پوسٹ تلاش کریں

ٹک ٹاک اسٹار حریم شاہ اور صابرشاہ مدرسے کی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہیں اور مسکان بائیک چلاتی ہے؟

ٹک ٹاک اسٹار حریم شاہ اور صابرشاہ مدرسے کی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہیں اور مسکان بائیک چلاتی ہے؟

پچھلے سال مفتی عزیز الرحمن اور صابر شاہ کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، حریم شاہ کی ویڈیوز نے بھی تہلکہ مچایا تھا اور یہ دونوں اسلامی مدارس کی تعلیم وتربیت سے بھی آراستہ ہیں۔ صابر شاہ اورحریم شاہ کی ویڈیوز میں بہت فرق بھی تھا اور ایک باریش لڑکے اور ایک لڑکی میں فرق ویسے بھی ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ مسکان بائیک چلاتی ہے اور ایک کالج کی اسٹوڈنٹ ہے۔ بہت سے لوگوں کو مذہب سے اتنی نفرت ہوگئی ہے کہ صابرشاہ کا کردار بھی تمام مدارس ومساجد سے نفرت کا ذریعہ بنارہے ہیں اور مسکان خان کے کردار کو بھی غلط سمجھ رہے ہیں۔ ان کو مذہب سے چڑ ہوگئی ہے۔ حالانکہ مساجد ومدارس نسل در نسل کردار سازی، شائستگی اور تعلیم وتربیت کے سب سے زیادہ بہترین اور سستے ترین ذرائع ہیں۔ آج افغانستان کے دیہاتی علاقوں میں طالبان کی حکومت کی وجہ سے امن وامان قائم ہوا ہے اور عوام خوشحال ہیں۔ البتہ کابل اور شہری علاقوں میں کئی این جی اوز نے جو نوکریاں دی تھیں اس وجہ سے لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔
طالبان کا پہلے رویہ بہت شدت کا رہاہے لیکن اب ان کے بڑے رہنماؤں نے دنیا دیکھ لی ہے،وہ کافی حد تک بدل گئے لیکن بے شعور اور شدت پسند طبقات کی طرف سے شدید جذباتی مخالفت کے خدشات کا بھی سامنا ہے اسلئے وہ بہت مشکلات کا شکار ہیں۔ ایک طرف مروجہ اسلامی رسم ورواج اور احکام کا معاملہ ہے اور دوسری طرف امیرالمؤمنین ملا عمرؒ کے اقدامات سے انحراف کی بات ہے اور تیسری طرف شیعہ ایرانی حکومت سے مفادات ومراسم کا معاملہ ہے اور چوتھی طرف افغان قومیت اور پاکستان کے مفادات کے ٹکراؤ کا معاملہ ہے۔ چاروں طرف سے اندرونی اور بیرونی مشکلات کے علاوہ عالمی دنیا کی طرف سے انسانی حقوق اور عورت کے حقوق میں بھی بڑے تضادات کا سامنا ہے۔ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان کے اکاؤنٹ بھی منجمد کررکھے ہیں اور اسلام کے نام پر سودی بینکاری کی منافقت کے بھی طالبان متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کی اپنی حالت افغانستان سے زیادہ خراب اسلئے ہے کہ ایک طرف بے تحاشا سودی قرضے لئے ہیں،دوسری طرف جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی سیاست ہے، تیسری طرف ایک طاقتور ادارے نے اپنا مستقل اقتدار جمایا ہوا ہے اور چوتھی طرف سودی بینکاری اور اسلامی بینکاری میں استحصالی نظام کا کوئی فرق نہیں ہے بلکہ حلالہ کی لعنت کا نام کارِ ثواب رکھ دیا ہے۔ فقہ حنفی میں علامہ بدر الدین عینی اور علامہ ابن ہمام کا بہت بڑا مقام ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ”ہمارے بعض مشائخ نے حلالہ کو لعنت نہیں کارِ ثواب قرار دیاہے“۔
اگر پاکستان اور افغانستان کے علماءِ حق مل بیٹھ کر اسلامی احکام کا درست تجزیہ کریں اور پھر ان کو دنیا کے سامنے پیش کریں تو ان کی تمام مشکلات کا حل نکل سکتا ہے۔ قرآن کریم نے نہ صرف عورت کو اپنے شوہر سے خلع کا حق دیا ہے بلکہ خلع میں بھی مالی تحفظ اس کو فراہم کیا ہے۔ البتہ طلاق میں خلع کے مقابلے میں بہت زیادہ مالی تحفظ فراہم کیا ہے۔ جب عورت کی طرف سے طلاق کا دعویٰ ہو اور دلائل وشواہد سے خلع کا ثبوت مل جائے تو علیحدگی میں مالی حقوق کم ملیں گے مگر پھر بھی ملیں گے ضرور۔ اور اگر طلاق کا ثبوت مل جائے تو عورت کو بہت زیادہ مالی حقوق مل جائیں گے۔ مغرب نے عورت کو علیحدگی کا حق دیا ہے اور مسلمانوں نے عملی طور پر عورت سے خلع کا حق چھین لیا ہے۔ پاکستان کے آئین میں عائلی قوانین کے اندر عورت کو خلع کا حق حاصل ہے۔وفاق المدارس العربیہ کے جنرل سیکرٹری قاری محمد حنیف جالندھری نے جمعیت علماء اسلام کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری کے سامنے اس بات کا اعلان کیا کہ عدالت میں عورت کو خلع کا حق غیر اسلامی ہے اور اس کے خلاف ہم بھرپور تحریک بھی چلائیں گے۔ حالانکہ جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤ ن کراچی کا فتویٰ عدالت کے حق میں ہے۔ آئیے اور دیکھ لیجئے کہ قرآن وسنت کی واضح تعلیمات کے خلاف عورت سے خلع کا حق کیسے چھین لیا گیا ہے؟۔ مولانا فضل الرحمن اکوڑہ خٹک میں پڑھتے تھے تو اپنے والد مفتی محمودؒ سے بھی چھپ جاتے تھے اوریہ بات ہمارے استاذمولانا عبدالمنان ناصرنے ہمارے ساتھیوں کو بتائی ہے اور انکے بھائی مولانا عطاء الرحمن درجہ رابعہ میں بنوری ٹاؤن میں فیل ہوگئے تھے اسلئے مدرسہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

مولانا سلیم اللہ خان، ڈاکٹر سکندر، مفتی تقی عثمانی علیہ ماعلیہ

مولانا سلیم اللہ خان، ڈاکٹر سکندر، مفتی تقی عثمانی علیہ ماعلیہ

مفتی تقی عثمانی نے شادی بیاہ کی رسم میں لفافوں کی لین دین کو سود قرار دیا۔ اسکے بہنوئی مفتی عبدالروف سکھروی مفتی دارالعلوم کراچی نے اپنے مواعظ میں شادی بیاہ کی اس رسم سے متعلق حدیث بیان کی کہ سود کے73گناہ ہیں اور کم ازکم گناہ اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے۔ مفتی سکھروی کا وعظ کتابوں میں شائع ہے۔ پھر مفتی محمد تقی عثمانی نے سودی بینکاری کو جواز بخش دیا۔تو علماء دیوبند وفاق المدارس کے سابقہ صدر مولانا سلیم اللہ خان ، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ،مولانا محمد یوسف لدھیانوی ، مفتی زرولی خان ، مولاناسمیع الحق اور پاکستان بھر کے سب علماء دیوبند نے سخت مخالفت کی تھی۔ مفتی محمدتقی عثمانی کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی اسلئے علماء کی بڑی تعداد کا نعرۂ حق کام نہ آیا ۔ مسکان خان نے بھارت میں غنڈوں کے سامنے نعرۂ تکبیر بلند کیا تو دنیا کے میڈیا نے اٹھایا مگر جب مفتی محمدتقی عثمانی کے سود کیخلاف علماء نے آواز اٹھائی تو میڈیا نے بینڈ کردیا امریکہ کی CIAاور اسرائیل کی موساد کیخلاف فیس بک میںمعمولی بات پرپیج بلاک ہو جاتا ہے لیکن جب ان کے مقاصدکی تکمیل کی طرف کا معاملہ ہو توBBCلندن اوروائس آف امریکہ وغیرہ پر خوب تشہیر ہوتی ہے۔ مسکان خان نے اچھا قدم اٹھایا لیکن عالمی میڈیا اس سے ہندوستان کو مسلمانوں کے خلاف میدانِ جنگ بنانے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ جن لوگوں میں اسلام کا اتنا جذبہ ہے کہ مسکان کی تائید کرنے میں انعامات کا اعلان کررہے ہیں تو جب مفتی محمدتقی عثمانی کا دارالعلوم کراچی اور مفتی عبدالرحیم کا جامعة الرشید سودی بینکاری کو جائز قرار دیتا ہے تو ان غنڈوں سے بدتر ان علمائِ سو کا کردار ہے جنہوں نے مسکان خان کے خلاف غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا اور مسکان سے بڑا کارنامہ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی ،جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی اور احسن المدارس گلشنِ اقبال وغیرہ کا تھا جنہوں نے عالمی سودی نظام کو جائز قرار دینے کے خلاف نعرہ ٔ تکبیر بلند کیا تھا لیکن ان کے کردار کی کوئی اہمیت دنیا کے سامنے میڈیا نے بیان نہیں کی اسلئے کہ عالمی میڈیا کے مفاد میں یہ نہیں تھا اور اب مفتی محمد تقی عثمانی کو وفاق المدارس کا صدر بھی بنایا گیا ہے۔
یہ تمہید اسلئے لکھی تاکہ عورت کے حقوق، طلاق وحلالہ اور خلع وغیرہ سے متعلق قرآن وسنت کے مقابلے میں بنائے گئے من گھڑت اور نام نہاد اسلامی احکام سے متعلق عوام وخواص کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں۔جس طرح سودی بینکاری کو اسلامی قرار دینے کا فتنہ علمائِ حق کے مقابلے میں علماء سُو کا کارنامہ ہے ،اس طرح بہت سارے فقہی مسائل قرآن وسنت کے منافی بعد کی پیداوارہیں لیکن ان کو علمائِ حق کا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔
الحمدللہ میں نے درس نظامی اور اصولِ فقہ کی روح کو سمجھ لیا ہے اور شیخ التفسیر مولانا بدیع الزمان سے اصولِ فقہ کی کتابیں ”اصول الشاشی” اور ” نورالانوار” جامعہ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری نیوٹاؤن کراچی میں نہ صرف پڑھی ہیں بلکہ ان پر لاجوا ب اعتراضات کرکے آپ سے زبردست حوصلہ افزائی بھی پائی ہے۔ اسی طرح فقہ وتفسیر اور درسِ نظامی کی دوسری کتابوں پر اعتراضات اور اساتذہ کرام کی طرف سے زبردست داد بھی ملی ہے۔ جن جن مدارس میں بھی پڑھا ہے،اساتذہ کرام سے بہت حوصلہ افزائی اور عزت بھی پائی ہے۔
غلام احمد پرویز، مولانا سیدابولاعلی مودودی ،جاویداحمد غامدی ، ڈاکٹر اسرار اور دیگر مذہبی اسکالروں کے مقابلے میں میری فکر تمام طبقات دیوبندی ،بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع کے علماء کرام و مفتیانِ عظام کیلئے اسلئے قابلِ قبول ہے کہ میں نے مسالک ومذاہب کی وکالت سے ہٹ کر قرآن وسنت کی ایسی تعبیر کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے جس میں گروہی تعصبات میں مبتلاء ہونے کا کوئی شائبہ تک بھی نہیں ہے۔ قرآن وسنت کی برکت سے اسلامی جمہوری آئین پاکستان پر بھی تمام فرقے اور مسالک متحد ومتفق ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے نالائق ارکان اور چیئرمین اثر ورسوخ کی بنیاد پر بھرتی ہوتے ہیں لیکن ان کا قصور بھی نہیں اسلئے کہ فقہی مسالک اور فرقہ واریت کی بھول بھلیوں پر اتفاق الرائے قائم کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اس شمارے میں عورت کے حقوق سے متعلق کچھ واضح احکام قرآن وسنت کی بنیادی تعلیمات سے افادہ عام کیلئے پیش ہیں ۔ امیدہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل،عورت آزادی مارچ، ریاست وحکومت پاکستان، افغانستان، ایران، سعودی عرب، مصر اور تمام اسلامی ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ امریکہ واسرائیل کی پارلیمنٹ کیلئے بھی قرآن میں عورت کے پیش کردہ فطری حقوق قابلِ قبول ہونگے اور علماء ومفتیان اور عوام الناس بھی خوش ہوں گے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

بھارت مسلمانوں کیلئے خطرناک ترین، عارفہ خان شیروانی

بھارت مسلمانوں کیلئے خطرناک ترین، عارفہ خان شیروانی

بھارت مسلمانوں کیلئے دنیا کی سب سے خطرناک جگہوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ روانڈا میں قتل عام سے پہلے کے جو آثار تھے وہی آثار اب بھارت میں پیدا ہوچکے ہیں۔ جس سے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے قتل عام کے خدشات پیدا ہوچکے ہیں۔ میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے کچھ واقعات کا تذکرہ کروں گی جس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ کس طرح بھارت اس قتل عام کی طرف جارہا ہے۔ بھارتی مسلمان کی زندگی تنگ کی جارہی ہے کہ وہ بیڈ روم میں کیا کرتا ہے؟، وہ باتھ روم میں کیا کرتا ہے؟، وہ سڑک پر کیا کرتا ہے؟، وہ ٹرین میں کیا کررہا ہے؟، وہ بس میں کیا کررہا ہے؟، اسکول میں کیا کررہا ہے؟ کالج میں کیا کررہا ہے؟۔ کرناٹک کے ایک اسکول کا واقعہ آپ کو یاد ہوگا جہاں ابھی تک بھی آدھے درجن سے زیادہ وہ لڑکیا ں ہیں جو حجاب پہن کر اسکول جانا چاہتی تھیں مگر انہیں اسکول کی انتظامیہ نے اندر نہیں گھسنے دیا۔ ان کا جو بنیادی حق ہے اپنے مذہب پر عمل کرنے کا اور پریکٹس کرنے کااس کا بھی تحفظ نہیں کیا جارہا۔ کیونکہ قانون اور آئین اپنے آپ میں کچھ بھی نہیں ہے جب تک اس پر عمل درآمد کروانے والے لوگ ناکارہ ہیں۔ اور انہی کا بھارت کے قانون اور آئین پر یقین نہیں ہے ، اگر پولیس، جج، حکومت، سیاستدان اور بیروکریٹس ہی اس پر عمل درآمد نہیں کررہے تو صاف طور پر کہا جاسکتا ہے کہ قانون وآئین کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو کو ادھیڑا جارہا ہے ، چاہے وہ مسجد میں نماز پڑھنے سے لے کر کھلے میں نماز پڑھنے کا معاملہ ہو، گڑ گاؤں میں ہم نے دیکھا گذشتہ تین ماہ سے ہر جمعے کو انتہائی دائیں بازوں کے ہندو گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد باقاعدگی سے انڈیا کے دار الحکومت نئی دہلی کے پوش علاقے گڑ گاؤں میں جمع ہوتے ہیں جہاں ان کا مقصد عوامی مقامات پر نماز پڑھنے والے مسلمانوں کو روکنا ہوتا ہے۔ جہاں ہندو انتہا پسند جمع ہوکر نمازیوں پر جملے کستے ہیں اور نعرے بازی کرتے ہیں، انہیں جہادی اور پاکستانی کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور بھارت کا پر امن ہندو طبقہ چند لوگوں کے علاوہ اس پر اپنی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ دوسرا واقعہ جسے بتاتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہورہی ہے یہ کلب ہاؤس کا واقعہ ہے۔ کلب ہاؤس انڈیا کا ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے جہاں آڈیو کے ذریعے لوگ آپس میں بات چیت اور بحث کرسکتے ہیں جس طرح زوم میٹنگ کے ذریعے ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ نابالغ لوگ اس پروگرام کو دیکھیں اور ان کے دماغ پر اس کا برا اثر پڑے۔ اس کلب ہاؤس میں شامل ہونے والے لوگ مسلمان خواتین کے جسمانی اعضاء پر کھل کر بحث کررہے تھے کہ مسلم خواتین کی شرمگاہ کس رنگ کی ہے کس شیپ کی ہے اور اسکے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟۔ اس طرح کی گھٹیا اوربھدی باتیں اس پلیٹ فارم پر ہورہی تھیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پلیٹ فارم میں خواتین بھی شامل تھیں۔ لوگ اس پر یہ بات کررہے تھے کہ اگر آپ کسی مسلمان عورت کا ریپ کرتے ہیں تو اس میں اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اتنے مندر بنالینے پر ملے گا، دوسرے نے کہا نہیں نہیں اس پر اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اتنی مسجدیں گرادینے پر ملے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ بھارت کے شہر ہردوار سے مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں باقاعدہ اعلان کیا گیا تھا، اتنے لاکھ مسلمانوں کو مارا جائے گا۔ بھارتی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے قتل عام کی باتیں کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جارہی ہے۔ صرف دو لوگوں کو گرفتار کیا جن میں یتی سنگھانند اور دوسرے جتیندر نارائن تیاگی جو کہ وسیم رضوی ہوا کرتے تھے۔ اور ان دو لوگوں کی گرفتاری پر بدلہ لینے کیلئے ریلی نکالی گئی ۔اور بھارتی جنتہ پارٹی کی طرف سے انیل پارا شر علی گڑھ سے ہیں وہ اس ریلی میں موجود تھے اور وہاں پوجا شگن پانڈے جو کہ خود کو ان پورنا ماں (ہندوؤں کی ایک دیوی کا نام ہے) کہتی ہیں وہ ہردوار کے مسلمانوں کے قتل عام اور بدلہ لینے پر ریلی کا حصہ تھیں بھارتی جنتہ پارٹی کے انیل پاراشر نے ان کا پیر چھوکر استقبال کیا۔ بھارتی حکومت اس طرح کے عناصر کو سپورٹ کررہی ہے۔ اس ریلی میں کھلے عام اسلام کو ختم کرنے کے بارے میں تقاریر کی گئیں۔ اور انٹرنیشنل ایکسپرٹ جنہوں نے روانڈا اور دوسرے ممالک میں قتل عام پر ریسرچ کی ہے ان کا کہنا ہے کہ بھارت سے بھی اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں۔ انڈیا کے مشہور صحافی کرن تھاپر نے ڈاکٹر سٹینٹن (Dr. Stanton) کا ایک انٹرویو کیا، جو کہ صدر ہیں جینو سائڈ واچ (Genocide Watch)کے ، جو کہ ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو واشنگٹن ڈی سی میں نسل کشی کے خلاف مہم چلارہی ہے۔ جس میں 24ممالک کی 70تنظیمیں شامل ہیں۔ جن میں اقلیتی گروپ، انٹرنیشنل کرائسز گروپ، ایجس ٹرسٹ اور سروائیول انٹرنیشنل شامل ہیں۔ جینو سائڈ واچ نے کوسو و، مشرقی تیمور، سوڈان، عراق، شام، یمن اور میانمار میں نسل کشی کے خاتمے کے لئے اتحادی کوششوں کی قیادت کی ہے۔
ڈاکٹر سٹینٹن نے انٹرویو کے دوران کرن تھاپر کو کہا ہے کہ” یو ایس کانگریس کو ریزولوشن پاس کرنا چاہئے تاکہ بھارت کو اسلئے دھمکی دی جاسکے کہ آپ کے یہاں قتل عام ہوسکتا ہے۔ اور جو اگلی بات انہوں نے کہی وہ اور بھی زیادہ خوفزدہ کرنے والی ہے کہ قتل عام کی جو ابتدائی علامات اور اشارے ہوتے ہیں وہ بھارت میں مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قتل عام سے پہلے کی ابتدائی دس علامات بھارت میں پائی جاتی ہیں”۔
بھارت اس وقت اسلام کے ماننے والے لوگوں کیلئے سب سے زیادہ خطرناک اور غیر محفوظ جگہ بن گیا ہے۔ روہنٹن ناریمن جو کہ سپریم کورٹ کے جج رہ چکے ہیں انہوں نے الرٹ کیا ہے اور کہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو نفرت انگیز تقاریر ہیں ان کو قابو کرنے کی کوشش تو درکنار بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ انہوں نے ہردوار کی احتجاجی ریلی کا ذکر کرتے ہوئے کہا جو اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہیں سرکار کی طرف سے ان پر کاروائی کرنے میں بہت زیادہ جھجک سے کام لیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ”ان اشتعال انگیز تقاریر کو کرمنلائز کیا گیا ہے153Aاور505Cمیں انڈین کورٹ کے بھارتی قانون کے تحت۔ چونکہ اس میں تین سال کی سزا ہے اور زیادہ تر لوگ اس میں کم سزا میں ہی چھوٹ جاتے ہیں اسلئے وہ یہ گزارش کرتے ہیں بھارت کے سینٹ کو چاہئے کہ قانون میں ترمیم کرکے کم سے کم تین سال کی سزا ضرور طے کی جائے”۔ اب بھارتی سماج ، بھارتی سرکار کے جاگنے کا وقت ہے اور بھارت کے اندر کے ایکسپرٹ اور باہر کے ایکسپرٹ لگاتار اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اسلام نے 1400 سال پہلے ایک عورت کو بے دردی سے قتل ہونے سے بچایا اور زنا کے الزام میں چار گواہوں کو بلایا۔

اسلام کے خلاف سازشوں کے تانے بانے تلاش کرکے قرآن وسنت کی صاف ستھری تعلیم سے دنیا بھرکے مسلمانوں اور انسانوں کو آگاہ کرناہوگا اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو پاکستان پر بڑی مصیبت نازل ہونے کا وقت زیادہ دور نہیں لگتا اور مصیبت کا سامنا سب طبقات ہی کو کرنا پڑتا ہے!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سورۂ نور کی ابتدائی آیات میں اس سورة کی اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ سورة ہے جس کو ہم نے نازل کیا ، اسکو فرض کیا ہے اور اس میں بہت کھلی کھلی آیات ہیں۔ صحیح بخاری میں ایک باخبر صحابی سے دوسرے نئے مسلمان نے پوچھا کہ سورۂ نور میں زنا کی حد نازل ہونے کے بعد کسی کو سنگسار کیا گیا؟۔اس باخبر صحابی نے جواب دیا کہ میرے علم میں نہیں ہے۔ جس طرح پہلے بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی جاتی تھی ،اسی طرح جب تک اللہ کی طرف سے وحی نازل نہیں ہوتی تھی تو مختلف معاملات میںفیصلہ اہل کتاب کے مطابق کیا جاتا تھا۔بوڑھے اور بوڑھی کے زنا پر سنگساری کا حکم بھی توراة میں تھا۔ لیکن الفاظ ومعانی کی تحریفات نے توراة کو بالکل بے حال کردیا تھا جبکہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا ہے اسلئے کہ قیامت تک وحی اور نبوت کاکوئی دوسرا سلسلہ باقی نہیں ہے۔
البتہ زنا بالجبر اور عورت کو جنسی ہراساں کرنے کی سزا قرآن نے قتل بتائی ہے اور نبیۖ نے اس پر عمل بھی کروایا ہے۔ سورۂ نور سے چند احکام ملتے ہیں۔
(1):زنا کی سزا مرد اور عورت کیلئے100،100کوڑے ہیں۔ اگر قرآن کی اس واضح سزا کو جاری رکھا جاتا تو فحاشی پھیلنے اور پھیلانے کی شیطانی سازش ناکام رہتی۔ اگر سزا معقول ہو تو اس پر عمل درآمد بھی آسان رہتا ہے۔ افغانستان میں اس وقت طالبان برسراقتدار ہیں اور ان کو سورۂ نور کی آیات سے زبردست رہنمائی کی سخت ضرورت ہے۔ قرآن میں سخت یا نرم کوڑے مارنے کی وضاحت نہیں ہے اور حالات وواقعات کی مناسبت سے کوئی ایسی سزا دی جاسکتی ہے کہ جس سے جرائم کی روک تھام بھی ہوجائے اور100کوڑوں کی سزا بھی پوری دی جائے۔ افغانستان کے معاشرے میں مرد اور عورت دونوں کو اس جرم پر یکساں سزا سے مساوات کے تأثرات قائم ہوں گے۔ معاشرے میں مرد شادی شدہ ہو یا کنوارا لیکن اس کو زنا پر کوئی سزا نہیں ملتی ہے لیکن عورت شادی شدہ ہو یا کنواری قتل کردی جاتی ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی نے ”تدوین قرآن” کتاب لکھی ہے جس کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے شائع کیا ہے۔ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ الفاظ اور معانی کے لحاظ سے الشیخ والشیخة والشیخوخة اذا زنیا فرجموھما کی بات کسی طرح بھی اللہ کا کلام نہیں ہے۔ الفاظ بھی بے ڈھنگے ہیں اورمعانی بھی بے مقصد ہیں۔ جوان شادی شدہ بھی اس کی زد میں نہیں آتے ہیں اور بوڑھے کنوارے بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ ابن ماجہ کی روایت ہے کہ جب نبیۖ کا وصال ہوا تو رجم اور بڑے کی رضاعت کی دس آیات بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں۔
جب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ پر نبیۖ کی حیات میں بہتان کے واقعہ کی زد میں مخلص مسلمان بھی ملوث ہوسکتے ہیں تو بعد میں روایات گھڑنے سے حفاظت کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟ حنفی مسلک کے اہل حق نے من گھڑت حدیث کا سلسلہ روکنے میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے لیکن بعد والے تقلید کی بیماری میں بدحال ہوکر فقد ضل ضلالًا بعیدًاکے راستے پر چل نکلے ہیں۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے امت مسلمہ کو فقہی اقوال اور روایات کو جبڑوں میں پکڑنے کی عادت سے باز رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا لیکن بعد میں دیوبندی بریلوی اُلجھاؤ کے سبب معاملات سلجھانے کی طرف علماء کرام اور مفتیانِ عظام نہیں جاسکے تھے۔
(2):اگر کسی مرد پر بہتان لگایا جائے تو اس کو اتنا فرق نہیں پڑتا لیکن اگرکسی کی عورت پر بہتان لگایا جائے تو اس سے شوہر اور اس کی بیوی کے علاوہ سارے اقرباء متأثر ہوتے ہیںاسلئے کسی عورت پر بہتان کی سزا بھی80کوڑے مقرر کئے گئے جو زنا کے جرم پر سزا100کوڑے کے قریب قریب ہیں۔ اگر دنیا کے سامنے قرآن کے ان احکام کو اجاگر کیا جائے تو پوری دنیا اس سے بہت متأثر ہوجائے گی۔
(3):اگر شوہر اپنی عورت کے خلاف کھلم کھلا فحاشی کی گواہی دے اور عورت اس کا انکار کرے تو عورت پر جرم کی سزا نافذ نہیں کی جائے گی۔ اسلام نے چودہ سوسال پہلے عورت کو کس طرح بے دردی کیساتھ قتل ہونے سے بچایا تھا اور اس کی گواہی بھی جرم کے ثبوت میں اس کے شوہر سے زیادہ مؤثر قرار دی تھی لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ لعان کے اس حکم پرعمل کے حوالے سے صحابہ کرام کے ایک دوہی واقعات ہیں اور پھر ان پر تاریخ میں کوئی عمل نہیں ہوسکا ہے۔ کیا صحابہ کرام سے زیادہ ہمارے دور کے لوگ غیرتمند ہوسکتے ہیں؟۔ نہیں نہیں، ہرگز نہیں۔ حلالہ کی لعنت کیلئے مدارس کی دارالافتاؤں میں لائن لگانے والے لوگ کیسے غیرتمند ہوسکتے ہیں؟۔
جب طلاق کے حوالے سے بار بار رجوع کی وضاحتوں کے باوجود بھی عوام کو حلالہ کی لعنت کا شکار بنایا گیا اور طلاق کے حوالے سے واہیات قسم کے مسائل گھڑ لئے گئے تھے تو باقی معاملات کو کیسے سمجھا جاسکتا تھا؟۔ قرآن میں اصل معاملہ حقوق کا ہے۔ جب عورت خلع لیتی ہے تو بھی اس میں فحاشی اور پاکدامنی کے حوالے سے حقوق کا نمایاں فرق ہے ۔ جب شوہر طلاق دے تو بھی اس میں فحاشی اور پاکدامنی کے لحاظ سے حقوق کا نمایاں فرق ہے۔ سورۂ النساء آیات19،20اور21میں خلع اور طلاق میں حقوق کا بنیادی فرق بھی ہے اور فحاشی کے حوالے سے بھی فرق ہے۔
جب مسلمانوں کو قرآن میں خلع اور طلاق کے بنیادی حقوق میں فرق کا بھی پتہ نہیں ہوگا تو باقی باریکیاں کون اور کیسے کوئی سمجھائے گا؟۔ ہم نے اپنی ناقص عقل اور ہکلاتی ہوئی زبان سے مسائل سمجھانے کی بہت کوشش کی ہے اور اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں بلکہ اللہ کے کلام میں فصاحت اور بلاغت کا ہی بہت بڑا معجزہ ہے مگر بڑے علماء ، دانشور اور حکومت وریاست کے کارندے بات سمجھ کر بھی ہمارا ساتھ دینا نہیں چاہتے ہیں اور ہماری طرف سے بھی کوئی طاقت اور زبردستی نہیں ہے۔
جب خلع وطلاق کے حوالے سے مسلمانوں میں کوئی عمل درآمد تو بہت دورکی بات اس کو سمجھنے کی کوشش بھی نہ کی جائے اور بھوکے گدھے اور خچر کے سامنے تیار خوراک رکھی جائے تو بھی اس میں دلچسپی نہ لیتے ہوں تو کیا کیا جاسکتا ہے؟۔ جب امریکہ و مغرب میں مجرموں اوربے گناہوں کے درمیان مساوی حقوق کے قوانین بنائے گئے تو انکے سارے معاشرتی اقداربھی بہت تیزی سے زوال کیطرف گئے۔ اب یہ قانون بھی بن گیا کہ شوہر اپنی گرل فرینڈ اور بیوی اپنے بوائے فرینڈ کو گھر میں اپنے ساتھ بھی رکھ سکتے ہیں۔ اسکی بنیادی وجہ مجرم وبے گناہ کے یکساں حقوق ہیں۔
قرآن میں عورت کو خلع کی صورت میں تمام منقولہ اشیاء ساتھ لے جانے کا حق ہے لیکن غیرمنقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ فحاشی کی صورت میں بعض لے جانے والی اشیاء سے بھی عورت کو اس کا شوہر محروم کرسکتا ہے۔ طلاق کی صورت میں تمام منقولہ وغیرمنقولہ دی ہوئی اشیاء میں کوئی چیز بھی مرد نہیں لے سکتا۔ کیا سورۂ النساء کی ان تین آیات پر مسلمانوں نے کبھی عمل کیا ہے؟۔ اگر کوئی نام نہاد فتوے کے ذریعے سے حلالہ کی لعنت اور بے غیرتی تک جاسکتا ہے تو عورت کو اس کا حق خلع اور طلاق کی صورت میں کیوں نہیں دے سکتا ہے؟۔ لیکن دینے کا رواج بھی نہیں ہے اور آگاہی بھی نہیں ہے اور قانون بھی نہیں بنایا گیا ہے۔ جبکہ مغرب کی طرف سے خلع اور طلاق کا فرق مٹاکر یکساں قوانین بنائے گئے اور فحاشی وغیر فحاشی میں بھی کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے اور قرآن کے یہ قوانین دنیا سے پوشیدہ ہیں۔
لعان کی صورت میں ایک طرف عورت کو سزا سے بچت ہوگی، دوسری طرف وہ بعض مالی حقوق سے محروم ہوگی۔مالی فوائد کیلئے اپنی بیگم پر بہتان کی جسارت سے شوہر کا بھی سارا کردار تباہ ہوگا۔ قرآن میں اتنا فطری توازن ہے کہ اگر ساری دنیا کو بھی قوانین بنانے کیلئے بٹھادیا جائے تو اس سے بہتر قوانین نہیں بنائے جاسکتے ہیں اور جمعیت علماء اسلام اور تحریک لبیک پاکستان کے قائدین اور رہنماؤں سمیت ہر ایک سے ہماری یہ استدعا ہے کہ آئندہ کا الیکشن قرآن میں دئیے گئے قوانین و حقوق کو اپنے اپنے منشور کا حصہ بناکر عوام کے سامنے پیش کیا جائے تو عوام زیادہ ووٹ دیں گے۔ طاقت کے حصول کیلئے مداری کی طرح کردار نہیںاداکرنا چاہیے۔
(4):بہتان لگانے کے حوالے سے چار گواہ کی بات الگ ہے اور زنا کے ثبوت کیلئے چار گواہ کی بات الگ ہے ۔ حضرت اماں عائشہ صدیقہ پر بہتان کے جوکردار تھے ،وہ بالکل الگ تھے اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف تین اور چار گواہوں کی بات بالکل دوسری تھی۔ افسوس کہ کم عقل مفسرین اور علماء ومفتیان نے ان دونوں واقعات کو ایک ہی جگہ نقل کرکے بہت سخت غلطی کی ہے۔صحیح بخاری وغیرہ میں بھی حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے واقعے کا ذکر ہے لیکن اس کا پسِ منظر بالکل مختلف تھا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور کی آیات میں یہ واضح کردیا کہ کوئی غیور شخص اپنے نکاح میں کسی بدکار عورت کو رکھنے کا کوئی تصور نہیں کرسکتا ہے۔ ایمان اور اسلام کا دائرہ اس معاملہ میں بہت واضح ہے کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کیلئے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کیلئے ہیں۔طیب مرد طیب عورتوں کیلئے ہیں اور طیب عورتیں طیب مردوں کیلئے ہیں۔ زانی مردنکاح نہیں کرے گا مگرزانیہ عورت یا مشرکہ سے اور زانیہ کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زانی مرد یا مشرک سے اور یہ مؤمنوں پر حرام کیا گیا ہے۔
ایام جاہلیت میں بھی کوئی عورت کسی دوسرے مرد کیساتھ پکڑی جاتی توان کا آپس میں نکاح کرادیا جاتا تھا۔100کوڑوں کی سزا کے بعد انکا آپس میں نکاح کرایا جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ عورت ذات میں اللہ تعالیٰ نے شوہر کی غیرموجودگی میں بھی اپنی عزت کی حفاظت کا زبردست مادہ رکھا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ایک عورت بھی بگڑ جائے تو معاشرے کو بگاڑنے میںاپنا کردار ادا کرتی ہے اسلئے اللہ نے یہ حکم بھی جاری کیا ہے کہ اگر چار افراد اس کی کھلی ہوئی فحاشی میں مبتلاء ہونے کی خبر دیں تو اس کو اس وقت تک گھر میں رکھا جائے جب تک اللہ اس کیلئے کوئی راستہ نہ نکال دے۔ راستہ یہی ہوسکتا ہے کہ جس سے غلط تعلقات رکھے تھے وہ اس سے نکاح کرنے پر آمادہ ہوجائے۔ یا100کوڑوں سے اس کو جرم سے باز رکھنے میں مدد دی جائے ۔ علماء کرام اوردانشوروں کی ایک ٹیم کو آیت کی تشریح کیلئے غور وتدبر اور مشاورت سے کام لینا ہوگا۔ میرا کام صرف توجہ دلانے تک ہے۔
(5):مستقل ڈھٹائی کے ساتھ بدکاری کے دھندے اور کبھی وقتی طور پر بدکاری کے ارتکاب میں بھی فرق ہے۔ الذین یجتنبون کبائر من الاثم و الفواحش الا المم ” اور جو لوگ اجتناب کرتے ہیں ، بڑے گناہوں اور فواحش سے مگر کچھ دیر کیلئے (ان سے بڑے گناہ اور فواحش کا ارتکاب بھی سرزد ہوجاتا ہے)”۔ حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے حوالے سے تین افراد نے جس طرح کی گواہی دی تھی اور چوتھے نے جن الفاظ میں ذکر کیا تھا، اس سے بڑے گناہ اور فحاشی کا تصور نہیں ہوسکتا تھا مگر یہ ایک مستقل دھندہ نہیں تھا بلکہ کچھ ہی دیر کا معاملہ تھا البتہ اس پرقانون سازی میں مختلف فقہی مذاہب نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور احناف پھر بھی دوسروں سے حق کے کچھ قریب ہیں لیکن صرف اس حد تک کہ حضرت عمرپر قرآن کو ترجیح دی ہے۔
جب حضرت عمر کے سامنے چار افراد حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے خلاف گواہی دینے پہنچے تو حضرت عمر نے پہلے کی گواہی سن کر منہ بنایا۔ دوسرے کی گواہی سن کر مزید پریشان ہوگئے اور تیسرے کی گواہی سن کر پریشانی کی انتہاء نہیں رہی۔ چوتھے گواہ کے آتے ہوئے کہا کہ امید ہے کہ اللہ اس صحابی کو اس کے ذریعے سے ذلت سے بچائے گا اور جونہی وہ چوتھا گواہ اپنی گواہی دینے لگا تو حضرت عمر نے بہت زور سے چیخ اور دھاڑ مارکر کہا کہ بتاؤ ! تیرے پاس کیا ہے؟۔راوی نے کہا کہ وہ اس قدر زور کی دھاڑ تھی کہ قریب تھا کہ میں بیہوش ہوجاتا۔ پھر چوتھے گواہ زیاد نے کہا کہ میں نے اور کچھ نہیں دیکھا، اس کی سرین (چوتڑ) دیکھی اور یہ دیکھا کہ عورت کے پاؤں اسکے کندھے پر گدھے کے کانوں کی طرح پڑے ہوئے تھے۔ وہ ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیںلے رہا تھا اور عورت کو لپٹایا ہوا تھا۔ یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا کہ بس گواہی ادھوری ہوگئی اور باقی تین گواہوں کو جھوٹی گواہی پر80،80کوڑے لگا دئیے۔ پھر حضرت عمر نے پیشکش کردی کہ اگر تینوں نے کہہ دیا کہ ہم نے جھوٹی گواہی دی تھی تو آئندہ ان کی گواہی قبول کی جائے گی ۔ ان میں ایک صحابی حضرت ابوبکرہ تھے جس نے یہ پیشکش مسترد کردی اور دوسرے دو گواہ صحابی نہیں تھے دونوں نے اس پیشکش کو قبول کرلیا۔ امام ابوحنیفہ کے مسلک والوں نے اپنے زریں اصول کے تحت حضرت عمر کی پیشکش کو غلط قرار دیا اسلئے کہ قرآن میں جھوٹی گواہی دینے والوں کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ ان کی گواہی کبھی قبول نہیں کی جائے گی۔ جبکہ توبہ کو قبول کرنے کا تعلق آخرت کیساتھ ہے۔ اور باقی تین مسالک کے پیروکاروں نے حضرت عمر کی پیشکش کو درست قرار دیا اور ان کے نزدیک دائمی گواہی قبول نہیں کرنے کا تعلق توبہ نہ کرنے کی صورت سے ہے۔
یہ واقعہ اسلئے پیش آیا تھا کہ انسان بہت کمزور ہے اور بصرہ کے گورنر سے ایک غلطی ہوگئی۔ اگر حضرت عمر اشدھم فی امر اللہ عمر کے مصداق رہتے یا غلو سے بچنے کیلئے وحی کا سلسلہ ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ حضرت عمر نے اپنے کنوارے بیٹے کو بھی زنا کی سزا میں آدمی بدل بدل کر ایسے کوڑے مروائے تھے کہ وہ فوت ہوگئے اور پھر لاش پر بقیہ کوڑے پورے کئے گئے۔ سورۂ نور کی آیات نازل ہونے سے پہلے سنگساری کے حکم پر عمل کرتے ہوئے نبیۖ کو دیکھا تھا اسلئے یہی اصرار تھا کہ شادی شدہ کو زنا پر سنگسار کیا جائے گا لیکن جب مغیرہ ابن شعبہ کا معاملہ آیا تو پیروں سے زمین نکل گئی۔ اس واقعہ سے ایک نقصان یہ ہوا کہ زنا کی حد پر عمل کا تصور ختم ہوگیا لیکن فائدہ یہ ہوا کہ سنگساری پر عمل کرنے کی بات بھی ختم ہوگئی۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر نبیۖ سے فرمایا ہے کہ توراة میں یہود نے تحریف کی ہے اور جو آپ کے پاس قرآن ہے یہ تحریف سے محفوظ ہے۔ اور یہ کہ ” اگر وہ اپنا فیصلہ قرآن سے کروانا چاہیں تو ٹھیک ورنہ ان کی کتاب سے بھی ان کا فیصلہ نہیں کرنا ہے اسلئے کہ اس کے ذریعے سے جو آپ کے پاس ہے اس سے بھی فتنہ میں ڈال دیں گے”۔ حضرت علی کی طرف یہ منسوب ہے کہ وہ کہتے تھے کہ اگر مجھے مستحکم حکومت مل گئی تو اہل کتاب کے فیصلے ان کی کتابوں کے مطابق کروں گا” ۔ اگر حضرت علی ایک مستحکم اقتدار کے مالک بن جاتے تو پھر سنگساری کا وحشیانہ حکم بھی کم ازکم اہل کتاب پر تو نافذ رہتا لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ بھی منظور نہیں تھا۔ آج یہود اور نصاریٰ کیلئے قرآن کی آیات کے احکام قابلِ قبول ہیں لیکن توراة کے نہیں ہیں۔
آج سورۂ نور کے مطابق شرعی حدود، مساوات، شرعی پردے اور عورت کے حقوق و آزادی کے درست تصورات سے ہماری دنیا بدل سکتی ہے لیکن کاش بدلیں!

