zarbehaq, Author at ضربِ حق - Page 6 of 42

پوسٹ تلاش کریں

سنی شیعہ دونوں فرقے قرآن و سنت، آئین پاکستان اور عورت کے حق ِخلع کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہیں عورت مارچ والے یہ آواز اٹھائیں

سنی شیعہ دونوں فرقے قرآن و سنت، آئین پاکستان اور عورت کے حق ِخلع کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب ہیں عورت مارچ والے یہ آواز اٹھائیں

مفتی طارق مسعود کا بیان آیا کہ ”جج کو کیا حق ہے کہ وہ ہماری بیوی کو طلاق دے یہ گدھاپن ہے” فقہ جعفریہ میں شروع ہی سے یہ ہے کہ عدالت کا عورت کوخلع دینا قبول نہیں ہے ۔علامہ شبیہ رضازیدی

اللہ نے قرآن میں خواتین کے حقوق بیان کردئیے ہیں۔ آیت19النساء میں خواتین کو خلع کا حق دیا۔ خلع میں شوہر کی دی ہوئی ان چیزوں کا عورت کو حقدار قرار دیا جن کو عورت اپنے ساتھ لے جاسکتی ہے مگر غیرمنقولہ چیزیں گھر، باغ ، دکان ، پلاٹ ،زمین وغیرہ سے عورت کو دستبردار ہونا پڑے گا۔ البتہ طلاق میں منقولہ اور غیرمنقولہ تمام دی ہوئی چیزوں کی مالک بھی عورت ہی رہے گی،اگرچہ عورت کو بہت سارے خزانے دئیے ہوں تو بھی۔جس کی زبردست وضاحت سورہ النساء آیت20اور21میں بھرپور طریقے سے اللہ تعالیٰ نے کردی ہے۔
جس دن قرآن کے مطابق عورت کو خلع کا حق مل جائے اور اس کے ساتھ اس کے مالی حقوق بھی مل جائیں تو پاکستان، ایران اور افغانستان میں جبری حکومتوں کا خاتمہ ہوجائے گا مگر جب تک قرآن کے ظاہروباطن پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوتا ہے تو قائداعظم محمد علی جناح، امام خمینی اور ملامحمد عمربھی زندہ ہوجائیں تو جبری نظام حکومت سے عوام کو چھٹکارہ کبھی نہیں مل سکتا ہے۔ لندن کے اندرجمائما کے مال میں عمران خان کا حصہ تھا لیکن پاکستان میں عمران خان کے گھر اور جائیداد میں جمائما اور ریحام خان کا حصہ نہیں تھا؟۔یہ غیرفطری بات ہے۔
قرآن نے عورت کے مال میں شوہر کا حصہ نہیں رکھا ہے لیکن شوہر پر حق مہر کو فرض کیا ہے ۔ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے تو آدھا حق مہر اور ہاتھ لگانے کے بعدطلاق دے تو پورا حق مہر، گھراور تمام دی ہوئی منقولہ وغیرمنقولہ اشیاء بھی۔ اور خلع کی صورت میں پورا حق مہر اوردی ہوئی منقولہ اشیاء بھی۔
عرب اور پشتون قوم حق مہر کے نام پر لڑکیوں کو فروخت کردیتے ہیں اور درباری علماء ومفتیان نے نابالغ بچیوں کے نکاح کی بھی بہت خطرناک اجازت دی ہے جو انسان کی بچی کیا گدھی کیساتھ بھی یہ جائز نہیں لیکن اسلام کا ستیاناس کردیا گیا۔
ہندوستان اور پنجاب میں جہیز کے نام پر عورت کا مال بھی ہتھیا لیا جاتا ہے۔برصغیرپاک وہند ، افغانستان، ایران ، عجم و عرب میں عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جو قرآن نے عطاء کردئیے ہیںاسلئے عورت گھرمیں ہویا بازارمیںوہ ایک ایسی جنس ہے جس کی کہیں کوئی اوقات نہیں ۔مغربی نظام بھی عورت کو اس کے وہ حقوق نہیں دے سکا ہے جو اسلام نے ساڑھے14سو سال پہلے عورت کو دئیے تھے۔ عورت کو سب سے زیادہ مذہبی طبقات نے حقوق سے محروم کیا ہے اسلئے کہ مذہبی طبقے کی طرف سے قرآن میں دئیے ہوئے حقوق کو بوٹی بوٹی کردیا ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال عورت سے خلع کا حق چھین لینا ہے۔ بیوی کا زبردستی سے مالک بن جانا ہے۔عورت کو لونڈی بنانا ہے۔ عورت کو اس کی مرضی کے بغیر جنسی تشدد کا قانونی حق مرد کو دینا ہے۔ عورت کو سب سے زیادہ حقوق اسلام نے دئیے تھے لیکن پدر شاہی نظام نے نہ صرف عورت کے حقوق غصب کر ڈالے ہیں بلکہ نکاح اور اسلام کے نام پر جاہلیت سے بدتر عورت کے حقوق چھین لئے ہیں۔ پدر شاہی اور درباری علماء کا اس میں برابر کا کردار ہے۔ اسلام اجنبیت کا شکار ہونے سے معاملات جاہلیت کی طرف پلٹ گئے ہیں۔
جب جنرل ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین بن گئے تھے تو پاکستان میں عورت کو عائلی قوانین میں خلع کا حق دیا گیا ہے۔ مفتی محمود پر الزام تھا کہ اس نے اس وقت جنرل ایوب خان سے ایک لاکھ روپیہ لیکر اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر عورت کو حق خلع دینے کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی تھی۔ میرے والد علماء کے قدر دان تھے۔ مفتی محمود کو بھی ووٹ دیتے تھے۔ میرے ماموں خان قیوم خان مسلم لیگ شیر کیساتھ تھے۔ ہماری سیاست پسند اور ناپسند کی حد تک تھی۔ کوئی بھی سیاسی کارکن اور رہنما کی طرح سیاست سے دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔سن 1970کے الیکشن میں مفتی محمود پر مفتی تقی عثمانی اس کے باپ، بھائیوں اور اساتذہ مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مولانا سلیم اللہ خان نے بھی کفر کا فتویٰ لگایا تھا اور بڑی یلغار کی زد میں تھے۔ جب جمعیت علماء اسلام ضلع ٹانک کے مولانا نور محمد المعروف سرکائی ملا نے میرے ماموں سے کہا تھا کہ مفتی محمود نے الیکشن کیلئے بس مانگا ہے تو میرے ماموں نے کہا تھا کہ ”آپ کو دیتا ہوں لیکن مفتی محمود کو بس نہیں دینا تھا اسلئے کہ اس نے ووٹ اسلام کے خلاف ایک لاکھ میں بیچ دیا تھا”۔ آج محسن جگنو سے مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ”میرے پاس وہی اثاثے ہیں جو میرے باپ نے چھوڑے ہیں۔ گزارا غیبی امداد سے ہورہاہے”۔
مفتی محمود کی وفات کے بعد مولانا فضل الرحمن امیر زادے نہیں لگتے تھے مگر اب حالات بہت تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ مفتی محمود بہت اچھے انسان تھے اور مولانا فضل الرحمن بھی بہت اچھے ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکن اس کی مخالفت اسلئے کرتے ہیں کہ2018کے الیکشن سے پہلے اور بعد میں عمران خان عسکری قیادت کے ہاتھ میں کھلاڑی سے وہ کھلونے اورکھلواڑ بن گئے تھے۔اب جب دونوں کو گلہ ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور گالی گلوچ اور فتوؤں کی زدوں سے نکلنے کی ضرورت ہے تو ایک پیج پر آنے میں مسئلہ نہیں ہے۔
عائلی قوانین میں عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے لیکن مولوی شیعہ ہو یا سنی ، حنفی ہو یا اہلحدیث اس حق کو غیر اسلامی سمجھتا ہے لیکن تمام مذہبی طبقات کو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ جاویداحمد غامدی ،مولانا وحیدالزمان اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تک اس گمراہی کی زد میں آگئے ہیں۔ غلام احمد پرویز و دیگر جدت پسند مذہبی طبقات بھی اس گمراہی کی زد سے محفوظ نہیں ہیں۔ علامہ تمنا عمادی بہت بڑے حنفی عالم تھے جو پاکستان بننے کے بعد مشرقی پاکستان سے ریڈیو پر قرآن کا درس دیتے تھے۔ ان کی کتاب ”الطلاق مرتان” نہ صرف بہت مشہور ہے بلکہ سب کی ذہنی صلاحیتوں پر بھی بہت اثر انداز ہوئی ہے۔ ادریس اعوان نے اپنے نشر واشاعت کے معروف ادارے ”میزان” سے یہ ابھی شائع بھی کردی ہے۔ اس کتاب میں حنفی مسلک کے عین مطابق قواعد عربی اور اصول فقہ کی کتابوں سے یہ اخذ کیا ہے کہ ” حلالہ کی طلاق کا تعلق خلع سے ہے۔کیونکہ چھوڑنے کا فیصلہ بھی عورت کرتی ہے اور پھر پشیمانی میں سزا بھی اس کو بھگت لینے میں حرج نہیں ہے”۔ ہمارے استاذمولانا سراج الدین شیرانی نے دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا میں غالباً اس کتاب کی تعریف کی تھی یا کسی اور عالم نے تعریف کی تھی؟۔ یہ مجھے یاد نہیں رہاہے ۔ لیکن اس کتاب کو بہت بعد میں دیکھ سکاتھا اور جب دیکھا تھا تو اس سے پہلے قرآن وسنت سے استفادہ کیا تھا اسلئے اس کا اثر بھی ویسے قبول نہیں کیا ہے جیسے معلومات کے بغیر اس سے متاثر ہوسکتا تھا۔ حنفی اصول فقہ میں دو چیزیں بڑی اہم ہیں ۔ ایک قرآن کی بنیاد پر احادیث صحیحہ کا انکار۔ دوسری قرآن کے معانی کو لغت اور عقل کیساتھ جوڑنا۔ یہی ہدایت کی صراط مستقیم ہے لیکن علماء ومفتیان اس پر عمل سے محروم ہیں۔
حضرت مولانا بدیع الزمان جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ایک سینئر استاذ ہی نہیں تھے بلکہ ولی کامل کا درجہ بھی رکھتے تھے۔ علم النحو، اصول فقہ اور قرآن کے متن وتفسیر کو سمجھنے کا رحجان انہی کے فیوضات اور برکات ہیں۔ ایک استاذ کا اپنے شاگرد کو بھی نصاب کے مقابلے میں حوصلہ افزائی کے قابل سمجھنا بہت بڑی بات ہے۔ مولانا بدیع الزمان، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مفتی عبدالمنان ناصر، قاری مفتاح اللہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے اساتذہ کرام اور جامعہ انوارالقرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی کے اساتذہ کرام مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید مولانا شبیراحمد، جامعہ یوسفیہ شاہو وام ہنگو کے مولانا محمد امین شہید،توحیدآباد صادق آباد کے مولانا نصر اللہ خان ، مدرسہ عربیہ فیوچر کالونی کراچی کے مفتی کفایت اللہ ومولانا خطیب عبدالرحمان ایک ایک استاذ کی حوصلہ افزائی میرے لئے باعث افتخار ہے۔
علماء دیوبند میں دو طبقے ہیں۔ ایک سپوت اور ایک کپوت۔ اس طرح بریلوی مکتب، اہلحدیث اور اہل تشیع میں بھی دونوں طبقات سپوت اور کپوت موجود ہیں۔ نصاب میں غلطیوں کے حوالہ سے مولانا فضل الرحمن کے استاذ مولانا سمیع الحق شہید کا بیان بھی ہمارے اخبار ماہنامہ ضرب حق کراچی میں شہہ سرخی کیساتھ چھپ چکا ہے۔ علماء دیوبند کے سپوتوں کے امام مولانا سرفراز خان صفدرنے پیشکش کی تھی کہ ”ہمارے مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ کو اپنا مرکز بناؤ” اورامیر مرکزیہ مجلس تحفظ ختم نبوت مولانا خان محمد نے فرمایا تھا کہ ” اگر مولانا فضل الرحمن کو اپنے مشن میں شامل کرلو تو بہت جلد کامیابی مل سکتی ہے”۔ میں نے جواب میں عرض کیا تھا کہ ”وہ معروف ہیں اور میں مجہول ۔ اسلئے وہ میری تائید کریں تو ہمارا مشن ان کی طرف منسوب ہوگا اور اس کا میرے مشن کو نقصان پہنچے گا” ۔جو ان کو بہت اچھا لگا اور میری عزیمت کو انہوں نے بہت داد بھی دی اور دعا بھی دی تھی۔ مولانا سرفراز صفدر نے فرمایا تھا کہ ”تیری پیشانی سے لگتا ہے کہ اپنے مشن میں کامیاب ہوگے”۔ پروفیسر شاہ فریدالحق جنرل سیکرٹری جمعیت علماء پاکستان اورپروفیسر غفور احمد جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی اور مولانا عبدالرحمن سلفی امیر غرباء اہل حدیث پاکستان اور علامہ طالب جوہری اہل تشیع کے علاوہ سبھی فرقوں اور جماعتوں نے ہماری تائیدات کردی تھیں۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا عبدالکریم بیر شریف، مولانا محمدمراد سکھر ، مولانا عبداللہ درخواستی اور پاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر کے اکابرین کی تائیدات ہمیںملی ہیں۔
جب عمران خان وزیراعظم تھے تو بھی ہماری کوشش تھی اور اس سے پہلے نوازشریف کی حکومت تھی تو بھی ہماری کوشش تھی اور مسلم لیگ ن کے مشاہداللہ خان کا حلالہ کی لعنت پرزبردست بیان بھی ہمیں ملا تھا جو ہم نے چھاپ بھی دیا تھا۔
جنگ گروپ کے ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی میں قرآن وسنت کی روشنی میں حضرت مفتی حسام اللہ شریفی شیخ الہند کے شاگرد مولانا رسول خان ہزاروی کے شاگرد ہیں۔مفتی تقی عثمانی کے باپ مفتی محمد شفیع اور مفتی محمود و غیرہ بھی مولانا غلام رسول خان ہزاروی کے شاگرد تھے۔ مولانا مودودی کے استاذ مولانا شریف اللہ بھی مفتی حسام اللہ شریفی کے استاذ تھے اور دونوں اکٹھے مولانا شریف اللہ سے ملنے بھی ایک دفعہ گئے تھے۔ میں نے اپنی کتاب ” تین طلاق کی درست تعبیر” میں بھی عورت کے حق خلع کو واضح کیا ہے جس کی تائید مفتی حسام اللہ شریفی اور شیعہ مفسر قرآن مولانا محمد حسن رضوی نے بھی کی ہے۔
جب8عورت مارچ کو اسلام باد، کراچی، لاہور وغیرہ میں طاہر ہ عبداللہ، فرزانہ باری، ہدی بھرگڑی اور دیگر منتظمین نکلیں تو ”بشری بی بی ” کے کیس کو قرآن وسنت کی روشنی میں اٹھائیں۔ جس سے نہ صرف بشری بی بی بلکہ عدالتوں میں خلع کے نام پر رلنے کے بعد بھی مولوی کی طرف سے طلاق کا فتویٰ نہ ملنے کی وجہ سے خواتین کو زبردست چھٹکارا مل جائے گا۔ عورت کا مسئلہ ایک دن کا نہیں بلکہ زندگی بھر کے مسائل ہیں۔ قرآن و سنت کو مذہبی طبقات نے روند ڈالا ہے اسلئے ان کو قیامت تک پذیرائی نہیں مل سکتی ہے۔اب مذہبی طبقہ بھی عورت کیساتھ کھڑا ہوگا۔
اسلام نے مرد کو طلاق اور عورت کو خلع کا حق دیا ہے ۔ جب مولوی عورت کے اس حق کو نہیں مانتا ہے تو اس کی گمراہی انسانی فطرت سے نکل کر جانور سے بھی بدتر حالت پر پہنچ جاتی ہے۔
مثلاً ایک شوہر اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ تجھے تین طلاق!۔ پھر اس کی بیوی کو فتویٰ دیا جاتا ہے کہ اب شوہر کیلئے تم حرام ہو۔ لیکن اگر شوہر انکار کرتا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے تو پھر عورت کو اپنی جان چھڑانے کیلئے دو گواہ لانے پڑیں گے۔ اگر اس کے پاس دو گواہ نہیں تھے اور شوہر نے جھوٹی قسم کھالی توپھر عورت خلع لے ، خواہ اس کی کتنی قیمت ادا کرنا پڑے۔ اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے تو پھر عورت حرام کاری پر مجبور ہے۔ عورت کو چاہیے کہ شوہر جب اس سے اپنی خواہش پوری کرے تو لذت نہیں اٹھائے بلکہ حرام سمجھ کر اس کے سامنے لیٹی رہے۔
یہ مسائل فقہ کی کتابوں میں رائج ہیں اور اس پر فتوے بھی دئیے جاتے ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے ”حیلہ ناجزہ” میں بھی اس کو لکھ دیا ہے۔ بریلوی بھی اس پر فتویٰ دیتے ہیں۔
جب عورت کو خلع کا حق حاصل نہ ہو تو پھر اس کے نتائج بھی بڑے سنگین نکلتے ہیں۔ میری کتاب ” عورت کے حقوق” کے مسودے کی مفتی زرولی خان نے تائید کی تھی تو میں ملاقات بھی کرلی تھی اور ان سے ملاقات کے بعد کتاب میں تھوڑا اضافہ بھی کیا تھا۔ جس میں اسلام کی اجنبیت کو مزید واضح کیا تھا اور کتاب کی اشاعت کے بعد کتاب بھی ان کو بھیج دی تھی لیکن ان سے دوبارہ طے ہونے کے باوجود ملاقات نہیں ہوسکی اسلئے کہ وہ اچانک دار فانی سے کوچ کرگئے۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے مہتمم مفتی محمد نعیم سے بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں اوران کی تائیدبھی اخبارمیں شائع کی تھی۔ جب مفتی تقی عثمانی نے ان پر دباؤڈال دیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ طلاق سے رجوع کیلئے اپنے پاس آنے والے افراد کواہلحدیث کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ خلع و طلاق کے مسائل بہت بنیادی نوعیت کے ہیں۔
علامہ شبیراحمد عثمانی کے بڑے بھائی مفتی عزیز الرحمن دیوبند کے رئیس دارالافتاء تھے اور ان کے فرزند مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے ”ندوہ دارالمصفین ” کی بنیاد1938میں رکھی تھی۔ پھر انہوں نے1964میں جمعیت علماء ہند سے استعفیٰ دے دیا تھا اور آل انڈیامسلم مجلس مشاورت کی بنیاد رکھی۔ جس میں سبھی مسلمان فرقوں کے اہم نمائندے شامل تھے۔ ”تین طلاق ” کے مسئلے پر1973میں احمد آباد میں سیمینار منقعد کیا تھا جس کی صدارت مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے کی تھی۔ اس سیمینار میں دیوبندی ،جماعت اسلامی اور بریلوی علماء کے نمائندوں نے اپنے مقالے پیش کئے تھے۔ جو پاکستان سے بھی کتاب میں شائع کیا گیا ہے اور اس میں مولانا پیر کرم شاہ الازہری کی بھی کتاب ” دعوت فکر” ساتھ شائع کی گئی ہے۔
شیخ الہند کے اصل جانشین ہندوستان میں مفتی عتیق الرحمن عثمانی تھے اور پاکستان میں مفتی حسام اللہ شریفی ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے بینکوں کے سود کو اسلامی قرار دیا جس کی مفتی محمود نے مخالفت کی تھی۔ پھر مفتی تقی عثمانی نے سود ی بینکاری کو جواز بخش دیا جس کی مخالفت مفتی زرولی خان ، شیخ الحدیث مفتی حبیب اللہ شیخ ، مولانا سلیم اللہ خان ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اور تحفظ ختم نبوت نمائش چورنگی کراچی کے دارالافتاء کے علاوہ پاکستان بھر سے سارے دیوبندی مدارس نے کی تھی۔ جو علماء اپنے علماء حق اکابر ین کے مشن سے روگردانی کرچکے ہیں وہ سپوت نہیں بلکہ کپوت بن چکے ہیں۔ اگر مولانا فضل الرحمن اور مفتی تقی عثمانی کے کاندھوں سے دیوبند کی گدھا گاڑی جوت دی جائے تو اس کو شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی طرف منسوب کرنا علماء دیوبند کی بہت بڑی توہین ہے۔ پہلے یہ توبہ کریں پھر علماء حق ہوسکتے ہیں لیکن جب تک گدھا کنویں سے نہیں نکالا جائے تو کنواں پاک نہیں ہوسکتا ہے۔ پہلے سودی نظام کو اسلامی قرار دینے سے ان کو تائب ہونا پڑے گا ۔ پھر عوام میں ان کی توبہ قبول ہوسکتی ہے اور انہوں اب وفاق المدارس کو بھی اپنے پیچھے لگادیا ہے۔
جب مولانا فضل الرحمن مفتی محمود کاسپوت تھاتو سودی زکوٰة کو شراب کی بوتل پرآ ب زم زم کا لیبل قرار دیتا تھا۔مجھ سے کہا تھا کہ ” کراچی کے اکابر علماء ومفتیان نے جو فتوے دئیے ہیں ان کو شائع کردیں۔ چھرا تمہارے ہاتھ میں ہے اگریہ جانور کو ذبح کردیا توان کی ٹانگیں ہم پکڑ لیں گے”۔چونکہ دارالعلوم کراچی کے علماء ومفتیان نے اس پر دستخط اسلئے نہیں کئے کہ اس میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی کتاب ”اخبارالاخیار” کا حوالہ بھی تھا جس کا ترجمہ مولانا سبحان محمود نے کیا تھا، جس میں لکھا ہے کہ ”جب شیخ عبدالقادر جیلانی تقریر کرتے تھے تو تمام انبیاء کرام اور اولیاء عظام موجود ہوتے تھے اور نبی ۖ بھی جلوہ افروز ہوتے تھے”۔ پھر اس کتاب کے مترجم سے اپنی جان چھڑانے کیلئے مولانا سبحان محمود نے اپنا نام بدل کرسحبان محمود کردیا تھا۔ مفتی رفیع عثمانی نے اپنی کتاب ” علامات قیامت اور نزول مسیح ” میں حدیث نقل کی ہے کہ دجال سے بدتر حکمران اور لیڈر ہوں گے۔ انہوں نے سیاسی لیڈر مراد لیا ہے لیکن اس سے مذہبی لیڈر مراد ہیں۔ جو ایک دوسرے کفر کے فتوے بھی مفادپرستی کی بنیاد پر لگاتے ہیں اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کے بھی بدترین مرتکب ہوتے ہیں۔
عورت کے حقوق کیلئے پنجاب حکومت مریم نواز کی قیادت یہ بنیادی نکات اٹھائے تو پاکستان میں انقلاب آسکتا ہے۔
نمبر1:عورت کو نہ صرف خلع کا حق حاصل ہے بلکہ عدالت میں جانے کی ضرورت بھی نہیںہے۔ شوہر اسکا خود ساختہ مالک نہیں ہے۔عورت جب چاہے شوہر کو چھوڑنے کا حق رکھتی ہے اور خلع کی صورت میں پورا حق مہر اور شوہر کی طرف سے دی گئی تمام وہ چیزیں بھی واپس نہیں کرے گی جو لے جائی جاتی ہیں ۔ البتہ غیرمنقولہ چیزیں گھر، باغ، دکان اور فیکٹری وغیرہ واپس کرنا ہوں گی اسلئے کہ خلع میں شوہر کا کوئی قصور نہیں ہوتا ہے۔
سورہ النساء کی آیت19میں خلع کا حکم واضح ہے اور سورہ النساء کی آیت20،21میں طلاق کے احکام ہیں۔ طلاق کی صورت میں دی ہوئی تمام چیزوں منقولہ وغیرمنقولہ گھر، باغ، جائیداد اور دئیے ہوئے خزانوں کی مالک بھی عورت ہوگی۔ سورہ بقرہ کی آیت 229میں خلع نہیں طلاق کا ذکر ہے اور اس سے خلع مراد نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ صورت ہے کہ جس میں عدت کے اندر تین مرتبہ الگ الگ طلاق ہوچکی ہو۔ دونوں کو خوف ہو اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور فیصلہ کرنیوالوں کو بھی خوف ہو کہ اگر دی ہوئی کوئی خاص چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر اس دی ہوئی چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے۔ جب یہ طے ہوگیا تو یہ وہی صورت ہے جس میں میاں بیوی دونوں صلح نہیں چاہتے تو ایسی صورت میں شوہر کیلئے وہ حلال نہیں رہتی جب تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے۔ اس کا مقصد صرف عورت کو اپنے سابقہ شوہر کی دسترس سے باہر نکالنا ہے اور بس۔
نمبر2: خلع کی صورت میں عدت ایک حیض یا ایک ماہ ہے اور اس میں شوہر کو رجوع کا اختیار نہیں ہے۔طلاق کی صورت میں بھی عورت کی رضامندی کے بغیر شوہر کو عدت میں رجوع کا اختیار نہیں ہے۔ بشریٰ بی بی نے خاور مانیکا سے خلع لیا تھا اسلئے ایک مہینے میں عدت پوری ہوگئی تھی۔ اس کے بعد اس کو رجوع کا حق نہیں تھا اسلئے عدالت کا خاور مانیکا کے کہنے پر اس کے حق کو مجروح کرنے کی بات پر سزا دینا غلط ہے۔ طلاق میں بھی شوہر کو عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کا حق نہیں ہوتا ہے اور اس غلط مسئلے کی وجہ سے قرآنی آیات کے ترجمہ وتفسیر میں بڑی سنگین غلطیوں کے علاوہ فقہ میں ناقابل حل مسائل بنائے گئے ہیں۔ بہشتی زیور سے لیکر درس نظامی میں پڑھائی جانیوالی کتابوں مسائل کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اس گھمبیر مسئلے نے مذہبی طبقات کی فطرت کیسے بگاڑ دی ہے؟ ۔نبی ۖ نے فرمایا کہ ” انسان اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کو یہود ونصاریٰ بنادیتے ہیں”۔ آج یہ حدیث مسلمانوں پر فٹ ہوتی ہے کہ جو لوگ مذہبی طبقات سے دور ہوتے ہیں تو ان کی فطرت سلامت ہوتی ہے اور جن کو اس مذہبی طبقے نے اپنے ماحول میں جھونک دیا ہوتا ہے جس نے یہود ونصاریٰ کی طرح اپنی انسانی فطرت کو بگاڑ دیا ہوتا ہے تو وہ حق کو قبول کرنے سے بگڑی فطرت کی وجہ سے انکار کرتا ہے۔
آئندہ شمارہ انشاء اللہ8عورت مارچ پرہوگا اسلئے کہ نعرہ بازی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ٹھوس حقائق کی ضرورت ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

پہاڑوں سے لاشیں آتی ہیں تو لواحقین کو انتہائی اذیت ہوتی ہے

پہاڑوں سے لاشیں آتی ہیں تو لواحقین کو انتہائی اذیت ہوتی ہے

جب ہم نے ان کیلئے آواز نہیں اٹھائی تو آج ہمارا مینڈیٹ چوری ہوا ، کل ہمارا نظام اور ہمارا آئین چوری ہوگا اسلئے سب کو فیصلہ کرنا ہوگا
بھٹو، عمران خان اور نواز شریف کے جیالے کم از کم اکھٹے ہوتے کبھی ایک کو پھانسی دی کبھی ایک اذیت میں اور کبھی دوسرا اذیت میں ہے

ANPکے سینیٹر عمر فاروق کا سینیٹ میں خطاب: آج تمام دوستوں کی باتیں سن کر جو جیتے ہیں جو ہارے ہیں سب مایوس کن نظر آرہا ہے لیکن اصل بات آج بھی کوئی نہیں کررہا ہے۔ ہم اپنے مینڈیٹ کی بات کر رہے ہیں آج چار چار مہینے ہم پہ جو گزری ہے اس کی بات کر رہے ہیں۔ یہ نہیں کہہ رہا کوئی کہ یہ کر کون رہا ہے؟۔ یہ ہوا کیسے؟۔تو ان چیزوں کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہیے کہ آج ہمارا نظام کس کے ہاتھوں میں ہے؟۔ ایک پریزائڈنگ افسر یا کمشنر ہمارے ساتھ یہ کر رہا ہے؟۔ ہم تو آج اس پہ بحث کرنا چاہ رہے تھے کہ سینٹ میں بیٹھ کے ہم اس پہ بات کریں کہ ہم نے اپنا تمام نظام، تمام جمہوری ادارے، سینٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کسی اور کے ہاتھوں میں دے دیے ہیں۔ یہ کسی اور کے رحم و کرم پہ چل رہے ہیں۔ اور اسکے خلاف جب تک ہم سیاسی پارٹیاں آپس میں ون ایجنڈا کے تحت بات نہیں کریں گے اس کو آپ کیسے آزاد کرو گے؟۔ ہم بات کر رہے ہیں مینڈیٹ کی تو یہ کس نے چرایا ہے ؟۔ آپ کو90،93دیے یا کسی کو ایک بھی نہیں دیا تویہ کس نے کیا ؟۔ یہ کسی سیاسی پارٹی نے تو نہیں کیا۔ پہلے دن سے یہی طریقہ کار چل رہا ہے کہ ہماری جو بڑی پارٹیاں ہیں جو وزیراعظم بننے کے خواب دیکھتے اور خواہش رکھتے ہیں ان کو کبھی یہی ادارے ملک بدر کر دیتے ہیں لیکن بعد میں وہ ان کی گود میں بیٹھ جاتے ہیں اقتدار کیلئے۔ ان کی بڑی لیڈرشپ کو پھانسی دی جاتی ہے لیکن آج وہ انکے رحم و کرم پہ اپنی سیاست کر رہے ہوتے ہیں۔ آج جو عمران خان کیساتھ کر رہے ہیں کیا عمران خان سے ان کا تعلق نہیں تھا؟۔ پھر بھی ہم سبق نہیں سیکھ رہے ہمیں مسئلہ اس چیز سے ہے۔ آج تو کم سے کم بھٹو، عمران خان، نواز شریف کے جو جیالے ہیں یہ تو کم سے کم ایک ساتھ بیٹھیں کہ ہمارے ساتھ کیا کس نے ہے؟۔ ہم ایک ایجنڈا پہ کیوں نہیں اکھٹے ہو سکتے کہ ہم اس سے جان چھڑائیں۔ ہم اپنی فارن پالیسی ان سے چھڑائیں۔ کس آئین میں یہ اختیار ملا ہے کہ کسی فوجی افسر کے پاس سیاستدان جائیگا پیسے جمع کرے گا تو اس کو سیٹ ملے گی؟۔ یہ کس نظام کی طرف ہم اپنے بچوں کو لے جا رہے ہیں۔ کل ہماری جگہ پہ ہماری آنے والی نسلیں اس سینٹ میں آئیں گی تو کس حساب سے آئیں گی؟۔ ہر کسی کے پاس اربوں روپے ہوں گے تو وہ آئیگا؟۔ ایک سیاسی کارکن تو یہاں نہیں آ سکتا نہ آپ کا کوئی سیاسی کارکن پاکستان میںMNAبن سکتا ہے نہ آپ کا کوئی سیاسی کارکنMPAبن سکتا ہے، نہ نمائندہ نہ سینٹر بن سکتا ہے جناب چیئرمین صاحب۔ آج آپ کا نظام ایسی نہج پہ پہنچا ہے اگر اس کو آج بھی آپ لوگوں نے سیریس کور نہیں کیا آج بھی آپ نے اپنی آنے والی نسلوں کیلئے اس کو ٹھیک نہیں کیا تو آپ یقین مانیں کہ پاکستان ایک ایسے راستے پہ جا رہا ہے جو ختم ہونے والا راستہ ہے۔ یہاں پہ ہمارے سینیٹر صاحب نے بات کی کہ تین چار مہینے میں کیا گزرا۔(ایک سینیٹر نے اپنی آپ بیتی بیان کی وہ زندہ لاش ہے۔اس کو بہت تشدد کا نشانہ بنایا گیا ) میں اس ہاؤس سے پوچھتا ہوںکہ یہاں پہ مسنگ پرسنز کی جو ہماری بچیاں آئیں۔ پانچ پانچ چھ چھ سال سے ان کا بیٹا یا شوہر یا والد مسنگ ہے ۔ دکھ اس بات پرہے کہ آپ سوچیں کہ ان کو کتنی تکلیف ہوگی کہ ڈیلی بیسز پہ ان کو فون آتا ہے کہ کوئی لاش کسی پہاڑ سے ملی ہے تو جتنے لوگوں کے ورثہ کو مسنگ کیا گیا ہوتا ہے وہ سارے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں لائن میں کھڑے رہتے ہیں تین تین چار چار گھنٹے لائنوں میں دو دو دن اسکے انتظار میں کہ میرا بیٹا تو نہ ہوگا، میرا والد تو نہ ہوگا۔جب سے پاکستان بنا ہے اتنی اذیت سے ہمیں اور بلوچستان کو گزارا جارہا ہے ۔اس کیلئے کسی نے بات کی؟۔مسنگ پرسنز پہ آنکھیں بند کیں تو آج آپ کے مینڈیٹس مسنگ ہوئے کل باقی چیزیں مسنگ ہوں گی۔کل آپ کا نظام آپ کا آئین مسنگ ہوگا۔ ہمارے بڑے باچاخان بابا مخالفت کرتے تھے اس پاکستان کی وہ اس پاکستان کی مخالفت نہیں کرتے تھے کہ آپ پاکستان مت بنائیں ۔یہ والا پاکستان مت بنائیں اس کا یہ مؤقف تھا کہ یہ آج جو یہ قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر ہم نے لگائی ہے کیا آج یہ اسی قائد اعظم محمد علی جناح کا نظام ہے؟۔ آج پاکستان اس نظام سے چل رہا ہے؟۔ جس مقصد کے لیے انہوں نے بنایا تھا اس مقصد کے لیے چل رہا ہے؟۔آج آپ کےAPSکے جو بچوں کے قاتل ہیں وہGHQسے چھڑائے گئے ہیں۔ آپ کا سارا نظام آج یہی فوجی نظام چلا رہے ہیں۔ آج ہم کیا کر رہے ہیں جناب چیئرمین صاحب؟۔ ایک طرف ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور ایک طرف اسکے خلاف ہم کھڑے نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ آپ کھڑے ہوں گے تو آپ کے بچے کو مار دیا جائے گا۔ آپ نے اگر حق بات کی آپ سے سیٹ لی جائے گی۔ ہم سارے یہاں پہ مسلمان ایماندار لوگ ہیں ایک دن آپ نے پیدا ہونا ہے ایک دن مرنا ہے کم سے کم یہ جب آپ سوچیں گے اس حساب سے آپ آئیں گے تو آپ بات کر سکیں گے آج بھی ہم یہاں رو رہے ہیں کہ ہم الیکشن کمیشن کے خلاف جائیں گے۔ کیوں بھائی!انکے کیخلاف کیوں جائیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا ہے؟۔ جس ادارے نے یہ کروایا ہے اسکے خلاف کیوں نہیں جائیں گے؟۔ جن اداروں کی وائس نوٹ صوبوں میں نکلے ہیں پیسے لیتے ہوئے انکے خلاف کیوں نہیں جائیں گے؟۔ ہمیں تو انکے اوریجنل نام نہیں معلوم، جو فیک نام انہوں نے رکھے ہیں اور بولیاں لگائی ہوئی ہیں20،20کروڑ کی اسکے خلاف کیوں نہیں جائیں گے؟۔ مجھے تو سمجھ نہیں آرہا جناب چیئرمین صاحب کہ ہم کس نظام اور کس آئین کی طرف جا رہے ہیں؟۔ یہاں پارلیمنٹ لاجس سے باہر نکلتے ہوئے پارک میں کچھ بن رہا ہے تو میں نے پوچھا کیا بن رہا ہے کہتا ہے آئین۔ میں نے کہا کون سا آئین جو ہمارے ٹیبل پہ پڑا ہوتا ہے وہ یا جو اس ملک کے حقیقی جو چلا رہے ہیں وہ والا آئین لگائیں گے ؟۔ ایک آئین سلیکٹ کر لیں ہم وہیں پہ چلے جائیں گے لیکن ہمیں ایک آئین کی کتاب کچھ اور دکھاتے ہو اور پاکستان کسی اورطریقے سے چلا رہے ہو۔ ان چیزوں کے خلاف ہم سیاسی پارٹیوں کو اکٹھا ہونا پڑے گا اس نظام کو اگر آپ اس طرح نہیں بدلو گے تو آپ کا مینڈیٹ تو چھوڑیں آپ اپنے ساتھیوں کو پیدا نہیں کر سکیں گے جو بلوچستان کے ساتھ ہوا ہے وہ مسنگ ہر صوبے میں آپ کے پولیٹیکل لوگوں کے ساتھ ہوگا ۔ہمارا تو یہی مؤقف ہے اس پارلیمان میں ہمیں پارٹی کی حیثیت سے بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ کولیگز کی حیثیت سے یہاں پہ ہمیں ایک نظام لانا چاہیے۔ ہمیں ایسے بلز لانے چاہئیں کہ ہم ایک ساتھ ہوں اور اس پاکستان کو اب ریزولوشن کی ضرورت میرے خیال سے نہیں کہ آج ایک موشن پہ ہم بات کر رہے ہیں ریوولوشن کی ضرورت ہے ایک ریوولوشن جس پہ ہم تمام پارٹیاں مل کر اس کیلئے جدوجہد کریں اور اس پاکستان کو ان لوگوں سے آزاد کرائیں تو تب ہمارا پارلیمانی نظام بہتر ہوگا ۔

PTIکے رہنما عون عباس کی رونگٹے کھڑے کرواددینے والی روداد
سینیٹر عون عباس نے سینٹ میں کہا کہ مجھے لاہور ڈیفنس سے اٹھالیا گیا۔14دن میں جو بھی چلہ کاٹا واپسی پر ایک اسٹیٹمنٹ دے دی تھی کہ میں جنوبی پنجاب تحریک انصاف کی صدارت سے استعفیٰ دیتا ہوںاور9مئی کی مذمت کرتا ہوں اور مجھے آزاد کردیا گیا۔ آزاد تو ہوگیا لیکن ایک زندہ لاش ہوں ایک ایسی زندہ لاش جو نہ سوچ سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے نہ بول سکتا ہے۔ مجھے نفرت ہوتی جارہی ہے اس ایوان میں بیٹھ کر اس تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے جو مجھے اس چیز کا یقین دلاتی ہے کہ میں آزاد ہوں، میں آزاد نہیں ہوں۔ اگر مجھے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت یہ ریاست نہیں دے سکتی تو میرا یہاں جینے کا حق بھی نہیں بنتا۔ کون ہوتا ہے کہ جو مجھے ڈکٹیٹ کرے کہ میں کیا ہوں اور کیا سوچ سکتا ہوں؟۔ آپ کو اندازہ نہیںکہ پچھلے6،8مہینے کتنے کرب میں گزارے ہیں۔ سارے لوگ یہاں بیٹھ کر چائے پی رہے ہوتے تھے سینٹ کا سیشن میں دیکھ رہا ہوتا تھا جب میں گھر میں چھپا ہوتا تھا۔ یہ باتیں کرنا آسان ہے آج آپ رگنگ کی باتیں کررہے ہیں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے مجھے آج تک ایک پلیٹ فارم نہیں دیا گیا۔ افسوس ہوتا ہے کہ یہاں بیٹھ کر سارے باتیں کررہے ہیں رگنگ پر لیکن ان بیچارے ورکروں کے ساتھ ہمارے دوستوں اور پی ٹی آئی کے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے آج تک کسی نے اس پر بات نہیں کی۔ یقین جانیں اگر میں ایک روداد سنا دوں تو آپ پریشان ہوجائیں گے۔ ان4مہینوں میں جب چھپا ہوا تھا میرا گھر گرادیا گیا ۔ میری فیکٹری میرے کاروبار بند کردئیے گئے۔ ایک چھوٹا سا زمیندار ہوں۔ آموں کے باغ پر جو باغ سنبھالتے ہیں ان کو اٹھاکر لے گئے باغ بھی برباد ہوگئے سر۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مغربی جمہوری نظام مکمل طور پر ناکام

مغربی جمہوری نظام مکمل طور پر ناکام
وطن عزیز پاکستان میں76برس سے جمہوریت کے نام پر ایک ایسا فرسودہ نظام رائج ہے جس میں نام نہاد عوامی مینڈیٹ کے نام پر چند خاندان چہرے بدل بدل کر عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے اقتدار کے ایوانوں میں مسلط ہیں۔ ایسا نظام جس میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے والے سیاست دان چند ذاتی سیاسی فوائد کیلئے ایک دوسرے کو گلے لگانے لگتے ہیں اس نظام میں سیاستدانوں کے نزدیک سیاست عوام کی خدمت نہیں بلکہ انکے منہ سے نوالہ چھین لینے کا نام ہے نظریہ ضرورت ان کا نظریہ کرپشن اور بے ایمانی ان کا ایمان اور عوام کو بے وقوف بنانا ان کی عقل و دانش کا معیار ہے ان کی عدالت میں ظلم و نا انصافی کا نام انصاف رکھ دیا گیا ہے۔ عوام کو مہنگائی و بے روزگاری جیسے مسائل میں الجھائے رکھنا ان کا مشغلہ ہے۔ تعصبات کو ہوا دے کر عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے میں ان کے سیاسی مفادات کا راز پوشیدہ ہے یہ ابن الوقت سیاستدان نظریہ پاکستان یعنی اللہ کی دھرتی پر اللہ کے نظام سے کبھی بھی وفادار نہیں ہو سکتے یہ ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جس کے تحت چند افراد کے ہاتھ میں تمام وسائل دے کر عوام کو محکوم و مجبور بنا دیا جاتا ہے اب وہ وقت آگیا ہے کہ وطن عزیز کے باشعور عوام اپنا فرض پہچان کر اس فرسودہ مغربی جمہوری نظام اور اسکے پروردہ سیاستدانوں کو ہمیشہ کیلئے گھر کا راستہ دکھا دیں ہمیں متحد ہو کر ایسی قیادت کو سامنے لانا ہوگا جو بہترین صلاحیت رکھنے کیساتھ ساتھ نہ صرف اسلامی طرز زندگی کا نمونہ ہو بلکہ اسلام کو نظام حکومت و سیاست کے طور پر نافذ کر کے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کیلئے عملی اقدامات کرے۔

ازایڈیٹرنوشتۂ دیواراجمل ملک

سوشل میڈیا پر یہ امانت کسی مخلص انسان کی ہوسکتی ہے مگر سعودی عرب، ایران اور افغانستان کے اسلامی ماڈل کے علاوہ ہمارے امیرالمؤمنین جنرل ضیاء الحق ، جنرل ایوب اورجنرل پرویر مشرف کے ماڈل بھی اہل پاکستان کو قبول نہیں۔ مغرب کی جمہوریت یہاں نہیں بلکہ شخصیات وخاندانوں کا قبضہ مافیا ہے۔ اگر اسلام کا معاشرتی ومعاشی نظام آگیا تو سیاست بدلے گی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا

نبی ۖ نے اپنے چچا عباس کے سود کو معاف کرنے کا اعلان فتح مکہ کے بعد کیا لیکن مزارعت کو بہت پہلے سے سود قرار دیکر مدینہ میں ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جس سے یثرب مدینہ بن گیا
اگر پاکستان کے میدانی اور پہاڑی علاقوں میں محنت کش عوام کو بنجر زمینیںمفت میں فصل ،باغات اور جنگل اُگانے کیلئے دی گئیں تو اناج ،پھل ،لکڑی سے غربت کا خاتمہ اور جنت کا منظر ہوگا

ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا تھاتو سندھ اور پنجاب میں مقبول ہوا، عوام کو پتہ نہ تھا کہ سوشلزم کیا ہے؟۔ آج تک پڑھے لکھے لوگوں کو ادراک نہیں۔جاہل لوگوں میں بھٹو کی مقبولیت اسلئے بڑھ گئی تھی کہ انڈسٹریوں کو سرکار کی تحویل میں لیا گیا تو مزدورطبقے کو یقین دہانی کرائی گئی کہ سرکار تمہاری ہے اور سرمایہ داروں سے انڈسڑیوں کو چھین لیا۔ پختونخواہ میں آج تک بہت سی زمینوں پر غریب مزارعین نے قبضہ کرلیا اور زمین مالکان ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ بینظیر بھٹو نے باپ کے برعکس سرکاری اداروں کو پرائیوٹ کردیا۔ عوام کو کچھ سمجھ نہیں کہ باپ اور بیٹی میں کیا تضادتھا؟۔ روس امریکہ کی سرد جنگ کا ایندھن افغانستان اور پاکستان بن گئے۔اسرائیل نے فلسطین میں بچوں،خواتین اور انسانیت کا بہت برا حال کیا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عزام کا تعلق فلسطین سے تھا جس کو اپنی سرزمین کی فکر نہ تھی۔ سعودی عرب کے تنخواہ دار نے اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کو افغان جنگ میں جھونک دیا۔ بینظیر بھٹو نوازشریف پر اسامہ اور اسرائیل کے ایجنٹ کا الزام لگاتی تھی ۔ نوازشریف بینظیر بھٹو کوامریکی ایجنٹ کہتا تھا۔ بینظیر بھٹو نے نصیراللہ بابر کے ذریعے امریکہ کیلئے طالبان حکومت قائم کی ۔نوازشریف نے مولانا لاہوری کے پوتے مولانا اجمل قادری کو اسرائیل بھیجا ۔25فیصد سود کو اسلامی بینکاری قرار دیا۔ بیت المقدس کو چھوڑ کر ابھی مکہ مدینہ پر یہودی قبضہ کی بات ہے۔ اگر مزارعت سے سودی نظام کے خاتمے کی ابتداء ہوگئی تو بینکاری کے سودی نظام سے بھی چھٹکارا مل جائیگا۔ اقتصادی تباہی سے ہمارا دینی، ہمارا دفاعی اور سیاسی نظام سب کچھ اغیار کے حوالے ہوجائیگا۔ آج اگر مزارعت سے ابتداء کرلی تو عالمی سودی نظام سے بھی جلد چھٹکارا مل جائے گا۔ اللہ ہمارے اہل اقتدار کو عقل دے۔ جاگیردار اور سرمایہ دار کیلئے بھی مہنگائی ہے۔ غریب و محنت کش کو ریلیف دینے سے نہ صرف سب کو ریلیف مل جائے گا بلکہ لینڈ مافیا اور ظالموں کو بھی لگام مل جائے گی۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور اس کو اسلامی بنیاد پر جنت نظیر بننے میں دیر نہیں لگے گی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اور انہوں نے چال چلی اور اللہ نے چال چلی اور اللہ بہتر چال چلنے والا ہے۔ شہبازوزیراعظم بننے اور زرداری صدر مملکت بننے کا نتیجہ آخرکیا نکلے گا؟

ومکروا ومکراللہ واللہ خیر الماکرین
اور انہوں نے چال چلی اور اللہ نے چال چلی اور اللہ بہتر چال چلنے والا ہے۔ شہبازوزیراعظم بننے اور زرداری صدر مملکت بننے کا نتیجہ آخرکیا نکلے گا؟

واتقوا النار التی وقودھا الناس و الحجارة
اور اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں
پیپلزپارٹی نے اگرجمہوریت کی بقاء کیلئے فیصلہ کیا ہوتا کہ تحریک انصاف نے عمر ایوب کو وزیراعظم نامزد کیا ہے ہم پارلیمنٹ میں تیسری بڑی جماعت ہیں اسلئے شہبازشریف اور عمر ایوب کے درمیان وزیراعظم کیلئے بالکل غیرمشروط عمر ایوب کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں تواس کا سب سے زبردست نتیجہ یہ نکلتا کہ جمہوریت اور عوام کا بھلا ہوجاتا۔ لیکن پیپلزپارٹی شاید جمہوریت اور عوام سے زیادہ اپنے مفادات کے کھیل کو ترجیح دیتی ہے اور یہ سمجھ رہی ہے کہ میری لاٹری نکلی ہے۔ پنجاب کی دونوں بڑی پارٹیاں تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان کھل کر کھیل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ جو اسٹیبلیشمنٹ اور مسلم لیگ ن کل تک پیپلزپارٹی کی بساط سندھ میں بھی لپیٹنے کے چکر میں تھی آج وہ زرداری کو صدر مملکت بنانے پر بھی مجبور ہیں جو انکے دل و دماغ میں پھوڑا بن کر نکلے گا۔ مرکزی حکومت کمزور گدھیڑے کی طرح ہاتھ کا کھلونا ہوگی جس سے سندھ حکومت کو تحفظ دینے کیساتھ ساتھ18ویںترمیم کی ان شقوں کو بچانے کا موقع ملے گا جس کو ن لیگ اور تحریک انصاف پرائے بچے کی طرح کھڈے لائن لگانا چاہیں تو لگام ہاتھ میں ہوگی۔ پھر جمعیت علماء اسلام،پختونخواہ ، بلوچستان اورسندھ کی پارٹیوں نے صدر زرداری کی سیاست کو سلام پیش کرنا ہے۔ تحریک انصاف شروع سے18ویں ترمیم کا خاتمہ چاہتی تھی لیکن اس کو موقع نہیں مل سکا۔ حالیہ دنوں میں اپنے نئے منشور کا اعلان بھی اسلئے کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دیدیا کہ
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
اپنی خدمات کسے پیش کریں کوئی جوہر قابل ہی نہیں
پیپلزپارٹی یہ سمجھ رہی ہے کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں وہ گدھیڑیاں ہیں جو اپنی دم ہمیشہ اٹھا کر جیتے ہیں۔اسٹیبلیشمنٹ کے گدھے اور ان کے درمیان فاصلہ نہیں رکھا تو چھوٹے تینوں صوبوں کو بھی مرکز یت کی بھینٹ چڑھاکر پنجاب کیلئے تختہ مشق بنادینگے۔ بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ من پسند لوگوں کو منتخب کرتی ہے اورپختونخواہ میں تیسری بار تحریک انصاف کو لایا گیا جو صوبے کا فنڈز لگانے کے بجائے صحیح سلامت واپس کردیتی ہے اور پنجاب میں ہمیشہ اطاعت گزار طبقہ ہوتا ہے جو مرکز کو فنڈز واپس کردیتا ہے لیکن ایک سندھ ہے جو ایک پائی بھی مرکز کو واپس نہیں کرتا ۔ پیرپگاڑو اور علامہ راشد محمود سومرو کو پہلے یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ حامد میر کے پروگرام میں انصار عباسی نے بتایا تھا کہGHQنے مولانا کوپلاٹوں سے بہت نواز دیا اسلئے نواز لیگ بن گیا۔ حالانکہ انصار عباسی کے ذاتی گھر تک شہباز شریف نے کروڑوں کے روڈ کا خرچہ کیا تو حامد میروہ بھی بتادیتے!۔

تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن پر چیک ہوئے
بالفرض تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نےMQM، جمعیت علماء اسلام ، جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان ،تحریک لبیک، عوامی نیشنل پارٹی ، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور سندھیوں و بلوچوں کی قوم پرست پارٹیوں کے ساتھ قومی حکومت بنالی تو کیا پھر عوام آنے والی مہنگائی کا بوجھ برداشت کرسکیں گے؟ اور نہیں تو سیکورٹی فورسز، سول بیرو کریسی اور عدالتوں کے ساتھ مل کر ان کے بدمعاش کارکن عوام کو سنبھال سکیں گے؟۔ قرآن نے سودی نظام کو اللہ اور اسکے رسولۖ کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ اسرائیل کی حکومت2.5%سود لیتی ہے جبکہ ہمارے ہاں اب25%سے زیادہ سود ہے ۔ کون عذاب کا مستحق ہے؟۔جب ہماری سیاسی قیادت اورعسکری قیادت میں اتنا بھی دم خم نہیں ہے کہ عوام بھوک سے مررہی ہے ، مہنگائی کا طوفان ہے۔ گیس دستیاب نہیں ہے تو ایسی صورتحال میں ایران سے اپنے معاہدے کے مطابق گیس لے سکیں؟ ۔ تیل بڑے پیمانے پر سمگل کرنے کے بجائے عوام کو زبردست ریلیف دے سکیں؟۔تو پھر اس سے زیادہ غلامی کیا ہوسکتی ہے؟۔
عمران خان نے اعلان کردیا کہ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن اورMQMکے علاوہ ساری جماعتوں سے اتحاد ہوسکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اس کے بعد گرین سگنل دے دیا۔ تحریک انصاف کے وفد نے ملاقات کی اور دشمنی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ یہی سیاست ہوتی ہے۔ اگر تحریک انصاف اعلان کردیتی کہ سب سے بات ہوسکتی ہے تو زیادہ بہتر بات تھی۔ اگر تحریک انصاف کہتی کہ ن لیگ اورMQMکے علاوہ سب سے بات ہوسکتی ہے تو پیپلزپارٹی اور مولانا فضل الرحمن سے مل کر حکومت بھی بنالیتے اور واضح دھاندلی کی نشستیں بھی پنجاب سے واپس لے سکتی تھی۔اپنی قیادت عمران خان اور کارکنوں کو جیلوں سے آزادی بھی دلاتی۔ کراچی میں بھی دھاندلی سے ہاری ہوئی سیٹوں کو واپس لینے کا موقع مل جاتا۔ سب سے بڑھ کر بات یہ کرسکتے تھے کہ فوج کو اپنی اصل پوزیشن پر واپس بھیج دیتے۔ پنجاب سے ن لیگ کا صفایا ہوجاتا تو سیاسی جماعتوں کی بالادستی یقینی ہوتی۔ صحافی حضرات بھی دلالی کا دھندہ چھوڑ دیتے۔ اب یہ تاثر باوثوق ذرائع سے پھیلایا جارہاہے کہ ن لیگ مرکز میں حکومت لینے کا ارادہ ترک کرچکی تھی لیکن ان سے کہا گیا کہ پھر پنجاب سے بھی بستر گول ہوگا۔ مریم نواز کی وزارت اعلیٰ نے مسلم لیگ ن کو زردای سے اتحاد کرنے پر مجبور کیا۔ سیاست حکمت کا نام ہے۔ اگر مریم نواز پنجاب اور مرکز میں عورت کے اسلامی حقوق کا ایجنڈہ اٹھالیتی ہے ۔ بشریٰ بی بی کے نکاح پر معاملہ واضح کردیتی ہے تو بڑا انقلاب آسکتا ہے

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ ریاست چھچھوری بھی ہوتی ہے۔ وسعت اللہ خان

مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ ریاست چھچھوری بھی ہوتی ہے۔ وسعت اللہ خان

1970الیکشن کے نتائج سے سلیکٹر نے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ کتنی آزادی دینی ہے وسعت اللہ

سب سے پہلے یہ ڈسکلیمر دینا چاہتا ہوں نرا صحافی ہوں میرا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور9مئی کے واقعات کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ مظہر کے بارے میں عاصمہ اور ایک اور مقررہ نے کہا کہ انکی رپورٹنگ، اصول پسندی اوراس کی وجہ سے لفافے میں گولیاں بھر کے بھیجی گئیں۔ تو بھائی جب آپ لفافہ قبول نہیں کرو گے تو لفافے میں اور کیا آئے گا؟۔ یہ بھی کہا گیا کہ متوازن جرنلسٹ، غیر جانبدار جنرلسٹ ہیں میرے حساب سے جرنلسٹ کا متوازن اور غیر جانبدار ہونا یہ خوبی نہیں یہ عیب ہے۔ آپ کیسے متوازن ہو سکتے ہیں جب لوگ غیر متوازن ہوں۔ آپ کیسے غیر جانبدار ہو سکتے ہیں جب زیادتی ہو رہی ہو۔ آپ کو جانبدار ہونا پڑتا ہے اس کیلئے جس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ اسلئے اچھی بات یہ ہوگی کہ اگر آپ نہ متوازن ہوں نہ غیر جانبدار ہوں۔ غیر جانبدار ویسٹرن میڈیا ہے اگر غزہ ہو ورنہ وہ بھی غیر جانبدار نہیں ہوتا ہے اور پاکستان میں ایسے بہت سے ایشوز ہیں کہ میرے خیال میں وہاں صحافی کا غیر جانبدار ہونا جانبدار ہونے سے بھی زیادہ برا ہے ۔ اس میں نو گو ایریاز ہیں، انسانی حقوق کے بے شمار ایشوز ہیں، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ، اگر کوئی تعلق نہیں تو پھر ہمارا صحافت سے بھی کوئی تعلق نہیں سیدھی سی بات ہے ۔ سیاست ہمیشہ سے اس ملک میں100میٹر کی بجائے ایک ہرڈل دوڑ رہی ہے اور ہر دفعہ رکاوٹیں جو ہیں وہ بدل دی جاتی ہیں۔ ایبڈو لگا دیا جاتا ہے اس کے بعد ایمرجنسی لگا دی جاتی ہے اگر ایبڈو سے کام نہیں چل رہا ہے تو پہلے احتساب ہوگا پھر انتخاب ہوگا وہ چھلنی لگا دی جاتی ہے۔ اس سے کام نہ چلے تو پھر58-2Bآ جاتی ہے اس سے بھی کام نہ چلے تو62،63کے تحت جو سب سے کاذب آدمی ہے وہ میرے بارے میں فیصلہ کرتا ہے کہ میں صادق اور امین ہوں یا نہیں ۔ اس سے کام نہیں چلتا تو کہتے ہیں کہ جی ووٹر تو خیرجاہل ہیں لیکن کینڈیڈیٹ کو تو کم از کم جاہل نہیں ہونا چاہیے ۔ تو پھر ایسے ایسے گریجویٹ سامنے آتے ہیں2002میں کے بعد وہ شرط خود بخود کہیں غائب ہو جاتی ہے۔ اس سے کام نہیں چلتا تو نیب کی چھلنی میں چھن کے جاؤ گے تو ہم تمہارے ساتھ بات کریں گے اس سے کام نہیں چلتا ہے تو کہتے ہیں ٹھیک ہے آپ الیکشن میں حصہ لے لیں لیکن انتخابی نشان نہیں دیں گے۔ اس سے بھی اگر کام نہ چلے تو مجھے بتایا گیا ہے کہ بحیرہ عرب میں ایسی10،15شارکیں ہیں جو27تاریخ کو ٹھیک ساڑھے چار بجے انٹرنیٹ کی تار کاٹ دیتی ہیں۔
میرا جو بیک گرانڈ ہے وہ انٹرنیشنل ریلیشنز کا ہے مظہر جانتا ہے۔ میں نے جو ہسٹری پڑھی ہے سٹیٹس کی اس میںویلفیئر سٹیٹس پڑھی ہیں۔ فاشسٹ اسٹیٹ بھی ہوتی ہے، ہائبرڈ سٹیٹ بھی ہوتی ہے لیکن پہلی دفعہ مجھے یہ پتہ چل رہا ہے کہ چھچوری ریاست بھی ہو سکتی ہے جو چلمن سے لگی ہوئی ہے سامنے بھی نہیں آرہی ہے سیدھا سیدھا کہہ دو یار تو یہ کام نہیں کر سکتا اس میں کیا قباحت ہے ماضی میں آپ یہ کر چکے ہیں۔ اب آپ کو جو ہے نین تارہ بن کے گھونگٹ نکال کے وہی حرکتیں کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ سیدھا سیدھا سامنے آئیں ہم نے پہلے بھی صبر کیا ہم آگے بھی صبر کر لیں گے۔ ہم میں کچھ اور خوبی ہو نہ ہو لیکن صبر کی خوبی تو بڑی مثالی ہے ہم نے ایک ایک چیز کو جو ہے ایک ایک تجربے کو برداشت کر لیا ہے ہم نے تو ایسے سیاست دان بھی برداشت کر لیے ہیں جن کے لیے ایک کی مصیبت دوسرے کے لیے سنہری موقع بن جاتی ہے اور وہ یہ سوچے بغیر کہ کل وہ بھی اس شکنجے میں آ جائیں گے وہ بقول فراز کے کہ
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا گدا گرانے سخن کے ہجوم سامنے تھے
رول انکے چینج ہوتے ہیں پھرآخر میں مجبور دلہن بن کے وہ سائن کر دیتے ہیں جو کاغذ سامنے پڑا ہو۔ یہ جو جسے ہم کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ یا عسکری قیادت یا ہائبرڈ سسٹم یا طالع آزما کچھ بھی کہہ لیں۔ یہ درست ہے کہ70کے الیکشن نسبتاً پہلی دفعہ ون مین ون ووٹ کا مزہ چکھ رہے تھے عوام بھی اور حکمران بھی تو دونوں کو نہیں پتہ تھا کہ کیا کرنا ہے تو انہوں نے بھول پن میں جو ان کے دل میں آیا کہ جی یہ اچھا ہے اس کو ووٹ دے دیا۔ جب گڑبڑ ہو گئی تو اس کا تو وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے تیر کمان سے نکل چکا تھا انہوں نے کہا آئندہ یہ نہیں ہونے دیں گے۔ ایوب خان بالکل درست تھا ان لوگوں کو ووٹ دینے کی بالکل تمیز نہیں ہے اسی لیے بیسک ڈیموکریسی کی لیبارٹری سے ان لوگوں کو گزارنے کی کوشش کی لیکن ان کو ککھ عقل نہیں آئی ۔ لہٰذا ہم ان کو فیصلہ کرنے دیں گے بیلٹ ڈالنے کی حد تک لیکن جو اصل فیصلہ ہے وہ ہم ہمیشہ شام کو پانچ بجے پولنگ کے خاتمے کے بعد کریں گے۔ تو یہ فارمولا موٹا موٹا سا طے ہو گیا اور انکو شاید کسی نے یہ مقولہ بھی بتا دیا ہو کہ کتنے ووٹ پڑے اس کی اہمیت نہیں ہوتی، کتنے گنے گئے اس کی اہمیت ہوتی ہے تو یہ کم و بیش آپ کو فارمولا۔ اس میں یہ ہے کہ کبھی91،93،97،2002،2008،2013،2018اور2024کبھی نمک تیز ہو جاتا ہے مرچ ہلکی کر دیتے ہیں کبھی مرچ اور نمک جو ہے تیز کرنا پڑتا ہے وہ حالات کے حساب سے جو ہے وہ دیکھ لیا جاتا ہے۔ تو اس دفعہ بھی یہی ہوگا اور ایک اور چیز جو سیکھی گئی تھی70کے الیکشن کے نتائج سے کہ اب کسی کو کھلا ہاتھ نہیں دینا ہے۔ بھٹو صاحب نے بہت تنگ کیا تھا انہیں شروع شروع میں تو اب جو ہے جو بھی بنے گا اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مقناطیس لگا دیے جائیں گے علاقائی پارٹیوں کی شکل میں چھوٹی قومی پارٹیوں کی شکل میں مذہبی تنظیموں کی شکل میں اور وہ مقناطیس جو ہیں وہ بیلنس آف پاور جو ہیں وہ قائم رکھیں گے۔ کسی نے کہا تھا کہ ہماری جو ہیں دو ایکسپورٹس ہیں ایک تو کپاس ہے اور دوسری ہے ہائی براڈولرجی تو اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے سہیل وڑائچ نے آپ کی کتاب میں جو لکھا ہے تبصرہ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مظہر عباس کا سینہ رازوں سے بھرا ہوا ہے اب وقت آگیا ہے کہ وہ مرتضی بھٹو کے قتل، بے نظیر بھٹو سے ملاقاتوں اورMQMکی اندرونی کہانیوں اور لڑائیوں کا احوال بھی لکھیں۔ ابھی جب سہیل وڑائچ صاحب آئیں گے یہ دیکھیں میں نہیں کہہ رہا عوام تک بات پہنچ گئی ہے جو میں نے بغیر تبصرے کے آپ کو بتا دی تو سر ابھی انہیں کتابیں لکھنے دیں ۔ ایک زمانے میں جو ہے ایک لطیفہ بھی تھا بلکہ فاروق ستار صاحب کی مناسبت سے ہی وہ مشہور ہوا تھا اب چونکہ2015میں یہ اس لیے میں سنا سکتا ہوں وہ یہ تھا اچھا لطیفہ لطیفہ ہوتا ہے یعنی تردید مت کیجیے گا کہ یہ حقیقت تھی حقیقت نہیں تھی یہ لطیفہ ہے کہ جی فاروق ستار صاحب نے اعلان کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ نون میں شامل ہو رہے ہیں ان کی نماز جنازہ کل سہ پہر ساڑھے چار بجے ادا کی جائے گی آئی ایم سوری یہ اس زمانے میں تھا تو یہاں جو چیزیں ہیں وہ اس طرح چلتی ہیں یہ جو آپ کو دیوانے نظر آتے ہیں بظاہر ہو سکتا ہے یہ دیوانے نہ ہوں ہو سکتا ہے آپ کو یہ دیوانے بنانے کے لیے دیوانے بنائے گئے ہوں۔ تو یہ ساری چیزیں جو ہیں یہ پیش نظر رہنی چاہئیں اور8فروری کوآپ بھرپور انداز میں ووٹ دیجئے اور9مئی کے واقعات کی مذمت کرتے رہئے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں پر کم از کم معافی تومانگ لیں۔ سہیل وڑائچ

سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں پر کم از کم معافی تومانگ لیں۔ سہیل وڑائچ

جماعت اسلامی ضیاء الحق کیBٹیم اور نواز شریف فوجی گاڑی میں بیٹھ کر مخالف کو کچل رہا ہے

بہت شکریہ میںآج صبح لاہور سے آیا ہوں آپ اہل کراچی کیلئے سلام محبت لے کے آیا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ کراچی بدل گیا مجھے یاد ہے کہ میں کراچی آتا تھا تویہ وائلنس میں پوچھتا تھا کون کرتا ہے وہ کہتے تھے یہ پتہ نہیں کون کرتا ہے ہمیں پتہ نہیں چلتا ۔ تو بات یہ ہے کہ شکر ہے کچھ انہیں پتہ چلا ہے کراچی کے لوگوں کو کہ وائلنس کون کرتا ہے اور کہاں سے ہوتی ہے۔ جب کتاب کی لانچنگ ہوتی ہے تو ہم کہتے ہیں یہ آج شادی کی تقریب ہے مظہر عباس لاڑا ہیںیہ انکی شادی کی تقریب ہے۔ کتاب کو میں بہت اہم سمجھتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں ۔میری تقریر کے دو حصے ہیں ویسے تو ایک ہی تھا صحافت لیکن چونکہ سیاست کی بات چھڑی ہے تو وہ میں دو منٹ کے لیے مؤخرکر کے پہلے صحافت پہ بات کر لیتا ہوں۔ مظہر عباس آئیڈیل صحافی دنیائے صحافت میں کسی بھی مکتبہ فکر کو دیکھ لیں مظہر عباس آئیڈیل صحافی کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ وہ صدارتی محل میں ہوں یا وزیراعظم کے ہم نشین یا لیاری کی غریب بستیوں میں انکے اندر کا صحافی ہر وقت جاگتا رہتا ہے۔ وہ نہ حکمرانوں کے دبدبے سے متاثر ہوئے اور نہ ہی جابروں کی دھمکیوں سے وہ اپنی دھن میں وہی کہتے ہیں جو انہیں کہنا چاہیے۔ انہیں اپنے قلم اور اپنی زبان پر مکمل کنٹرول ہے۔ وہ نہ کسی کی مخالفت میں حدیں پار کرتے ہیں نہ کسی کی حمایت میں چاپلوسی اور خوشامد اختیارکرتے ہیں۔ مظہر عباس زمانہ طالب علمی سے بائیں بازو کی نظریاتی سیاست میں متحرک رہے۔ بائیں بازو سے منسلک رہنے والے لوگ لازمی طور پر صاحب مطالعہ ہوتے ہیں ان کا دنیا کا ویژن بڑا واضح اور عوام دوست ہوتا ہے مظہر عباس انہی خوبیوں سے مزین ہو کر میدان صحافت میں اترے وہ عملی صحافت میں آئے تو اس وقت کراچی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا ہار تھا ایک طرف ضیاء آمریت کے ظلم کا شکار پیپلز پارٹی تھی تو دوسری طرف اردو بولنے والوں کی محرومیوں کی نمائندہMQMتھی۔ مظہر عباس اس مشکل وقت میں دونوں مخالف جماعتوں میں ہمیشہ محترم رہے حالانکہ وہ دونوں پر تنقیداور غلطیوں کی نشاندہی بھی کرتے رہے۔ انہیں لٹریچر کا تڑکا لگا ہے۔ انہیں ساری بڑی اردو شاعری ازبر ہے فیض کا ذکر ہو یا جوش کا ہندوستان کے اندر لٹریری رجحانات ہوں یا پاکستان میں شائع ہونے والی نئی کتابیں مظہر عباس اپڈیٹڈ ہوتے ہیں۔ مظہر عباس کا سینہ رازوں سے بھرا ہوا ہے وقت آگیا کہ وہ مرتضی بھٹو کے قتل ،بے نظیر سے گفتگو اور ایم کیو ایم کی اندرونی کہانیوں اور لڑائیوں کو لکھیں تاکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ مکمل ہو سکے ۔یہاں پر بڑے ماشااللہ سارے لوگ جتنے سٹیج پہ بیٹھے ہیں محترم ہیں لیکن شروع کرتے ہیں زبیر صاحب نے آ کر جمہوریت کی بات کی لیکن یہ بھول گئے کہ ان کے والد محترم جنرل غلام عمر وہ پاکستان کو جو آج اس جگہ کھڑا ہے فوج کے کردار کی وجہ سے اس میں وہ پلر تھے جنہوں نے سب سے پہلے پیپلز پارٹی، عوامی لیگ اور اس وقت کے عوامی نمائندوں کے خلاف سازشیں کیں پیسے بانٹیں اور ان کا ثبوت موجود ہے۔ پہلے تو انہیں ان سے برأت کا اعلان کرنا چاہیے کہ یہ غلط تھا پھر جمہوریت آئے گی ناں۔ بھئی آپ ہی نے تو جمہوریت کا بیڑا غرق کیا اور آپ ہی کہہ رہے ہیں کہ جناب جمہوریت ہونی چاہیے۔ جماعت اسلامی ماشااللہ جمہوریت کی بات کررہی ہے۔ اوبھائی آپ تو مارشل لاء کیBٹیم اور جنرل ضیاء الحق کے ساتھی،افغان جہاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ پاکستان کو تباہ کرنے میں آپ کے نظریات کا کردار تھا۔ کم از کم یہ تو کہیں کہ یار ہم نے ماضی میں بڑی غلطیاں کی ہیں آپ کون سے الیکشن کراتے ہیں۔ مجلس شوریٰ نام دیتی ہے جیسے ایران میں ہوتا ہے تو ان ناموں کو آپ ووٹ دیتے ہیں یہ کون سا الیکشن ہے۔ زبیر صاحب آپ کے والدجنرل غلام عمر کابھی پاکستانی سیاست کو گندا کرنے میں، سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچانے میں بہت بڑا کردار تھا، جنرل یحییٰ خان کے ایڈوائزر تھے اور انہوں نے پیسے بانٹے سیاست دانوں میں۔ تو آپ کو بھی ان کے غیر جمہوری کردار سے برأت کا اعلان کرنا چاہے۔ جناب فاروق ستار اورMQMسے گزارش یہ ہے کہ کراچی سب سے پڑھا لکھا شہر ،سارے آپ لوگ پڑھے لکھے کیا کرتے رہے ہیں ؟۔ الطاف بھائی کے کہنے پہ وائلنس کو سپورٹ کرتے رہے ،لوگوں کو مارنے کو سپورٹ کرتے رہے ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے آپ کو کچھ خیال نہیں آیا کہ آپ میںکوئی تعلیم، کوئی عقل ہے کچھ خیال نہیں آیا ؟۔ تو بھائی آپ بھی کم از کم شرمندہ تو ہوں۔ زبیر صاحب سے مسلم لیگ ن کے آپ گورنر رہے ہیں تو سن لیں۔ بھئی گزارش یہ ہے کہ جو کام عمران خان نے2018میں کیا اس دفعہ آپ وہ کر رہے ہیں۔ بھئی وہ اسٹیبلشمنٹ کی گاڑی میں بیٹھ کے آیا تھا اور سب کو روند کے انہوں نے اس کو وزیراعظم بنا دیا اب آپ یہ کر رہے ہیں تو بھائی کیسے جمہوریت آئے گی؟۔ آپ سارے تو استعمال ہوتے ہیں۔ اگر تنقید کرتے ہیں تو سب نے میڈیا پہ پابندیاں لگائی ہیں۔ بھئی آپ بھی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔ پیپلز پارٹی، بھئی آپنے دو لیڈرشپ کی قربانیاں دیں بڑی بات ہے واحد پارٹی ہے جس نے اپنے لیڈرشپ کی قربانی دی لیکن اب آپ کیا کر رہے ہیں اب آپ تو فوج کے سیکنڈ کیا، تھرڈ کمانڈ کے سامنے بھی جھک کے آپ سیاست کر رہے ہیں۔ کیا یہ عوامی سیاست ہے ؟۔ آپ اس سے محروم طبقات کو فائدہ دیں گے؟۔ تو بھائی بنیادی بات یہ ہے کہ ہم تو آپ سیاست دانوں کے ہمیشہ خیر خواہ رہے میں نے اپنی زندگی بھر کسی سیاست دان پر کبھی الزام نہیں لگایا کبھی کوئی اس کا سکینڈل نہیں کیا کیونکہ میں سیاست دانوں کی عزت کرتا ہوں لیکن سیاسی جماعتوں کا کیا یہی کردار ہونا چاہیے ہمارے معاشرے میں؟۔ کیا یہی جمہوری کردار ہے؟۔ ہرگز نہیں! مظہر عباس اور میں اس کو نہیں مانتے۔ اور ہم نہیں مانیں گے تھینک یو ویری مچ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ایسٹ انڈیا کمپنی سے آج تک سلیکٹڈ و سلیکٹر کی سیاست۔ رضاربانی

ایسٹ انڈیا کمپنی سے آج تک سلیکٹڈ و سلیکٹر کی سیاست۔ رضاربانی

پاکستان کی ریاست نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نصاب میں تاریخ کو مسخ کر رکھا ہے

جناب مظہر عباس! اسٹیج پہ بیٹھے مقررین خواتین و حضرات! سب سے پہلے تو میں مظہر کا نہایت شکر گزار ہوں۔ مجھ سے پہلے نہایت تفصیل کیساتھ بہت اچھی تقاریر ہوئی اور میں نہیں سمجھتا کہ کچھ زیادہ گنجائش ہے کہ ان کو مزید وسعت دی جائے۔ مظہر کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں گو کہ مظہر کی کتاب کے مختلف آرٹیکلز چھپ چکے ہیں اور ایک جو نہیں چھپا اس کا مجموعہ ہے لیکن اس مجموعے کو میں ایک نوجوان نسل کیلئے ہسٹری بک بھی سمجھتا ہوں ۔کیونکہ بدقسمتی سے پاکستان کی ریاست نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کی سیاسی تاریخ کو اور پاکستان کی عمومی تاریخ کو مسخ کیا ہے۔ اور آج جو نصاب یونیورسٹیز، کالجز اور سکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے اس میں تاریخ یقینی طور پہ وہ نہیں جو حقیقت میں ہے۔ نوجوان نسل اگر سیاسی تاریخ کا جائزہ لینا چاہتی ہے تو یقینی طور پہ مظہر کی یہ کتاب سنگ میل ہے۔ میرے حساب سے ہم بہت عرصے سے ایک دوسرے پہ الزام رکھتے چلے آئے اور آئندہ بھی یہ روش جاری رہے گی۔ لیکن آج پاکستان ایسے مرحلے پہ کھڑا ہے جہاں آپ جیسے لوگ جو دانشورہیں جو سوچ رکھتے ہیں جو فہم رکھتے ہیں ان کو یہ بات لازم ہے کہ اگر اس بھنور سے اس ملک نے نکلنا ہے اور یقینی نکلنا ہے تو ایک نیشنل ڈیبیٹ کا آغاز لازم ہے۔ اور نیشنل ڈیبیٹ آئیسولیشن میں نہیں ہوسکتی ہم اگر کہیں کہ جی یہ ایک لائٹ سوئچ ہے آف کریں گے تو کلISIکی مداخلت پاکستان کی سیاست میں ختم ہو جائے گی یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر آپ اس خطے کی تاریخ کو اٹھا کے دیکھ لیں تو ایسٹ انڈیا کمپنی سے لے کے آج دن تک سلیکٹڈ اور سلیکٹر کی سیاست ایک یا دوسری شکل کے اندر چلتی آئی ہے۔ پہلے برٹش راج سلیکٹرز تھا۔ برطانوی سامراج یہاں سے گیا تو بدقسمتی سے پاکستان سے سامراج تو چلا گیا لیکن کلونیل مائنڈ سیٹ اور کلونرائزیشن جو وہ کر کے گیا وہ آج دن تک موجود ہے آج بھی پاکستان کی نوکر شاہی چاہے سول یا ملٹری بیوروکریسی ہو اس کا وہی برطانوی سامراج کا کلونیل مائنڈ سیٹ ہے۔ لہٰذا وہی بات آج بھی چل رہی ہے۔47میں پاکستان کا جو مقصد تھا جس کو قائد اعظم نے بنایا اور کہا کہ یہ ویلفیئر سٹیٹ ہوگی لیکن انکے جانے کے بعد سول اور ملٹری بیورکریسی نے پاکستان کا مقصد تبدیل کر دیا اور اسے گیریزن سٹیٹ بنا دیا لہٰذا جب آپGarrisonStateبن جاتے ہیں جب آپ نیشنل سیکیورٹی سٹیٹ بن جاتے ہیں تو آپ کے تقاضے مختلف ہو جاتے ہیں۔47میں اور اس کے بعد پاکستان کی ملٹری بیوروکریسی نے سول بیوروکریسی کو ساتھ ملاتے ہوئے مختلف پارٹنرز کی تلاش شروع کی اس میں سیاسی جماعتیں شامل تھیں اس میں مذہبی رائٹ شامل اس میں پاکستان کی عدلیہ شامل تھی۔ اور اس میں پاکستان کی معذرت کے ساتھ میڈیا کے کچھ اشخاص بھی شامل تھے جس کی جب ضرورت پڑتی تھی اس وقت وہ پسندیدہ ہوجاتے تھے۔
2017 میں جب میں چیئرمین سینٹ تھا تو ہم نے کمیٹی آف دی ہول کی اور چیف آف آرمی سٹاف کو بلایا اور چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جیISIاس کمیٹی آف دی ہول کے سامنے پیش ہوئے۔ اسی طرح ہم نے چیف جسٹس آف پاکستان اس وقت جمالی صاحب تھے ان سے درخواست کی کہ وہ بھی تشریف لائے۔ لیکن صرف ڈائیلاگ اس کا راستہ نہیں ہے ڈائیلاگ کے علاوہ سب سے بڑی چیز جو ہے وہ مائنڈ سیٹ کی تبدیلی ہے۔ جب تک مائنڈ سیٹ کی تبدیلی تمام سٹیک ہولڈرز کے اندر نہیں آئے گی اس وقت تک یہ ممکن نہیں ہے اور مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کون لائے گا؟۔ مائنڈ سیٹ کی تبدیلی آپ لائیں گے۔ پاکستان کی سول سوسائٹی لیکر آئے گی۔ پاکستان کے دانشور لیکر ائیں گے۔ وہ پریشر بلڈ کریں گے کہ ماضی میں جو ہوا سو ہوا لیکن اب حق ِحکمرانی پاکستان کے عوام کا ہے شکریہ بہت بہت شکریہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

نثار عثمانی نے صحافت میں سکھایا کہ وقت پر سچ بولا جائے۔ مظہر عباس

نثار عثمانی نے صحافت میں سکھایا کہ وقت پر سچ بولا جائے۔ مظہر عباس

جنرل حمید گل نے بتایا کہ1988میں جرنیلوں کو خطرہ تھا کہ بینظیر دو تہائی اکثریت لے گی

میں رضا ربانی، سہیل وڑائچ،زبیر صاحب کا ڈاکٹر ریاض شیخ ،وسعت اللہ خان، احمد شاہ اورآپ سب کا بے انتہا شکر گزار ہوں ۔ابھی میں سہیل صاحب سے بھی یہی کہہ رہا تھا کہ مجھے امید نہیں تھی کہ کسی کتاب کے لانچنگ میں ہال بھرا بھی رہ سکتا ہے۔ تو سہیل صاحب نے کہا کہ آپ کو اپنی مقبولیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ کتاب کا عنوان ”سلیکٹر سے سلیکٹڈ” تک یہ الفاظ ہماری سیاست میں نایاب تھے لیکن چند سالوں میں اس میں اضافہ ہو گیا اور جب یہ الفاظ آئے تو اس کی ایک خاص وجہ تھی اس کے بعد امپائر کی اصطلاح بھی آئی وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا یہ اصطلاح بھی آئی اور کرکٹ کی تمام اصطلاحیں آئیں کیونکہ کرکٹر سیاست میں آگیا۔ جس کا ابھی اکرم ذکر کر رہے تھے اکرم قائم خانی سے اتنی پرانی دوستی اور اتنی گہری دوستی ہے کہ جب یہ انڈر گراؤنڈ تھے تو انہوں نے اپنا نام مظہر عباس رکھ لیا تھا۔ میں نے کہا یار آپ مجھے بتا تو دیتے کہ آپ نے یہ نام رکھا۔ تو انہوں نے کہاآپ یقین جانیں کہ جب واپس آیا ہوں اور مرتضی بھٹو اگر زندہ ہوتے تو وہ مجھے اکرم قائم خانی سے نہیں مظہر عباس کے نام سے پہچانتے ۔ بہت حسرت تھی جب ہم سٹوڈنٹ لائف میں تھے کہ اس ملک میں جمہوریت پائیدار ہو مضبوط ہو طاقتور ہو ۔ہم نے آزادی صحافت کیلئے نثار عثمانی، پیکر نقوی جیسے لوگوں کو اسٹرگل کرتے دیکھا تھا کہ جب وہ اپنے گھر سے گرفتاری دیتے تھے عثمانی صاحب کا ذکر کروں گا جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا ۔وہ کہتے تھے کہ سچ وہ ہے جو وقت پر بولا جائے اور انہوں نے حاکم وقت کے سامنے بھی وقت پر سچ بولا تو وہ جب جا رہے تھے جیل گرفتاری کے لیے تو ان کی جو بیوی کی آنکھیں کمزور تھیں اور جب وہ جیل سے واپس آئے تو صرف ان کی آواز سے وہ ان کو پہچان سکیں۔ جب وہ جیل گئے تو جیلر سے کہا کہ دیکھو مجھے قیدیوں کا لباس لا کے دو اور مجھے بتا ؤکہ مشقت کیسے کرنی ہے؟۔ تو جیلر نے کہا عثمانی صاحب آپ لوگ بڑے کازکیلئے اسٹرگل کر رہے ہیں آپ کیوں مجھے شرمندہ کرتے ہیں۔ یہ تو ہوتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا نہیں مجھے قید با مشقت ہوئی ہے لہٰذا مجھے تمہیں مشقت کا بھی بتانا ہے اور قیدی کا لباس بھی لا کر دینا ہے۔ یہ وہ پلرز تھے جن کو دیکھتے ہوئے ہم نے صحافت کا آغاز کیا۔ پیکر نقوی رات کو بسوں میں جاتے تھے کیونکہ لانڈھی کورنگی میں رہا کرتے تھے اتنی دیر سے جاتے تھے کہ بسوں کا ٹائم ختم ہو جاتا تھا تو وہ وہیں سو جاتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو صحافت کی آبرو تھے اور یہ لوگ آزادی صحافت کیلئے اسلئے سٹرگل کر رہے تھے کہ یہ سمجھتے تھے اور ہم بھی سمجھتے تھے کہ آزادی جمہوریت آزادی صحافت کے بغیر ممکن نہیں۔ تو جس ملک میں آج تک جمہوریت نہیں آئی ہو اس ملک میں آزادی صحافت کیسے آ سکتی ہے؟۔ سلیکٹرز کون رہے ہمارے ملک میں1954میں جگتو فرنٹ نے دو تہائی اکثریت حاصل کی اور مغربی پاکستان کی لیڈرشپ نے اسے قبول نہیں کیا اس حکومت کو برطرف کردیا گیا۔ اس ملک کا پہلا سلیکٹر ایوب خان تھا جنہوں نے اپنے ہی آپ کو سلیکٹ کیا۔ اور یہ پھر تسلسل چلتا رہا کبھی سلیکٹرز اپنے آپ کو سلیکٹ کرتے تھے تو کبھی اپنی سلیکشن ٹیم کو سلیکٹ کرتے تھے ۔اور اگر کوئی قابل قبول نہیں ہے تو وہ ملک توڑنے کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے اور بالآخر ہم نے دیکھا کہ آدھا ملک الگ ہو گیا تو اس کتاب کا عنوان یہی ہے کہ اس ملک کے سلیکٹرز یہاں سیاسی جماعتیں بناتے ہیں سیاسی جماعتیں توڑتے ہیں حکومتیں بناتے ہیں حکومتیں توڑتے ہیں۔ کبھی کوئی بدعنوان ہو جاتا ہے اور پھر وہی اہل ہو جاتا ہے ، اسی وجہ سے اس ملک میں جمہوریت مضبوط نہیں ہوئی۔ اس کتاب کو لانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کیونکہ اب الیکشن ہونے والے ہیں 8فروری کو، کہنے کو الیکشن ہے لیکن یہاں بیٹھے ہال میں تقریبا ہر آدمی کو پتہ ہے کہ سلیکشن ہونے جا رہا ہے۔ تو جس واقعے کا احمد شاہ نے ذکر کیا ہم وہی حسرت لیے وہی ڈریم لے کے چلے تھے ۔گاؤں دیہاتوں میں گئے لوگوں سے بیٹھ کے بات کی نوابشاہ ، لاڑکانہ، ملتان ، رحیم یار خان ،فیصل آباد تو میں نے کہا کہ بائی روڈ چلیں کیونکہ11سال کے بعد اس ملک میں جمہوریت آرہی ہے اور پھر ہم لاہور پہنچے لاہور پہنچے تو بے نظیر بھٹو نے مجھ سے کہا کہ کیا سچویشن ہے؟۔ میں نے کہا وہاں تو سب ہار رہے ہیں۔ کہنے لگیں تمہارا کیا مطلب ہے؟۔ میں نے کہا جتوئی، پیر پگاڑا ، سلطان چانڈیو سب ہار رہے ہیں۔ اس نے کہا کیسے ہو سکتا ہے پیر پگاڑا ہار جائے۔ میں نے کہا کیونکہ اس کے پیر ہم سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ووٹ بھٹو کا ووٹ ہے ظاہر ہے بھٹو کو پھانسی ہوئی تھی88میں۔ میں نے کہا جتوئی کے گاؤں دیہات میں ٹریکٹر چلانے والے کے ٹریکٹر پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لگا ہوا تھا اس نے کہا ہم نے سائیں سے کہہ دیا یہ ووٹ بھٹو کا ووٹ ہے۔ ادھر جب ہم پہنچے تو ہم نے دیکھا وہاں سب سے پہلے اسلامی جمہوری اتحاد کا جلسہ ہو رہا تھا واحد وہ جلسہ تھا جس میں پریزیڈنٹ فورٹ اور بیگم نصرت بھٹو کے ڈانس کی تصویریں سپیشل ہیلی کاپٹر سے گروائی گئی تھیں۔ وہاں مجھے پھر اندازہ ہوا کہ یہ الیکشن نہیں ہو رہا۔ کچھ سالوں بعد جنرل حمید گل سے انٹرویو کیا اور جنرل حمید گل سے میں نے پوچھا کہ آئی جی آئی کیوں بنائی آپ نے؟۔ تو اس نے کہا مظہر صاحب86میں جب بے نظیر آئی تھی تو فوج کے کئی جنرل پریشان ہو گئے تھے کہنے لگے کہ یہ تو بہت خوفناک صورتحال ہے یہ تو دو تہائی اکثریت لے جائے گی تو ہم نے الیکشن کو مینج کیا اور آئی جی آئی بنائی۔88میںIJIبنتی ہے90میں اصغر خان کیس سامنے آتا ہے93میں ایک جنرل صاحب سب کو بٹھا کے پریزیڈنٹ اور پرائم منسٹر ریزائن کرتا ہے اور یہ سلسلہ آج تک چل رہا ہے۔ ایک مضمون میں میں نے لکھا کہ جب تک سلیکٹرز عوام نہیں ہوں گے اس وقت تک اس ملک میں الیکٹڈ لوگ نہیں آئیں گے جس دن عوام سلیکٹرز بن گئے اس دن الیکشن کو ہم سب مان لیں گے۔ تو میری کتاب کا محور یہی ہے کہ ہمیں انتظار کرنا چاہیے ایک اچھے الیکشن کا یہ نہیں کہ ہمیں ووٹ نہیں دینا چاہیے ہمیں ووٹ دینا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ سلیکشن کو ہم الیکشن میں تبدیل کر دیں جس دن عوام نے سلیکشن کو الیکشن میں تبدیل کر دیا تو صحیح معنوں میں اس ملک میں جمہوریت آجائے گی اس ملک میں جمہوریت صحیح معنوں میں آگئی تو آزادی صحافت کا وہ مشن بھی مکمل ہو جائے گا جو نثار عثمانی ایم اے شکور صاحب نے شروع کیا تھا۔ آج ہی ابھی جب ہم آ رہے تھے تو یہ خبر آئی کہ65یوٹیوبرز کو بشمول407جنرلسٹ ان کو نوٹسFIAنے دیے ۔ پرنٹ پر پریشر ہے الیکٹرانک میڈیا پہ پریشر ہے ڈیجیٹل میڈیا پہ پریشر ہے۔ ایسے میں اس ملک کا وزیراعظم کیسے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس ملک میں آزادی اظہار ہے۔ تو میرے خیال میں میں یہاں لوگوں سے اسی لیے میں نے اسے ایک ابتدائیہ کے طور پہ پیش کیا اتنے پرانے پرانے ہمارے سیاسی کارکن آئے ہوئے ہیں جنہوں نے جیلیں کاٹ لی ہیں جنہوں نے شاہی قلعہ کاٹا جنہوں نے ٹارچر برداشت کیا ایک خواب کے لیے اور آج بھی وہ خواب خواب ہی ہے ہم جس جگہ کھڑے ہیں آرٹس کونسل میں اوربڑے سال لگے اس آرٹس کونسل کو بنانے میں اور اب اتنا وائبرنٹ ہے کہ میں نے ابھی احمد شاہ سے کہا کہ ایسا بنے گا پاکستان تو چلے گا پاکستان بہت بہت شکریہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv