد اور نہ ان کی اولاد؟۔ بنگلہ دیش میں جتنے بنگالی مفتی تقی عثمانی ومفتی رشیداحمد لدھیانوی کے قبیلے یا مسلک سے ہیں ان سے فتویٰ پوچھ لیا جائے کہ بنگال کا پاکستان سے آزادی حاصل کرنا درست تھا تو جواب دیں گے کہ بڑا جہاد تھا! اور پاکستانی علماء ومفتیان اس کو بغاوت اور ناجائز کہیں گے۔
ان سے فتویٰ پوچھا جائے کہ خاور مانیکا سے ریاست نے بیوی چھین کر عمران خان کیساتھ عدت میں بیاہ دی تو فتوی دیں گے کہ اگر بشریٰ بی بی کی رضانہ ہو تو بھی ریاست نے یہ ٹھیک کیا ہے اور اب شریعت کے مطابق عمران خان کاہی اختیار ہے۔ جبری نکاح کے جواز سے ان کے فتاویٰ بھرے پڑے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے خلاف جب فتویٰ لگتا تھا تو فتوے کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھنے کی بات کرتے تھے۔جب مولانا فضل الرحمن کی حیثیت کمزور تھی توفتوے لگتے تھے اور مولانا بھی سودی زکوٰة کو شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل قرار دیتا تھا۔ اب تو اسلام کے نام پر سودی بینکاری کو جواز بخش دیاہے اسلئے کہ غیبی مدد سے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی صفوں میں تگنی کا ناچ اپنی جماعت کوبھی نچارہاہے۔اسلامی سود، اسلامی ناچ اور اسلامی جاگیرداری سب کچھ دنیا میں رائج ہورہاہے۔ پہلے سے ہی آوے کا آوا بہت بگڑا ہواہے جس سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔
سورہ بقرہ کی آیات224سے232میں تک ہدایت کا وہ نور ہے جس کی طرف امت نے اگر توجہ کرلی تو ایک ہی دن میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں عظیم انقلاب آسکتا ہے۔ آیت نمبر224البقرہ میں تین بنیادی باتیں ہیں:
نمبر1:اللہ کو ڈھال مت بناؤ کہ تم نیکی نہ کرسکو۔ نیکی کرنا تو بہت بڑے درجے کی فضیلت ہے لیکن اس میں بہت قربانی کا بھی معاملہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق اکبر کے رشتے دار مسطح نے حضرت عائشہ پر بہتان لگایا تو حضرت ابوبکر نے یہ عہدکرلیا کہ آئندہ اس پر احسان نہیں کروں گا۔ اللہ نے قرآن کی سورہ نور میں آیت نازل فرمائی کہ ”تم میں سے جو مالدار ہیں وہ یہ عہد نہ کریں کہ وہ مستحق لوگوں کیساتھ احسان نہیں کریں گے”۔
حضرت ابوبکر کی طرف سے نیکی کرنا پہلے بھی بڑی بات تھی اور پھر بہتان عظیم کے باوجود بھی نیکی کرنا بہت بڑی قربانی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے حکم واضح کیا کہ تمہارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ نیکی کرنے سے ہاتھ روک لو۔ نیکی ہر میدان میں اللہ نے دشمنوں کو معاف کرنے سے لیکر ہرسطح پر جاری رکھی ہے اور اس کی ایک بڑی مثال یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ ۖ کی طرف سے واضح حکم آیا کہ چار افراد کا قتل مباح ہے۔اگرچہ وہ خانہ کعبہ کے غلاف میں چھپ کر پناہ لیں تب بھی قتل کریں۔ ان میں ایک وحی کا کاتب مرتد بن گیا تھا۔حضرت عثمان نے اس کو چھپایا اور نبی ۖ کی خدمت میں معافی کی درخواست کی تو نبی ۖ نے چہرہ انور پھیر لیا۔حضرت عثمان نے پھر آکر دوسری مرتبہ درخواست کی تو نبی ۖ نے پھر دوسری طرف منہ مبارک پھیر لیا۔ پھر حضرت عثمان نے اس طرف درخواست کی تو نبی ۖ نے تیسری مرتبہ معاف فرمادیا اور لوگوں سے فرمادیا کہ تم لوگوں نے میری بات کو سمجھ کر معاف کرنے سے پہلے قتل کیوں نہیں کیا؟۔ مرزا محمد علی جہلمی ایک مخصوص ماحول کی پیداوار ہے اسلئے اس واقعہ کو اس انداز میں بیان کیاکہ جیسے حضرت عثمان نے کوئی بڑی گستاخی کا ارتکاب کیا ہو؟۔ حالانکہ حضرت عثمان کیلئے یہ بہت بڑے اعزاز کی تھی۔ یہ نبی ۖ رحمت للعالمین تھے اور اس واقعہ سے دشمنان رسول ۖ بھی نبی کی اس عظیم صفت پر ایمان لاسکتے تھے۔ ابوجہل کا بیٹا حضرت عکرمہحالت کفر میں بھی نبی ۖ کی اس صفت پر ایمان لایا تھا۔ہند نے بھی یہ صفت دیکھ لی۔ نیکی کرنا مشکل کام ہے لیکن اللہ نے اس کا راستہ نہیں روکا ہے اور یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔
نمبر2:سورہ بقرہ کی آیت224میں دوسری بات تقویٰ اختیار کرنے سے نہ رکنے کا حکم ہے۔ تقویٰ اختیار کرنا بھی بڑا مشکل کام ہے۔ جب حضرت یوسف کے پیچھے عزیز مصر کی بیوی زلیخا پڑگئی تو حضرت یوسف نے فرمایا کہ اگر میرے رب کی طرف سے برھان نہ ہوتی تو میں اپنے آپ کو نہیں بچاسکتا تھا۔ رشوت، حرام ، جنسی خواہشات سے بچنے کیلئے انسان کو حد درجہ تعلیم وتربیت اور اچھے ماحول کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حواء کو جنت میں تمام چیزیں اپنی خواہشات کے مطابق کھانے پینے کی اجازت دی لیکن شجرہ ممنوعہ سے روک دیا تھا۔ فرمایا:لاتقربا ہذہ الشجرہ فتکونا من الظالمین ” اس درخت کے قریب نہ جاؤپھر تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے”۔ پھر شیطان نے ان دونوں کو ورغلایا ۔ تقویٰ اختیارکرنا بھی بہت مشکل کام ہے۔جہاں برائی کے مواقع ہوں اور آدمی تقویٰ اختیار کرے تو یہ بھی عظیم لوگوں کی بڑی عظمت ہے۔ اس کیلئے زبردست اچھے ماحول کی بہت ضرورت ہے۔ اچھی تعلیم وتربیت کے بغیر تقویٰ اختیار کرنا بہت مشکل کام ہے۔مدارس و خانقاہوں کے ماحول میں بھی تقویٰ اختیار کرنا بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بہت ساری آیات میں تقویٰ کی تعلیم دی ہے۔ جب تک دنیا و آخرت میں سخت مواخذے کا خوف نہ ہو تو تقویٰ اختیار کرنا بہت بڑی بات مگر مشکل کام ہے۔
نمبر3:سورہ بقرہ کی آیت224میں تیسری بات یہ ہے کہ اللہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کرکے لوگوں کے درمیان صلح میں رکاوٹ مت ڈالو۔ ان آیات کا اصل موضوع یہی ہے۔
پل صراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بال سے باریک ہے ، تلوار سے تیز ہے اور پانی سے نرم ہے۔5سو میل چڑھائی ہے،5سو میل سیدھا ئی ہے اور5سو میل اترائی ہے۔ مفتی منیر شاکر نے اس پر ایک وزیرستانی کالطیفہ بھی سنادیا ہے۔آخرت کو چھوڑ دو۔قرآن کی ان آیات میں بھی پل صراط کا منظر ہے۔
آیات224سے232البقرہ اور سورہ طلاق میں بھی دو باتوں کی وضاحت ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر میاں بیوی صلح کیلئے راضی ہوں تو اللہ تعالیٰ نے انکے درمیان صلح میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی ہے۔ بجلی کے کرنٹ کی طرح دنیا اس پل صراط پر گزر جائے گی مگر جس نے مفتی کا کورس کیا ہوگا وہ اس سے قطعی طور پر بھی نہیں گزر سکے گا اسلئے کہ اسکے دل اور دماغ پر فتاویٰ شامیہ وغیرہ کی وہ چھاپ لگی ہوگی جس نے اس کی انسانی صلاحیتوں کو زنگ لگادیا ہوگا۔ پنج پیری مزاج کاانسان قرآن کی رٹ لگائے گا مگر قرآن میں حضرت خضر، حضرت عیسیٰ ، حضرت ابراہیم اور نبی ۖ کا واقعہ معراج اس کے دماغ میں کبھی نہیں اتر سکے گا۔ اگر قرآن و سنت کا حوالہ دئیے بغیر اس کا تذکرہ ہوگا تو اس کو عقل، دل اور شریعت کے منافی لگے گا۔ بھیا ڈھول کی تھاپ پر جتنا چاہو ، دوسرے پر شرک وکفر کا فتویٰ لگاؤ لیکن طلاق کا مسئلہ تو سمجھ لو۔ فتاویٰ شامیہ میں تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے تو پھر تمہارے لئے تو پنجاب کی شلوار بابا والی سرکار بھی معتبر ہونا چاہیے۔ فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ شامیہ سے بڑھ کر اور کیا گمراہی ہوسکتی ہے کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے تک جائز قرار دے دیا۔ مفتی تقی عثمانی کو تو ہم نے تائب کرادیا لیکن مفتی سعید خان نے ریاست مدینہ سرکار کا نکاح پڑھایا تھا وہ تو اتنا بڑا جرم تھا یا نہیں؟۔ لیکن اپنی کتاب ”ریزہ الماس” میں جو فتاویٰ قاضی خان کی بات کو درست قرار دیا ہے کہ سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے؟۔ اسکا کالیا سرکار کے پاس جواب ہوگا؟۔ فقہی مسائل صراط مستقیم ہیں یا پل صراط کی گمراہانہ پگڈنڈیاں؟ جبکہ ” اللہ میاں بیوی کے درمیان صلح کی راہ میں رکاوٹ ہی رکاوٹ ہے”۔ حالانکہ اللہ نے موٹر وے سے زیادہ واضح کردیا ہے کہ یہ مذہبی فتویٰ نہیں ہوسکتا ہے کہ میاں بیوی صلح کرنا چاہتے ہوں اور مفتی مذہب کے نام پر ان میں کوئی رکاوٹ کھڑی کردے۔ یہی نیکی اور تقوے کا تقاضہ بھی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان کوئی بھی رکاوٹ نہ کھڑی کی جائے ۔ اسلامی مدارس میں قرآن کی اس صراط مستقیم اور موٹر وے کے خلاف سب سے زیادہ گمراہی کے فتوے اسی سلسلے میں ہی دئیے جاتے ہیں جن پرآخر میںو اللہ اعلم بالصواب بھی لکھاجاتا ہے۔یعنی اس پل صراط پر ظن وتخمین سے یہ سبھی چلتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے دوسری بات یہ واضح کردی ہے کہ اگر عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو پھر شوہر کو صلح کرنے کا کوئی اختیار نہیں ۔ آخری حد تک زبردست وضاحتوں کے باوجود بھی پل صراط کی یہ چڑھائی مفتی صاحبان کی سمجھ میں نہیں آئی ہے۔اسلئے جج کی طرف سے فیصلہ آ گیا ہے کہ5سال پہلے عدت میں خاور مانیکا کا استحاق مجروح ہوا تھا اور بشریٰ بی بی نے عمران خان سے جو نکاح کیا تھا تو اس میں اس نے تین طلاقیں نہیں دی تھیں اسلئے اس کو رجوع کا حق تھااور اس حق کی وجہ سے معزز عدالت نے بھی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے۔ جس میں دونوں کو7،7سال قید اور5،5لاکھ جرمانے کی سزا ہوئی ہے۔ فقہ حنفی میں حدیث صحیحہ کے خلاف عورت کی عدت خلع میں بھی3مہینے ہے۔ خاور مانیکا نے جو تحریری طلاق دی تھی تو اس میں ایک ماہ سے زیادہ مگر3بلکہ2ماہ سے بھی کم مدت گزری ہے۔ تحریری طلاق میں3طلاق کے الفاظ نہیں جس کی وجہ سے عدت میں خاور مانیکا کو رجوع کا حق تھا۔ جج نے اسلئے نہ صرف خاور مانیکا کے استحقاق کو مجروح قرار دیا ہے بلکہ عدت میں نکاح پر سزا اور جرمانہ بھی عائد کردیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے درست کہا ہے کہ1973کے آئین کے مطابق قرآن و سنت کی قانون سازی ضروری تھی۔ جو اسلئے نہیں ہوسکی کہ پارلیمنٹ میں ایسے لوگوں کو لایا جاتا ہے جو قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کو ترجیحات میں نہیں رکھتے۔ اگر فقہ حنفی کے مطابق قانون سازی ہو تو پارلیمنٹ میں علاج کیلئے سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا بل بھی پاس ہوسکتا ہے۔ مولوی کا نصاب بذات خود قرآن و احادیث سے بالکل متصادم ہے تواس کے مطابق قانون سازی نہیں ہوسکتی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کی سرپرستی میں قرآن و سنت کی درست تشریح کیلئے ایک لائحہ عمل تشکیل دیا جائے تو نہ صرف مدارس کے نصاب میں خوشگوار تبدیلی آئے گی بلکہ پوری دنیا پر اس کے زبردست مثبت اثرات پڑیں گے۔ میاں بیوی کیلئے یہ فتویٰ بالکل عام ہوجائے گا کہ ناراضگی کے بعد طلاق رجعی کا کوئی تصور نہیں ہے اور اگر میاں بیوی راضی ہوں تو طلاق مغلظہ اور طلاق بدعت کا کوئی تصور نہیں ۔ جب میاں بیوی کیلئے صلح کے دروازے قرآن نے کھول رکھے ہیں اور مولویوں نے بند کردئیے ہیں تو دوسرے انسانوں اور مخلوقات پر بھی صلح کے دروازے بند کئے گئے ہیں۔ قوم پرستوں اور طالبان کے ساتھ بھی صلح کی ر اہیں ہموار ہوں گی اور پڑوسی ممالک ہندوستان، ایران، افغانستان، چین، سعودی عرب، عمان اور دوبئی وغیرہ کے ساتھ بھی مثالی تعلقات قائم ہوں گے۔ پاکستان میں سونے کے بیش بہا خزانے ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان کے اندر سیندک ، ریکوڈک سے بھی بہت بڑا ذخیرہ ایران کی سرحد پر دریافت ہوا ہے۔ اس طرح وزیرستان میں سونے اور تیل و گیس کے بڑے ذخائر ہیں۔ مذہبی اور لسانی تعصبات انسانیت کو نگلنے کا شیطانی منصوبہ ہے۔ سلال بلوچ کا تعلق پنجگور بلوچستان سے تھا۔ جس نے بیرون ملک اپنی نوکری چھوڑ کرBLAمجید بریگیڈ کے فدائین میں حصہ لیا۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا اور بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ وصیت کی تھی کہ مجھ پر شہادت کے بعد کوئی غم نہ منایا جائے۔ اسکی والدہ اور بہنوں نے کتنے بڑے دل کیساتھ اس کی وصیت پر عمل کیا ہوگا؟۔ ہمارے خانقاہ کے امیر شفیع محمد بلوچ نے اپنے بیٹے سے معاہدہ کیا تھا کہ ایک دوسرے کی میت کو غسل دیں گے۔ بیٹا ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہوا اور باپ نے جب میت کو غسل دیا تو شاید ان کا دل پھٹ گیا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا تھا کہ اگر ہماری مذمت سے کام چلتا ہے تو کردیتے ہیں اور بہت لاشیں اٹھاچکے ہیں اب مزید لاشیں اٹھانے کو ختم کرنا ہوگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