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

جنگوں میں مردوں اور عورتوں کو غلام بنانے کا خیال۔ زرعی زمین کسان کو کرائے پر دینا حرام ہے۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
نوشتہ دیوار کراچی۔ سوشل میڈیا پوسٹ ماہ نومبر

_ لونڈی اور غلام بنانے کے تصورات_
عام طور پر یہ مشہور ہے کہ جنگوں میں پکڑے جانے والوں کو لونڈی اور غلام بنالیا جاتا تھا لیکن یہ غلط اسلئے ہے کہ غزوہ بدر میں70افراد کو غلام بنالیا گیا لیکن کسی ایک کو بھی غلام نہیں بنایا گیا اور نہ دشمن کو اس طرح سے غلام بنانا ممکن تھا اس لئے کہ دشمن گھر کا نوکر چاکر اور غلام بننے کی جگہ اپنے مالک کو بدترین انتقام کا بھی نشانہ بناسکتا ہے۔بدر کے قیدیوں پر مشاورت ہوئی تو ایک رائے یہ تھی کہ سب کو قتل کردیا جائے اور دوسری رائے یہ تھی کہ فدیہ لیکر معاف کردیا جائے۔ جمہور کی رائے کے مطابق سب سے فدیہ لیکر معاف کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن ان کو غلام بنانے کی تجویز زیرِ غور نہیں آئی تھی اور نہ ان کو غلام بنانے کا کوئی امکان تھا۔
غلام اور لونڈیاں بنانے کا جنگ کی صورتحال کے بعد ایک غلط تصور بٹھادیا گیا ہے جس کوبہت سختی کیساتھ رد کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن میں اہل فرعون کا بنی اسرائیل کے بیٹوں کا قتل کرنا اور عورتوں کو زندہ رکھ کر عصمت دری کرنے کا ذکر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی رحمتۖ کی بعثت اسلئے نہیں کی تھی کہ اہل فرعون کی جگہ امت مسلمہ بنی اسرائیل اور دیگر لوگوں کی خواتین کو لونڈیاں بنائیںگے۔ تاریخ کے اوراق میں یہ درج ہے کہ جب حضرت عمر فاروق اعظم نے ایران کو فتح کیا تھا تو شاہ فارس کی تین شہزادیوں کو حضرت حسن، حضرت حسین اور حضرت محمد بن ابی بکر کے حوالے کیا تھا۔ حضرت محمد بن ابی بکر بیٹا حضرت ابوبکر کا تھا مگر اس کی پرورش حضرت علی نے بیٹے کی طرح کی تھی اسلئے کہ ان کی ماں سے شادی ہوئی تھی اور اس سے پہلے وہ خاتون حضرت ام عمیس حضرت علی کی بھابھی تھیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خلفاء راشدین نے فارس کے بادشاہ کے ساتھ وہی سلوک کیا تھا جو اہل فرعون نے بنی اسرائیل کیساتھ کیا تھا اور حضرت عمر کے اس کردار میں ائمہ اہل بیت برابر کے شریک تھے؟۔ پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول ہۖ نے فتح خیبر کے بعد حضرت صفیہ سے نکاح کیا تھا تو اس میں بھی آل فرعون کا کردار تھا؟۔ زمانے کے رسم ورواج کو سمجھنے کیلئے بہت زیادہ اور وسیع سے وسیع تر حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔ سردست یہ لگتا ہے کہ حضرت صفیہ اور وہ تینوں شہزادیاں جو حضرت حسن و حسین اورحضرت محمدبن ابی بکر کی خدمت میں پیش کی گئیں تھیں وہ پہلے سے لونڈیاں تھیں اور ان کو آزاد کرکے ان کی عزت افزائی کی گئی تھی۔ جس طرح حضرت ابراہیم کی زوجہ حضرت سارہکو بادشاہ نے لونڈی حضرت حاجر ہ پیش کی تھی ،البتہ حضرت حاجرہ اصل میں شہزادی تھیں۔
لونڈی و غلام بنانے کا اصل ادارہ جاگیردارنہ نظام تھا۔ کھیتی باڑی سے کچھ لوگ اپنی گزر بسر کرتے تھے اور کچھ لوگ بڑے بڑے لینڈ لارڈ ہوتے تھے، جن کے مزارعین ہوتے تھے۔ مزارع لونڈیوں اور غلاموں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ لینڈ لارڈ ان کو دیہاتوں سے شہروں کی منڈیوں میں لاکر فروخت کرتے تھے۔ منڈیوں میں فرو خت ہونے والے لونڈی اور غلام خوبصورتی اور تربیت کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ قیمت میں فروخت ہوتے تھے اور منڈیوں میں کاروبار کا یہ بھی ایک حصہ ہوتا تھا۔ مزارعین کو لونڈی وغلام بننے میں کوئی دکھ بھی نہیں ہوتا تھا اسلئے کہ کھیتی باڑی میں ان کی زندگیاں زیادہ مشکلات کا شکار ہوتی تھیں۔
ابراہم لنکن نے امریکہ میں غلام ولونڈی کی فروخت وخرید و درآمد پر پابندی لگادی اسلئے امریکہ کو اللہ نے سپر طاقت بنادیا۔ اسلام نے غلام ولونڈی بنانے کے ادارے مزارعت پر پابندی لگادی۔ مسلمان اور کافر کاشتکار اپنی محنت کی کمائی کے مالک تھے اور مسلمان زکوٰة وعشر اور کافر جزیہ کے نام پر حکومت کو ٹیکس دیتے تھے اور اس کی وجہ سے مسلمان ہی دنیا کی واحد سپر طاقت بن گئے مگرپھر رفتہ رفتہ مسلمانوں نے مزارعت کے نظام کو دوبارہ فقہ حنفی کے نام پر جواز بخش دیا تھا۔

لونڈی و غلام کی عزت وتوقیر کامقام
اسلام نے غلام ولونڈی بنانے کے نظام مزارعت کا خاتمہ کردیااور آزادی کیلئے بہانے تراش لئے۔ لونڈی اور غلام کو پورے پورے انسانی حقوق دیدئیے اورآزاد کے مقابلے میں ان کی سزاؤں میں کمی کے رحجانات کے قوانین بنائے۔ عرب کی جاہلیت کے نسلی امتیاز کو اسلام نے کردار کی بنیاد پر خاک میں ملادیا تھا۔ ابولہب وابوجہل ، عتبہ وشیبہ، ولیدو امیہ اور ڈھیر سارے خاندانی سرداروں کے مقابلے میں خاندانی غلام حضرت سیدنا بلال، حضرت مقداد، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت اسود کووہ اعزاز بخشا کہ تاریخ ان دونوں طرح کی شخصیات کے حوالہ سے عبرت کا آج بھی بہت بڑانشان نظر آتی ہیں۔
قرآن نے واضح کردیا کہ ” مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو، یہاں تک وہ ایمان لائیںاور مؤمن غلام مشرک سے بہتر ہے،اگرچہ تمہیں مشرک پسند ہو اور مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کا نکاح مت کراؤ،یہاں تک کہ ایمان لائیں اور مشرک عورتوں سے مؤمن لونڈیاں بہتر ہیں اگرچہ مشرک عورت پسند ہو”۔
نسلی امتیاز کے شکار جاہلانہ قبائل کیلئے یہ احکام بڑی کاری ضرب تھے۔ پہل بھی مشرکوں نے خود کی تھی۔ حضرت عائشہ کے رشتے کو پہلے مطعم بن جبیر سے طے کیا گیا تھا لیکن اسلام کے بعد انہوں نے یہ رشتہ رد کیا تھا۔ حضرت بلال کے باپ اور خاندان کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا اور اس طرح بہت سے غلاموں کی اپنے خاندانی حساب سے کوئی شناخت نہیں تھی لیکن حضرت زید خاندانی غلام نہیں تھا۔ بردہ فروشوں نے بچپن میں چوری کرکے بیچا تھا۔ بھائیوں نے حضرت یوسف کوکنویں میں ڈالا تو قافلے والوں نے غلام سمجھ کر بیچ دیا تھا۔ پھر جب معلومات مل گئیں تو حضرت یوسف کی نسبت اپنے باپ یعقوب بن اسحاق بن ابرہیم کی طرف کی گئی۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ ” جن کے باپ دادا کا پتہ نہیں ہے تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور جنکے باپ کا پتہ ہے تو ان کو انکے باپ کی طرف ہی منسوب کیا جائے اور تقویٰ کے زیادہ قریب ہے”۔
حدیث میںتمام مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا گیا ہے۔ مشرکوں کی رشتہ داری سے اسلئے منع کیا گیا تھا کہ انصار ومہاجرین کے رشتے ناطے اہل کتاب کی نسبت مشرکوں سے زیادہ تھے۔ حالانکہ اہل کتاب بھی مشرکانہ عقائد رکھتے تھے لیکن انکی خواتین کو مسلمانوں کیلئے حلال قرار دیا گیا تھا۔ مشرکوں کے مقابلے میں غلاموں اور لونڈیوں سے نکاح کو ترجیح دینا بہت بڑی بات تھی۔ جس طرح غلام و لونڈی سے نکاح اور معاہدے کی اجازت تھی،اسی طرح سے آزاد مسلمانوں اور غلاموں ولونڈیوں کے درمیان ایگریمنٹ کی بھی اجازت تھی۔ یہ بہت ہی بڑا معاملہ تھا کہ ہجرت نہ کرنیکی وجہ سے نبی ۖ کی چچااور ماموںکی بیٹیوں کو نکاح کیلئے حلال نہیں قرار دیا گیا تھا لیکن حضرت صفیہ سے ایگریمنٹ کی جگہ نبی ۖ نے نکاح کیا تھا۔ حضرت ام ہانی نبیۖ کی زوجہ تھی اور نہ لونڈی بلکہ ان سے ایگریمنٹ کا تعلق تھا ۔حالانکہ حضرت ام ہانی اولین مسلمانوں میں سے تھیں ۔
حضرت صفیہ مال غنیمت کی وجہ سے نبیۖ کی زوجہ بنی تھیں۔ اللہ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ” وہ چچا اور ماموں کی بیٹیاں آپ کیلئے حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ بھی حلال ہیں جو مال غنیمت میں ملی ہیں”۔ کیونکہ اگر حضرت ام ہانی سے رشتہ ہوجاتا اور پھر چھوڑنا پڑتا تو سوال پیدا ہوتا تھا کہ غنیمت کے مال میں آنے والیوں کا کیا حکم ہے؟ اسلئے اللہ نے اس کی وضاحت فرمائی ۔ حضرت صفیہ کی دعوتِ ولیمہ صحابہ نے کھائی تو سوال اٹھایا کہ لونڈی ہیں یا منکوحہ؟ جس کا جواب یہ دیا گیا کہ ”پردہ کروایا گیا تو منکوحہ اور نہیں کروایاگیا تولونڈی”۔ صحیح بخاری اور دیگر احادیث اور قرآن کے واضح احکام بیان کرنا ضروری ہے۔

قرآن کے احکام کو نہیں سمجھنے کا نتیجہ
وانکحوا الایامیٰ منکم والصالحین من عبادکم وایمائکم ”اور نکاح کراؤ، اپنوں میں سے بیوہ وطلاق شدہ کا اور اپنے اچھے غلاموں اور لونڈیوں کا”۔ بیوہ اور طلاق شدہ کے نکاح کرانے کے حکم پر ایسا عمل ہوا تھا کہ ایک ایک عورت کا تین تین چار چار جگہ بھی یکے بعد دیگرے نکاح کرایا گیا تھا۔
لونڈی وغلام کے حقوق کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طلاق شدہ وبیوہ کی طرح ان کے نکاح کرانے کا بھی حکم دیا گیاہے۔لونڈیوں سے نکاح کی بات تو سب کو سمجھ میں آجاتی ہے اور غلام سے بھی نکاح کی بات قابل فہم ہے لیکن جب آزاد عورت کا کسی غلام سے ایگریمنٹ کا معاملہ ہو تو یہ صورت مشکل سے سمجھ میں آتی ہے۔ قرآن کی آیات میں مکاتبت سے یہ صورتحال لگتی ہے۔ اور پھر اس کے بعد فتیات کا ذکر ہے جس میں ان کوبغاوت پر مجبور نہ کرنے کو واضح کیا گیا ہے۔ بظاہر فتیات سے کنواری لڑکیوں کا مسئلہ سمجھ میں آتا ہے جن کواپنی مرضی کے مطابق نکاح سے روکنا یا زبردستی سے کسی ایسے شخص سے نکاح پر مجبور کرنا ہے جس سے وہ نکاح نہیں کرنا چاہتی ہو۔ قرآن میں بغاوت کے ایک معنیٰ بدکاری کے ہیں اور دوسرا اپنی حدود سے تجاوز کرنے کے ہیں۔
معاشرے میں ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جب کوئی لڑکی کسی سے اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنا چاہتی ہو لیکن اس کے سرپرست اس کو دنیاوی وجاہت کے خلاف سمجھتے ہوں۔ پھر اگر وہ چھپ کر تعلقات استوار کرے یا پھر بھاگ جائے تو اس کی ساری ذمہ داری سرپرست کے سر ہوگی اور اگر سرپرست اس کی شادی زبردستی سے ایسی جگہ کردے جہاں اس کی مرضی نہ ہو توپھر ناجائز ہونے کے باوجود اس کا گناہ سرپرست کے سر ہوگا۔ قرآن میں یہ معاملہ بہت ہی اچھے انداز میں واضح کیا گیا ہے لیکن بدقسمت اُمت مسلمہ میں قرآن فہمی کا دعویٰ کرنے والوں نے اس کا یہ مفہوم نکالا ہے کہ ” لونڈیوں کو بدکاری کے دھندے پر مجبور مت کرو،اگر وہ پاک دامنی چاہیں ”۔ جس کا بہت غلط مطلب نکلتا ہے اور قرآن اتنی بڑی غلطی کا ہرگز متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کا معنی یہی مناسب ہے کہ اپنی کنواری لڑکیوں کو بدکاری یا بغاوت پر مجبور مت کرو،جب وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں”۔ ان اردن تحصنًا کے دونوں معنی ہوسکتے ہیںلیکن ایک بہت عمدہ اور دوسرا انتہائی غلط ہوگا۔ اسلئے کہ نکاح کیلئے راضی ہونے پر کنواری کو غلط راستے پر مجبور نہیںکرنے کی بات بالکل فطری طور پر درست ہے لیکن یہ کہنابالکل غلط ہوگا کہ” لونڈی کو اس وقت بدکاری پر مجبور نہ کیا جائے ،جب وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہو” اسلئے کہ پھر مطلب یہی ہوگا کہ جب وہ خود دھندہ کرنا چاہتی ہوتو پھر اس کو بدکاری کا دھندہ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
اسلام نے بیوہ وطلاق شدہ، غلام ولونڈی اور کنواری کے جن مسائل کا نکاح کے ذریعے حل پیش کیا ہے تو اس سے قدیم دور سے لیکر موجودہ دور تک معاشرتی برائیوں اور مشکلات کا زبردست طریقے سے خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اسلام نے ایک طرف معاشرے کے اندر خواتین کے سرپرستوں کو حکم دیا ہے کہ ان کا نکاح کرایا جائے تو دوسری طرف ان کی مرضی کے بغیر ان کا نکاح کرانے کو ناجائز قرار دیا۔ ایک طرف طلاق شدہ وبیوہ کو اپنی مرضی سے نکاح کے فیصلے اور ان کی مدد کرنے کا حکم دیا تو دوسری طرف کنواری کے فیصلے میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا حکم دیا۔ ایک طرف عورت کی مرضی کا خیال رکھا اور اس پر اپنی مرضی کو مسلط کرنے کو ناجائز قرار دیا تو دوسری طرف عورت کیلئے اپنے ولی کی اجازت کو شرط قرار دیدیا۔ جس سے کنواری لڑکیاں ہی مراد ہوسکتی ہیں۔ اگر غیرمسلم اور مسلم کیلئے ان معاملات کے حوالے سے شعور وآگہی کو بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی تو اچھے نتائج نکلتے۔

نکاح اور ایگریمنٹ میں بڑا فرق
اللہ نے فرمایا کہ ” تم نکاح کرو، عورتوں میں سے جن کو تم چاہو، دودواور تین تین اور چارچار ، اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا تمہارے معاہدے جن عورتوں کے تم مالک ہو”۔ عربی میں غلام کیلئے عبد اور لونڈی کیلئے اَمة کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اگر چہ قرآن نے کہیں کہیں غلام ولونڈی پر بھی ماملکت ایمانکم کا اطلاق کیا ہے لیکن اس میں ایک معاہدے کی بات واضح ہے اور لونڈی وغلام سے بھی ایک معاہدہ ہی ہوتا ہے۔ جب اس کو مطلوبہ رقم کا عوض مل جائے تو پھر وہ اس معاہدے سے آزاد ہوسکتا ہے۔ البتہ قرآن میں جہاں عورتوں سے نکاح کے متبادل کے طور پر اس کا ذکر ہوا ہے تو اس سے لونڈی وغلام مراد نہیں ہیں ،کیونکہ غلام سے تو جنسی عمل کی اجازت نہیں ہوسکتی اور لونڈی سے بھی نکاح کا حکم بھی ہے۔ لہٰذا اس سے ایگریمنٹ مراد ہے اور اس کا تعلق نکاح کے مقابلے میں ایک دوسرا معاہدہ ہے۔ نکاح میں عورتوں کو انصاف مہیا کرنے کا فرض شوہر کے ذمے ہوتا ہے جبکہ ایگریمنٹ میں یہ ذمہ داری نہیں ہوتی ہے۔ ہزاروں لونڈیوں کو قید میں رکھ کر کیا انصاف دیا جاسکتا ہے؟۔ قرآن نے وہ مسائل حل کئے ہیں جو بادشاہوں نے اپنے محل سراؤں کیلئے بنائے تھے۔
قرآن کی آیات کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ لونڈیوں کا نکاح کرانے کا حکم دیا اور آزاد عورتوں کیساتھ نکاح میں رکھ کر پورا پورا انصاف مہیا کرنے کا تصور دیدیا اور زیادہ عورتوں کو انصاف مہیا نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک یا پھر جن کے مالک تمہارے معاہدے ہوں۔ معاہدے والی کو انصاف مہیا کرنے کی ذمہ داری بھی ایک محدود وقت اور مالی معاونت تک کیلئے ہوسکتی ہے۔عورت اپنا خرچہ خود بھی اٹھاسکتی ہے۔ اگر عورت آزاد ہو اور شوہر غلام تو ان میں بھی معاہدہ ہوسکتا ہے جو لکھنے کی حد تک باہمی مشاورت سے طے ہوسکتا ہے۔ قرآن نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ” اگر تمہیں اس میں خیر نظر آئے تو غلام کی مالی معاونت بھی کرو”۔ قرآن فہمی کا دعویٰ کرنے والوں نے لکھا ہے کہ ” اگر تمہیں غلام کو آزاد کرنے میں خیر نظر آئے تو اس کے ساتھ آزادی کیلئے پیسہ لے کر مکاتب کرو”۔ مولانا سید مودودی نے لکھ دیا ہے کہ ” اگر تمہیں غلام کی سرکشی کا خوف نہ ہو اور اس میں خیر نظر آئے تو اس کے ساتھ مکاتبت کا معاہدہ کرلو”۔ حالانکہ غلام کی آزادی میں بجائے خود خیر ہے۔ کفارہ ادا کرنے کیلئے پہلی ترجیح غلام و لونڈی کو آزاد کرنا واضح کیا گیا ہے۔
نکاح و ایگریمنٹ کا فرق اس سے مزیدواضح ہوجاتا ہے کہ نکاح میں شوہر کو پوری ذمہ داری اٹھانی پڑتی ہے اور ایگریمنٹ میں عورت اپنی حیثیت ہی کے مطابق کبھی مرد کو سپورٹ تک کرتی ہے۔ خاص طورپر اگرمرد غلام ہو اور عورت آزادہو۔ایگریمنٹ میں عورت کی پوزیشن نہیں بدلتی ہے۔ علامہ بدرالدین عینی نے نبیۖ کی28ازواج میں حضرت ام ہانی کو بھی شامل کیا، جس کو علامہ غلام رسول سعیدی نے اپنی تفسیر تبیان القرآن اور شرح حدیث نعم الباری میں نقل بھی کیا ہے۔ حالانکہ ایگریمنٹ سے عورت کا تشخص نہیں بدلتا ہے۔ پہلے شوہر ہی کی طرف اس کی دنیا میں نسبت ہوتی ہے۔ ام المؤمنین ام حبیبہ سے بھی نبیۖ نے فرمایا تھا کہ ” اپنی بیٹیوں کو مجھ پر پیش نہ کرو”۔ جب قرآن میں اللہ نے یہ واضح کیا کہ ‘ ‘ تمہارے لئے وہ چچا اور ماموں کی بیٹیاں حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور پھر ام ہانی کے ساتھ ایگریمنٹ کا معاملہ ہوا تو یہ سمجھ لیا گیا کہ نکاح اور ایگریمنٹ کے حلال وحرام میں فرق ہے۔ لیکن نبی ۖ نے یہ واضح فرمایا کہ ”جن سے محرم ہونے کی وجہ سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے ان سے ایگریمنٹ بھی نہیں ہوسکتا ہے”۔ حضرت علی نے بھی امیر حمزہ کی بیٹی پیش کردی تھی ۔ نبیۖ نے فرمایا کہ” یہ میری رضائی بھتیجی ہے”۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

We cannot get out of the current predicament without bringing the true face of Islam to the world! There were a lot of deaths in Afghanistan

اسلام کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے لائے بغیر ہم موجودہ دور کی مشکل سے نہیں نکل سکتے ہیں ! افغانستان میں ہلاکتوں کا ڈھیر لگا

پاکستان اور دنیا بھر میں بدامنی، بدانتظامی، اخلاق کی تباہی ،جھوٹ اورلوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے ۔شیطانی قوتیں اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ قرار دیتی ہیں۔ حالانکہ اسلام اور مسلمانوں کا اس تباہی میں عشر عشیر کا بھی کردار نہیں ۔ دونوں جنگ عظیم میں لاکھوں افراد اور ایٹمی جنگ میں کافر قوتیں ایک دوسرے سے نبرد آزما تھیںاور تیسری جنگ عظیم بھی برپا ہو تو امریکہ وروس اور چین وکوریا اس میں مرکزی کردار ہوںگے لیکن برصغیر پاک وہند کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی کہ ہندو اور مسلمانوں کو عالمی قوتیں لڑائیں۔ اس میں شک نہیں کہ علامہ اقبال نے ”ابلیس کی مجلس شوریٰ ”میں شیطان کیلئے آئندہ اصل خطرہ اسلام سے قرار دیا لیکن وہ کونسا اسلام ہے؟۔ صوفی، ملا ، مجاہد، سیاستدان، ڈکٹیٹر کا اسلام ؟ یا پھر اللہ کا اسلام؟۔ سب سے پہلے ہم نے اللہ کے اسلام کو دنیا کے سامنے واضح کرنا ہوگا تاکہ شیطان کی آلۂ کار قوتیں اپنے مشن اور انسانیت دشمنی سے باز آجائیں۔
کیا اسلام میں جہاد اوردوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا احترام ہے؟۔
اذن للذین یقٰتلون بانھم ظُلموا وان اللہ علی نصرھم لقدیرO الذین اُخرجوا من دیارھم بغیر حقٍ الا ان یقولواربنا اللہ ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعضٍ لھدمت صوامع وبیع وصلوٰت و مساجدیذکر فیھااسم اللہ کثیرًاو لینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ لقوی عزیزOالذین ان مکنٰھم فی الارض اقاموا الصلوٰة واٰتوا الزکوٰة وامروا بالمعروف ونھو عن المنکر وللہ عاقبة الامورOو ان یکذبوک فقد کذبت قبلھم قوم نوحٍ وعادو ثمودO وقوم ابرٰھیم وقوم لوطٍO واصحٰب مدین وکُذب موسٰی فاملیت للکٰفرین ثم اخذتُھم فکیف کان نکیرO
” اجازت دی گئی ہے ان لوگوں کو قتال کی اسلئے کہ ان کیساتھ ظلم کیا گیا اور اللہ ان کی نصرت کرنے پر قادر ہے۔وہ لوگ جو نکالے گئے اپنے علاقے سے بغیر حق کے الا کہ وہ یہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔اور اگر اللہ بعض لوگوں میں بعض کے ذریعے قوتِ مدافعت نہ ڈالتا تو مجوسیوں کی عبادتگاہیں، یہودیوں کی عبادتگاہیں اور عیسائیوں کی عبادتگاہیں اور مسلمانوں کی مساجد گرادی جاتیں جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے۔ اور اس کی مدد ضرور کی جائے گی جو اللہ کی مدد کرتا ہے۔بیشک اللہ زبردست قوت والا ہے۔ وہ لوگ جن کو ہم زمین میں ٹھکانہ دیدیں تو نماز قائم کرینگے اور معروف کا حکم کرینگے اور منکر سے روکیں گے اور اللہ کیلئے تمام معاملات کا آخری انجام ہے۔ اور یہ قوم آپ کو جھٹلاتی ہے تو اس سے پہلے نوح کی قوم، عاد اور ثمود نے بھی جھٹلایا تھا اور قوم ابراہیم اور قوم لوط نے بھی۔اور اصحاب مدین نے بھی۔ اور موسیٰ کو بھی جھٹلایا گیا تو میںنے کافروں کو مہلت دی تو پھر کیسے آخر کار وہ عذاب کے انجام کو پہنچ گئے”۔( سورہ الحج)
جب تک کوئی ایسے حالات پیدا نہ کرے کہ وہ لوگ مظلوم بن جائیں تو ان کیلئے اللہ نے قتال کی اجازت نہیں دی ۔ مکی دور میں مسلمانوں کا قصور کیا تھا؟۔ کیا وہ دہشت گرد تھے؟۔غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے؟۔ قتل، اغواء برائے تاوان ، چوری اور ڈکیتی میں ملوث تھے؟۔ان کا صرف یہ کہنا تھا کہ ”ہمارا رب اللہ ہے ” ۔اور اسی وجہ سے ان کو اپنے علاقے سے نکال دیا گیا تھا۔ افغان طالبان سے اقلیتی برادری، دوسروں کی عبادتگاہیں اور زبردستی سے اپنی مرضی مسلط کرنے کے علاوہ یہ شکایت بھی تھی کہ انہوں نے دہشت گردوں کو پناہ دی۔ اسامہ نے اپنا ملک چھوڑ کر افغانستان میں پناہ لی اور امریکہ کے خلاف جہاد کا اعلان بھی کیا۔ آج افغان طالبان کہہ رہے ہیں کہ ہماری سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی لیکن پاکستان کو خدشہ ہے کہ بھارت نے دشمن دہشت گردوں کو افغانستان سے سپورٹ کرنے کا کھلم کھلا اعلان بھی کررکھا ہے۔
جب انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو مسلمان مجاہدین اور ہندوؤں نے پہلے مسلح اور پھر عدمِ تشدد سے سیاسی جنگ لڑی تھی۔انگریزکے جانے کے بعدہی پاکستان کے مسلمانوں اور بھارت کے ہندوؤں نے انگریز کی باقیات اپنی اپنی فوج، عدلیہ، پولیس، سول انتظامیہ اور پورے ریاستی ڈھانچے کو تقدس کا درجہ بھی دیدیاتھا۔ متحدہ ہندوستان کے داعی مولانا ابوالکلام آزاد، مہاتماگاندھی، جمعیت علماء ہند کے شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ، سرحدی گاندھی باچا خان، بلوچستان کے گاندھی شہید عبدالصمد خان اچکزئی وطن پرست اور قوم پرست تھے جس پر علامہ اقبال نے مولانا حسین احمد مدنی کیلئے ابولہب کے نظرئیے پر اشعار بھی لکھ ڈالے تھے۔ جو تقسیم ہند اور پاکستان بنانے کے نظرئیے کی کھل کر مخالف اور مسلم لیگ آل انڈیا کو انگریز کا ایجنٹ ، کافراور وطن کا غدار کہتے تھے۔ پھر جب انگریز نے برصغیر پاک وہند کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا تومشرقی پاکستان بنگلہ دیش اور موجودہ پاکستان کی قیادت قائداعظم محمد علی جناح اور نوابزادہ لیاقت علی خان نے اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھالنے کا فیصلہ کیا اور متحدہ ہندوستان کی قیادت نے اپنے ملک کا اقتدار انگریز کے ہاتھوں میںوقتی طور پر رہنے دیا تھا۔ مہاتماگاندھی قوم پرست ہندو کے ہاتھوں قتل ہوا تھا اور قائداعظم پہلے سے ٹی بی کے مریض تھے اور لیاقت علی خان کو گولی ماری گئی۔
بابائے قوم قائداعظم کی اکلوتی بیٹی بھارت میں اپنے پارسی کزن سے شادی کرکے باپ کے سایۂ عاطفت اور جانشینی کے منصب سے محروم تھی اسلئے آپ کی بہن فاطمہ جناح کو مادرملت قرار دیکر مسلم لیگیوں، جماعت اسلامی اور قوم پرست گاندھیوں نے اپنا قائد بنالیا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان سے بھی مادر ملت کا اختلاف تھا۔ جنرل ایوب خان نے میرجعفر کے پوتے سکندر مرزاکو لات مار کر اقتدار پر قبضہ کیاتو اسکندر مرزا کے ذریعے سیاست میں آنے والا ذوالفقار علیبھٹو بھی ایوب خان کیساتھ تھا۔ا سکندر مرزا کی بیگم اور بیگم بھٹو آپس میں کزن تھیں اور جو حشرجنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کا کیا تھا تو اس سے بدتر حشر جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا کیا تھا۔ پاکستان میں سیاست میں بھٹو خاندان کا داخلہ بھی بیگم نصرت بھٹوکی وجہ سے تھا جو اصل میں بھٹو نہیں بلکہ ایرانی نژاد تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی اگر اپنی کزن بھٹوبیوی سے اولاد ہوتی تو اس کا سیاست میں کوئی عمل دخل بھی نہ ہوتا۔ کیونکہ بھٹوکی سیاست نصرت بھٹو کی مرہون منت تھی۔
بینظیر بھٹو نے اپنی ماں نصرت بھٹو سے سیاست سیکھ لی تھی اور( MRD)میں اپنے مخالفین کیساتھ مل بیٹھ کر جمہوریت کیلئے جدوجہد کرنا نصرت بھٹو کی سیاست تھی۔مولانا فضل الرحمن نے بھی مفتی محمود کی وفات کے بعد اپنے مخالفین کیساتھ مل کر (MRD)کے پلیٹ فارم سے جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا تو اپنے باپ کے قریبی دوستوں سے ناراضگی اور کفر کے روایتی فتوؤں کا بھی سامنا کیا تھا۔ جب بینظیر بھٹو نے سیاست میں اپنا قائدانہ کردار ادا کیا تو اس پر سندھ کی روایتی کلچر اور سندھی خواتین کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ بیگم نصرت بھٹوکی بیٹی تھیں۔ اس نے 1980ء میں وزیراعظم بننے کے بعد صدر مملکت کیلئے مسلم لیگ کیساتھ مل کر نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں بنوں کے غلام اسحاق کو ووٹ دیا جو ریاست اور سیاست میں جنرل ضیاء الحق کا جانشین تھا تو یہ بیگم نصرت بھٹوکی سیاست تھی ۔جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست مرتضیٰ بھٹو کررہا تھا جس کا بیٹا ذوالفقار جونئیر اپنے باپ پر نہیں اپنی ڈانسر ماں پر گیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کو اگر پیپلزپارٹی کے سیاسی اکابرین تاریخی حقائق بتائیں گے تو وہ اصل میں زرداری اور برائے نام بھٹو پر اسلئے شرمندہ نہیں ہوگا کہ نصرت بھٹو بھی اصل میں بھٹو نہیں تھی تو بلاول کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا اور ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنی بیگم بھٹوکی وجہ سے سیاست میں آئے تھے تو آصف زرداری کو بھی فرق نہیں پڑتا کہ اپنی بیگم بینظیر بھٹو کی وجہ سے اس کی سیاست میں انٹری ہوئی ہے۔ ممتاز بھٹو، جماعت اسلامی کے مولانا بھٹو اور دعا بھٹو بالکل اصلی بھٹو ہیں ۔ البتہ ”ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو ماروگے” کا پسِ منظر بالکل مختلف ہے۔
بینظیر بھٹو کے بارے میں یہ نیا انکشاف سامنے آیا ہے کہ اس کو امریکہ کے بلیک واٹر نے شہید کیا۔ بینظیر بھٹو نے لکھا کہ” وہ خود اور مرتضی بھٹو سنی ہیں اور شاہنواز اور صنم بھٹو شیعہ ہیں”۔ ذوالفقار علی بھٹو سنی تھے لیکن اس کو پھانسی کے پھندے پر چڑھانے کے بعد اس کی شلوار اتارکر ختنے کی تصاویر لی گئیں تاکہ اگر اس کا ختنہ نہ ہو تو یہ ثابت کیا جائے کہ اس کی ماں بھی ہندو تھی اور وہ بھی مسلمان نہیں تھا لیکن ختنے کو دیکھ جنرل ضیاء الحق کو بھٹو کے اسلام پر یقین آگیا۔ بھٹو نے مسلم دنیا کو اکٹھا کرنا تھااور قادیانیوں کو کافر قرار دیا تھا اور جنرل ضیاء الحق نے اپنے بیٹے ڈاکٹر انوار الحق کی شادی مشہور قادیانی مبلغ جنرل رحیم الدین کی بیٹی سے کروائی تھی جس کے نکاح کیلئے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اپنے مرشد ڈاکٹر عبدالحی خلیفۂ مجاز مولانا اشرف علی تھانوی کو لیکر گئے تھے۔ ہمارے استاذ جمعیت علماء اسلام کراچی کے امیر مولانا شیرمحمد کاکڑ کو قادیانی رشتے کا پتہ نہیں تھا مگر پھر بھی ڈاکٹر عبدالحی کو شاہی دربار میں لے جانے پر بہت دکھی تھے۔ جب تحریک ختم نبوت ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور جمعیت علماء اسلام نے دباؤ ڈالا تو پھر جنرل ضیاء الحق نے امتناع قادیانیت آرڈنینس بھی جاری کردیا تھا۔
افغانستان اور خطے کے امن کے بغیر سکون کا سانس لینا ممکن نہیں۔ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قرآن وسنت میں جس طرح کی رہنمائی موجود ہے تو اس سے مذہبی طبقہ اپنے اہداف حاصل کرسکتا ہے۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کو مسلمانوں سے خطرات ہیں۔ جنہوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی معاف نہیں کرناہو تو وہ کافروں سے کیا رعایت کرسکتے ہیں۔ قادیانی دنیا میں پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ”ہم نے جہاد کو منسوخ کیا ہے۔ پرامن اسلام کے علمبردار قادیانی اور باقی مسلمان فسادی ہیں”۔ لیکن غیرمسلم طاقتوں کو مسلمانوں کی طرف سے اس کا کوئی مؤثر جواب نہیں دیا جارہا ہے۔
اگرامریکہ نے افغان طالبان کو اسامہ بن لادن کی وجہ سے ختم کیاتو عراق و لیبیا کو پھرکس جرم کی سزا دی؟۔رسول اللہۖ کو اہل مکہ نے نبوت کا دعویٰ اور بت پرستی کیخلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے ہجرت پر مجبور کیا لیکن رسول اللہۖ نے نبوت کے دعویدار ابن صائد کو مدینہ کی گلیوں میں کھلا گھومنے کیلئے چھوڑ دیا۔ بریلوی، دیوبندی ، شیعہ اور اہلحدیث کا ایمان رسول اللہۖ اور صحابہ کرام سے زیادہ مضبوط نہیں۔ جب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تو انکے اکابر بھارت میں تھے لیکن کسی نے ایمانی جوش وجذبے کا ثبوت دیتے ہوئے مرزے کو قتل نہیں کیا تھا۔ کیا تحریک لبیک، دیوبندی ،اہلحدیث اور شیعہ شدت پسند اپنے فرقوں کے بانیوں اور اکابرین سے زیادہ ایمانی جذبہ رکھتے ہیں؟۔
جب پشاور میں ایک قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو گیلے کا کیا گیلا ہونا تھا ؟ لیکن جمعیت علماء اسلام اور مذہبی طبقات ہی نہیں پیپلزپارٹی نے بھی پشاور سے دوبئی تک اپنے مذہبی جذبات کا اظہار کردیا۔ پورے افغانستان پر پچاس ہزار سے زیادہ حملے امریکہ نے پاکستانی ائیربیسوں سے کئے جس سے افغانستان مکمل کھنڈرات میں تبدیل ہوا مگر افغان عوام نے کوئی احتجاج تک بھی نہیں کیا۔ جب ایک افغانی کے عیسائی بننے کا شوشہ چھوڑ دیا گیا تو سارے افغانی سراپااحتجاج بن گئے۔ حالانکہ نبیۖ نے منافقین کونہ صرف مدینہ میں بسنے کا حق دیا تھابلکہ شہر چھوڑ کرمکہ میں مرتد بننے کی بھی صلح حدیبیہ میں کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔
آج دنیا میں جومذہبی آزادی، رائے کی آزادی اور احترام انسانیت ہے یہ سب قرآن وسنت کا اس دنیا کو دیا ہوا تحفہ ہے۔ ہم نے بھی پہلے معروف ومنکرکا غلط تصور سمجھ کر اس کی تشہیر شروع کردی تھی اور پھر ہماری سمجھ کھل گئی اور اسی طرح طالبان میں بھی معروف ومنکر کا تصور بالکل ہماری طرح ہی غلط سمجھا جاتا تھا اور انہوں نے عملی طور پر اس کو نافذ بھی کردیا تھا، اگر ہم انکی جگہ ہوتے تو ہم بھی وہی کرتے جو انہوںنے کیا تھا اور انہی کی طرح آج اپنے اقدامات سے پیچھے بھی ہٹ جاتے۔ جن لوگوں نے امریکہ کے خلاف جہاد کیا وہ طالبان عظیم مجاہد ہیں اور جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد دہشت گردی کی، وہ خوارج دجال کا لشکر ہیں۔امریکہ، پاکستان اور اللہ کی بارگاہ میں طالبان اپنے اپنے حساب سے گڈ اور بیڈ ہیں۔ البتہ دوسروں کے نظام کو ٹھیک کرنے سے پہلے اپنے آپ کو درست کرنا ضروری ہے، اگر اپنی چوتڑ پر گند کی پپڑیاں جمی ہوں، استنجاء اور وضو کئے بغیر زبردستی دوسروں کو نماز پڑھائی جائے تو یہ بالکل ہی غلط ہوگا۔
خلیفہ اول حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ” کاش میں انسان نہیں ایک چڑیا ہوتا اسلئے کہ جواب دہی کے بوجھ اور آخرت کی فکر سے آزاد اپنی زندگی گزارتا”۔یہ انسانی فطرت قرآن کا تقاضہ ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ اختیارات کی طلب رکھتا ہے مگر جب اس کو اختیارات مل جاتے ہیں تو پھر انسان کا ضمیر چیخ اُٹھتا ہے کہ اِنا عرضنا الامانتہ علی السمٰوتِ و الارضِ و الجِبالِ فابین ان یحمِلنہا و اشفقن مِنہا و حملہا الاِنسان اِنہ کان ظلومًا جہولًا ” بیشک جب ہم نے امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو سب نے انکار کردیا اور اس بارامانت کا بوجھ انسان نے اٹھالیا اور بیشک وہ بڑا ہی ظالم اور انتہائی جاہل تھا”۔ (القرآن)
اللہ نے فرمایا کہ ” انسان شر کو ایسا مانگتا ہے جیسے وہ خیر مانگ رہا ہو”۔ یہ شر طاقت، اقتدار اور اختیار میں زیادہ سے زیادہ اضافے کی خواہش ہے۔ پہلے لوگ طاقت واختیار کیلئے قتل وقتال کا راستہ اختیار کرتے تھے اور اب جمہوریت کے نام پر اپنی دُم اُٹھائے اُٹھائے عوام سے ووٹ کی بھیک طلب کرتے ہیں۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ لایکلف اللہ نفسًا الا وسعھا لہا ماکسبت و علیھا مااکستبت ربنا لاتؤاخذنا ان نسینا او اخطأنا ربنا ولا تحملناعلینا اصرًا کما حملتہ علی الذین من قبلنا ربنا ولاتحملنا مالا طاقة لنابہ ” اللہ کسی نفس کو نہیں پکڑتا مگر اس کی وسعت کے مطابق،جو اسکے فائدے کیلئے ہے جواس نے کمایا اور اس پر وبال ہے جو کچھ بھی اس نے حاصل کیا۔اے ہمارے رب ّ! ہمیں نہیں پکڑنا اگر ہم سے کوئی بھول یا غلطی ہوئی ہے۔ہمارے ربّ! ہم پر ایسا بوجھ نہیں لادنا جیسا کہ ہم سے پہلوں پر لاد دیا تھا ۔ اے ہمارے رب!ہمیں ایسا مت لدوادینا جس کی ہم طاقت نہیں رکھتے ہیں”۔ جس انسان پر بوجھ پڑتا ہے اور اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے تو وہ الگ بات ہوتی ہے اور جب انسان ذمہ داری لیتاہے تو اس کو پوری کرنا بھی اس کیلئے وبال بن جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ”جو عہدہ طلب کرتا ہے تو اللہ اس کی مدد نہیں کرتا اور جو خواہش نہیں رکھتا تو اللہ اس کی مدد کرتا ہے”۔مذہبی اور سیاسی طبقوں سے لیکر پوری دنیا کو حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ بقیہ صفحہ 3نمبر2

بقیہ…اسلام کا حقیقی چہرہ اور افغانستان میں ہلاکتوں کا ڈھیر
جب دنیا کو پتہ چلے کہ اسلام مسلمانوں اور انسانوں کو زیادہ سے زیادہ شخصی طاقت اور اختیارات کا بھوکا نہیں بناتا تو جو لوگ اپنی طاقت و اختیار کو بڑھانے کیلئے دوسرے کٹھ پتلی قسم کے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں ان کو نچلی سطح سے عالمی سطح تک کسی بھی گروہ اور فرد کا تعاون حاصل نہ ہوگا، لڑائی اور جھگڑوں کا اصل محور شخصیات کا اپنے لئے زیادہ سے زیادہ طاقت واختیار کا حاصل کرنا ہے۔ جب امریکہ میں ٹرمپ کو شکست ہوئی تو قریب تھا کہ امریکہ آپس کی خونریزی میں ہی دنیا کیلئے تماشہ بن جاتا۔ سعودی عرب سمیت دنیا کے تمام ممالک کو طاقت کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے خطرات اور امن وامان کے مسائل کا سامنا ہے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس طاقت تھی تو ننانوے بیگمات کے ہوتے ہوئے بھی اپنے مجاہد اوریا کی بیگم پر نظر پڑگئی تو دل میں خواہش ابھرنے لگی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے رہنمائی فرمائی۔ وہ حیران اور پریشان ہوگئے کہ سب دروازوں پر تالے لگنے کے باجود یہ اجنبی افراد کیسے اند ر داخل ہوئے۔ ایک نے کہا کہ یہ میرا بھائی ہے۔ میرے پاس ایک دنبی ہے اور اس کے پاس 99 دنبیاں ہیں۔ یہ چاہتا ہے کہ مجھ سے یہ ایک بھی چھین لے۔ حضرت داؤد نے فرمایا کہ اگر یہ سچ ہے تو پھر واقعی یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ پھر حضرت داؤد سمجھ گئے کہ اللہ نے مجھے تنبیہ کیلئے یہ افراد بھیجے ہیں اور اللہ سے معافی بھی مانگ لی اوراللہ نے معاف بھی کردیا۔ عفی اللہ اور عفی عنہ کے الفاظ مولوی اپنے کیساتھ قرآن کے ان الفاظ کی وجہ سے لکھتے ہیں جو حضرات داود کیلئے آئے تھے۔
حضرت داؤد ایک نبی اور بادشاہ تھے۔ نبوت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی دوسرے پر ظلم کرنے سے روک دیا لیکن قرآن نے بتادیا کہ جب انسان کے پاس اختیارات زیادہ بڑھ جاتے ہیں تو اس کیلئے کمزوروں کیساتھ انصاف کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ جب ہد ہد حضرت سلیمان کے دربار سے غائب تھا تو حضرت سلیمان نے کسی معقول عذر پیش نہ کرنیکی صورت میں سخت سزا دینے کی بات فرمائی تھی۔ جب ملکہ سبا بلقیس کو پتہ چلا کہ حضرت سلیمان بہت طاقتور بادشاہ ہیں تو اس بات کا اظہار کیا تھا کہ جب بادشاہ کسی دوسرے کے ملک میں داخل ہوتے ہیں تو عزتدار لوگوں کی تذلیل کرتے ہیںجو قرآن میں واضح ہے۔
رسول اللہ ۖ رحمت للعالمین تھے۔ قریشِ مکہ نے دعوت دی تھی کہ اگر کسی خوبصورت لڑکی سے شادی کرنی ہے تو عرب کی حسین ترین لڑکی سے نکاح قبول فرمائیں، مال ودولت چاہیے تو ہم اتنی دولت دیںگے کہ اچھے خاصے مالدار بن جائیںگے اور اگر بادشاہی اور حکومت چاہیے تو اہل عرب کا سب سے بڑا بادشاہ بنادیتے ہیں لیکن اپنی اس دعوت سے دستبردار ہوجائیں۔ نبیۖ نے ان تمام چیزوں کو ٹھکراتے ہوئے فرمایا تھا کہ ” اگر میرے ایک ہاتھ پر چانداور دوسرے پر سورج بھی رکھ دیں تو اپنی دعوت سے دستبردار نہیں ہوں گا”۔ ایک چچا کی پشت پناہی حاصل تھی اور خطرہ تھا کہ چچا ابوطالب بھی ساتھ نہ چھوڑ جائیں لیکن حضرت محمد ۖ نے ثابت کردیا کہ آپۖ توحید کے سہارے ایک فرض کی ادائیگی کیلئے اس دنیا میں کام کررہے تھے۔ قریش مکہ نے قرابتداری کا لحاظ بھی چھوڑ دیا لیکن آپۖ کے پایۂ استقلال میں بالکل بھی ذرا سا فرق بھی نہیں آیا تھا۔
ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں کہ ایک انسان کے اندر اس سے زیادہ استقامت کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی تنبیہ کردی تھی کہ ” اگر آپ نے تھوڑا سا جھکاؤ بھی اختیار کیا تو اللہ کی طرف سے شدید عذاب ہوگا ”۔ اور پھر اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ” اگر اللہ نے سہارا نہ دیا ہوتا تو آپ تھوڑے جھکاؤ کا شکار ہوجاتے”۔ یہ سند ہے کہ رسول ۖ نے جن مشکلات کا سامنا کیا ،اسکا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔اور اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ اللہ نے بدرکے قیدیوں پر جمہور صحابہ کرام کی مشاورت اور نبیۖ کے فیصلے کو غیرمناسب قرار دیکر واضح کیا کہ کسی بہت بڑی شخصیت اور عظیم جماعت کی مشاورت کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ اپنے آپ کو رسول اللہۖ اور صحابہ کرام کے جم غفیر سے بڑھ کر خیال کرے۔ پھر جب غزوہ اُحد کے بعد رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ”اللہ کی قسم ! میں ان کے70 افراد کی لاشوں کیساتھ وحی سلوک کروں گا” اور صحابہ کرام انتقام کے جذبے میں اپنی آخری حد تک پہنچے ہوئے تھے تو اللہ نے فرمایا کہ ” کسی قوم کے انتقام کا جذبہ تم لوگوں کو یہاں تک نہ پہنچائے کہ اعتدال سے ہٹ جاؤ” ۔اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ”جتنا ان لوگوں نے تمہارے ساتھ کیا تھا ، تم بھی اتنا کرو۔ اگر معاف کردو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور معاف ہی کردو اور یہ معاف کرنا بھی تمہارے لئے اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے”۔ قرآن نے رسول اللہۖ اور صحابہ کرام کی وہ تربیت کی تھی کہ جب مکہ فتح ہوا تو دشمن کے سردار ابوسفیان کے گھر کی تذلیل نہیں فرمائی بلکہ بھرپور عزت بخش دی۔ چچا کو شہید کرنے والے وحشی اور اس کے کلیجے کو چبانے والی ابوسفیان کی بیگم ہند معاف کردئیے گئے۔
اسلام نے دنیا کی تاریخ بدل ڈالی تھی۔ قیصر وکسریٰ کے حکمران کمزور نہ تھے لیکن اسلام کے عادلانہ نظام کی وجہ سے ان کے پیروں سے زمین نکل گئی تھی اور دنیا کی مظلوم عوام نے ہر جگہ مسلمانوں کا استقبال کیا تھا۔ اسلام وحشت و دہشت کے ذریعے نہیں بلکہ عدل وانصاف، انسانیت اور دین ربانی ہونے کی وجہ سے دنیا میں پھیل گیا ہے اور شیطان اور اس کی آلۂ کار قوتوں کو اسی اسلام سے بہت خطرہ ہے۔ داعش اور طالبان اپنی دہشت اور وحشت کے ذریعے اسلام کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ امریکہ کی یہی چاہت تھی کہ داعش اور طالبان کو چھوڑ کر دنیا کو اسلام اور مسلمانوں کا وحشیانہ چہرہ دکھا دیں۔ امریکہ کے سامنے جذبہ جہاد سے ڈٹ جانا ہزار درجہ بہتر تھا اور بہترین جہاد تھا اور کسی کا امریکہ کے سامنا لیٹنا بہت بدترین درجے کی غلامی ہے لیکن اب جبکہ امریکہ افغانستان سے نکلاہے تو اقتدار کی خاطر مسلمانوں اور افغانوں کو قتل کرنا انتہائی درجے کی جہالت ہے۔
اگر لاشوں کو اسلام میں مثلہ کرنے کی اجازت نہیں ہے تو زندہ انسانوں کو بھی تشدد کرکے مارنے کی قطعی اجازت نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر درختوں اور فصلوں کو اسلام میں نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے تو گھر،دفاتر، سڑکوں اور کسی بھی منافع بخش انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں ہوسکتی ہے۔ اسلام اپنے اختیارات کو درست استعمال کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ بدری قیدیوں کیساتھ کتنا اچھا سلوک روا رکھا گیاتھا؟۔ اگر پوری دنیا میں یہ ٹرینڈ چل گیا کہ دوسروں سے اختیارات اور طاقت چھیننے کے بجائے اپنے اختیارات اور طاقت کا بڑادرست استعمال کیا جائے تو دنیا کے سارے ممالک، ادارے ، پارٹیاں ، تنظیمیں اور لوگ اپنی اپنی جگہ پر بدل جائیں گے۔ رسول اللہۖ کو بھی مشاورت کا اللہ نے حکم دیا تھااور ایک اولی الامر اورمذہبی شخصیت اور آپ ۖ کے منصب کابڑا احترام ہونے کے باوجود آپۖ سے مذہبی معاملات اور اولی الامر کے معاملات میں صحابہ کرامنے بہت سارے مواقع پر زبردست اختلاف کیاتھا اور قرآن وسنت میں اس اختلاف کے حق کو ایک مثبت معاشرتی نظام کا اہم حصہ قرار دیا گیا۔
سورۂ مجادلہ میںخاتون کے اختلاف اور اس کی تائید ہے۔ بدری قیدیوں پر عمرو سعد کی رائے کو مناسب قرار دیا گیا اور اُحد پر انتقام میں زیادتی کا ماحول وحی نے بدل ڈالا اور صلح حدیبیہ کی شرائط اور عمرہ ادا کئے بغیر واپس جانا مشکل تھا۔ ذوالخویصرہ جیسے لوگوں کو نبیۖ نے قتل کی اجازت نہیں دی۔ فرمایا کہ یہ بیس مرتبہ سے زیادہ مختلف ادوار میں پیدا ہونگے حتیٰ کہ ان کا آخری گروہ دجال سے مل جائیگا، ان کی نماز ،روزوں کو دیکھ کر اپنی نماز، روزوں کو تم بھول جاؤگے،یہ قرآن پڑھیںگے لیکن قرآن انکے حلق سے نیچے نہ اتریگا۔ یہودونصاریٰ اور منافقین کا کردار مخفی نہیں لیکن قرآن نے انسان کے قتل کوبغیر کسی قتل یا فساد کے انسانیت کا قتل قرار دیا تھا۔ یتیم کے احترام کا درس دیا کسی کو یتیم بنانے کاحکم نہیں!

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

If he had taken advantage of Dr. Abdul Razzaq Sikandar, he would have changed his Arabic. When Maulana Yusuf Banuri was alive, the pots for drinking the water of the Shia procession were cleaned and filled.

ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر سے فائدہ اٹھایا جاتا تو اپنی عربی بدل جاتی!
جب مولانا یوسف بنوری حیات تھے تو اہل تشیع کے ماتمی جلوس کے پانی پینے کیلئے مٹکے صاف کرکے بھر دئیے جاتے تھے۔

سوادِ اعظم اہلسنت کے مولانا سلیم اللہ خان، مولانا مفتی احمد الرحمن پرنسپل جامعہ بنوری ٹان،شیخ الحدیث مولانا اسفند یار خان، ایڈوکیٹ عبدالعزیز خلجی اور کئی مدارس سے آئے ہوئے علما و طلبہ اہل تشیع کا جلوس روکنے کیلئے جمع تھے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ناظم تعلیمات نے جامعہ بنوری ٹان میں تدریس کا سلسلہ جاری رکھاتھا ۔استاذ محترم نے فرمایا کہ ” مفسدین کی باتوں میں مت آ، جب مولانا بنوری حیات تھے تو ماتمی جلوس سے پہلے پانی کے مٹکے صاف کرکے بھر دئیے جاتے تھے۔ ان کے علما اور ذاکرین مدرسہ میں آتے تھے”۔ ختم نبوت کی تحریک بھی شیعہ سنی علما نے مولانا بنوری کی قیادت میں کامیاب بنائی تھی۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کے قدموں میں سارے عہدے آئے مگر پیرانہ سالی میں بہت دیر ہوچکی تھی۔ اگر آپ کو بروقت ختم نبوت کا امیر بنایا جاتا تو مسلمانوں کے اتحاد میں رخنہ نہیں پڑسکتا تھا۔ اگر آپ بروقت جامعہ کے مفتی اور شیخ الحدیث ہوتے تو مفسدین جامعہ بنوری ٹان کی دارلافتا کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے کبھی استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ اگر آپ بروقت وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر بنائے جاتے تو پاکستان کے مدارس میں جامعہ ازہر مصر اور مدینہ یونیورسٹی کے ہم پلہ نصاب سے بھی زیادہ اچھی عربی کتابیں پڑھائی جاتیں۔ اگر آپ صحیح وقت پر اقرا روض الاطفال کے سرپرست وصدر بنائے جاتے تو سکولوں کے نصاب پر عربی مدارس بھی رشک کرتے۔ ہمارے ہاں لالچی، مفسدین، فتنہ پرور اور بہت ہی غلیظ قسم کے شیاطین الانس اہم عہدوں پر ڈمی لوگوں کو فائز کرکے اپنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسلئے ہم نے استاذ محترم کی حیات میں تجویز پیش کی تھی کہ مولانا امداد اللہ یوسفزئی جیسے لوگوں کو وفاق المدارس پاکستان کا صدر بنانا چاہیے تاکہ مدارس کی تعلیم وتربیت میں ایک فعال کردار بھی ادا کرسکیں۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے ہمیں صرف عربی کی خوشبو ہی سونگھائی تھی مگر پھر بھی جب اپنے سکول کبیر پبلک اکیڈمی میں تھوڑی بہت عربی بچوں کو پڑھائی تو جمعیت علما اسلام ف کے ضلعی امیر مولانا عبدالرف اور جمعیت علما اسلام کے ضلعی امیر مولاناشیخ محمد شفیع شہید نے جلسہ تقسیم انعامات میں اپنی طرف سے بھی طلبہ کو نقدی انعامات دئیے اور اپنی تقریروں میں کہا کہ” اتنی اچھی عربی ہمارے مدارس میں بھی نہیں ہے اور ایسی انگریزی سکول والوں میں بھی نہیں ہے”۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی جمعیت علما اسلام کے اجتماع میں عربی سن لیں اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی بھی سن لیں۔ ڈاکٹر صاحب کی عربی ایسی تھی جیسے رائے بریلی یا لکھنو کا کوئی ادیب شائستہ اردو زبان میں گفتگو کررہا ہو۔ اور شیخ الاسلام کی عربی ایسی لگتی ہے جیسے کوئی ان پڑھ بنگالی ارود کی ریڑھ لگارہا ہو۔ جب ضرورت پڑی ہے تو ڈاکٹر صاحب نے ہر منصب کو شرف بخشا۔ایسا نہیں کہ خود ساختہ شیخ الاسلام یامفتی اعظم بن گئے۔ ایسا بھی نہیں کہ ناراض ہوکر عہدہ قبول کرنے سے انکار کیا ہو ؟۔ جامعہ بنوری ٹان کراچی کے پرنسپل کا منصب تو اپنی جان کو ہی ہتھیلی پر رکھنے والی بات تھی۔ ظالموں نے شیخ بنوری کے بیٹے مولانا سید محمد بنوری کا خون کردیااور پھر خود کشی کا بہتان لگایا۔ جامعہ کا دارالافتا اور مفتی اعظم پاکستان کا نام نہادعہدہ بھی غلط استعمال کیا گیا تھا اور روزنامہ جنگ ”آپ کے مسائل اور ان کا حل ” میں مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید کی طرف یہ منسوب کیا گیا کہ ” حضرت عیسی علیہ السلام کے چچا نہ تھے، البتہ دوپھوپھیاں تھیں”۔ اور کیا کچھ نہ ہوتا ہوگا؟ ۔ ڈاکٹر صاحب بہت بڑی شخصیت تھی اگر آپ سے بروقت عربی کی تجدید کا کام لیا جاتاتو قرآن اور صحیح بخاری کے ترجمہ میں بھی ایک انقلاب آجاتا۔ محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان نے بخاری کی اپنی شرح ”کشف الباری” میں دنیابھر کی تشریحات کا خلاصہ لکھ کر کمال کردیا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا ہے کہ ان تشریحات کے نتائج کتنے خراب نکلیں گے؟۔
احناف نے حرمت مصاہرت کے مسائل میں جس غلو سے کام لیا ہے وہ بھی قابل اصلاح ہے لیکن خود بخاری کی احادیث کی بھی درست وضاحتیں نہیں کی گئیں تو معاملات بہت گھمبیر ہیں۔ پھر فقہ ، اصولِ فقہ ، احادیث اور قرآن کے احکام میں بالکل بھی کوئی جوڑ اور ربط نہیں ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان نے” کشف الباری
ایسی روایات بھی نقل کی ہیں کہ حضرت علی نے ایک شخص کی بیوی کے فوت ہونے کے بعد کہا کہ اگر اس کی کوئی ایسی لڑکی ہے جس نے اس کے گھر میں پرورش نہ پائی ہو تو اس سے نکاح کیا جائے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ احناف وغیرہ کے نزدیک اگر بیوی کے سابقہ شوہر کے بیٹے سے لواطت کا عمل کیا جائے تو حرمت مصاہرت پیدا نہیں ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب بہت خرافات نکال دیتے۔
عام عربی میں ”فرج” خوشحالی کو کہتے ہیں مگر علما کے ہاں صرف عضو مخصوصہ کاتصور بیٹھ گیا ۔اگرعلما نے عربی ادب کیساتھ اپنا شوق و ذوق وابستہ نہ کیا تو قرآن وسنت کی کئی لغات میں غلطیوں کا تصور نہیں ٹوٹے گا۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے مولانا بنوری سے مناسک حج سیکھے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کوئے کی طرح لنگڑا کر چلنے سے کسی کو ”رمل” سکھارہا تھا ۔ اللہ نے ممنوں کیساتھ ایسی جنت کا وعدہ کیا ہے کہ جسکا عرض زمین وآسمان کے برابر ہے لیکن مفتی تقی عثمانی نے قرآن کی غلط تفسیر کی کہ ” قریب ہے کہ آسمان ملائکہ کی عبادت میں زیادہ تعداد کے وزن کی وجہ سے پھٹ جائے”۔ ( آسان ترجمہ قرآن)
ڈاکٹر صاحب نے مفتی محمد تقی عثمانی کیخلاف سودی بینکاری پر مقف پیش کیا جو تحریری طور پر نیٹ پر موجود ہے۔ مشکل یہ ہے کہ مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” اور ڈاکٹر حبیب اللہ مختار کی کتاب” مسلمان نوجوان ” دستیاب نہیں۔ دونوں کو شہید اوریہ کتابیں غائب کردی گئیں۔ ہماری لڑائی ذاتیات کیلئے نہیں ۔تفصیل لکھ دی تو پتہ چلے کہ بڑے علما ومفتیان ہیںیا لنڈا بازار میں بکنے والے گھسے پھٹے جوتے ہیں؟۔
میں نے دارالعلوم کراچی میں نماز کے بعد چیلنج کیا تھااور وہ بھاگ کرگھروں میں گھس گئے۔ پھر جامعہ بنوری ٹان کراچی کی جامع مسجد میں اعلان کیا تو استاذ محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ جنہوں نے فتوی لگایا ہے ، ان کو جاکر پکڑو؟ ۔ میں نے عرض کیا کہ ”فتوے پر یہاں کی مہریں لگی ہیں”۔ استاذ مفتی محمد ولی کو مولانا نجم الدین مردانی نے شلوار اتارنے کی دھمکی دی تھی اسلئے میرے اشعار گنگنا کر پڑھتااور کہتا تھا کہ اشعار سے امرا القیس کو بھی شرمندہ کردیا۔ مفتی محمد ولی نے کہا کہ یہ جرات تو شیعوں میں بھی نہیں کہ ہمیں یہاں چیلنج کریں، ہم ننگا کردیںگے تو میں نے کہا کہ” کسی کھدڑے میں جرات ہے تو سامنے آئے”۔ یہ وزیرستان کی مٹی کا کمال تھا۔ مولاناسیدمحمد بنوری شہید نے مولانا فضل الرحمن سے زندگی کی بھیک مانگی تھی مگرمولانا خود کشی کا جھوٹا الزام لگانے والوں کیساتھ کھڑے تھے۔ اگرڈاکٹر صاحب اپنے ذوق سے نصاب بناتے تو مدارس کی تقدیر بدل جاتی۔پھر مدینہ یونیورسٹی اور جامعہ ازہر مصر بھی نہ جانا پڑتا۔ دیسی علما کی عربی جدا ہے ۔مولانا ابولحسن علی ندویہندی مگر عربوں کے بھی استاذ تھے۔
ایا ایھاالجیش من النسا اہل المردان
ان کنتم رجالا فتعالوا الی المیدان
قد ماالتقیتم قط بااہل وزیرستان
کفی لکم واحد منہم موجود عتیق الرحمن

Can we accuse Ali Wazir or the enemy of the Pashtun nation is Pakistan? or its merely a clash among groups with different approaches and ideologies.

faqir of ipi, faqir api, akhter khan, maulana noor muhammad shaheed, usman kakar, ali wazir

وزیرستان تاریخی حقائق کی روشنی میں، فقیر ایپی سے علی وزیر تک : اختر خان

وزیرستان وانہ کا ایم این اے علی وزیر(ali wazir) پاکستانی ریاستی اداروں کو پشتونوں کا دشمن کہتا ہے۔وزیرستان سے تعلق رکھنے والا مشہور گوریلا جنگجو فقیر ایپی کہتا تھا کہ پاکستان کا نظام یہ وہی انگریز گدھا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اس کا پالان بدل دیاگیا ہے۔علی وزیر(ali wazir) کے دادا جلات خان اس فقیر ایپی کے قریبی ساتھی اور معاون تھے۔پاکستان بننے سے پہلے مسلسل دس سال وہ فقیر ایپی کے شانہ بشانہ انگریزوں سے لڑتے رہے۔جب پاکستان بن گیا تو علی وزیر کا دادا جلات خان دس سال تک افغانستان میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھاجبکہ فقیر ایپی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے پاکستان کیخلاف لڑے یا اسکو اپنا ملک تسلیم کر لے۔فقیر ایپی(FAQEER AP) کے پاس نہ تو اتنے وسائل تھے اور نہ ہی تنظیمی استعداد کہ وہ پاکستان کو ان انگریزوں سے وراثت میں ملے انتظامی ڈھانچے سے لڑتے۔فقیر ایپی نے ہر ممکن کوشش کی کہ چاہے افغانستان ہو یا کوئی اور ملک، پاکستان کیخلاف لڑنے کی مدد لی جائے لیکن نہ تو افغانستان نے فقیر ایپی کو مدد دی اور نہ ہی کسی اور ملک نے حتی کہ وزیرستان میں ایسے ملکانان سامنے آئے جنہوں نے فقیر ایپی سے کہا کہ انگریز سے لڑنا درست تھامگر پاکستان سے لڑنا درست نہیں۔فقیر ایپی نے (1956 )کے بعد سیاست سے تقریبا کنارہ کشی اختیار کر لی اور (1957 )میں علی وزیر کے دادا جلات خان(JALAT KHAN) نے فقیر ایپی کی پیروی میں پاکستان سے لڑنے کا فیصلہ ترک کر دیا۔جلات خان اور پاکستانی اداروں کے درمیان بھی صلح کرائی گئی جس کی بنیاد پر علی وزیر کے دادا جلاوطنی چھوڑ کر پاکستان میں اپنے گاؤں وانہ آگئے۔
دلچسپی سے علی وزیر کے دادا جلات خان کا یہ معاہدہ اور صلح ملک شہزاد توجئے خیل نے کرایا تھا۔ملک شہزاد توجئے خیل وانہ کے مشہور سیاسی بزرگ اور خدائی خدمتگار نثار لالا کے رشتہ دار تھے اور غالبا ملک جمیل کے دادا تھے۔یہ وہی ملک جمیل ہیں جنہوں نے چند دن پہلے وانہ میں ایک جرگہ میں پی ٹی ایم کے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ علی وزیر کو جیل سے رہائی دلانے کیلئے میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوںاور اس سلسلے میں کور کمانڈر کسی جرنیل کسی وزیر کے گھر یا دفتر جانے کو بھی تیار ہوں اب پی ٹی ایم والوں کو یہ یقین دہانی کرانی ہوگی
ِِِِِ کہ آئندہ پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کے دشمنوں جیسے افغانستان کے گیت وزیرستان میں نہیں گائیں گے۔
ستر کی دہائی میں جب وانہ وزیرستان میں مرحوم مولانا نور محمد(MOLANA NOOR MUHAMMAD) وزیرستان کی سیاست میں سرکردہ کردار بنا تو اسی علی وزیر کے دادا جلات خان کو اس کی پشت پناہی حاصل تھی جبکہ میر عسکر خوجل خیل جیسے مشران نے مولانا نور محمد کو وزیرستان کیلئے زہر ہلاہل قرار دیا تھا۔اسی کی دہائی میں افغانستان میں روس نواز پشتون قوم پرستوں کے خلاف جب امریکہ نواز جنرل ضیا الحق نے جہاد کا بیڑہ اٹھایا تو مولانا نور محمد ان کے فکری، نظریاتی اور عملی دوست بنے۔جنرل ضیا الحق(GENRAL ZIAULHAQ) اور مولانا نور محمد جیسی شخصیات کے درمیان جو گٹھ جوڑ بنی اسکے خمیر سے افغانستان میں طالبان کی حکومت معرض وجود میں آئی جبکہ وانہ میں نیک محمد، ملا نذیر، بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود جیسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے نہ صرف علی وزیر کے خاندان کی سرکردہ شخصیات کو قتل کیا بلکہ مولانا نور محمد بھی جنرل ضیا الحق کیساتھ جس آگ کو بھڑکا چکے تھے اسی میں جل گئے اور (2010) میں ایک خودکش حملے میں قتل کئے گئے۔علی وزیر نے (2013) کا الیکشن لڑا،تو مولانا نور محمد کے شاگرد مولویوں کے علاوہ وزیرستان وانہ کی جن سرکردہ شخصیات نے علی وزیر کو ہرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہ نصراللہ وزیر اور علی وزیر کے دُور کے رشتہ دار سعید وزیر جیسے پاکستانی قوم پرست بیوروکریٹس تھے۔نہ تو علی وزیر وہ الیکشن جیت سکا اور نہ ہی یہ بیوروکریٹس اپنا امیدوار کامیاب کروا سکے (2018) کے الیکشن میں وانہ کے یہ بیوریوکریٹس قوم پرست پشتونوں کی طرح آپس کے اختلاف کا شکار ہوئے۔سعید وزیر نے سیاست سے کافی حد تک کنارہ کشی اختیار کی۔جبکہ بیوروکریٹ نصراللہ وزیر نے اپنے بیٹے کو علی وزیر کے خلاف تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے میدان میں اتارا۔علی وزیر کی مقبولیت کے باعث عمران خان نے علی وزیر کے خلاف اپنے امیدوار کو دستبردار ہونے کا کہا لیکن نصراللہ وزیر بدستور علی وزیر کے خلاف الیکشن لڑنے پر مصر رہا۔نصراللہ وزیر کے امیدوار کو علی وزیر کیخلاف بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔( 2019)میں صوبائی اسمبلی کیلئے جو الیکشنز ہوئے اس میں ریاست پاکستان نے علی وزیر کے امیدوار عارف وزیر کو بالکل اسی طرح دھاندلی کرکے ہروایا جس طرح پنجاب میں مسلم لیگ اور پشاور ویلی میں عوامی نیشنل پارٹی کو ہروایا گیا۔ان حقائق کی روشنی میں آپ فیصلہ کریں کہ علی وزیر یا پشتون قوم کا دشمن پاکستان ہے یا پشتون قوم کے اندر مختلف الخیال اور نظریات کے پیروکاروں کے درمیان رسہ کشی؟۔

Afghan government came into existence with mutual efforts and co-ordination of General Muhammad Zia-ul-Haq and Maulana Noor Muhammad Wazir.

پشتونوں کے مذہبی علماء اور قوم پرست قائدین کے احوالِ واقعی : اختر خان

عثمان کاکڑ(USMAN KAKAR) کے جنازے پر تقریر میں محمود خان اچکزئی(MEHMOOD KHAN ACHAKZAI) نے کہا کہ تین ماہ بعد بنوں میں تمام پشتون سیاسی جماعتوں جیسے عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علما اسلام ف، پی ٹی ایم اور فعال سماجی سیاسی ایکٹویسٹس شعرا وکلا وغیرہ کا جرگہ بلائیں گے جو مسلسل تین دن تک اس پر غور کرے گا کہ پشتون قوم کی خانہ جنگی کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔تین دن غور و فکر کے بعد یہ جرگہ متفقہ موقف پاکستان کے سامنے رکھے گا۔اگر پاکستان کو وہ موقف منظور ہوا تو ٹھیک نہیں تو پشتونوں کا یہ جرگہ پشتون قوم کے مستقبل کے بارے میں آزادانہ موقف اختیار کرے گا جو شاید ریاست پاکستان سے ٹکرانے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔
زمینی حقائق کے تناظر میں محمود خان اچکزئی کی تقریر کے ان پہلووں کا جائزہ لیتے ہیں۔پشتون قوم کے اندر خانہ جنگی کی نوعیت کیا ہے؟ اس خانہ جنگی کے مرکزی کردار کون ہیں۔اس پہلو کو سمجھنے کیلئے میں آپ کو اپنے گائوں وانہ وزیرستان کی مثال دیتا ہوں،وانہ کا ایم این اے علی وزیر ان دنوں اس وجہ سے جیل میں ہے کہ ریاست پاکستان کے ادارے علی وزیر کو پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں۔علی وزیر کو جتنے ووٹ2018 کے الیکشن میں ملے اتنے ووٹ وزیرستان کی تاریخ میں کسی کو نہیں ملے۔علی وزیر کے خلاف جمعیت علما اسلام مولانا فضل الرحمان کے جس بندے مولانا محمود عالم(MOLANA MEHMOOD ALAM) نے الیکشن لڑا وہ افغان طالبان کا مرکزی کردار تھاجو افغانستان میں علی وزیر کے فکری دوستوں جیسے کرزئی اور اشرف غنی کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔یہی مولانا محمودعالم وزیرستان میںگڈطالبان کابھی مرکزی کردار تھا۔اسی طرح(2013 )کے الیکشن میں وانہ کے چند مقامی سرکردہ بیوروکریٹس نے علی وزیر کو ہرانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی، یہ بیوریوکریٹس اپنا امیدوار نصیراللہ کو پاس تو نہ کر سکے لیکن علی وزیر کو پاس نہ ہونے دینے میں کامیاب ہوئے(2019)کے صوبائی الیکشن میں علی وزیر کے چچا زاد عارف وزیر(ARIF WAZIR) کو الیکشن میں ناکام کرنے کیلئے بالکل یہی حربہ استعمال ہوا۔علی وزیر وزیرستان میں قوم پرستوں کاترجمان ہے۔مولانا محمودعالم مذہبی پشتونوں اور طالبان کا ترجمان ہے جبکہ بیوروکریٹ نصراللہ کا بیٹا ایم پی اے نصیر اللہ تحریک انصاف کا بندہ ہے۔تحریک انصاف ریاستی اداروں کا گماشتہ ہے۔ مولانامحمودعالم جیسے مولوی اوروزیرستانی بیوروکریٹس علی وزیر جیسے سیاستدان کو نہ صرف اپنا سیاسی حریف بلکہ حسب ضرورت انکے ساتھ جنگ کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں اور یہی وہ پہلو جسکا مظہر آج کل گڈ بیڈ طالبان ہیں۔جسکی وجہ سے پچھلے بیس سال سے وزیرستان میں خانہ جنگی ہے اور اسی وجہ سے پچھلے چالیس سالوں سے افغانستان میں خانہ جنگی ہو رہی ہے۔یہی رسہ کشی پچھلے ستر سال سے پاکستان اور باچاخان اور صمد خان کے پیروکاروں کے درمیان چل رہی ہے۔
باچاخان و صمد خان(BACHA KHAN SAMAD KHAN) جیسے قوم پرست اتنے منقسم اور نفاق کا شکار ہیں کہ الیکشن میں پیپلز پارٹی مذہبی جماعتوں اور مسلم لیگ کیساتھ تو اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیتے ہیں مگر ایکدوسرے کیساتھ نہیں کرتے، اسی طرح ووٹ تقسیم اور انکے مخالفین کامیاب ہو جاتے ہیں۔ان قوم پرستوں کے دشمن مذہبی جماعتیں جیسے مولانا فضل الرحمان والے سمیع الحق والے مولانا شیرانی والے سراج الحق والے طارق جمیل والے مفتی تقی عثمانی والے بھی اب اتنے نفاق کا شکار ہیں کہ شاید ہی آپس میں پھر کسی متحدہ مجلس عمل کی شکل میں اکھٹے ہوں۔فرض کریں کہ مذہبی طبقات میں اگر ایک دھڑا جیسے مولانا فضل الرحمان والے اور باچاخان اور صمد خان والے کسی ایک نقطے پر متفق بھی ہو ں تو باقی مذہبی جماعتیں جیسے سمیع الحق، سراج الحق، طارق جمیل مفتی تقی عثمانی اور مولانا شیرانی(samiulhaq,sirajulhaq,tariqjameel,Taqi Usmani,molana sheerani) والے انکے پیچھے پروپیگنڈہ شروع کر لیں گے کہ مولانا فضل الرحمان نے یہود و ہنود کے ایجنٹوں اسفندیار اور اچکزئی کیساتھ دوستی کر لی اور یہ مذہبی طبقے پاکستانی ریاستی اداروں کیساتھ مل کر مولانا فضل الرحمان اسفندیار اور اچکزئی کے خلاف ایسے ہی اتحاد کر لیں گے جیسے علی وزیر یا اسکے امیدوار کے خلاف وزیرستان میں اتحادی بن جاتے ہیں یا جس طرح افغانستان میں کرزئی اور اشرف غنی سے نمٹنے کیلئے افغان طالبان پاکستانی ریاستی اداروں کیساتھ اتحادی بن جاتے ہیں۔
اسفندیار، محمود خان اچکزئی ،علی وزیر جیسے قوم پرست ایک نقطے پر متفق نہیں ہوتے ،ایک متفقہ لائحہ عمل نہیں بنا سکتے۔مولانا فضل الرحمان سراج الحق سمیع الحق مولانا شیرانی طارق جمیل اور مفتی تقی عثمانی کے پیروکار آپس میں اتحاد نہیں کر سکتے تو ان پشتون پرستوں کیساتھ کیا اتحاد کر لیں گے۔جبکہ پاکستانی نوکر پیشہ پشتون تو ویسے ہی پشتون قوم پرستوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور اس مقصد کیلئے مذہبی پشتون خواہ وہ آج مولانا شیرانی یا سمیع الحق والے ہوں تو پرسوں سراج الحق والے تھے ان پاکستانی نوکر پیشہ پشتونوں کے گماشتے بننے میں کوئی دیر نہیں لگاتے بس موقع کے انتظار میں ہوتے ہیںکہ کب ریاستی اداروں سے ان کو دعوت ملتی ہے۔ سیاسی طبقات اس قدر زوال کا شکار ہیں کہ ساری جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے لیکن سیاست میں ریاستی اداروں کی مداخلت کیخلاف متفقہ لائحہ عمل بنانے سے قاصر ہیں۔محمود اچکزئی کیلئے قوم پرستوں کو اکھٹا کرنا، مذہبی پشتونوں کے کسی ایک آدھ گروپ جیسے مولانا فضل الرحمان والوں کو اس مقصد کیلئے قائل کرنا شاید تھوڑا آسان ہو لیکن متفقہ لائحہ عمل بنانے پر راضی کرنا آسان نہیںاور بات جب اس نہج تک پہنچے گی توپاکستانی نوکر پیشہ پشتون اور تحریک انصاف کی ذہنیت رکھنے والے پشتون اس گٹھ جوڑ کیخلاف ان سے منظم ردعمل کا منصوبہ بنا چکے ہوںگے۔بابڑہ سے لیکر آج تک کی تاریخ تو یہی کہہ رہی ہے۔
(Nawishta-e-Diwar-July-21-Page-04_syed atiq ur rehman gillani_zarbehaq.com_akhtar khan )

A dispute was raised and exploited by a group on the statement of Malala but why they keep silent on scandal of Aziz-ur-Rehman?

ملالہ کے بیان پر طوفان برپا کرنے والا طبقہ مفتی عزیز الرحمن کے اسکینڈل پر کیوں اپنی دُم گھسیڑکر بیٹھ گیا؟ جب تک علماء اپنے نصاب کو درست نہ کریں تو مدارس کی بدنامی کایہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا لیکن دنیا کے حریص خاموش ہیں!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سیاسی، مذہبی، جماعتی ، تنظیمی اور مساجد ومدارس کے علماء ومفتیان نے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اسلام کے بہترین نظام کو قربانی کے کٹہرے میں بہت بری طرح کھڑا کیا۔
قرآن وسنت نے تمام مذاہب کے باطل عقائد ونظریات اور مسائل کی اصلاح کرکے انقلاب برپا کردیا تھا لیکن مدارس کے نصابِ تعلیم نے پھر سے باطل عقائد ومسائل پیدا کررکھے ہیں

اس اخبار میں علماء کے نصاب و کردار پر تیر چلائے جاتے ہیں لیکن ہمارا مقصد بغض وعناد اور دشمنی نہیں۔ کالج یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ سے زیادہ مدارس کے علماء و طلبہ میں صلاحیت ہے۔ مفتی سید عدنان کا کا خیل نے مشاہد حسین سید اور عوام کے سامنے کس طرح پرویزمشرف کے سامنے اپنی صلاحیت کا اظہار کردیا تھا؟۔ مفتی محمود نے قومی اتحاد اور مولانا فضل الرحمن نےPDMکی قیادت کی؟۔ طالبان نے امریکہ کو شکست دی۔ ایٹمی پاکستان کے پرویزمشرف اور جنرل محمود مرغا بن کر دانے چگ رہے تھے۔ یہ میں نہیں کہتا بلکہ اوریا مقبول جان اور سوشل میڈیا کا وہ طبقہ کہتا ہے جو فوج پر دنیا میں نمبر1ہونیکا اتنا یقین رکھتاہے جتنااللہ کی واحدانیت پر وہ حقیقی یا مصنوعی ایمان کادعویٰ کرتا ہے۔اور یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے عرب کے بدؤوںکا فرمایا تھا کہ ”اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ ان سے کہہ دیں کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ تم اسلام لائے ہو اسلئے کہ ایمان ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے”۔ (القرآن)
جنرل حمیدگل سے لیکر چھوٹے موٹے بہت سے لوگ طالبان کا کہتے تھے کہ وہ اللہ پر ایمان لائے ہیں اور پاکستان کا اسلام اعرابیوں کی طرح ہے ، جن کے دلوں میں 70سالوں سے زیادہ عرصہ ہوا کہ ایمان داخل نہ ہوسکا ہے اور اس کے بعد ہم دولت کیلئے کتنی جنگیں لڑتے رہیں گے۔
ہماری سوچ کا زاویہ مختلف ہے۔ ایمان و عمل کیلئے بنیادی بات علم کی اصلاح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیۖ کے ذریعے سے صحابہ کرام کی تعلیم وتربیت اور حکمت سکھانے کا اہتمام کیا اور اس شعور وآگہی کی بدولت انہوں نے دنیا میں عظیم انقلاب برپا کیا ۔ قرآن کے نزول سے پہلے بہت سی برائیاں مذہب کے نام سے تھیں جن کی اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اصلاح فرمائی۔ ظہار کا حکم مذہب نے ہی بگاڑ دیا تو ایک عورت نے اپنے شوہر کے حق کیلئے رسول اللہ ۖ سے مجادلہ کیا ۔ جس پر سورۂ مجادلہ کی آیات نازل ہوئیں اور مذہبی فتویٰ غلط قراردیا گیا۔ دنیا میں عیسائی، ہندو سمیت کئی مذاہب میں طلاق کا کوئی جواز نہیں تھا یا پھر ایک ساتھ تین طلاق سمیت بہت ساری خرابیاں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس کی اصلاح فرمائی۔ زنا اورقوم لوط کے عمل کی شکل اور سزاؤں میں بھی بہت بگاڑ آچکا تھا۔ سود کی حرمت بھی ختم کردی گئی تھی اور جاگیردانہ نظام اور جنگوں میں لونڈیاں بنانے کا بھی نظام جاری تھا۔
اللہ نے ایک ایک کرکے تمام برائیوں کا وحی کے ذریعے خاتمہ قرآن میں محفوظ کیا۔ توارة میں بوڑھے مرد عورت کے زنا پر رجم کا حکم تھا ۔قرآن نے زنا پر 100کوڑے اور جبری زنا پر قتل کا حکم دیا بخاری میں ہے کہ سورۂ نور نازل ہونے کے بعدنبی ۖ نے سنگساری کی سزا پر عمل نہیں کیا لیکن ابن ماجہ میں ہے کہ رسول اللہۖ کا وصال ہوا تو رجم کی آیات اور رضاعت کبیر یعنی بڑے آدمی کو عورت کے دودھ پلانے کی آیات کو بکری نے کھاکر ضائع کیا۔قرآنی آیت یہ بتائی جاتی ہے کہ الشیخ والشیخة اذا زنیا فارجموھما …. ”جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کردو”۔ اب مفتی عزیز الرحمن کو بوڑھا قرار دیکر کہا جارہاہے کہ یہ معذور ہے اس میں بدکاری کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔
جعلی آیت میں شادی شدہ اور غیرشادی شدہ کی کوئی تفریق نہیں ہے اور اگر جوان شادی شدہ ہوں تو بھی اس کی زد میں نہیں آتے ہیں۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ بوڑھوں میں100کوڑے سہنے کی صلاحیت بھی نہیں ہو اور تورات میںیہ حکم ہو کہ ” ان کو کوڑے مارنا سزائے موت کے مترداف ہے اسلئے ان پر لعنت بھیج کر چھوڑدو”۔ جب قوم لوط میں ہم جنس پرستی کا رحجان تھا تو اللہ نے اجتماعی عذاب نازل کرکے ان کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹادیا لیکن اس پر قرآن میں سزائے موت یا بہت لمبی چوڑی سزا نہیں ہے بلکہ اذیت دی جائے اور پھر توبہ واصلاح کرلیں تو ان کے پیچھے نہ پڑنے کا حکم ہے۔
جب قرآنی آیات بناکر ابن ماجہ میں پیش کی جارہی ہوں تو صحیح مسلم کی یہ روایت بھی قابلِ غور ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا کہ ” اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ مجھے قرآن پر زیادتی کا مرتکب سمجھیںگے تو قرآن میں رجم کا حکم لکھ دیتا”۔ ایک طرف ابن ماجہ میں بکری کے کھا جانے سے آیات کا ضائع ہونا اور دوسری طرف مسلم میں حضرت عمر کی بات میں کتنا کھلا تضاد ہے؟۔ جب آیات کے مقابلے میں آیات ایجاد کی جائیں، احادیث اور صحابہ کبار کے اقوال ایجاد کئے جائیں تو اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں؟۔ اہلحدیث حضرات کہتے ہیں کہ ” اگر آدمی کسی عورت کا دودھ بڑی عمر میں پی لے تو اس کا اس عورت سے پردہ نہیں رہے گا لیکن اگر وہ شادی کرنا چاہے تو ان کی آپس میں شادی ہوسکے گی”۔ اگر دیکھ لیا جائے کہ مسلک پرست عناصر نے کس طرح متعہ ، رجم اور بڑے کے دودھ کی آیات تک گڑھ دی ہیں۔ پھر متضاد احادیث گڑھ دی ہیں جس طرح بیوی کیساتھ پیچھے سے بھی جماع کرنے کے حوالہ سے حدیثیں تک بھی گڑھ دی گئیں ہیں۔
گورنربصرہ حضرت مغیرہ ابن شعبہ سے شیخ الحدیث مفتی عزیزالرحمن تک اسلام کے حوالے سے قانون سازی اور اس پر اختلافات وتضادات کا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے تاکہ روز روز کوئی بیل یہ نہیں بول سکے کہ مینارِ پاکستان پر لٹکادو اور نہ یہ بول سکے کہ شرعی گواہوں کے تصورات کا کیا کیا معیار ہے؟۔ پنجاب کا ایک معروف خطیب دوسرے ہم مسلک خطیب کیلئے کہا کرتا تھا کہ” وہ فاعل بھی ہے اور مفعول بھی۔الحمدللہ میں نہ فاعل ہوں اور نہ مفعول ”۔ سبوخ سید نے بھی کسی مسلک کے مناظر اورہم مسلکوں کی پشت پناہی اور دوسری کہانیوں کا ذکر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے امہات المؤمنین ازواج مطہرات کیلئے قرآن میںدُگنی سزا کا ذکر کیا ہے اور لونڈی وایگریمنٹ والوں سے نکاح کے بعد فحاشی میں مبتلاء ہونے پر آدھی سزا کا حکم دیا۔ سنگساری اور قتل کو دگنا اور آدھا نہیں کیا جاسکتا لیکن مولوی تقلید کی وجہ سے صلاحیتوں سے محروم ہیں۔
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اگر اسلام کو ان علماء کے چنگل سے آزاد کیا جائے جو مزارعت سے سودتک کو اسلامی قراردینے کے معاملات میں ہردور میں ملوث رہے ہیں تو انقلاب سالوں، مہینوں نہیں چند ہفتوں اور دنوں کے فاصلے پر ہے۔
عورت کے حقوق سے لیکر بدنام زمانہ گناہگاروں کے حقوق تک جس طرح اسلام نے انسانیت کی عزت وتوقیر اور سزا وجزاء کا سلسلہ رکھا ہے تو اس پر مسلمان ، کافر، ملحدین اور دنیا کے تمام انسان اکھٹے ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے پاس مجھے لگتا ہے کہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے۔ اگر جلد اچھے فیصلے نہیں کئے تو پھر افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور فلسطین سے بھی زیادہ خطرناک حالات کا سامنا ہم سب کو کرنا پڑسکتا ہے۔ ایکدوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کا وقت نہیں ہے بلکہ اپنے کھلے گناہوں کا اعتراف کرکے اللہ تعالیٰ کے دربار میں دست بستہ معافی مانگنے کا وقت آگیا ہے۔
قوم پرستی، مسلک پرستی، سیاست پرستی ، ریاست پرستی اور مفادات پرستی کے سلسلے بعد میں بھی چل سکتے ہیں لیکن ایسے وقت میں اپنی جان اور اپنی قوم کیلئے امن وامان مانگنا ضروری ہے۔ بلوچوں، پشتونوں، مہاجروں اور سندھیوں نے پہلے جو مشکلات دیکھی ہیں وہ کچھ بھی نہیں تھیں۔ پنجاب کی عوام کیساتھ پہلے بھی وہی ناانصافی ہوئی ہے جو دوسروں نے دیکھ لی ہے لیکن پنجاب کے لوگوں نے مرچیں کھانے کے باوجود اتنی زیادہ تیزی کبھی نہیں دکھائی جتنی دوسری قوموں نے کئی مرتبہ دکھائی ہے۔
عورت کو اپنے شوہر اور ماں باپ کی طرف سے وہ تحفظ مل جائے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے تو دنیا اسلامی نظام کی طرف آجائے۔ حضرت داود کی 99بیگمات تھیں اور سویں کی بھی خواہش کی جو ایک مجاہد اوریا کی بیگم تھی۔ خلافت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید کی ساڑھے 4ہزار لونڈیاں تھیں اور اسلام نے چار تک شادیوں کی اجازت دی اور اگر انصاف نہ کرسکنے کا خوف ہو تو پھر ایک یا جنکے مالک تمہارے معاہدے ہوں۔ برصغرپاک و ہند میں اسلام کی روح پھر بھی کسی نہ کسی حد تک زندہ ہے۔ مصر کے اسلامی اسکالر نے النساء میں عورتوں کیساتھ مردوں کو بھی شامل کرنے کا تصور پیش کردیا ہے۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھاکہ ”کسی عورت سے شادی ہوتو اسکے سابقہ شوہر کے بیٹے سے بدفعلی پراحناف کے نزدیک حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ”۔(کشف الباری)
نکاح و حرمت مصاہرت کی تفصیلات عوام کے سامنے آجائیں تو مفتی عزیز الرحمن کو بھول کر پہلے نصاب تعلیم کو درست کرنا ہی ضروری سمجھیں گے۔ ہم مسلسل متوجہ کررہے ہیں لیکن انکے کانوں پربھی جوں نہیں رینگتی ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری کا یوٹیوب پر بیان آیا جس میں قاری حنیف جالندھری وغیرہ بھی موجود تھے کہ ”جب قادیانیوں کے حق میں سینٹ کے اندر بل پاس کیا جارہاتھا جو قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا تو مجھے خوف تھا کہ مجھے چیئرمین سینیٹ کی غیرموجودگی میں ڈپٹی کی حیثیت سے دستخط کرنے پڑیںگے مگر الحمدللہ بل پاس نہیں ہوا۔ پھر حکومت نے قومی اسمبلی و سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل پیش کیا۔ ہم اپنے فرائض سے غافل نہیں”۔
مولانا حیدری کے بیان سے مفتی عزیز الرحمن کی طرح اعتراف جرم ثابت ہورہاتھا۔ ممکن ہے کہ مولانا صاحبان سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی سے اسلام بیچ کر اپنے اثاثے بیرون ملک بنارہے ہوں کیونکہ اتنے بھولے تو یہ حضرات نہیں ہیں۔ ان کو کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھنا ضروری ہے۔

Oh Grandmother your female peacock has been taken away by Peacock and thieves shifted water from Karachi.

Water Mafia, Khilafat, Mafia, Water Problem Karachi, Thieves Of Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Water Problem Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi, Thieves Of Karachi,

نانی تیری مورنی کو مور لے گیا…….کراچی تیرے پانی کو چور لے گیا

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
ڈاکٹر اسرار (doctor israr)نے ایک بیان میں کہا کہ سندھ (sindh)سے خلافت (khilafat)کا آغاز ہونا چاہیے اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ سندھ کی so غیورعوام نے انگریزکے. اقتدار کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا ۔ پنجاب(punjab) اور سرحد(khaibar pakhtoon khuwah) میں بہترین کالج(college) اور سکول (school)بنادئیے مگر انگریز نے ایک سکول سندھ میں نہیں بنایا اسلئے کہ انگریز یہ جانتا تھا کہ سندھی (sindhi)ہمارے .وفادار نہیں ہوسکتے۔ (نہری نظام سے پنجاب so. کو آباد اورسندھ کو برباد کیا گیا تھا) اب بحریہ ٹاؤن (baharia town)کے ذریعے .سندھیوں کی زمینوں پر ناجائز so قبضہ اور کراچی کی عوام کو پانی سے Water Mafia, Khilafatمحروم کیا جارہاہے۔

test

کراچی میں. پولیس اور رینجرز امن و امان کی بحالی اورپانی بیچنے کے مافیاso (mafia)میں شریک ہیں اورعوام بھی کربلا کی جانب جارہی ہے۔ کراچی(karachi) پاکستان(pakistan) و سندھ. کا دارالخلافہ تھاجو so منی پاکستان ہے۔ پختون(pashtoon)، بلوچ (baloch)، سندھی ، پنجابی اور ہندوستان س(hindustan)ے آنیوالے مہاجرکی بڑی تعداد. یہاں آباد ہے۔ سندھ so کے شہری و دیہی علاقوں میں سندھی مہاجر تعصبات بھڑکانے کی کوششیں بھی ہوئیں۔ (MQM)کے دور میں امن کمیٹی کے بانی وزیرداخلہ سندھ .ذوالفقار so مرزا نے قرآن سر پر رکھ کر (MQM)کو غدار قرار دیا تھا۔

Water Mafia, Khilafat

آج مرزا کی بیگم فہمیدہ مرزا اور( MQM)رہنماؤں کا تحریک انصاف. کی حکومت میں اتحاد قائم ہے۔ so الطاف حسین آئے روز فوج کو دعوت دیتا تھا کہ جمہوری حکومت ختم کرکے اقتدار so پر قبضہ کرلو۔ پھر فوج کو ننگی گالیاں دیکر. دوسری قوموں کو پنجاب(punjab) اور فوج(foj) کے خلاف بھی. للکارنے کا کام جاری رکھا اور اپنے ساتھیوں کو so بھی غلیظ گالیوں سے نوازتا رہاہے لیکن ہر انسان میں کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہوتی ہیں۔

Water Mafia, Khilafat

کراچی کی عوام کو اگر (MQM)کے کارکنوں کا تحفظ حاصل so نہ ہوتا تو دوسری قومیتں. اور طالبان (taliban)نے مہاجروں کا برا حشر کردینا تھا۔ پختونوں کی آبادی والے علاقوں میں طالبان نے so کھلم کھلا اپنے فیصلے اور لوگوں سے بھتے وصول کرنا شروع .کئے تھے۔ بڑے بڑے. لوگوں کو بھی کراچی میں ہماری ریاست تحفظ نہیں دے سکتی تھی۔

test


ڈاکٹر اسرار احمد کا بیان سندھیوں کی بڑی تعریف میں ہے جنہوں نے انگریزso (british)کے اقتدار کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا، اسلئے خلافت کا آغاز بھی سندھ سے ہونا چاہیے۔پنجاب so اور سرحدکو انگریز نے اچھے سکولوں کے علاوہ نہری نظام کا تحفہ دیا جبکہ سندھ کو محروم رکھااور اب بحریہ ٹاؤن سندھیوں کی so زمینوں پر اور کراچی کی عوام کے پانی پر قبضہ کررہاہے، پانی مافیا سے عوام کربلا کی جانب جانے پر مجبورہورہی ہے

test


سندھ کی قوم پرست پارٹیوں کو کنٹرول کرنے so کیلئے پیپلزپارٹی کو استعمال کیا جاتا ہے اور پیپلزپارٹی. کو کنٹرول کرنے کیلئے (MQM)کو استعمال کیا جاتا ہے۔ کیاسرکار کے کرنے کاکام so یہی ہے؟۔ اردو ہماری قومی ، دنیا کی اہم زباں ہے جس. کو ہندوستان، افغانستان اور عرب امارات کے علاوہ دنیا میں اہمیت so حاصل ہے۔کراچی کی ڈھائی سے تین کروڑ آبادی کے علاوہ. بہت ٹی وی چینلوں کے. ذریعے مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے اربوں لوگ اس کو سمجھتے ہیں۔

Water Mafia, Khilafat

اسلام(islam) کی نشاة ثانیہ میں اسکا بہت اہم کردار ہے۔ سندھ so اور پاکستان کے اکثر چھوٹے بڑے شہروں میں مہاجر ایک. بڑی تعداد میں رہتے ہیں جن کے آباواجداد نے اسلئے ہجرت کی تھی so کہ یہاں اسلام نافذ ہوگا۔ یہاں اسلام تو دور کی بات .ہے ایساانصاف بھی نہیں مل رہاہے جو کسی بھی ریاست کا بنیادی تقاضہ ہوتا ہے۔

test


شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی (mufti taqi usmani)نے اپنی so کتابوں فقہی .مقالات (fiqhi maqalat)اور تکملہ فتح المہلم سے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز soکی عبارات نکال دینے کا اعلان کیا مگر پھر وزیراعظم. عمران خان کے نکاح خواں مفتی سعید خان(mufti saeed khan) نے اپنی کتاب” ریزہ الماس”(raza almas) میں سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا. جواز so لکھا۔اگر عوام کو مدارس(madaris) کے نصاب کی بیہودگی so اور حلالے کا پتہ چل گیا تو مفتی. عزیز کو بھول جائیں گے
جب ہم نے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی soکی کتاب فقہی مقالات کی عبارت پیش کی جس میں. فقہ Water Mafia, Khilafatحنفی کا یہ مسلک لکھا. تھا کہ” اگر ناک سے نکسیر پھوٹ جائے تو اسکے خون سے سورة فاتحہ(soorah e fatiha) کو پیشانی پر لکھنا جائز ہے اوراگر پیشاب سے لکھا جائے اور یہ یقین ہو کہ علاج ہوجائیگا تو جائز ہے”۔

test

مفتی تقی عثمانی نے اپنی so کتاب میں صاحب ہدایہ. کی کتاب تجنیس Water Mafia, Khilafatکاحوالہ دیا۔ حالانکہ یہ فتاویٰ شامیہ(fatawa e shamia) اور فتاویٰ قاضی خان(fatawa e qazikhan) میں بھی ہے۔ (MQM)کے ڈاکٹر فاروق ستار سے. سیکٹر انچارج تک سب نے so اس مسئلے پر مفتی تقی so عثمانی. کی زبردست مخالف کردی۔ تحریک انصاف کے قائد عمران خان(imran khan) کو ہم نے آگاہ کیا۔ جماعت اسلامی (jamat e islami)سے نکل کر تحریک انصاف میں شامل ہونیوالے so رہنماؤں نے عمران خان کو اس پر ردِ عمل سے. روک Water Mafia, Khilafat دیاتھا۔

Water Mafia, Khilafat


جب مفتی تقی عثمانی پر عوام کا شدید دباؤ بڑھ گیا so تو اس نے روزنامہ اسلام میں ایک مضمون شائع. کیا جس میں اس مسئلے سے لاتعلقی کا اعلان کردیا اور اپنی دونوں کتابوں ”فقہی مقالات ” اورعربی soکتاب ” تکملہ فتح الملہم ” سے اس کو نکالنے. کا اعلان کردیا۔پھر ایک چھوٹا سا اشتہار طرح کا بیان شائع کردیا کہ مجھ پر soکچھ لوگ بہتان لگارہے ہیں وہ اللہ کا خوف کریں۔ اور ہفت Water Mafia, Khilafat روزہ ضرب مؤمن میں دونوں so تحریریں ایک ہی. شمارے میں شائع ہوگئیں۔ جب مفتی عبدالرحیم(mufti abdulrahim) نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی کو برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیر(toni blear) نے اپنا مشیر مقرر کیا. اور علیمیاں ابوالحسن so علی ندوی (abulhasan nadvi)اکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ(oxford university) کے انتظامی بورڈ میں شامل تھے. تو مفتی تقی عثمانی نے so دونوں باتوں کے جھوٹ ہونے کی وضاحت کردی تھی۔

Water Mafia, Khilafat


حاجی محمد عثمان (haji muhammad usman)اللہ والے پر ناجائز فتویٰ لگانے. پرعلماء نے Water Mafia, Khilafatزوال کا سفر شروع کیااور so مفتی عزیز الرحمن کا اسکینڈل (mufti azizurrehman scandle)اس کی انتہاء نہیں بلکہ یہ تو ابتداء ِ ذلت ہے Water Mafia, Khilafatروتا ہے کیا۔ آگے آگے so دیکھئے ہوتا ہے کیا؟۔ حلالہ(halala) اور مدارس(madaris) کے نصاب کا پول کھلے. گا تولوگ اسلام کے نام پر عوام کا استحصال soدیکھ کر حیران ہونگے کہ جہالت ، مفادپرستی ،غیراخلاقی حرکتوں، بیہودگی اورناشائستہ ونازیبامعاملے کا یہ گرا ہوا معیارہے؟

Water Mafia, Khilafat


حاجی محمد عثمان معروف شیخ طریقت تھے جن سے کراچی so کے کئی بڑے مدارس کے بڑے علماء بیعت تھے۔ مفتی تقی. عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق(molana abdulhaq) اور so دارالعلوم کراچی(darululoom karachi) کے مولانا اشفاق احمد(molana ashfaq ahmed) قاسمی فاضل دیوبند بھی بیعت تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی so کے مہتمم مفتی احمدا لرحمن اور مفتی اعظم. پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی (mufti wali hassan tonki)وہاں آتے جاتے تھے ۔

test

مولانا فضل(molana fazal rehman) محمد استاذ. حدیث Water Mafia, Khilafatجامعہ بنوری ٹاؤن کراچی بھی حاجی so عثمان سے بیعت تھے اور جامعہ فاروقیہ شاہ(jamia faroqia) فیصل کالونی کے ایک استاذ so بھی بیعت تھے۔ کور کمانڈر. نصیر اختر(cor commander naseer akhtar)، جنرل خواجہ ضیاء الدین بٹ(genral ziauddin but) اور کئی Water Mafia, Khilafatبریگیڈئیر(bregadier) بھی بیعت تھے۔ الائنس موٹرز کا اسکینڈل آنے سے پہلے یہ پتہ چل گیا کہ حاجی عثمان کو حبسِ بے جا میں so رکھا گیا ہے۔ پھر ان پر بہت ہی ناممکن قسم کے. الزامات لگاکر فتویٰ لگایا گیا۔ جن میں مفتی عبدالرحیم سمیت بڑے علماء ومفتیان بری so طرح پھنس گئے۔ آج بھی حقائق سب کے سامنے. لائے جاسکتے ہیں۔ ہم نے اس وقت پہاڑوں سے زیادہ مضبوط مدارس کے قلعوں کو بدترین شکست دیدی تھی۔

Water Mafia, Khilafat


سندھ کی انفارمیشن سکریٹری(sind information sectry) مہتاب راشدی(mehtab rashidi) تک ہمارے اخبار کی شکایت پہنچی کہ مفتی تقی عثمانی کے خلاف سورة فاتحہ کو. پیشاب سے لکھنے کو جائز قرار دینے کی بات شہہ سرخی سے شائع کردی ۔ حقائق بتانے پر اس نے پیشکش کردی کہوزارت داخلہ سے .سکیورٹی کیلئے پولیس گارڈ کا لکھ دوں گی لیکن ہم نے منع کردیا۔ ہماری ذاتیات کا معاملہ نہیں۔ بہت بڑی تعداد میں لوگ مذہب کے. نام پر غلط استعمال ہورہے ہیں، جنکا غیرفطری استحصال ہورہا ہے اور جن کو اسلام کے نام پر جہالتوں کے اندھیرے میں دھکیلا جارہاہے۔

Water Mafia, Khilafat

جنگ اخبار میں آپ کے مسائل اور ان کا حل میں یہ بات شائع so ہوئی کہ اگرمیاں بیوی میں سے کسی. ایک کا انتقال ہوجائے تو دوسرے کیلئے so اس کا دیکھنا کیوں جائز نہیں ہے؟۔ مولانا سعیداحمد جلالپوری(molana saeed ahmed jalalpuri) رئیس دارالافتاء جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے جواب so دیا تھا کہ ایک کے فوت ہونے کے بعد دوسرا اجنبی بن جاتا ہے۔

Water Mafia, Khilafat


اردو زبان اور کراچی(karachi) میں so زیادہ تعداد کی وجہ سے انقلاب(inqilab) کا پہلا حق کراچی والوں کا بنتا ہے۔مولانا عبیداللہ سندھی (molana ubaidullah sindhi)کی ہدایت تھی کہ اگر ہوسکے تو کراچی کو مرکز بنائیں ، نہیں so تو پھر شکارپور سندھ(shikar pur) کو اسلام کی احیاء کیلئے اپنا مرکز بنالیں۔ہمارا کراچی کے بعد مرکز ملتان اور so شکارپور میں منتقل ہوا تھا۔ اگر حاجی عثمان پر فتوے نہ لگتے تو علماء کے خلوص پر شک نہ so رہتا لیکن ہمارا اصل ہدف صرف اسلام کی نشاة ثانیہ ہے!

test

میری ایک بیگم شکار پور کی. سندھی ،دوسری تربت کی بلوچ، دو بہو مہاجر اور ایک کشمیری ہے۔ سندھی، مہاجر اور بلوچ میں یہ بات ہے کہ میاں بیوی میں سے کوئی فوت ہو تو دوسرے کیلئے وہ اجنبی ہے اور اس پر عمل بھی ہورہاہے۔ مفتی طارق مسعود کہتا ہے کہ بیوی فوت ہو تو اس کا شوہر قبر میں اس کو نہ اتارے بلکہ اسکے محرم بھائی اور بیٹے اتاریں لیکن اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے کہ قبرسے اٹھنے کے بعد بھی میاں بیوی کا رشتہ قائم رہتا ہے۔ یوم یفر المرء من اخیہ وامہ وابیہ وصاحبتہ وبنییہ ”اس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی، اپنی ماں، اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنے بچوں سے”۔

Water Mafia, Khilafat

جس طرح دیگر رشتے قائم ہونگے اسی طرح بیوی کا رشتہ قیامت تک قائم رہے so گا۔ اگر بیوی کا رشتہ قائم نہیں رہتا ہے تو پھر علماء کی بیگمات کیساتھ اجنبی مردوں کو کیوں جوڑا جاتا ہے کہ قبر کی تختی so پر زوجہ فلاں مفتی اعظم اور زوجہ فلاں مولانا؟۔حضرت عائشہ(hazrat ayesha) سے نبیۖ نے فرمایاکہ ” اگر آپ مجھ سے پہلے فوت so ہوگئیں تو میں غسل دوں گا”۔

Water Mafia, Khilafat

حضرت ابوبکر کی میت کو آپ کی زوجہ نے غسل دیا اور حضرت علی(hazrat ali) کی میت کو حضرت فاطمہ (hazrat fatma)نے غسل دیا۔ مولوی حضرات نے قرآن وسنت کا متبادل مذہب ایجاد کررکھا ہے۔ حضرت علی کی والدہ کو نبیۖ نے اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارکر فرمایا کہ میری ماں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا کہ وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ہٰذالقرآن مھجورًا ” اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا”۔ (القرآن)

test


طلاق(talaq) اور عورت کے حقوق(aurat k huqooq) پر کتابیں لکھ کر علماء پر ہم نے حجت پوری کردی لیکن مدارس میں حلالہ(halala) کے نام پر عزتوں کو لوٹا جارہاہے۔ مفتی عزیز الرحمن نے جس ڈھٹاٹی ، صفائی اور بے شرمی سے وضاحتی بیان میں کہا کہ” چائے پلاکر مجھ سے یہ کام کروایا گیا اور ممکن ہے اور بھی ویڈیو ہوں”۔ اگر حلالہ اور مدارس کے نصاب سے عوام کو آگاہ کیا جائے تو مفتی عزیز (mufti azizur rehman)کو بھول جائیںاللہ نے قرآن میں بہت وضاحتوں کیساتھ طلاق اور اس سے رجوع کے احکام کو بیان کیا ہے۔

Water Mafia, Khilafat

سب سے بڑی اہم اور بنیادی بات بار بار یہ واضح کی ہے کہ طلاق کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع کا دروازہ اللہ نے کھلا رکھا ہے اور باہمی رضامندی کے بغیر طلاق کے بعد رجوع کی اللہ نے گنجائش نہیں رکھی۔ قرآن وسنت ،حضرت عمر اورائمہ اربعہکے مسلک میں قدر مشترک یہی تھا لیکن بعد کے فقہاء ومحدثین نے جہالتوں کی وجہ سے معاملات بگاڑ دئیے ہیں۔

Water Mafia, Khilafat


قرآن میں اتنے بڑے بڑے تضادات کیسے ہوسکتے ہیں کہ سورہ ٔبقرہ وسورۂ طلاق میں بار بار اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہو کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع ہوسکتا ہے لیکن درمیان میں یہ بات بھی ڈال دی ہو کہ تیسری طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے یہاں تک وہ کسی دوسرے شوہر کیساتھ نکاح کرلے؟۔

Water Mafia, Khilafat

طلاق کے بعد رجوع کیلئے بنیادی شرط باہمی رضامندی ہے جو قرآن میں بار بار واضح ہے اور آیت(229)البقرہ میں یہ وضاحت ہے کہ جب دونوں آئندہ رابطہ نہ رکھنے پر متفق ہوں ۔ فیصلے والے بھی اس نتیجے پر پہنچ جائیںکہ آئندہ رابطے کی کوئی چیز انکے درمیاں نہ چھوڑی جائے تو اس میں سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ رجوع ہوسکتا ہے یا نہیں بلکہ عورت کو کسی اور سے نکاح پر پابندی سے بچایاہے۔
اللہ تعالیٰ نے آیت(229)البقرہ میں پہلے یہ واضح کردیا کہ جب شوہر نے دو مرتبہ الگ الگ مراحل میں طلاق دینے کے بعد تیسرے مرحلے میں بھی رجوع نہیں کیا بلکہ طلاق دیدی تو شوہر کیلئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی اس کو دیا ہو کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے۔

test

مگر یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اس چیز کے واپس کئے بغیر اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیںگے تو اس چیز کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہی وہ صورت ہے کہ اللہ نے واضح کردیا ہے کہ دونوں کسی صورت میں بھی اب اکٹھے نہیں رہنا چاہتے ہیں اور فیصلہ کرنے والے بھی اس پر متفق ہیں تو کوئی رابطے کی چیز بھی باقی رکھنے میں اللہ کی حدود کو پامال کرنے کا خدشہ ہو توپھر حلال نہ ہونے کے باجود وہ دی ہوئی چیز واپس کی جائے تو دونوں پر حرج نہیں۔

Water Mafia, Khilafat


آیت(229)میں بھرپور وضاحت کے بعد کہ دونوں باہمی رضامندی سے نہ صرف جدا ہونا چاہتے ہیں بلکہ آئندہ کسی صورت بھی ملنا نہیں چاہتے ہیں تو اسکے بعد اللہ نے آیت(230)البقرہ میں واضح کردیا کہ ” پھر اگر اس نے طلاق دی تو وہ اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔ اس آیت میں بنیادی طور باہمی رضامندی سے رجوع کا معاملہ ختم نہیں کیا گیا ہے بلکہ عورت کو شوہر کی دسترس سے باہر نکالنے کا آخری حربہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ مردوں کی فطرت ہوتی ہے کہ اگر وہ اپنی بیوی سے رجوع نہ بھی کرنا چاہتے ہوں تب بھی کسی اور شوہر سے نکاح میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

test

قرآن نے واضح کیا کہ عدت کے اندر بھی باہمی رضا کے بغیر ایک مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن فقہاء کی کھوپڑی میں قرآنی آیات نہیں آئیں۔ پھر یہ بھی آخر میں واضح کردیا کہ جب آئندہ نہ ملنے پر اتفاق رائے ہو تو پھر جب تک اس عورت کا اپنی مرضی سے کسی اور شوہر سے نکاح نہ ہوجائے تو پہلے کیلئے حلال بھی نہیں۔ اللہ نے وحی اتاری اور انسان کے ضمیر میں اتارنے کیلئے اس انداز میں واضح بیان کردی کہ کسی کند ذہن سے بھی یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے کہ اس کو سمجھ نہ سکے ۔ کراچی اور سندھ کی عوام نے توجہ دی تو اسلامی انقلاب سرپر کھڑا ہے۔

test


www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Syed Atiq ur Rehman GIlani