وزیرستان کو ڈویژن بنادو اور کانیگرم جنوبی وزیرستان کو اس کا مرکز

وزیرستان کو ڈویژن بنادو اور کانیگرم جنوبی وزیرستان کو اس کا مرکز

ملک ربنواز نے چھڑی لہرا کر کہا کہ ہم اسکے ساتھ لڑ نہیں سکتے ہیں خود کو قتل کیلئے پیش کریں گے،30ہزار مریں تو ختم نہیں ہونگے!
بیٹے کو20لاکھ میں خودکش کیلئے بیچ دینا اتنی بڑی بے غیرتی نہیں جتنی اپنی بیٹی پر نکاح کے نام پر لینا مگر عرب اور پشتون نہیں سمجھتے

ڈاکٹرماہ رنگ بلوچ کو امید ہے کہ دنیا اُٹھے گی اور بلوچ پر ہونے والے مظالم کو روکنے کا اقدام اٹھائے گی لیکن ہمارے حکام انہی کے تو پروردہ ہیں۔ شمالی وزیرستان اتمانزئی وزیر کے قبائلی ملک حاجی ربنواز نے جو گفتگو کی ہے وہ بھی جان پر کھیلنے کی مجبوری کی یہ بات کررہے ہیں کہ ”ہمارے ساتھ دھوکہ مت کرو، ہم نے تمہاری بادشاہی مان لی ، تمہیں مسلمان سمجھا ، ہم تمہیں برا بھی نہیں کہتے لیکن ہمارے ساتھ مسلمان بن کر چلو، دھوکہ نہ دو، جتنے وعدے تم نے کئے کوئی پورا نہیں کیا۔ لاٹھی کے سوا لڑنے کیلئے ہمارے پاس کچھ نہیں لیکن ہم جانوں کو قربانی کیلئے پیش کرسکتے ہیں۔30ہزار مرینگے تو کم نہیں ہوں گے”۔طالبا ن ایک حقیقت ہیں تو علاج کیا ہے؟۔
وزیرستان کا امن اتنا مثالی تھا کہ پاکستان کے عام علاقے اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ بدامنی آئی جس کی مثال بلوچستان سمیت کہیں پر نہیں۔ وزیرستان کا مسئلہ طالبان اور فوج حل نہیں کرسکتے۔ کانیگرم کی سب سے قیمتی زمین کچھ لوگوں سے دستخط کرا کر پاک فوج کو دی۔ اب فوج نے مقامی باشندوں کو عارضی نقل مکانی کراکے اپنے قلعے تعمیر کرنا شروع کردئیے ہیں ۔ اگر پاک فوج مہربانی کرے اور دی ہوئی زمین بھی واپس کردے اور اس پر ایک زبردست ائیر پورٹ بنایا جائے ۔ پھر کانیگرم سے لدھا تک کی زمین سرکاری عمارات کمشنر آفس،گھر اور دیگر اداروں کے افسروں کے دفاتراور گھر تعمیرکئے جائیں تو کلاس فور کی نوکریوں سے بھی بے روزگار طالبان باروزگار بن جائیں گے۔ میرانشاہ کے گیس کو بھی عوام اور سرکاری لوگوں کی خوشحالی کیلئے انگور اڈہ تک پہنچایا جائے۔ امریکہ اور نیٹو کو شکست دینے سے لیکر اپنے علاقے اور خاندانوں تک کوتباہ کرنے میں لوگوں نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ وزیرستان کو ڈویژن کا درجہ دلائیں ۔شرعی مسائل کو معاشرتی سطح پر اجاگر کریں۔اپنے بیٹے کو20لاکھ میں خود کش کیلئے بیچنے سے زیادہ بڑی بے غیرتی اپنی بیٹی کو نکاح کے نام پر بیچنا ہے مگرافسوس ہے کہ عرب اور پشتون نہیں سمجھتے ہیں۔حقائق کی طرف لوگوں کو توجہ دلائیں۔

گوادر و تربت میں ایسا لگتا ہے کہ کسی اور ملک نے قبضہ کیا ہو، ہودبائی

فوج ہی فوج ،چیک پوسٹ ہی چیک پوسٹ،ہر پہاڑی پر مشین گنیں لگائی ہیں، مورچے بنائے ہیں!
گوادر میں جو میں نے دیکھا تربت میں دیکھا ۔ فوج ہی فوج چیک پوسٹ ہی چیک پوسٹ۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی اور ملک نے آکر قبضہ کیا ہوا ہے اس پر۔ تو ہر پہاڑی کے اوپر مشین گنیں لگائی ہیں ، مورچے اور قلعے بنائے ہیں اور ہر سڑک پر آپ ادھر سے اُدھر جائیں پوچھ کر روکتے ہیں کون ہیں آپ؟، کہاں سے ہیں ؟۔ ٹھیک ہے، وہ مجھے نہیں روکتے کیونکہ میں باہر کا ہوں ناں۔ باہر کے لوگوں کیلئے ٹھیک ہے لیکن ادھر کے جو مقامی لوگ ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان پر قبضہ ہوا ہے کسی باہر کی …۔ گوادر کے اطراف میں دیکھیں ، زمینوں پر جو قبضہ کیا ہے یہاں فوج، یہاں کسٹمز ، یہاں نیوی، یہاں کوسٹ گارڈ، یہاں پیراملٹری، سب نے اتنی زمین وہاں پر گھیری ہوئی ہے اور اُدھر یہ بنائیں گےDHAاور اسی طرح کی چیز۔ آخر لینڈ مافیا تو ہر طرف ہے۔ اب جو اُدھر کے گوادری ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو اِدھر سے دھکیلا جارہا ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ وہاں مچھیرے ہیں ۔ صدیوں سے یہی کام کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب ادھر جو انہوں نے بندرگاہ بنائی ہے اس بندرگاہ سے تو ان کو ایک طرف کردیا۔ ادھر جو سڑک جاتی ہے تو سڑک کے ایک طرف یہ کشتیاں بناتے ہیں اب اس سڑک کو وہ استعمال کرنے نہیں دیتے اور دھمکی دی ہے کہ یہاں سے ہم ایک اور سڑک نکالیں گے جو ٹھیک بندرگاہ کی طرف جائے گی تو اب آپ لوگ یہ استعمال نہیں کرسکیں گے۔ تو وہ پھر کہتے ہیں کہ ہم لوگ اپنی کشتیاں کیسے بنائیں؟۔ یعنی ادھر جو ہم صدیوں سے کرتے آئے ہیں۔ کہتے ہیں جاؤ تمہیں جدھر بھی جانا ہے جاؤ۔ یہ بے حسی جو ہے ناں یہ مارڈالتی ہے۔ اب یہ کیسا پاکستان ہے جو صرف پنجاب کیلئے بنا ہے؟۔ یہ نہیں چلے گا، نہیں چلے گا۔

ٹیپو سلطان لتا حیائ

ہمارے جو ہیرو ہیں چونکہ وہ مسلمان تھے اسلئے ان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نام بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بڑے دم خم کے ساتھ جب یہ فیشن چلا ہوا ہے کہ ٹیپو سلطان کو بدنام کیا جائے تو لتا حیاء اسٹیج سے ٹیپو سلطان پر نظم کہتی ہے آپ سب کے سامنے سنئے گا۔ کہنے کی کوشش کی ہے سنئے۔ جب میں میسور گئی اور ٹیپو سلطان کے مزار پر گئی تو مجھ پر یہ نظم ہوئی اجازت ہے سنئے گا اور آخری مصرعے پر غور کیجئے گا۔
جس کا ہے اتحاس سنہرا یہ وہ ہندوستان ہے
سمے سے کب ہے کوئی جیتا سمے بڑا بلوان ہے
لیکن جس کے نام سے سہمے بڑے بڑے بلوان کئی
تھرائیں بندوقیں جس سے سہمے تیرکمان کئی
کرناٹک کی دھرتی پر ایک شیر دہاڑا کرتا تھا
دشمن کے سینوں کو اپنی تیغ سے پھاڑا کرتا تھا
جس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے بندوقیں تھراتی تھیں
اس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پربت تک ہل جاتے تھے
دانتوں تلے فرنگی اپنی انگلی سنا چباتے تھے
کوئی کچھ بھی بولے سچ کہنا میری پہچان ہے
وہ شیر میسور ہے بھارت کا ٹیپو سلطان ہے
صدیوں میں پیدا ہوتا ہے اک ٹیپو جیسا راجہ
جو نہ کیول ہمت والے تھے عالم فاضل بھی تھے
جس نے کرناٹک کی شیروں کی طرح رکھوالی کی
پر اس کے لوگوں نے اس کے ساتھ حیاء غداری کی
اس کی یوں بے خوف شہادت تاریخی بلدان ہے
وہ شیر میسور ہے بھارت کا ٹیپو سلطان ہے
ٹیپو کی درگاہ پہ آکر آج عجب احساس ہوا
مرے رونگٹے کھڑے ہوگئے دل میں بھی کچھ خاص ہوا
دفن نہیں ہے فقط یہاں پر جسم کسی سلطان کا
دفن ہے اک اتحاس یہاں پر پورے ہندوستان کا
جس کی دو تلوار دیکھ کے دشمن کی جان نکلتی تھی
جس کی لاش بھی چھونے سے انگریزی سینا ڈرتی تھی
راکٹ سے لے کر ماڈرن کلینڈر کے موجد ٹیپو
کم پڑ جائے گا ان کے بارے میں جتنا بھی لکھو
نظم ہے میری بالکل چھوٹی ٹیپو بڑا مہان ہے
وہ شیر میسور ہے بھارت کا ٹیپو سلطان ہے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مذہبی جماعتوں نے کبھی پاکستان میں ایک مرتبہ بھی قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی نہیں کی!

مذہبی جماعتوںنے کبھی پاکستان میں ایک مرتبہ بھی قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی نہیں کی!

اس الیکشن میں جو کوئی بھی برسراقتدار آئے تو پہلے سے یہ طے کرلے کہ قرآن کے مطابق پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کو مفت کی روٹیاں توڑنے کیلئے چھوڑو

حضرت عمر نے بدری وغیر بدری، فتح مکہ سے پہلے و بعد والے صحابہ کے علاوہ حضرت حسن و حسین اور عبداللہ بن عمر کے وظائف یا تنخواہوں میں فرق رکھا تھا تو پھر ہم کیسے انگریز دور کی پیداوار طبقاتی نظام میں مراعات یافتہ طبقات کی مراعات کو ختم کرسکتے ہیں؟۔ ایک غریب کی بچی کا دوپٹہ ہوا نے سرکایا تو اسکو کوڑا ماردیا اور پھر حضرت عمر نے معافی بھی مانگ لی لیکن جب بصرہ کے گورنر حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف چار افراد نے گواہی دی تو ایک کی گواہی کو ناقص قرار دیکر گورنر کی جان بخشی ہوئی اور تین گواہوں کو80،80کوڑے بھی لگائے اور پھر یہ پیشکش بھی ہوئی کہ اگر اتنا بول دو کہ ہم نے جھوٹ بولا تھا تو پھر تمہاری گواہی بھی قبول ہوگی۔ جمہور فقہاء اہل سنت کے ہاں حضرت عمر کی پیشکش درست تھی اسلئے اگر کوئی جھوٹی گواہی دیکر توبہ کرے تو پھر اس کی گواہی قبول ہوگی۔ لیکن مسلک حنفی نے حضرت عمر کی پیشکش کو قرآنی آیات کے خلاف قرار دیا کہ اس کے بعد جھوٹے کی گواہی کبھی قبول نہیں ہوگی۔
چار گواہ میں واحد گواہ صحابی حضرت ابوبکرہ تھے جس نے آئندہ گواہی قبول کرنے کی پیشکش ٹھکرادی ۔ صحیح بخاری میں بھی یہ واقعات ہیں اور ان سارے گواہوں کے نام بھی ہیں۔ کیا پارلیمنٹ میں اس واقعہ اور اسکے وسیع تناظر میں حنفی اور دوسرے مسالک کے درمیان قانون سازی پر بحث ہوسکتی ہے۔ اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کچھ لیپا پوتی کرے تو کرے ۔ مولانا مودودی نے لکھ دیا ہے کہ جس خاتون کو پکڑا گیا تھا وہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ کی اپنی بیوی تھی۔
جب یہود نے تورات کے احکام میںتحریف کی تو اللہ نے کہا کہ تورات کی سیدھی سیدھی باتوں پر بھی عمل نہیں کرتے۔ تورات میں جان کے بدلے جان اور اعضاء کان، ہاتھ ، دانت وغیرہ کے بدلے میں کان ہاتھ اور دانت وغیرہ ہیں اور زخموں کا بدلہ ہے۔ لیکن یہود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ طاقتور لوگ کمزور لوگوں کے اعضاء کاٹ دیتے تھے تو اس کے بدلے میں ان کے اعضاء کو نہیں کاٹا جاتا تھا۔ انصاف کا سیدھا سادہ نظام ظلم میں بدل گیا تھا۔ قرآن میں بھی تورات کے ان احکام کا ذکر ہے اور آج ہم ان پر عمل نہیں کرتے۔ اگر کسی غریب کے کان ، ناک ، دانت ، آنکھ کے بدلے طاقتور ظالم کے کان ، ناک ، دانت اور کان کو ضائع کیا جائے گا تو کبھی بھی کسی کے اوپر کوئی ظلم نہیں کرے گا۔ علماء اور حکمران طبقے نے قرآنی احکام کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔
خاور مانیکا کے ملازم نے عمران خان اور بشریٰ بی بی پر زنا کا الزام عدالت میں لگادیا۔ تمام مکاتبِ فکر کے علماء ومفتیان سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر فیصلہ کریں کہ ” اس جھوٹی گواہی کی وجہ سے اس پر80کوڑے لگتے ہیں یا نہیں؟”۔ اگر لگتے ہیں تو1973کے آئین اور قرآن کے حکم پر عمل کا آغاز بھی کیا جائے۔ اور اگر زنا ثابت ہو تو قرآن کے مطابق پھر عمران خان اور بشریٰ بی بی کو100،100کوڑے لگائے جائیں۔
سورہ نور میں زنا کی سزا مرد اور عورت دونوں کیلئے100،100کوڑے ہیں۔ صحابی نے کہا کہ” سورہ نور کی آیات نازل ہونے کے بعد کسی کو سنگسار کی سزادی گئی یا نہیں ؟ اسکا نہیں معلوم ” ۔( صحیح بخاری) حضرت عمر نے کہا کہ ”اگر مجھے خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کیا ہے تو سنگسار کرنے کا حکم قرآن میں لکھ دیتا”۔ (صحیح مسلم) حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ بڑے آدمی کو دودھ پلانے اور سنگسار کرنے کی آیات نبی ۖ کی وفات کے وقت بکری نے کھاکر ضائع کردیں”۔(ابن ماجہ) ۔ قرآن کے واضح احکام کو بہت غلط رنگ دیا گیا ہے ۔پارلیمنٹ کے فیصلے ضروری ہیں۔
قرآن کی سورۂ نور میں لعان کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر خاور مانیکا نے قابلِ اعتراض حالت میں دیکھا ہے تو عدالت میں لعان کیا جائے اور اگر بشریٰ بی بی اس کو جھٹلا دیتی ہے تو پھر بشریٰ بی بی کو قرآن کے مطابق کوئی سزا نہیں ہوگی۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ زنا کاروں کا آپس میں نکاح کرایا جائے۔ اگر گواہی آگئی تو پھر سزا کے بعد شادی بحال رہے گی۔ کیونکہ یہ قرآن کے حکم پر عمل ہوگا۔ اس سے وہ تصور بھی ٹھکانے آجائے گا کہ اسلام میں سنگساری کا حکم ہے یا نہیں ؟۔ علامہ مناظر احسن گیلانی نے اپنی ایک کتاب ”تدوین القرآن” میں اس پر اچھا خاصا تذکرہ کیا ہے۔ جو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے بھی شائع کردی ہے۔
طالبان حکومت کے ایک عالم دین نے مردکا مرد سے جنسی تعلق پر سزا کے اندر بڑے اختلاف کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ثابت ہے کہ قرآن وحدیث میں کسی سزا کا ذکر نہیں۔ حالانکہ قرآن میں دونوں کو اذیت دینے کا حکم ہے اور پھر وہ توبہ کرلیں تو ان کو طعنہ دینے اور پیچھے پڑنے سے روکا گیا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قتل کا حکم نہیں۔ طالبان جو چاہتے ہیں وہ قرآن میں موجود ہے لیکن مدارس کا نصاب رکاوٹ ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

کیا بلوچستان میں آتش فشاں کا لاوا پھٹ سکتا ہے؟

کیا بلوچستان میں آتش فشاں کا لاوا پھٹ سکتا ہے؟

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طلباء و طالبات سے بانو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی فکر انگیز تقریر
پڑھی لکھی یوتھ کوجدوجہد کی دعوت 

ہماری تحریک کو60 دن کا عرصہ مکمل ہونے والا ہے اگرآپ سب جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان اور اس کی اسٹیٹ فورسز بلوچستان میں کیا کر رہی ہیں آپ شروع دن سے اس تحریک کو پڑھیں کہ کس طرح ایک پرامن تحریک جس کی تعداد ہم عورتیں ہیں اور اس میں بچے بھی شامل ہیں اس کو کیسے ایکTerrorisedNarrativeکے ذریعے ہم سب کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے اور پوری اسٹیٹ کی مشینری جوInvestigativeJournalistتھے جن کو انویسٹی گیٹ کرنا چاہیے تھا وہ بھی ریاست کا بیانیہ لے کر جا رہے ہیں آگے ۔ہم اسی پر اپنے فورتھ فیس کو آگے لے جا رہے ہیں اور اس میں ہمیں آپ کے ساتھ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ہم ایجوکیٹ کرنا چاہتے ہیں پاکستان کی یوتھ کو کیونکہ میں اس یونیورسٹی میں کھڑی ہوں جہاں پہ پاکستان کے ہر طبقے کا کوئی نہ کوئی بندہ موجود ہے تو آپ اپنے طبقے کو یہاں پر اون کر رہے ہیں اس موومنٹ کوآگے لے جانے کے لیے ہمیں آپ سب کے ساتھ کی ضرورت ہے۔اس مقام پر اسٹیٹ ایک ایساNarrativeہمارے سامنے لے کرآئی ہے جس کے تحت اسلام آباد پریس کلب کے سامنے ہمارا جو دھرناہے اس کو خدشات لاحق ہیں ۔ہم نے10دن پہلے کہا تھا کہ ا سٹیٹ ہم پر اٹیک کرنے والی ہے اور وہ خدشہ اب بھی ظاہر ہے۔اس کے تحت سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں پرFIRکیے گئے ہیںجو پرامن تحریک کا حصہ بنے رہے ہیں۔لیکن پھر بھی ہم ڈٹے ہوئے ہیں اور پھر بھی ہم اس موومنٹ کو لے کر جا رہے ہیں اس میں بلوچ خواتین کا سب سے بڑا کردار رہا ہے۔آپ سب سے یہی گزارش ہوگی ہماری فورتھ فیز میں آپ سب نے ہمارا ساتھ دینا ہے موبلائز کرنا ہے ایجوکیٹ ہونا ہے پڑھنا ہے اور سمجھنا ہے کہ اسٹیٹ وائلنس کیسے استعمال ہوئی ہے دہائیوں سے۔ اسٹیٹ نے وائلنس کے ذریعے کیسے ایک خوف کا ماحول پیدا کیا ہے۔ اسٹیٹ نے وائلنس کے ذریعے کیسےJustifyکیا ہے جبری گمشدگی کو؟۔ اسٹیٹ نے تشدد کے ذریعے کیسےJustifyکیا ہے ماورائے عدالت قتل کو اور اسی اسٹیٹ کے چلتے ہوئے بلوچ ہو، پشتون ہو، سندھی ہو، گلگتی ہو، وہاں پر عام جوPeacefulMovementsہیں ان کو بھی خدشات لاحق ہیں۔اور آپ کے لیے ہمارا پیغام یہی ہے کہ ہم نے ایکPetitionدرج کیا ہے اس کوآپ جتنا فارورڈ کریں گے اتنا ہی ہمارے لئے آسانی ہوگی کیونکہ ان60دنوں کے دوران اسٹیٹ کی کوشش یہی رہی ہے کہ ہم اپنی موومنٹ کو ختم کر دیںاور ہم پر ہراسگی کی ،ہمیں مارا بھی گیا ٹارچر بھی کیا گیا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس چیز پر کوئی کمیشن نہیں بنائی گئی کوئی انکوائری نہیں ہوئی کہ عورتوں کو مارنے والی قوتیں کون تھیں؟۔اور ان کو ہراساں کرنے والی قوتیں کون تھیں؟ اور آج مجھ سمیت میری تحریک کی ہر خواتین کارکن کو ہراساں کیا جارہا ہے اور ہمارے خلافFIRلگائے گئے ہیں۔ ہم یہاں رکنے والے نہیں ہیں۔ میں سمجھتی ہوں اگر اس تحریک میں ہمیں کچھ بھی نقصان پہنچا تو آپ ہمارے ہم آواز ضروری بنیں گے اور آگے بھی اس موومنٹ کا اسی طرح ساتھ دیں گے جس طرح آپ نے ساتھ دیا ہے۔ ہماری تحریک موبلائزیشن کیلئے ہے، ہماری تحریک سیاسی بنانے کیلئے ہے۔ ہم یوتھ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اسٹیٹ مشینری کے ذریعے بینکنگ ایجوکیشن کے ذریعے ہمیں جو پڑھایا جاتا ہے جس کے ذریعے ہر یوتھ کو یہی پیغام دیا جاتا ہے کہ آپ انفرادی زندگی کی طرف جاؤ۔ سوسائٹی سے ہمیں کٹ آف کیا گیا ہے۔ یہ حل نہیں ہے، سب سے بڑا کردار ہمیں اور آپ کو ادا کرنا ہے۔ جب تک ہم آگے نہیں بڑھیں گے جب تک ان قوتوں کے خلاف آگے نہیں بڑھیں گے جن کی وجہ سے عام لوگوں کی کلنگ کوJustifyکیا جاتا ہے ، سویلین کی کلنگ کوJustifyکیا جاتا ہے ، بچوں کو مارا جاتا ہے۔ تو کسی بھی انسان کا سب سے پہلا فرض یہ بنتا ہے کہ وہ اپنی سوسائٹی میں انصاف لاسکے۔ ہماری ایجوکیشن کسی بھی کام نہیں آئے گی جب تک ہم اس کو یوٹیلائز کرنے کا طریقہ نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ سب سے بڑی ذمہ داری ہماری ہے۔ بلوچستان کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگ جو تعلیمافتہ نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ اس تحریک کا حصہ ہیں۔ پھر بھی وہ عزم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آج بھی جب میں کیمپ سے آرہی تھی تو کچھ ایسے خاندان تھے جن کو باقاعدہ ڈیتھ اسکواڈ نے دھمکی دی ہے اور انکے گھر میں ان کے بچوں کو مارنے کیلئے بھی ان کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ بیٹھے ہوئے ہیں پھر بھی وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ تو یہ تحریک آپ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ کسی بھی سماج میں تعلیمافتہ یوتھ تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔ اگر آج ہم نے اس تحریک اور جتنی بھی پاکستان میں تحریکیں ہیں اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا تو آج اور آنے والے وقتوں میں ہماری سوسائٹی اور زوال پذیر ہوجائے گی۔ اور اس زوال پذیری کی ذمہ دار تعلیمافتہ یوتھ ہوگی۔ کیونکہ ان میں سوچنے سمجھنے کی سکت تھی۔ ایجوکیشن عملی زندگی میں ایک پریکٹس کرنے کا کام ہے جو ہم سمجھتے ہیں جو تھیوری ہم لے کر آئے ہیں انسانیت کیلئے اور ہمارے لوگوں کیلئے۔ اس چیز کا آپ نے حصہ بننا ہے۔ خاص کر جو خواتین ہیں میں ان سے بھی مخاطب ہوتی ہوں کیونکہ کوئی بھی قوم دو حصوں سے بنتی ہے جس میں مرد اور خواتین دونوں برابر ہیں۔ یہاں پر اسٹیٹ کی جو مشینری ہے انہوں نے خواتین کو یکسر طور پر الگ کیا ہوا ہے جہاں پر شدت پسندی پھیلائی گئی ہے۔ یہ پیغام بھی ہم انہی کیلئے لے کر آئے ہیں کیونکہ بلوچ خواتین پچھلے60دنوں سے سردی میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے پیاروں کے لیے آپ اگر ان کی موومنٹ کو دیکھیں گے20سالوں سے یہ لوگ ،آج1خاندان آیا ہے جو کہتا ہے کہ18سال سے میرے بیٹے کو اغوا کیا گیا ہے اور اس کی ماں کہیں بھی نہیں گئی ہے اپنے بیٹے کیلئے۔ تو یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے ان خواتین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آئیں اور اس تحریک کا حصہ بنیں اورآپ سب لوگوں کے پاس آنے کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ آپ وٹنس کر سکیں کہ بلوچستان کے کونے کونے میں کیا ہو رہا ہے بلوچستان میں کس طرح عام لوگوں کو مارا جاتا ہے نیشنل سیکیورٹی کے نام پہ۔ بلوچستان میں کس طرح بچوں کے مارنے پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ بلوچستان میں کس طرح سویلینزInnocentلوگوں کو مارا جا رہا ہےInnocentلوگوں کے مارنے پر ہم سب کو آپ لوگوں کے ساتھ کی زیادہ ضرورت ہے اور میں آپ سب کو یہی پیغام دینا چاہتی ہوں اس موومنٹ کے بعد بھی آپ سب لوگ اپنی اپنی کونسلز میں جہاں جہاں آپ کیGatheringہوتی ہے وہاں وہاں یوتھ کوPoliticizedکرنا ہے ۔یوتھ کو وہ تبدیلی لانی ہے جو ان کرپٹ سیاست دانوں نے ہمیں لانے نہیں دی ہے جس کے تحت یوتھ کو ہمیشہ جو جتنی سٹوڈنٹس یونینز ہیں ان کو اپنا پاکٹ آرگنائزیشن بنا کے رکھا ہے جو صرف اور صرف ان کی ووٹنگ مہم ہے اس میں اس کا ساتھ دیتے ہیں اس کے علاوہ ان کوSkillfilledنہیں کیا گیا ہے اس کے علاوہ ان کو پولیٹیکل ایجوکیشن ہے اس سے بہت دور رکھا گیا ہے جس کے تحت یوتھ اتنی کرپشن کا شکار ہو جاتی ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو سوشل سوسائٹی سے الگ کر کے انفرادیت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ تو ہمارا پیغام آپ سب لوگوں کے لیے ہے۔ آپ سب لوگوں نے اس مہم میں، یہ موومنٹ ہے باقاعدہ طور پر اور اس موومنٹ میں ہر وہ شخص جو انسانیت پر یقین رکھتا ہے ہر وہ شخص جس کے پیارے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کے باپ کو18سال تک4×4کی کوٹھری میں بغیر کسی عدالت میں پیش کرنے کے اسے رکھنا نہیں چاہیے ۔جو بلوچNarrativeکے ساتھ ہے بلوچNarrativeجو یہ کہتا ہے کہ میرے معصوم بچوں اور عورتوں کو نہ مارا جائے اپنے قانون کے لیے ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے تو اس میںآپ ہمارا ساتھ دیں گے ہمارے پٹیشن کو سائن کریں۔21تاریخ کو اوپی سی (OppresedPeoplesOfAsia)کے نام پر ہماری کانفرنس چل رہی ہے جس میں ہم باقاعدہ طور پر ہم ریاست اور اس کی مشینری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم ایک ڈسپلن موومنٹ چلا رہے ہیں اس میں ہر طبقے کی آواز بنیں گے جو اس وقت تک ریاستی جبر کا شکار رہا ہے اس وقت تک جو قانون اور عدالتیں بنی ہیں کس طرح متعصب بن کر صرف اسٹیٹ وائلنس کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ اسٹیٹ وائلنس کے لیے یہ قانون بنائے گئے ہیں ان سب کے خلاف ہم ڈیبیٹ کریں گے ڈسکشن کریں گے ہم ایجوکیٹ کرنا چاہتے ہیں بنیادی طور پر ۔ہم چاہتے ہیں کہ آپ سب جو جس کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنے علاقے میں ہونے والے سیاسی تحریک کا حصہ بنے۔ سوچیں سمجھیں ہماری ایجوکیشن صرف کورس کی تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے آپ جب تک سوسائٹی میں ہونے والے سب سے بڑی تبدیلی جو آرہی ہے اس میں اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے تو یہ تمام ایجوکیشن میرے خیال سے فالتو ایجوکیشن ہوگی۔تعلیم یافتہ یوتھ پر سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تو آپ سب کا بہت شکریہ ۔ اور ہماریOPCکے جو وینیو ہے وہ اسلام آباد سٹنگ ہوگا ۔ اس موقع پرمیں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ایک بہت بڑی پروپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے ہمارے خلاف جس کے تحت جوپہلے دن سے ہم نے کہا تھا کہ اسٹیٹ پیس فل موومنٹ کوبرداشت نہیں کرتی ہے ۔ آج تک وہ لوگ جنہوں نے اسٹیٹ انسٹیٹیوشنز کے جو غیر قانونی طریقے ہیں ان پر جب بات کی تو اس کو بھی کرش کیا گیا۔ یہ آپ سب کے سامنے ہے ۔ہم عورتیں سردی میں وہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور شروع سے لے کر اب تک ہمیں دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ شروع سے لے کر اب تک صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ جو وزراء ہیں، اور ابھی تو حدیہ ہوگئی ہے کہ جرنلسٹ بھی مسنگ پرسنز کو جبری گمشدگی کو جواز بخش رہے ہیں تو یہ آپ سب کی ذمہ داریاں ہم آپ سب کے پاس یہ پیغام لے کر آئے ہیں کہ اس موومنٹ کو آپ کی عملی شمولیت کی ضرورت ہے ہم ہر طرح کے تشدد کے خلاف ہیں۔ کوئی بھی تشدد ہو ہم اس کے خلاف ہیں۔ لیکن ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ سب سے بڑا وائلنس جو پیدا گیا ہے اس خطے میں پاکستان میں وہ ریاستی تشدد ہے۔ اس کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ میں بولتی ہوں سب سے پہلا جو گند مچایا ہوا ہے وہ ریاستی تشدد نے مچایا ہوا ہے اور کسی بھی اسٹیٹ میں جب تک اس کی جو پاور ہے اس کو ایکسرسائز کرنے کے لیے احتساب کا طریقہ کار نہیں ہوگا مانیٹرنگ کا پروسیس نہیں ہوگا تو سوسائٹی میں اسی طرح ایک نا انصافی پر مبنی معاشرہ تخلیق ہوگا جس کے تحت ایک وہ قانون ہے جو طاقتوروں کا ساتھ دیتا ہے اور ایک وہ قانون ہے جو مظلوم کی نسل کشی کوJustifyکرتا ہے اور اس کو اور زیادہ بڑھاتا ہے۔ آپ سب سے یہی گزارش ہے ہماری مہم کا ساتھ دیں اور ہماری تحریک میں اپنا پریکٹیکل حصہ بنیں۔ اور جو ہمارے خلاف ایک فیکnarrativeکی سوشل میڈیا میں ایک جنگ چل رہی ہے اس میں بھی آپ اپنا پوائنٹ آف ویو لے کر آئیں۔ ہم اپنے ہر پوائنٹ پر ہر ڈیمانڈ پر بیٹھنے کے لیے ڈیبیٹ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہUNبلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لے۔کم از کم پاکستان سمیت انٹرنیشنل دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟۔ بلوچستان میں کیوں لوگ محفوظ نہیں ہیں ؟۔آپ سب کے کلاس رومز میں بلوچ سٹوڈنٹس بھی پڑھتے ہیں، آپ ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو دیکھیں کہ کس طرح بلوچ کو اس کی شناخت کی بنیاد پر یہاں اس پاکستان کے سب سے بڑے انسٹیٹیوٹ پر بھی پروفائلنگ کی جاتی ہے۔ گرفتار کیا جاتا ہے اورآج اس سطح پر جب یہ موومنٹ پہنچی ہے تو اسلام آباد میں موجود جتنے بھی بلوچ سٹوڈنٹس ہیں ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ جیسے ہی یہ موومنٹ یہاں سے ختم ہوگی ان کو پکڑا بھی جا سکتا ہے اغوا بھی کیا جا سکتا ہے۔ تو اس کے بعد یہ ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے کہ آپ ان کے ہم آواز بنیں۔ اور جو بلوچ نسل کشی کاایک سلسلہ جاری رہا ہے اس کے خلاف مؤثر آواز کے طور پر ہمارا ساتھ دیں بہت بہت شکریہ انشااللہ۔

تبصرہ نوشتہ دیوار

جب1991میں ڈیرہ اسماعیل خان جیل کے اندرمجھے قید با مشقت کا سامنا تھا اور قبائل کے40FCRکے کالے قانون کو کسی عدالت میں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا تو جیل میں بھی اپنے مشن کو جاری رکھا۔ وہاں پر135سال کے سزا یافتہ محمد حنیف شلاؤزان پاڑا چنار اور اس کے3ساتھی بھی موجود تھے۔ جس نے72دن بھوک ہڑتال کرکے زندہ لوگوں میں عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ایک سکھ نے73دن بھوک ہڑتال کی تھی مگر وہ چل بسا تھا۔ جبکہ کئی کئی سالوں تک قید کی سزائیں کاٹنے والے بہت لوگ تھے۔ وہاں پر میں نے اسلامی نکتہ نظر پیش کیا کہ قتل کے بدلے میں قتل یا دیت ہو تو مقتول کی بیوہ اور بچوں کو ایک لمبے عرصے تک انتظار نہیں کرنا پڑتا ہے۔ یہ سزائیں اسلام اور انسانیت کے منافی ہیں۔ جبری گمشدگی پر مفتی تقی عثمانی نے بھی آواز اٹھائی ہے۔ لیکن اس کے اپنے فتوے میں انسانیت و اسلام کے خلاف اتنا مواد ہے کہ ریاست بھی اس کا تصور نہیں کرسکتی ہے۔ جس دن ریاست پر بلوچ ، پشتون، سرائیکی اور سندھی کے علاوہ مہاجر اور دوسرے طبقات یلغار کریں گے تو یہ مفتیان حضرات اور جماعت اسلامی ریاست کیخلاف فتوے دینے میں پیش پیش ہوں گے۔ سینیٹر مشتاق اور مولانا ہدایت الرحمن نے قوم پرستوں کی مقبولیت کو دیکھ کر جمپ لگائی ہے اور سراج الحق سُود کے خلاف محض ڈھونگ رچارہا ہے۔ اسلئے کہ اسلامی بینکاری کے نام سے عام بینکاری میں سُود کم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل میں2.5%سُود ہے جبکہ ہم پاکستان اور اسلام کے نام پر22%سے بھی معاملہ آگے لے گئے ہیں تو کیا قرآن میں جس سُود کے خلاف اعلان جنگ ہے اس کا اطلاق اسلامی بینکاری پر ہوتا ہے یا اسرائیلی بینکاری پر؟ اور اسرائیل جس درندگی کا ثبوت دے کر فلسطینیوں کو شہید کررہا ہے اور وہاں کے فلسطینی بچے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں امن دو ، قتل مت کرو، پڑھنے دو، کھانے پینے کی سہولیات فراہم کرو، آزادی سے جینے دو مگر مفتی تقی عثمانی جس نے20سال روس کیخلاف اور20سال امریکہ کے خلاف کبھی جہاد میں حصہ نہیں لیا اور اب یہ کہہ رہا ہے کہ میری خواہش ہے لیکن وہاں جا نہیں سکتا کہ فلسطین میں جان دوں۔ جب جانے کا وسیلہ بن جائے تو کہتا ہے کہ میری اور میرے ٹبر کی ٹریننگ نہیں ہے۔ ہم نیٹو و امریکہ کے بھی خلاف تھے۔ اسرائیل کے بھی خلاف ہیں۔ پاکستان کی ریاست اگر اپنے لوگوں کے ساتھ ظلم و جبر روا رکھتی ہے تو اسکے بھی خلاف ہیں لیکن یہ نہیں کرسکتے کہ خود اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں اور دوسروں کو قربانی کا بکرا بنانے کی دعوت دیں۔
جب طاقتور اور کمزور کا مقابلہ ہوتا ہے تو فطری طور پر کمزور کا ساتھ دینا انسانیت کا تقاضہ ہوتا ہے۔ بلوچ کمزور ہیں ریاست طاقتور ہے۔ اس لڑائی میں بلوچوں کو کافی عرصہ سے بہت زیادہ نقصان اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بلوچ دھرنے میں شریک سید صبغت اللہ شاہ جی نے کہا کہ اب ریاست اور بلوچ قوم کے درمیان دشمنی کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ بلوچ جب فوج پر وار کرتے ہیں تو فوج اس کا بدلہ عام بلوچ سے لیتی ہے اور یہ صورتحال اس وقت درست ہوسکتی ہے کہ جب فوج اپنی بیرکوں میں جائے اور تمام ادارے اپنی اپنی جگہ پر درست کام کریں۔ شاہ جیMAپولیٹکل سائنس ہے ۔ ہماری استدعا یہ ہے کہ پاکستان گمشدہ افراد کی صحیح صورتحال سے بلوچ کمیونٹی کو آگاہ کردے یہ اسلام اور انسانیت کا تقاضہ ہے۔ اور ڈاکٹر ماہ رنگ کو سیاسی جدوجہد کرنے دے تاکہ حالات ٹھیک ہوں۔
بلوچستان میں ایک آزادی کی فضاء قائم کی جائے جس میں ماحول کو بہتر بنانے کیلئے کام کرنے والے اپنی خدمات انجام دے سکیں۔ ریاست اور شدت پسند تنظیموں کی طرف سے کسی کو کام کا موقع نہیں ملے گا تو اسکا سارا خمیازہ بلوچ قوم بھگتے گی۔ انڈے کی غلطی ہے کہ چوزہ پیدا ہوا یا پھر مرغی کی غلطی ہے کہ انڈہ دے دیا۔ یہ بحث کبھی ختم نہیں ہوگی۔ پر امن فضاء سے یہ مائیں ،بہنیں اور بیٹیاںعزت و سکون کی زندگی گزاریں گی۔

1
انعام کھیتران ولد عبدالرحمن کھیتران نے انکشاف کیا کہ مری خاندان کی نشاندہی کرنے والی یہ کھیتران لڑکی شہید کی گئی

جس بلوچ عظیم لڑکی نے اپنے ظالم سردار کے خلاف ویڈیو وائرل کرکے غریب مری خاندان کو موت سے بچایا تھا وہ خود شہید کردی گئی اور پولیس نے اس کی لاش کنویں سے برآمد کرکے کوئٹہ پہنچایا تھا۔ سندھ اور کراچی سمیت بڑی تعداد میں مظاہرہ کرنے والے مری قبائل کوسب لوگوں نے بھرپور سپورٹ کیا۔ سینیٹر مشتاق خان بھی پہنچا تھا مگر ویڈیو کی وجہ سے مری قیدی رہاہوگئے تواس شہید لڑکی کو ایدھی نے لاوارث دفن کردیا۔بانوماہ رنگ بلوچ، بانو ھدیٰ بھرگڑی، فرزانہ باری، طاہرہ عبداللہ اور افراسیاب خٹک ، فرحت اللہ بابر، سینیٹرمشتاق اس لاوارث لاش کو ورثاء تک پہنچادیں تو اچھا ہوگا۔

2
دوستو! دنیا کے تمام مذاہب ایک نجات دہندہ کا انتظار کررہے ہیں۔ماجد ملک

دوستو! دنیا کے تمام مذاہب ایک نجات دہندہ کا انتظار کررہے ہیں۔ ہندو37سو سال سے کالکا کا انتظار کررہے ہیں۔ کنفیوشس (چین کا مقامی مذہب) اور تا ؤ25سو سال سے کسی نجات دہندہ کا انتظار کررہے ہیں۔ پارسی26سو سال سے زرتشت ثانی کا انتظار کررہے ہیں۔ بدھ مت25سو سال سے متریا کا انتظار کررہے ہیں۔ یہودی34سو سال سے مسیحا کا انتظار کررہے ہیں۔ عیسائی2ہزار سالوں سے مسیحا کا انتظار کررہے ہیں۔ سنی مسلم14سو سال سے حضرت عیسیٰ کا انتظار کررہے ہیں۔ شیعہ مسلم1ہزار80سال سے مہدی کا انتظار کررہے ہیں۔ بہائی مسلم 1ہزار سال سے حمزہ ابن علی کا انتظار کررہے ہیں۔ دروس3ہزار5سو سال سے شعیب علیہ السلام کا انتظار کررہے ہیں۔ یعنی بیشتر مذاہب ایک نجات دہندہ کے خیال کو قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا برائی سے بھری رہے گی جب تک وہ نجات دہندہ آکر اسے اچھائی اور انصاف سے نہ بھردے۔ اس کرہ ارض پر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی دوسرا آئے اور ہمارے مسائل حل کردے۔ ہم اپنے مسئلے خود کبھی حل نہیں کرسکتے۔

انصاف کے بغیر تو ایک گھر نہیں چل سکتا۔پھرآپ ریاست کیسے چلا سکتے ہیں ؟۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

45 سالہ عربی خاتون تحیات فیدال عمدہ لکھتی تھی اسکا گما ن تھا کہ” دابة الارض عام انسان ہے جو عورت مہدی ہوسکتی ہے ۔ مردانگی بہادری کی صفت ہے ”۔ قاسم بن عبدالکریم کے مہدی سے بہترہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کولاہوری اپنا مسیحا بنادیں۔

3
پولیس کی تحویل میں بلوچ بچی کی فریاد

نہ ہمیں گیس دیا جائے نہ ہمیں بجلی دیا جائے نہ ہمیں سیندک کا سونا چاہیے نہ ہمیں گوادر کے وسائل چاہئیں۔ نہ ہمیں کوئلے چاہئے نہ ہمیں فیسی لیٹیز چاہئے۔ ہمیں ہمارے بھائی چاہئیں۔ ہمیں جینے کا حق چاہئے اور ہم کچھ نہیں چاہتے اور ہم کچھ …

ہمارادشمن خدا کی قسم اسرائیل سے بدتر

بلوچ خاتون رہنماکی تقریر۔خدا کی قسم فلسطین وہ خوش قسمت قوم ہے جنہیں ایسا دشمن ملا جو کھلے عام ان کی نسل کشی کررہا ہے۔ ان کیساتھ جنگ لڑ رہا ہے۔ آپ کتنے سالوں سے بلوچ قوم کی نسل کشی کررہے ہیں۔ آج ہم آپ کو بے غیرت اور بے ضمیر کہنا بھی گوارہ نہیں کرینگے۔ آپ وہ دشمن ہیں ہمارے۔ آئیں آپ اپنے اور اپنے تعلق کا اظہار کریں کھلے عام اور کہہ دیں کہ آپ جو بلوچ قوم کی نسل کشی کررہے ہیں اس کے بعد ہم بھی دیکھیں گے کہ باقی آپ رہتے ہیں یا پھرہم رہتے ہیں؟۔

ارمان شہید کی بہن وڑانگہ کا خطاب

چمن لغڑیان دھرنے سے ارمان لونی شہید کی بہن وڑانگہ نے تقریرکرتے ہوئے کہا کہ قوموں کے درمیان جنگ وسائل کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ پنجاب کے فوجی جرنیلوں اور سیاستدانوں نے بیرون ملک بڑی دولت بنائی ہے۔ ہم سے روٹی کا نوالہ بھی چھینا جارہا ہے۔ ان کو ہماری شکل اچھی نہیں لگتی پشتون وطن کے وسائل اچھے لگتے ہیں۔ اگر دہشت گردی وغیرہ سے بچنے کا کوئی مسئلہ ہے تو مل بیٹھ کر بات کرلیتے ہیں۔ دنیا میں ریاست و عوام کے درمیان مسائل اور وسائل قوانین سے طے ہوتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

یہ الیکشن8فروری جمہوریت کی تاریخ میں آخری کیل ٹھوکنے کیلئے پرعزم تو نہیں؟

یہ الیکشن8فروری جمہوریت کی تاریخ میں آخری کیل ٹھوکنے کیلئے پرعزم تو نہیں؟

وزیرستان کچہری میں ووٹوں کا دھاندلا
جنوبی وزیرستان کے الیکشن8فروری2024کیلئے بڑا فراڈ پکڑ لیا گیا۔ جب بڑے پیمانے پر بیلٹ پیپر ز لانے کی عالم زیب خان محسود کو اطلاع ملی تو اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے سے خبر کو عام کردیا۔ رنگے ہاتھوں کھلی دھاندلی پکڑی گئی تو حاجی سعید انور محسود آزاد امیدوار قومی و صوبائی جنوبی وزیرستان نے جلسہ عام میں کہاکہ جمعیت علماء اسلام پہلے بھی دھاندلی سے یہ الیکشن جیتی تھی اور یہ حربے اب ہم کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ بغیر نمبر پلیٹ ٹویوٹا فیلڈر گاڑی میں بیلٹ پیپرز لائے گئے جو پھر ٹانک ڈاکخانے میں پہنچائے گئے ۔ ملکی سطح پر کیا دھاندلی ہوگی؟

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
تاریخ کے پتوں پہ ہم کو تم مردم بولانی لکھنا
گمنام ہماری قبروں پہ تم چکیں بلوچانی لکھنا
صدرجمعےة علماء ہند مولانا حسین احمد مدنی نے انگریز فوج میں بھرتی کے خلاف فتویٰ دیا ،انگریز جج نے عدالت میںپوچھا کہ آپ نے یہ فتویٰ دیا ؟۔ مولانا نے کہا : ہاں، اب بھی دیتا ہوں، آئندہ بھی دیتا رہوں گا۔ مولانا محمد علی جوہر پاؤں میں پڑگئے کہ اپنا فتویٰ واپس لو۔ جج نے کہا کہ پتہ ہے کہ اس کی سزا کیا ہے؟، بغاوت میں موت کی سزا دے سکتا ہوں۔ مولانا حسین احمد مدنی نے کہا کہ مجھے پتہ ہے ۔اگر تم مجھے لٹکادوتو میں دیوبند سے نکلتے ہوئے کفن ساتھ لایا ہوں۔ مولانا جوہر نے کہا
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
کیا غم ہے اگر ساری خدائی ہو مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
مولانا حسین احمد مدنی اپنے استاذ شیخ الہند مولانا محمود الحسن کیساتھ1920میں مالٹا کی جیل سے رہا ہوکر آئے تھے۔ وہ مقدمہ میں مطلوب نہ تھے ،اپنی خوشی سے استاذ کیساتھ گئے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ قوم وطن سے بنتی ہے تو اقبال نے کہا کہ ” یہ دیوبند کا حسین احمد ا بولہب ہے”۔نبی ۖ عربی تھے ۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
انگریز ”لڑاؤ اور حکومت کرو” پر عمل پیرا تھا۔مشرقی بنگال کو الگ انتظامی صوبہ بنایا توہندو نے برا منایا۔ نواب وقار الملک نے1906میں آل انڈیا مسلم لیگ بنائی ۔ سر آغا خان کو صدر بنادیا۔ قائداعظم نے ہندیوں کو برطانیہ کی طرح انسانی حقوق دلانے کیلئے کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور سقوطِ خلافت کے بعد بحالی خلافت کیلئے ہندؤں نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد1930میں انگریز سے مطالبہ کیا کہ” مسلمانوں کو خود مختار صوبے دو”۔1947میں مشرقی بنگال کا صوبہ پاکستان اور موجودہ پاکستان معروضِ وجود میں آیا تو ہندوستان کے تین ٹکڑے ہوگئے۔ سندھ میں5قومی اسمبلی کے ممبر تھے۔GMسید نے قراردادِ پاکستان پیش کی جو 2 کے مقابلے میں3سے پاس ہوگئی۔ صوبہ سرحد میں کانگریس کی حکومت تھی اور مکران کے ممبر میرغوث بخش بزنجو کمیونسٹ پارٹی کے تھے۔جو بلوچستان کا الحاق ہندوستان سے چاہتے تھے۔ جبکہ خیر بخش مری کے دادا خیر بخش مری نے1916میں بلوچ قوم کی انگریز کی فوج میں بھرتی کی مخالفت کی تو انگریز سے مل کر خان آف قلات نے ان بلوچوں کے خلاف سخت اقدام کیا۔
قائداعظم اور قائد ملت لیاقت علی خان نے پاکستان بنایا مگر اپنا وطن ہندوستان قربان کرکے۔ پاکستانی قومیت بنائی مگر ہندوستانی قومیت کو ذبح کرکے۔ انگریز برصغیر پاک و ہند کی مٹی اور قوموں کا دشمن تھا۔ انگریز گیا تو ریاستی ڈھانچہ وہی رہا اور ہندوستان کی سیاسی قیادت نے وطن اور قوم سے محبت کی۔ مگرہماری سیاسی قیادت نے مٹی اور قوم سے محبت کرنے والوں کو انگریز کی طرح غدار قرار دیا۔ پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کو جیلوں میں بند رکھا اور بندوقوں کی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ حبیب جالب نے بہت انقلابی اشعار گائے مگرریاست کے ملازمین کو اپنی ڈیوٹی اور تنخواہ سے کام تھااور پنجابی عوام کو نہیں جگاسکے۔
قائداعظم و قائدملت سے سکندر مرزا تک جتنے گورنر جنرل اور وزیراعظم گزرے ، جمہوریت ڈھونگ تھی۔پھر جنرل ایوب نے قبضہ کیا تویہ پہلا باوردی عوامی الیکشن تھا۔ باچا خان، غوث بخش بزنجو،مولانامودودی سب نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا ۔1970الیکشن میں اکثریت کو حکومت دینے سے انکار ہوا، جس سے ملک ٹوٹا۔بیگم راعنا لیاقت علی کو تحفے میں پیرس کے اندر مکان ملا تو پاکستان کو دیا۔اب ریاست جذبہ حب الوطنی، قوم پرستی ، جمہوریت، دیانتداری سے عاری چاروں شانوں چت ہونے کے بجائے حقائق کو دیکھے۔سارا ملبہ سیاستدانوں اور فوج پر ڈالنے کے بجائے قوم اپنے اجتماعی ضمیر کو جگائے۔
نہرو کو امریکہ نے بلایااورامریکی بلاک میں شمولیت کی دعوت دی جو نہرو نے مسترد کردی اور غیر جانبدار ی کا فیصلہ کیا۔ لیاقت علی خان کو دعوت نہیں ملی تو روس کو چٹھی بھیجی کہ مجھے بلاؤ۔ روس نے بلایا تو امریکہ نے بھی دعوت دی، قائدملت نے روس کو چھوڑ کر امریکہ کی دعوت قبول کی اور بلاک کا حصہ بن گئے۔
نوازشریف نے کوئٹہ سے سی پیک کا روٹ چھین لیا۔ آرمی چیف کی ملازمت اسکی رہین منت ہے مگر پنجاب کا اعتماد کھو دیا۔ بلوچ کی مٹی سے وفاکووہ فوجی و سیاسی قیادت نہیں سمجھ سکتی جو اپنی مٹی چھوڑ آئی ۔جنرل عاصم منیر اور نواز شریف دونوں کی جو پاکستان سے محبت ہوسکتی ہے وہ وطن اور قومیت کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی۔ اسلئے کہ دونوں کا تعلق بھارتی پنجاب سے ہے۔ جب ان کے آباو اجداد نے پنجاب اور ہندوستان کو تقسیم کردیا تو پھر کس طرح پاکستان کی مٹی اور قومیت سے فطری طور پر محبت رکھ سکتے ہیں؟۔ یہ نہیں سمجھتے کہ سندھ ، بلوچستان ، پختونخواہ ، کشمیر اور پنجاب کے جن لوگوں نے اپنے وطن ، مٹی اور قومیت کی کوئی قربانی نہیں دی ہے ان کے جذبات کیا ہیں؟۔ ایک ہجڑے کو ماں باپ کی بچوں سے محبت کا جس طرح سے ادراک نہیں ہوتا اسی طرح یہ لوگ بھی وطن اور مٹی کی محبت کے احساسات سے محروم ہیں۔ یہی حال قائد اعظم محمد علی جناح، قائد ملت لیاقت علی خان اور انگریز کی ریاست میں ملازمت کرنے والے فوجی اور سول ملازمین کا شروع سے ہے۔ اس لئے انہوں نے ہمیشہ آزادی کے مجاہدین غفار خان ، میر غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل ، خیر بخش مری ، فیض احمد فیض اور حبیب جالب کا جذبہ کبھی نہیں سمجھا۔ جب ان لوگوں نے مادر ملت فاطمہ جناح کی حمایت کی تو جنرل ایوب خان نے اس کو بھی غدار قرار دیا تھا۔
جس لا الہ الا اللہ کے نام پر ملک بنا تھا اس لا الہ الا اللہ کے نام لیوا مذہبی طبقات نے قرآن و سنت کا بیڑہ غرق کیا ہے تو پھر فوجی و سول بیروکریسی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کا بھی کیا قصور تھا؟۔ جب نواز شریف کیخلاف خلائی مخلوق استعمال ہوئی تو ہم نے غلط قرار دیا تھا اور نواز شریف کیلئے سارا نظام استعمال ہورہا ہے تو بھی یہ انتہائی قابل مذمت اور خطرناک ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پاک ایران جنگ اور اس کا خاتمہ ہوا؟

پاک ایران جنگ اور اس کا خاتمہ ہوا؟

ایران نے پاکستان پر حملہ کیا، پاکستان نے جوابی حملہ کیا۔ سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے میڈیا پرواضح بتادیا کہ ”ایران نے کافی عرصہ سے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہوا تھا، آخر میں مجبور ہوکر یہ قدم اٹھایا اسلئے کہ امریکہ و اسرائیل نے ایران کیخلاف پاکستان میں اپنے ایجنٹ پال رکھے ہیں۔ جو دہشت گردانہ کاروائیاں کرتے ہیں۔ ایران نے پاکستان، عراق اور شام پر حملہ کرکے امریکہ واسرائیل کو پیغام دیدیا کہ ایران کس حد تک جاسکتا ہے؟”۔ عمران خان کیساتھDGISIحافظ سید عاصم منیر ایران کے دورے پر گیا تھا تو وہاں عمران خان نے کھلی بات کی کہ ”ہماریISIنے تمہارے خلاف اور تم نے ہمارے خلاف دہشت گردیاں کی ہیں اور یہ آئندہ نہیں ہونا چاہیے”۔ عمران خان نےARYنیوز پر کاشف عباسی کو بتایاتھا کہ ”سپاہ صحابہ کے لوگوں نے کہا کہ شیعوں سے ہماری دوستی کراؤ۔ISIنے ہمیں انکے خلاف استعمال کرکے ہماری دشمنی بنارکھی ہے”۔
اسلام آباد میں مولانا مسعود الرحمن عثمانی کے قاتل پکڑے گئے اور ایران میں دھماکے اور پولیس اہلکاروں پر حملے کا بدلہ شام ، عراق اور پاکستان سے لیاگیا۔ پاکستان نے جواب میں بلوچ سرمچاروں کو نشانہ بنایا؟۔ تعجب ہے کہ دہشت گرودں کے خلاف کاروائی کی جگہ تک میڈیا کو رسائی نہیں دی جاتی ۔ پہلے پشتونوں کو دہشت گردی کے نام پر تباہ کیا گیا اور اب بلوچ بھی دو طرفہ کاروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں؟۔ پاکستان اور ایران تیل ، گیس ، تجارت اور راہداری کیلئے اچھا ماحول نہیں بناسکتے مگر بھارت ، اسرائیل اور امریکہ کی جنگ یہاں لڑی جارہی ہے؟۔
کچھ تجزیہ کاروں نے کہا کہ اسرائیل نے بھارت کو اکسایا اور مقصد پاکستان وایران جنگ تھا۔ ہمارے ٹانک شہر میں ایک پاگل تھا جس کو ”لیوان ” کہتے تھے ۔ اس کو کوئی پیچھے سے چھیڑتا تووہ سامنے والے پر حملہ کردیتا تھا”۔ مسلم ریاستوں کے نااہل حکمرانوں کا بھی حال لیوان والا بن گیا۔ کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ عمران خان کو اسلئے ہٹادیا گیا کہ امریکہ پاکستان کو ایران اور افغانستان سے لڑانا چاہتاہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ یہ آگ تمہارے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہے جس میں بلوچ اور پشتون کو عرصہ تک تباہ وبرباد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv