نومبر 2023 - Page 3 of 4 - ضربِ حق

پوسٹ تلاش کریں

مذہبی طبقات کا قرآن سے بدترین انحراف اور نشاندہی!

مذہبی طبقات کا قرآن سے بدترین انحراف اور نشاندہی!

مدینہ منورہ کے ایک کتب خانے میں دوعرب علماء سے بات ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں۔ میں نے کہا کہ تم نہیں ہو؟۔ اپنی کتاب ابن ماجہ دکھاؤ۔ ان کو رضاعت کبیر کی روایت دکھائی کہ وہ آیات جن میں رجم اور بڑے آدمی کو دودھ پلانے کا حکم تھا، جب رسول اللہ ۖ کا وصال ہوا تو بکری کے کھا جانے سے وہ آیات ضائع ہوگئیں۔ میں نے کہا کہ میں شیعہ ہوں اور نہ سنی۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی شیعہ ہیں اور نہ سنی۔ یہ عرب علماء کا حال ہے ۔
مدینہ یونیورسٹی کے پاکستانی بلوچ طالب علم( روضہ رسولۖ پر ڈیوٹی اور فراغت میں چند ماہ تھے ) نے اپنے ایک بلوچ استاذ سے ملاقات کرائی۔ کچھ اور طالب علم اور افراد بھی ساتھ تھے۔ جب میں نے کہا کہ اصول فقہ میں قرآن کی جو تعریف پڑھائی جاتی ہے تو کیا یہ عوام اور علماء کیلئے قابل قبول ہوسکتی ہے؟۔ جب ان کا ذہن حقائق کی طرف گیا تو کہنے لگے کہ” یہ اتنا خطرناک مسئلہ ہے کہ اگر یہاں انتظامیہ اور حکومت کو پتہ چل گیا تو ہمیں یہاں سے نکال دیںگے یا غائب کردیںگے”۔اسلئے پاکستان میں اس پر بحث کرنا زیادہ موزوں ہے۔
فقہ حنفی کے امام ابو حنیفہ اور شاگردوں کے درمیان قرآن پر اختلاف تھا۔ امام ابوحنیفہ فارسی میں نماز جائز سمجھتے تھے اسلئے کہ قرآن عربی الفاظ اور اس کا فارسی یا اپنی زبان میں مفہوم قرآن ہے۔ درس نظامی کی کتاب ” نورالانوار” میں ہے کہ” امام ابوحنیفہ بڑے ولی اللہ تھے اسلئے عربی زبان میں قرآن کے الفاظ کی سجاوٹ کو بندے اور خدا کے بیچ میں حجاب اور رکاوٹ سمجھتے تھے”۔ امام ابوحنیفہ پہلے علم الکلام کی گمراہی میں بھٹکے تھے اورپھر توبہ کی تھی۔ قرآ ن میں اللہ نے فرمایا ” ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اسکی قوم کی زبان سے تاکہ وہ اسکے ذریعے اللہ کا پیغام واضح کریں”، امام ابوحنیفہ نے انسانی فطرت کے مطابق اپنی زبان میں نماز پڑھنے کو جائز قرار دیا تھا۔ سندھ میں قرآن کاسندھی ترجمہ محمد بن قاسم کی آمد سے بھی پہلے کیا گیا تھا اور سندھ میں جمعہ کا خطبہ بھی عربی کی جگہ سندھی زبان میں پڑھاجاتا تھا۔ اللہ نے فرمایا کہ ” اے ایمان والو! نماز کے قریب مت جاؤ ، جب تم نشے کی حالت میں ہو۔ یہاں تک کہ تم سمجھو کہ جو کہتے ہو”۔(قرآن)نماز میں قرآن کے عربی الفاظ مفہوم کے بغیر بھی نشہ میں پڑھنے کی طرح ہی ہیں۔
جب شاہ ولی اللہ نے فارسی میں قرآن کا ترجمہ کیا تو علماء نے کفر کا فتویٰ لگایا اور ان کو کچھ سال روپوش رہنا پڑا تھا۔ سوال یہ تھا کہ قرآن کا ترجمہ کلام اللہ ہے یا نہیں؟۔یہ بھی ایک عقیدے کی جنگ تھی۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھاہے کہ ”قرآن کے عربی الفاظ قرآن کا اعجاز ومعجزہ نہیںبلکہ قرآن کا وہ مفہوم ہی قرآن کا اعجاز اور معجزہ ہے جس کی وجہ سے مردہ قوم میں نئی زندگی پیدا ہوجائے”۔
اصول فقہ میں قرآن کی تعریف یہ ہے ہو اسم لنظم والمعنی جمیعًا ”قرآن نام ہے عربی الفاظ اور معنی سب کا”۔یعنی اللہ کا کلام نہ صرف عربی کے الفاظ ہیں معانی کے بغیر اور نہ صرف معانی ہیں عربی کے الفاظ کے بغیر۔ بلکہ ان دونوں الفاظ اور معانی کا نام اللہ کا کلام ہے۔ المکتوب فی المصاحف المنقول عنہ نقلًا متواترًا بلاشبة ” جو لکھا ہوا ہے مصاحف میں اور جو نقل کیا گیا آپۖ سے متواترنقل بغیر کسی شبہ کے”۔ اس کی شرح میں ملاجیون نے لکھا ہے کہ ” مکتوب سے مراد لکھا ہوا نہیں کیونکہ لکھا ہوا محض نقش ہے ،اللہ کا کلام نہیں۔ نقل متواتر سے وہ آیات نکل گئیں جو اخبار احاد یا اخبار مشہور ہیں اور بلاشبہ سے بسم اللہ نکل گئی اسلئے کہ اگر چہ صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن ہے لیکن اس میں شبہ ہے ”۔ (نورالانوار) توضیح تلویح میں لکھا ہے کہ” اگرچہ کسی آیت کا انکار کرنے سے مسلمان کافر ہوجاتا ہے لیکن بسم اللہ میں شک اتنا زیادہ قوی ہے کہ اس کے انکار کی وجہ سے کوئی کافر نہیں بنتاہے”۔(درسِ نظامی کی تعلیمات)
نمبر1:جب قرآن کے معانی کو اللہ کا کلام نہیں سمجھا جائے تو پھر اخبارات اور کتابوں میں اردو کے اندر فرمان باری تعالیٰ لکھنا درست ہوگا؟۔
نمبر2:جب عربی میں لکھا ہوا بھی قرآن نہیںبلکہ نقش ہے تو پھر اس کی توہین قرآن کی توہین ہوگی؟۔ جس پر مسلم دنیا میں کہرام مچ جاتا ہے؟۔ حالانکہ فتاویٰ قاضی خان ، صاحب ہدایہ کی کتاب تجنیس، فتاویٰ شامیہ میں سورہ ٔ فاتحہ کو علاج کی غرض سے پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا گیا ہے اسلئے کہ جب لکھائی کی صورت میں اللہ کا کلام مانتے نہیں توپھر پیشاب سے لکھنے میں کیا حرج ہے؟۔
نمبر3:متواتر سے غیر متواتر آیات نکل گئیں مگر نورالانوار میں ہے کہ حنفی فقہ میں قرآن کی خبرواحد بھی آیت ہے جبکہ شافعی یہ تحریف قرآن سمجھتے ہیں۔ حنفیوں کے نزدیک فکفارتہ……صیام ثلاثة ایام قرآن کے ساتھ متتابعات اگرچہ متواتر نہیں بلکہ خبر واحد ہے لیکن پھر بھی قرآنی آیت ہے۔اسلئے متواتر تین دن روزے رکھنا ضروری ہیں۔ جبکہ شافعی یہ آیت اور قرآن نہیں مانتے ہیں۔
نمبر4:جب بسم اللہ کو صحیح آیت ماننے کے باوجود بھی شبہ کی وجہ سے قرآن میں داخل نہیں کیا تو اللہ نے فرمایا کہ ذلک الکتٰب لاریب فیہ ” یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی ریب نہیں ہے”۔ ریب شک کے بہت ادنیٰ درجے کو کہتے ہیں اور جب قرآن کی ابتداء میں قرآن پر اتنا بڑا حملہ کردیا تو یہ حماقت نہیں ہے؟۔ امام شافعی کے نزدیک جہری فرض نماز میں جہر سے پڑھنا فرض ہے ۔ اسکے بغیر نماز نہیں ہوگی۔ مسلک مالکی میں فرض نماز میں خفیہ بسم اللہ پڑھنا بھی جائز نہیں۔ حنفی مسلک میں صحیح بات یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن کا جزء ہے مگر اسمیں شک ہے ۔
نمبر5:” عبداللہ بن مسعود نے آخری دو سورتوں سورہ الفلق وسورہ الناس کی قرآن کا انکار کیا تھا”۔ تفہیم القرآن:مولانا مودودی، تفسیر عثمانی علامہ شبیراحمد عثمانی اور تبیان القرآن علامہ غلام رسول سعیدی میں تفصیل دیکھ لیجئے گا۔
اصل بات یہ تھی کہ ابن مسعود کے مصحف کا پہلا اور آخری صفحہ پھٹ چکا تھا۔ جس نے مصحف کی زیارت کی تو اس نے بتایا کہ سورۂ فاتحہ و معوذتین نہیں تھے۔ مفتی حسام اللہ شریفی کے پاس اورنگزیب بادشاہ کے ہاتھ لکھا ہوا قرآن ہے اور اس میں فاتحہ اور آخری پانچ سورتیں نہیں۔ باقی پھراپنی کہانیاں گھڑی گئی ہیں۔
نمبر6:اصول فقہ میں جتنی آیات کے ٹکڑے لکھے گئے ہیں وہ پڑھنے والے طالب علم اور پڑھانے والے استاذ خود بھی نہیں سمجھتے۔ وہ احادیث صحیحہ اور صحابہ وجمہور فقہاء ومحدثین کے مذاہب سے ٹکرانے کیلئے ہیں اور ان کے ضمن میں حنفی اماموں کے درمیان آپس میں بھی گھمبیر اختلافات ہیں۔
نمبر7:جب فقہ کے بنیادی احکام میں قرآن کی واضح آیات پر اتفاق نہیں تو پھر حدیث، اجماع اور قیاس پر اتفاق کا کیا تصور ہوسکتا ہے؟۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے حنفی فکر پر ایران کے متحد ہونے کا بھی لکھا ہے اور انشاء اللہ ضرور ہوگا۔
نمبر8:ایک طرف فضول قسم کے تضادات کا خاتمہ ضروری ہے اور دوسری طرف مسلک حنفی اقرب الی الحق ہے اور یہ نہ ہوتا تو سب کچھ ملیامیٹ ہوجانا تھا اور ایک ایک بات ہم انشاء اللہ بہت احسن انداز میں ثابت بھی کریں گے۔
نمبر9:اکثر معاملات کا حل بھی مختلف شماروں میں پیش کردیا ہے اور سب کیلئے اطمینا ن بخش بھی ہے۔ درس نظامی کا محور ٹھیک ہے مگرمحور سے ہٹنا غلط ہے۔
نمبر10:کفارے کیلئے شہرین متتا بعین پر قیاس کرتے ہوئے تین دن میں بھی متتابعات کی تفسیر درست ہے۔ اگر حنفی اخبار احاد کو آیات سمجھتے تو ابن مسعود کے مصحف میں متعہ کو بھی آیت قرار دیکر جائز سمجھتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

تجھ سے فتویٰ مانگتے ہیں،کہہ دو!اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے

تجھ سے فتویٰ مانگتے ہیں،کہہ دو!اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے

قرآن میں اللہ نے نبی ۖ سے فرمایا کہ آپ سے یہ لوگ فتویٰ مانگتے ہیں اور اللہ انہیں خودفتویٰ دیتا ہے!

یستفتونک قل اللہ یفتیکم ”آپ سے فتویٰ مانگتے ہیں کہہ دو اللہ تمہیں فتوی دیتا ہے”۔(القرآن)

سورہ نساء میں اللہ نے فرمایا: یستفتونک قل اللہ یفتیکم ” یہ لوگ آپ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں ۔ کہہ دیں کہ اللہ فتویٰ دیتا ہے”۔ النسائ:176
جب فتویٰ اللہ کی طرف سے ہوگا تو قرآن میں موجود ہوگا اور نبیۖ نے فتویٰ دیا ہوگا تو احادیث صحیحہ میں موجود ہوگا ۔ حضرت عمر نے بھی قرآن کے عین مطابق فتویٰ دیا تھا لیکن مسلکی وکالت میں بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں ہوئی ہے۔
ایک شخص پاکستان اور دنیا بھر میں تمام مسالک شیعہ ، اہل حدیث اور حنفی کے بڑے مدارس اور بڑے بڑے دارالافتاء سے یہ فتویٰ طلب کرتا ہے کہ
میں نے اپنی بیوی سے کہا ہے کہ تجھے تین طلاق۔ اب بیوی کہتی ہے کہ مجھے اس طلاق کے بعد علیحدگی اختیار کرنی ہے۔ میں نہیں چاہتی ہوں کہ شوہر مجھ سے پھر رجوع کرے اور ازدواجی تعلقات استوار کرے۔ لیکن میں رجوع چاہتا ہوں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی کیجئے۔ جزاک اللہ فی الدارین۔
حضرت عمر کی عدالت کا فیصلہ یہ ہوگا کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا ہے ۔ جب عدت پوری ہوجائے تو عورت دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے۔ کیا حضرت عمر نے یہ فیصلہ قرآن کے منافی کردیا ہے؟۔اگر نہیں تو پھر اس کی دلیل کیا ہے؟۔
المطلقٰت یتربصن بانفسھم ثلاثة قروء ولایحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن ان کن یؤمن باللہ والیوم الاٰخر و بعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف وللرجال علھین درجة البقرہ:آیت228
ترجمہ :”طلاق شدہ عورتیں تین ادوار تک خود کو انتظار میں رکھیں۔اور ان کیلئے حلال نہیں ہے کہ اس کو چھپائیں جو اللہ نے پیٹ میں پیدا کیا ہے ، اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں۔ اوراس مدت میں ان کے شوہر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگر وہ اصلاح کرناچاہتے ہوں۔ اور ان عورتوں کے بھی ایسے ہی حقوق ہیں جیسے ان پر مردوں کے معروف طریقے سے ہیںاور ان پر مردوں کا ایک درجہ ہے”۔ (سورةالبقرہ:آیت228)
قرآن میں اللہ نے عورت کو طلاق کے بعد اختیار دیا ہے کہ اگر رجوع نہیں کرنا چاہتی ہو تو اس کو یہ حق حاصل ہے کہ صلح سے انکار کردے۔ اور عورت کی طرف سے انکار کی صورت میں شوہر کو رجوع کا کوئی حق اللہ نے نہیں دیا ہے۔
حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ دیا تھا۔ اگر حضرت عمر نے یہ فیصلہ نہیں دیا ہوتا تو پھر لوگ گمراہی کا شکار ہوکر طلاق کو کھلواڑ بنادیتے ۔اگر شیعہ اور اہل حدیث کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے غلط فیصلہ کیا ہے تو صحابہ کرام، تابعین عظام ، تبع تابعین ذی احترام اور ائمہ اربعہ اصحاب مقام ہی نہیں پوری دنیاکے تمام ممالک کی عدالتوں میں حضرت عمر اور قرآن کا یہ فیصلہ پیش کردو۔ سب اس کے درست ہونے کی تصدیق کردیں تو پھر برائے مہربانی اہل سنت کو کہنے دیں کہ حضرت عمر واقعی فاروق اعظم تھے اور اپنے اپنے مسلک اہل حدیث و اہل تشیع کو بھی قرآن اور حضرت عمر کے فیصلے کے مطابق درست کرنے کا اعلان کریں۔
اصل مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں یا نہیں؟۔ بلکہ اصل معاملہ یہ تھا کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاق دیتا ہے تو بیوی پھر رجوع کیلئے راضی نہیں ہے تو کیا شوہر کو پھر رجوع کا حق حاصل ہے یا نہیں ؟۔ حضرت عمر نے اقتدار کی کرسی پر فتویٰ نہیں دینا تھا بلکہ میاں بیوی کے درمیان حق اور نا حق کا فیصلہ کرنا تھا۔ حضرت عمر نے بالکل قرآن وسنت اور فطرت کے عین مطابق فیصلہ کیا۔ اگر نبی ۖ کے سامنے بھی ایسا تنازعہ آتا تو یہی فیصلہ دینا تھا۔ قرآن میں بھی یہی فیصلہ قیامت تک رہنمائی کیلئے موجود ہے۔
فتویٰ تو رسول اللہ ۖ کے بعد حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کا نہیں ہمارے حضرت علامہ مولانامفتی علی ہی کا چلنا تھا۔اسلئے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا: انامدینة العلم علی بابھا ”میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے”۔ ایک شخص نے حضرت علی سے فتویٰ لیا کہ میں نے اپنی بیوی سے کہا ہے کہ آپ مجھ پر حرام ہو اور وہ اب میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہے ۔ حضرت علی نے فتویٰ دیا کہ:”اب آپ کو رجوع کا کوئی حق حاصل نہیں ہے”۔یہ فتویٰ بھی قرآن کی روشنی میں تھا کہ جب عورت راضی نہیں ہو تو شوہر کو رجوع کا حق نہیں ہے۔
سب سے بڑی مصیبت اور جہالت یہ ہے کہ عرب وعجم نے ایمان، علم اور دین کو اختلافات ، فرقہ واریت اور مسلک پرستی کی نذر کرتے ہوئے آسمان اور ثریا تک پہنچادیا ہے۔ اتنی سادہ سی بات بھی نہیں سمجھتے ہیں کہ اللہ نے قرآن میں باہمی اصلاح کی صورت میں رجوع کی اجازت دی ہے اور باہمی اصلاح کے بغیر رجوع کی اجازت نہیں دی ہے۔ یہ امت مسلمہ یہود ونصاریٰ کی طرح افراط وتفریط کا شکار ہوگئی۔ ایک طبقہ شیعہ اور اہل حدیث اس انتہاء کو پہنچ گیا ہے کہ اگر ایک ساتھ عورت تین طلاق کے بعد راضی نہ ہو تب بھی طلاق نہیں ہوئی اور شوہر کو مکمل طور پر رجوع کا حق ہے اور دوسرا طبقہ مقلدین مغلظین ضالین اور ظالمین کا اس انتہاء کو پہنچ گیا ہے کہ باہمی اصلاح کے باوجود بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور وہ اس کی وجہ سے حلالہ کی لعنت سے عورتوں کی عزتوں سے کھلواڑ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔جیسے زنا ایک جرم ہے اور اس کو سزا کے ذریعے سے ہی روکنا ممکن ہے،اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر حلالہ کی لعنت بہت بڑا جرم ہے اور اس سے روکنے کیلئے زنا سے بھی سخت سزا دینے کے بغیر یہ نہیں رک سکتاہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنماسینیٹر مشاہداللہ خان مرحوم اورایم کیوایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے بیانات میں بہت کھل کر حلالہ کی مخالفت کی تھی لیکن جب تک کوئی سیاسی جماعت اس کی طرف درست توجہ نہ دے تو یہ مسئلہ اجاگر کرنا بہت مشکل ہے اسلئے کہ بڑے مدارس میں بدمعاش اور مافیا طبقہ مسلط ہے اور ان کی وجہ سے چھوٹے علماء کرام اور مفتیان عظام بھی سامنے آنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ حلالہ پیٹ بھرنے کیلئے اور نفسانی خواہشات جھڑنے کیلئے مذہب کے نام پرایک زبردست ڈھال ہے ۔ شیخ الحدیث مفتی عزیز الرحمن کی ویڈیو وائرل ہوگئی تو اس کی وجہ سے کتنی خفت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا لیکن حلالہ کی ہزار ویڈیوز بن جائیں تو ان کو بالکل بھی فرق نہیں پڑے گا بلکہ ہتک عزت کا دعویٰ کریں گے۔
بہت مساجد ومدارس والے کہتے ہیں کہ ہم حلالہ کے قائل نہیں مگر بڑے مدارس ملوث ہیں تو ان سے فرق نہیں پڑتا ۔ قرآن نے یہودونصاریٰ کیلئے کہا کہ ”انہوں نے اپنے احبار و رھبان کو اللہ کے علاوہ اپنا رب بنالیا”۔ نبی ۖ نے فرمایا:”یہ امت بھی انکے نقش قدم پر چلے گی”۔ سیاسی جماعتیں پاکستان کو حقیقی ریاست مدینہ بنانے کیلئے حلالہ کی لعنت کیخلاف بڑے فرعونوں سے ٹکر لیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

قرآن اورسنت کے مقابلے میں اجتہاد کاکیا تصور ہے؟

قرآن اورسنت کے مقابلے میں اجتہاد کاکیا تصور ہے؟

معاذ بن جبل حاکم یمن بنا، رسول اللہۖنے پوچھا: فیصلہ کیسے کرو گے؟۔ معاذ : قرآن سے!۔ رسول اللہ ۖ : قرآن میں نہ ملے ؟۔ معاذ: سنت سے!۔ رسول اللہ ۖ: سنت میں نہ ملے؟۔ معاذ: اجتھدخود کوشش کروں گا۔ اجتھاد کوشش۔تلمیذ مجتہد ۔ محنتی شاگرد۔ رسول اللہۖ نے فرمایا :” اللہ کا شکر ہے کہ جس نے اپنے رسول کے رسول کو اس بات کی توفیق عطاء کردی جو اللہ اور اسکے رسول کو پسند ہے”۔ رسول داروغہ ، نمائندے اور ڈاکیہ کو بھی کہتے ہیں۔
یہ فقہی مسائل کا استنباط اور مروجہ اجتہاد نہیں بلکہ حاکم کا اپنی ذہنی صلاحیت سے انصاف دینا ہے۔ حضرت عمر کے پاس ایک تنازعہ آیا۔ شوہر نے اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں اور کہہ رہا تھا کہ مجھے تین طلاق کے باوجود رجوع کا حق ہے لیکن اس کی بیوی رجوع کیلئے تیار نہیں تھی۔ اب حضرت عمر نے پہلے اس کا فیصلہ قرآن کے مطابق کرنا تھا اور جب قرآن میں نہ ملتا تو سنت کے مطابق کرنا تھا اور جب سنت رسول ۖ میں بھی نہ ملتا تو پھر اپنی کوشش ”اجتہاد”سے مسئلہ حل کرنا تھا۔
شیعہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر نے قرآن وسنت اور اہل بیت کے مقابلے میں ایک نئی گمراہی ”طلاق بدعت” امت میں پیدا کردی ، جس کی سزا آج تک مفتی مسلمان عورتوں کو ایک ساتھ تین طلاق دینے پر حلالہ کی شکل میں دیتے ہیں۔
اہلحدیث سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر کی اجتہادی غلطی سے سنت کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ رسول اللہ ۖ، ابوبکر اور عمر کے پہلے3سال تک اکٹھی تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا۔ حضرت عمر نے3طلاق کو3قرار دینے کا حکم جاری کردیا۔ اس اجتہاد کو رسول اللہ ۖ کی سنت کے مقابلے میں جاری کرنا بالکل غلط ہے۔
چار فقہی امام کے مقلد سمجھتے ہیں کہ حضرت عمرنے اجتہاد نہیں کیابلکہ حدیث میں اکٹھی تین طلاق ہیں۔امام شافعی کے ہاں اکٹھی تین طلاق سنت اور مباح ہیں اسلئے کہ عویمر عجلانی نے لعان کے بعد بیوی سے کہا تھا کہ تجھے تین طلاق۔ یہی صحیح حدیث ہے،محمود بن لبید کی حدیث ناقابلِ اعتماد ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ وامام مالک کے ہاں فحاشی پر اکٹھی 3طلاق میں حرج نہیں مگر اکٹھی3 طلاق دینا گناہ وبدعت ہے۔ محمود بن لبید نے کہا کہ رسول اللہ ۖ کو ایک شخص نے خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دیں۔ رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا: میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔
امام احمد بن حنبل سے دو اقوال نقل ہیں۔ ایک قول کے مطابق امام شافعی کی تائید کی ہے اور دوسرے قول میں حنفی ومالکی مسالک کی تائید کی ہے۔
امام اسماعیل بخاری نے صحیح بخاری میں فقہ حنفی کو شکست دینے کیلئے حدیث کا غلط اندراج کرکے امت مسلمہ کابیڑہ غرق کرنے میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ”من اجاز الطلاق ثلاث” (جس نے تین طلاق کی اجازت دی) عنوان کے تحت اسماعیل بخاری نے امام شافعی کے مسلک کو ثابت اور امام ابوحنیفہ کے مسلک کو رد کرنے کیلئے ایسی حدیث درج کی جس کی سزا آج تک بہت سارے لوگوں کو اکٹھی تین طلاق دینے کے بعد حلالہ کی لعنت سے ملتی ہے کیونکہ امام بخاری نے یہ حدیث بھی اکٹھی تین طلاق کے جواز میں نقل کی کہ رفاعة القرظی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں پھر عدت کے بعد اس کی بیوی نے ایک اور شخص عبدالرحمن بن زبیر القرظی سے شادی کی۔ اس نے رسول اللہ ۖ سے شکایت کی کہ اس کے پاس دوپٹے کے پلو کی طرح ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا :کیا آپ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو؟۔ پس نہیں! یہاں تک آپ اس کا ذائقہ چکھ لواور وہ تیرا ذائقہ چکھ لے ۔من اجاز طلاق ثلاث( صحیح بخاری )
یہ حدیث مختلف جگہوں پر احادیث کی کتابوں میںہے مگر اکٹھی تین طلاق کے جواز میں یہ نقل کرکے امت مسلمہ کا حلالہ کی لعنت سے بیڑہ غرق کیا ہے۔ اس سے مغالطہ ہوا کہ رسول اللہ ۖ نے بھی حلالہ کی لعنت کا فتویٰ جاری فرمایا۔ صحیح حدیث پر لوگ آنکھیں بند کرکے چلتے ہیں۔ بخاری نے ”کتاب الادب” میں یہ وضاحت کی کہ” رفاعة القرظی نے مرحلہ وار تین طلاقیں دی ہیں ”اور یہ بھی ایک اور حدیث میں واضح کیا کہ” اسکے شوہر عبدالرحمن بن زبیرالقرظی نے تردید کی کہ وہ نامرد ہے ۔ وہ اس کی چمڑی اپنی مردانگی سے ادھیڑ کے رکھ دیتا ہے”۔ بخاری اس واقعہ کی تمام روایات کو ایک جگہ نقل کرتا تو نہ صرف یہ ثابت ہوتا کہ اکٹھی تین طلاق پر حلالے کا حکم نہیں بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا کہ نبی کریم ۖ نے اس عورت کو اپنے نامرد شوہر سے حلالہ کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا اور احادیث کے واقعات کو غلط نقل کرکے احادیث کے خلاف بھی محاذ کھول دیاگیا ہے۔
آیت الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ”طلاق دو مرتبہ ہے ، پھر معروف طریقے سے روکنا یااحسان سے چھوڑنا ہے”کو بخاری نے اکٹھی تین طلاق کے جواز میں پیش کیا۔ حالانکہ امام ابوبکر جصاص رازی نے یہ آیت اپنی کتاب ”احکام القرآن” میں مسلک حنفی کی طلاق سنت کیلئے زبردست دلیل کے طور پر پیش کی۔ بخاری کے معروف شارحیں نے اپنی اپنی شرح ” عمدة القاری ” اور ” فتح الباری” میں ایسی مضحکہ خیز شرح ان آیات کی لکھ دی ہے کہ ایک عام انسان بھی حیران ہوگا کہ یہ کیا کیاہے؟۔ فقہاء ومحدثین کا مسئلہ یہ ہے کہ حقائق تک پہنچنے کا سادہ طریقہ اپنانے کے بجائے معاملہ مزید الجھا دیتے ہیں۔ حالانکہ عام فہم زبان اور صحیح بخاری کی احادیث سے دو مرتبہ طلاق کی بات سمجھنا بہت آسان ہے لیکن بخاری نے ایک ساتھ تین طلاق کے جواز کے عنوان کے تحت آیت لکھ دی ہے تو پھر بہرصورت باب سے مناسبت پیدا کرنے کی الٹی سیدھی کوشش کی ہے جس کو دیکھ کر چھوٹے مگر سمجھدار بچے بھی ہنسیں۔
نبی ۖ محمود بن لبید کی مجہول حدیث میں غضبناک ہوئے تو اس سے شبہ پیدا کیا گیا ہے کہ اگر رجوع ہوسکتا تھا تو نبیۖ غضبناک نہ ہوتے۔ حالانکہ اس سے زیادہ مضبوط حدیث صحیح بخاری کی ہے جس میں نبی ۖ حضرت عمر کی خبر پر کہ عبداللہ بن عمر نے حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دی ہے غضبناک ہونے کا ذکر ہے۔ جو بخاری کی کتاب التفسیر سورہ طلاق میں ہے۔ اس سے طلاق مرتان کی بھی واضح تفسیر ہوجاتی ہے اور غضبناک ہونے کے باوجود بھی رجوع ثابت ہوتا ہے کہ نبیۖ اسلئے غضبناک نہیں ہوئے کہ رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں روایات میں یہ بھی ثابت ہے کہ محمود بن لبید کی روایت میں جس نے خبر دی تھی اور قتل کی پیشکش کی تھی وہ حضرت عمر تھے اور جس نے طلاق دی تھی وہ عبداللہ بن عمر تھے۔ محمود بن لبید تابعی تھے اور ان سے مضبوط روایت صحیح مسلم کی ہے جس کو حسن بصری نے نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر نے اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں اور20سال تک کوئی دوسرا شخص نہیں ملا جس نے اسکی تردید کی ہو۔20سال بعد ایک اور مستند شخص ملا جس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔ حضرت علی سے منسوب ہے کہ حرام کہنے کو ایک ساتھ تین طلاق سمجھتے تھے۔ بخاری میں بعض علماء کے اس اجتہاد کو حسن بصری نے روایت بھی کیا ہے۔ جب حرام کا لفظ تین طلاق ہو تو پھر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ حضرت ابن عمرنے تین طلاقیں دیں اور نبیۖ نے لوٹنے کا حکم دیا؟۔ حالانکہ حضرت علی نے اس صورت میں رجوع نہ کرنے کا حکم دیا تھا جب عورت راضی نہ ہو۔ اور جب عورت راضی نہ ہو تو ایلاء میں بھی رجوع نہیں ہوسکتا۔نبیۖ کو اللہ نے قرآن میں واضح حکم دیا مگر حقائق دیکھے نہیں؟۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

رسول اللہ ۖ نے فرمایا :” مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام کیساتھ مل جاؤ”۔صحیح بخاری

رسول اللہ ۖ نے فرمایا :” مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام کیساتھ مل جاؤ”۔صحیح بخاری

رسول اللہ ۖ نے فرمایا :” مسلمانوں کی جماعت اور انکے امام کیساتھ مل جاؤ”۔صحیح بخاری

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ”نصاریٰ ایمان والوں سے موودت میں سب سے زیادہ اشد ہیں”۔ آج نصاریٰ کی دنیا میں بہت بڑی حیثیت ہے لیکن آج مسلمان اس حقیقت کو استعمال نہیں کررہے ہیں۔

قرآن پاک کی اس آیت کی سب سے بڑی تصدیق آج نصاریٰ کا وہ عمل ہے کہ جس قبلہ کو وہ اپنا مقدس مقام اورقبلہ مانتے ہیں اوران کے اندر قبضہ کی صلاحیت بھی ہے لیکن وہ مسلمانوں سے نہیں لے رہے ہیں

مسلمان دو بڑے فرقوں میں تقسیم ہیں۔ اہل سنت والجماعت اور اہل تشیع۔ اہل سنت کا دعویٰ ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ73فرقوں میں سے ایک جنتی ہوگا اور باقی سب جہنمی ہیں ۔جنتی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ سنت سے رسول اللہ ۖ اور جماعت سے صحابہ کرام مرادہیں۔ دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور جماعت اسلامی خود کو اہل سنت سمجھتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق دور میں مشہوربریلوی عالم دین علامہ عطاء محمد بندیالوی نے تفصیل سے فتویٰ دیا کہ عالم اسلام پر فرض ہے کہ امام کا تقرر کریں۔ نہیں تو ان کی موت جاہلیت کی ہوگی۔ امام لازمی قریش ہو۔ جنرل ضیاء الحق کی موت بھی جاہلیت کی موت ہوگی۔
دیوبندی مدارس نے استفتاء کاجواب نہیں دیا۔مولانا محمدیوسف لدھیانوی نے ” عصر حاضر حدیث نبوی علی صاحبہا الصلوٰہ والسلام کے آئینہ میں” مساجد کے ائمہ ، مدارس کے مفتی ، سیاسی مذہبی جماعتوں کے علماء ، حکمران اور تمام فرقے اور مذہبی جماعتیں ایک ایک اور اجتماعی طور پر سب کوزبردست نشانے پر لے لیا تھا۔ حضرت حذیفہ نے کہا کہ لوگ خیر کا نبی ۖ سے پوچھتے تھے اور میں شر کے بارے میں رہنمائی لیتا تھا تاکہ میں اس سے بچ سکوں۔ حذیفہ نے پوچھا:ہمیں یہ خیر (اسلام ) پہنچی تو کیا اسکے بعد کوئی شرپہنچے گا؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:ہاں! ( خلافت راشدہ میںجو جنگیں ہوئیں۔ جمل ، صفین ، نہروان ۔ عثمان کی شہادت سے علی کی شہادت تک )۔ حذیفہ:کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہوگی ؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : ہاں مگر اس میں دھواں ہوگا۔ان میں اچھے لوگ بھی ہوں گے اور برے بھی ۔ (30سالہ خلافت راشدہ کے بعدبنوامیہ وبنو عباس کی امارت اور خلافت عثمانیہ کی بادشاہت کادور۔ حسن کے بعد امیرمعاویہ سے عثمانی آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید سن1924،جبری حکومتوں کے دور سے طرز نبوت پرخلافت کے دوبارہ قیام تک کے موجودہ دور تک سب پراس خیر کا اطلاق ہوتا ہے جس میں خیر وشر دونوں ہوں گے۔ مفتی تقی عثمانی نے سود کو جائز قرار دیا تھا تو سب علماء ومفتیان نے مخالفت کی۔ دارالعلوم دیوبند کے دو ٹکڑے ہوگئے، جمعیت علماء اسلام ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی رہی، تبلیغی جماعت دو حصوںمرکز بستی نظام الدین اور رائیونڈمیں تقسیم ہوگئی،دیوبندیوں کے ٹکڑے، بریلویوں کے ٹکڑے ، اہل حدیث کے ٹکڑے، جماعت المسلمین کے ٹکڑے اور حزب اللہ کے ٹکڑے ۔اس طرح اہل تشیع میں آپس کی منافرت اورکئی ٹکڑے ) حضرت حذیفہ نے پھر سوال کیا کہ اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:ہاں!۔ داعی ہوں گے جو جہنم کے دروازے پر لوگوں کو بلائیں گے جو ان کی دعوت قبول کرے گا تو اس کو جہنم میں جھونک دیں گے۔ جس پر حذیفہ نے پوچھا:یارسول اللہ ! ان کی نشانی کیا ہوگی؟۔ رسول اللہۖ نے فرمایا: وہ ہمارے لبادے (مذہبی ) میں ہوں گے اور ہماری زبان (مذہبی اصطلاحات ) بولیں گے ۔حذیفہ:اگر میں اس وقت ہوا۔ تو مجھے کیا کرنا چاہیے۔رسول اللہ ۖ: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے مل جاؤ!۔ حضرت حذیفہ : اگر اس وقت نہ مسلمانوں کا کوئی امام ہو اور نہ جماعت توپھر؟۔ رسول اللہ ۖ : پھران تمام فرقوں سے الگ ہوجاؤ، چاہیے تمہیں کسی درخت کی جڑ میں پناہ لینی پڑے۔
(صحیح بخاری ۔ عصر حاضر : مولانامحمدیوسف لدھیانوی شہید)
اہل سنت الجماعت اور اہل تشیع نے دیکھا کہ جب ایران میں آیت اللہ خمینی کو قائدانقلاب اورامام بنایا گیا تو ایران کی بادشاہت ختم ہوگئی۔ جب ملا عمر کو امیر المؤمنین نامزد کیا گیا تو افغانستان میں بدمعاش جہادی کلچر کا خاتمہ ہوگیا اور آج افغانستان میں افغانستان کے حدود کیلئے امیر المؤمنین کا تقرر ہے۔ داعش (دولت اسلامیہ عراق وشام) نے بھی امیر المؤمنین بنائے لیکن عراق وشام میں بھی کامیابی نہیں ۔ سن1990کی دہائی میں ایک عرب نے بھی امیرالمؤمنین بننے کا دعویٰ کیا تھا جس نے اپنا ٹھکانہ خیبر ایجنسی میں بنایا تھا۔ اس سے پہلے ہم نے وزیرستان سے پاکستان اور دنیا بھر کیلئے امیر المؤمنین کے تقرر اور خلافت کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ وہ عرب امیرالمؤمنین پھر بیمار ہوکر امریکہ چلا گیا تھا اور اس کے پشاوری نمائندے نے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ آپ اپنے مشن سے دستبردار ہوجائیںاسلئے کہ اس عرب میں بہت صلاحیت ہے۔ آپ کی طرف سے پہل کی گئی ہے آپ کے ہوتے ہوئے وہ خلیفہ نہیں بن سکتا ہے۔
مفتی کامران شہزاد نے حال میں امام مہدی کے حوالہ سے بیان کیا ہے جس میں قوم کی تبدیلی کو قرآنی انقلاب قرار دیا۔قوم کو اب تبدیلی کیلئے اٹھنا ہی ہوگا۔ انہوں نے یہ زبردست بات کی ہے کہ جب تک قوم خود کو نہیں بدلے اس وقت تک اللہ بھی قوم کی حالت نہیں بدلے گا اور جب قوم اپنی حالت بدلنے کا فیصلہ کرے گی تو ایک نہیں کئی امام مہدی بھی قوم کو مل جائیں گے، اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ ”اور ہمارا ارادہ ہے کہ ہم احسان کریں ان لوگوں پر جن کو کمزور بنایا جارہاہے کہ ان کو ائمہ بنائیں اور ان کو وارث بنائیں”۔( سورہ القصص آیت5)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا” اور جو لوگ اللہ کے علاوہ کسی اِلٰہ کو نہیں پکارتے۔اور نہ کسی نفس کو قتل کرتے ہیں جس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے مگر حق کیساتھ۔ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو ایسا کرے گا توسزا کو پہنچے گا ۔ اللہ ان کے عذاب میں قیامت کے دن دو چند اضافہ کرے گا اور وہ ہمیشہ اس میں ذلت کیساتھ رہے گا۔ مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور صالح عمل کئے تو ان لوگوں کے گناہوں کو نیکیوں میں اللہ تبدیل کردے گا۔ اور اللہ غفور رحیم ہے۔ اور جو توبہ کرے اور عمل صالح کرے تو بیشک وہ اللہ کی طرف توبہ کرتا ہے متوجہ ہوکر۔ اور جو لوگ جھوٹ کی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو بات سے گزرتے ہیں تو گزر جاتے ہیں عزت کیساتھ۔ اور جن کے سامنے اللہ کی آیات کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس پر بہرے اور اندھے ہوکر گر نہیں پڑتے۔ اور جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنی ازواج میں سے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک عطا ء فرمااور ہمیں متقیوں کا امام بنادے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اسکے بدلے میں کمرہ دیا جائے گا جو انہوں نے صبر کیا اسکے سبب جس میں ان کو سپاس نامہ اورسلام پیش کیا جائے گا۔یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جو بہترین ٹھکانا اور منصب ہے۔(الفرقان)
ان آیات میں توبة النصوح سے قاتلوں اور زناکاروں کیلئے بھی نہ صرف معافی کی گنجائش ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا” ان کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیں گے”۔ جس طرح اسلام قبول کرنے سے پہلے صحابہ کرام کافر و مشرک تھے اور بعد میں قرآن نے ان کی شان بیان کی ہے۔ ان میں بھی فتح مکہ سے قبل اور بعد والوں کے درمیان فرق ہے۔ لیکن فتح مکہ کے بعد والوں کو بھی درجات کی خوشخبری ہے۔ کسی کی توہین کرنے سے فائدہ ہوتا تو اللہ مشرکوں کے خداؤں کو برا کہنے سے منع نہ فرماتا۔ لوگوں کے جذبات کو جس سے ٹھیس پہنچتی ہو اس سے ہم اجتناب کریں گے تو لوگ قرآن و سنت اور تاریخی حقائق تک پہنچ جائیں گے۔
اس میں شک نہیں کہ جس طرح مہاجرین وانصار میں خلافت کے مسئلہ پر اختلاف تھا ،اسی طرح اہل بیت اور صحابہ کے درمیان بھی استحقاق خلافت پر یہی اختلاف تھا لیکن اس اختلاف کو ائمہ اہل بیت اور ان کے صحیح پیروکاروں نے اپنی حد میں رکھا تھا، جب معاملہ اعتدال سے ہٹ جائے تو خونریزی تک پہنچتا ہے۔ جب انصاراسلئے خلافت سے محروم کردئیے گئے کہ نبی ۖ نے فرمایا تھا کہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے تو قریش میں حضرت ابوبکر سے زیادہ اہل تشیع ہی نہیں حضرت ابوسفیان نے بھی حضرت علی ہی کو حقدار قرار دیا تھا۔ حدیث میں قریش کے بارہ خلفاء قریش کا ذکر ہے اور شیعہ سمجھتے ہیں کہ اہل سنت کے پاس معقول جواب نہیں۔ حالانکہ اہل سنت کی کتابوں میں آخری دور میں ان کا ذکر ہے۔
مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی اور مفتی عتیق الرحمن سنبھلی کے والد مولانا محمد منظور نعمانی نے شیعوں پر کفر کا فتویٰ لگانے کیلئے بڑا استفتاء لکھا تھا۔ جواب میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن نے تین وجوہات کی بنیاد پر شیعوں کو قادیانیوں سے بدتر کافر قرار دیا تھا۔ تحریف قرآن ۔ صحابہ کی توہین۔ عقیدہ امامت۔ جو کتابی صورت میں مارکیٹ میں بکتی ہے۔ پھر شیعوں کو متحدہ مجلس عمل، ملی یکجہتی کونسل اور اتحاد تنظیمات المدارس میں شامل کیا گیا۔
اگر ہمارے علماء احناف دیوبندی بریلوی اور علماء اہلحدیث و اہل تشیع اپنی جگہ پر قرآن و سنت کے مطابق درست لائحہ عمل بنالیں تو سب کی گمراہیاں نہیں رہیں گی اور مرزا غلام احمد قادیانی دجال کذاب معلون کے پیروکار بھی اپنے غلط عقیدوں اور سازشوں سے توبہ تائب ہوکر سچے اور پکے مسلمان بن جائیں گے۔
قرآن میں اللہ نے رسول اللہ ۖ سے فرمایا کہ مشرکوں سے قرابتداری کی محبت کا مطالبہ کرو۔ مشرکوں نے انتہائی دشمنی کا ثبوت دیا جس کی قرآن میں مکمل نشاندہی بھی کی ہے۔ لیکن مسلمانوں نے قرابتداری کی محبت کا مظاہرہ کیا اور فتح مکہ کے حسن سلوک سے تقریباً سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ نبی ۖ نے اہل بیت کے بارے میں بھی موودت کا مطالبہ کیا تھا لیکن خاندانی بنیادوں پر جب اقتدار قائم ہوا تو اس محبت کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ جس کی وجہ سے شیعہ صحابہ کرام سے بھی بدظن ہوگئے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کنفرم کیا ہے کہ نصاریٰ کو اہل ایمان سے سب سے زیادہ شدت کی موودت ہے۔ جب مسلمان آپس میں بھی ایک دوسرے سے شدید بغض رکھتے ہیں تو نصاریٰ کس طرح سے محبت کے تقاضوں پر عمل کرسکیں گے؟۔ فلسطین اور بیت المقدس کے معاملے میں نصاریٰ کی ساری ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ نہ ہوتیں تو یہود کب کا تسلط جماچکے ہوتے۔ مسلمانوں کی طرف سے اگر تھوڑی سی حقیقت پسندی کا مظاہرہ ہو تو پھر دیکھنا کہ امریکہ ، برطانیہ، فرانس اور سارے عیسائی ممالک پکا معاہدہ کریں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد تک بیت المقدس کے متولی مسلمان رہیں گے اور یہود پھر دجال اکبر کا انتظار کریں گے۔ ان لوگوں کو یہ خطرات ہیں کہ مسلمان ہماری خواتین کو لونڈیاں بنادیں گے اور ہم اس بات پر بار بار زور دے رہے ہیں کہ اسلام نے لونڈی اور غلام کو نکاح و طلاق سمیت تمام حقوق دے دئیے۔ اور لونڈی و غلام بنانے کے سودی اور جاگیردارانہ نظام کا اسلام نے خاتمہ کردیا تھا۔ قیدیوں کیلئے صرف دو باتیں رکھی تھیں کہ ان کو احسان کرکے چھوڑیں یا فدیہ لیکر۔ جس سے قیدیوں کو قتل کرنے اور عمر بھرقید رکھنے کی گنجائش بھی نہیں رہتی ہے تو پھر ان کو لونڈی اور غلام بنانے کی بات تو کسی طرح سے قابل قبول نہیں۔ جب اللہ نے واضح کیا ہے کہ بنی اسرائیل کو لونڈی بنانا اہل فرعون کا وظیفہ تھا پھر کس طرح سے اسلام اہل فرعون کی نیابت کرسکتا ہے؟۔ جہاں تک قرآن میں بار بار ایک چیز کا ذکر ہے ما ملکت ایمانکم ”جس کے مالک تمہارے معاہدے ہوں” اس سے لونڈی و غلام بھی مراد ہیں جس کی وجہ سے ان کی حیثیت جانور کی طرح ملکیت سے نکل کر گروی کی ہوگئی ہے۔ جس طرح آج بھٹہ خشت اور مزارعت میں خاندان کے خاندان گروی ہوتے ہیں۔ گروی کو جب بھی مطلوبہ مال دے دیا جائے تو اس کی گردن آزاد ہوجاتی ہے۔ جہاں تک ان سے نکاح کے بغیر جنسی تعلق کی بات ہے تو اس میں لونڈی اور آزاد میں فرق نہیں۔ اس میں صرف نکاح کے وہ حقوق نہیں ہوتے جس کا قرآن نے ایسا ذکر کیا ہے کہ اگر مغرب کو پتہ چل جائے تو وہ اپنے خود ساختہ قوانین کو ختم کرکے اسلامی قوانین کو معاشرے میں رائج کریں گے۔ سعودی عرب نے مسیار اور شیعہ نے متعہ کے نام سے جس ایگریمنٹ کی اجازت دی ہے اگر قرآن میں اس کو تلاش کیا جائے اور حدیث سے تصدیق لی جائے تو شیعہ سنی تفسیروں کی فرقہ واریت ختم ہوجائے گی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

حنفی فقہاء کے 7طبقات اور نتیجے میں اپاہج یہ علماء ومفتیان؟

حنفی فقہاء کے 7طبقات اور نتیجے میں اپاہج یہ علماء ومفتیان؟

پہلا طبقہ مجتہد فی الدین: ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل ۔ مجتہدفی اصول و فروع ۔ دوسرا طبقہ مجتہد فی المذہب :ابوحنیفہ کے تمام شاگرد: اصول و فروع میں امام سے اختلاف تھا۔ تیسرا طبقہ مجتہد فی المسائل : اصول وفروع میں مقلد۔ جن مسائل کی تصریح نہ ہو،ان میں اجتہاد ۔ چوتھا طبقہ اصحاب تخریج: مسائل کو ائمہ کی کتابوں سے نکالنا۔ پانچواں طبقہ اصحاب ترجیح: راجح و مرجوح ، فاسد و صحیح اقوال کی پہچان۔ مسئلے میں دو قول یا دو احتمال ہوں تو ایک درست، دوسرا غلط قرار دینا۔ چھٹا طبقہ اصحاب تمیز : اقوال میں صحیح واصح ، اولیٰ و غیر اولیٰ کی تمیزکرنا مگر صحیح و غلط کی تمیز نہیں رکھنا ۔ ساتواں طبقہ مقلدین محض: اندھی نقل کرنا۔ مقلد محض ابن عابدین شامی نے2سو سال قبل ان طبقات کا ذکر کیاہے ۔ درس نظامی میں ”قدوری ” اور فتاویٰ میں قاضی خان کا مقام اصحاب ترجیح ہے۔ قدوری420ھ کی تصنیف ہے۔ درس نظامی میں ”کنزالدقائق” اور ” ہدایہ ” کا مقام اصحاب تمیز ہے۔
” علاج کیلئے ناک کے خون سے سورۂ فاتحہ کو پیشانی پر لکھنا جائز۔ پیشاب سے لکھنا بھی جائز ہے، اگر یقین ہو کہ علاج ہوجائیگا”۔ (رد المختار) علامہ سعیدی نے لکھا کہ” علامہ شامی کو قرآن سے محبت تھی لیکن بال کی کھال اتارنے کے چکر میں غلطی سرزد ہوگئی۔ اگر سورج نکلنے کی طرح یقین ہو تب بھی فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے سے مر جانا بہتر ہے”۔( شرح صحیح مسلم) علامہ غلام رسول سعیدی کے ہاں ہم نے حاضری دی تو فرمایا کہ ” اس بات پر میرا علماء نے گریبان پکڑ لیا تھا کہ تمہاری یہ جرأت کیسے ہوئی کہ علامہ شامی کے خلاف یہ جسارت کرلی ہے؟”۔
الحمد للہ ہماری کاوش سے مفتی تقی عثمانی پر جب دباؤ پڑا تو اپنی کتابوں سے سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز کو نکالنے کا اعلان کردیا۔ اللہ خیر کرے گا۔
علامہ شاہ تراب الحق قادری نے مسئلہ بیان کیا کہ ” اگر روزے میں پاخانہ کیا اور پاخانہ کرتے وقت آنت کا ٹکڑا نکلتا ہے جو پھول نما ہوتا ہے۔ اگر وہ پھول دھونے کے بعد کپڑے سے خشک نہیں کیا اور اندر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا”۔
شاگردابوحنیفہ عبداللہ بن مبارک نے ابویوسف کیخلاف لکھا کہ ”عورت کی گواہی ناکافی قرار دیکربادشاہ کیلئے باپ کی لونڈی جائز قرار دی”۔ یہ شکر ہے کہ سورۂ مجادلہ کا حوالہ نہیں دیا کہ ” ان کی مائیں تو صرف وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے”۔پھر یہ مذہبی اجتہاد بنتا کہ” سوتیلی ماں جائز ہے”۔ سوتیلی بیٹیوں کیلئے مصنف عبدالرزاق کی روایت ابن حجرنے نقل کی کہ اگر حجرات میں نہ پالی ہوں تو علی نے جائز قرار دیا۔مولانا سلیم اللہ خان نے کشف الباری میں یہ دلیل مضبوط قرار دی۔ ام المؤمنین ام حبیبہ نے نبی ۖ کو بیٹیاںپیش کیںتو نبی ۖ نے فرمایا: ”یہ میرے لئے حرام ہیں”(بخاری)۔مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا: ”بیٹے سے بدفعلی کی ہو تو اسکی ماں بالاتفاق جائز ہے”۔اگراپنے بچے پرشہوت کا ہاتھ غلطی سے لگا تو بیوی حرام اورکسی اور بچے سے بدفعلی کی تو اسکی ماں حلال ہو؟۔ مولانا منظور مینگل نے کہا: ”میری ماں نے جامعہ فاروقیہ میں گالی دی کہ عورت کی طرح علماء کو بھی پیٹ ہوجاتاہے”۔شافعی وحنفی مسالک میں حرمت مصاہرت کے انتہائی تضادات کے باوجود بیٹے اور ماں کے شکاریوں کا اتفاق عجیب ہے اور وہ گالیاں تو اسلئے کھائیں گے کہ اسکے مستحق ہیں۔ سود کے گناہ کو کم ازکم ماں سے زنا کے برابر قرار دینے والے سود کو جائز قرار دیں تو کیا حیا باقی ہوگی؟۔
اگرقرآن پر توجہ دیتے دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن ”اگرتم نے ان میںڈالا اور اگرتم نے نہیں ڈالا ہے …. ”۔ تو حرمت مصاہرت پر متضاد بکواس کی ضرورت نہ پڑتی۔مثلاً ”اگر ساس کی شرمگاہ پر باہر سے شہوت کی نظر پڑگئی تو معاف ہے اگر اندر پڑگئی تو بیوی حرام ہوگئی”۔( نورالانوار ملا جیون) ڈاکٹر اسرار نے کہا : ” یہ قرآن کاپی ہے، اصل کوصرف پاک چھوسکتے ہیں”۔ امام ابوحنیفہنے لامستم النسائمس سے جماع مرادلیاکہ اس لونڈی کوبادشاہ جائز نہ سمجھے پھر بیوقوف فقہاء نے مسائل کے نام پر وہ سرکس لگائی کہ الحفیظ والامان۔ ان حقائق سے مدارس کے علماء ومفتیان بدک کر گدھوں کی طرح بھاگتے ہیں۔
14 فرائض میں حنفیوں کا آخری فرض ”اپنے ارادہ کیساتھ نماز سے نکلنا، بھلے ریح خارج کرکے نکلے”۔ جبکہ لفظ سلام سے نکلنا دوسروں کے ہاں فرض اور حنفی کے ہاں واجب ہے۔میرا سوال تھا کہ ریح خارج کرکے نماز سے نکلے تو نماز واجب الاعادہ ہوگی ۔ وضو ٹوٹے تو سجدہ سہو نہ ہو گا؟۔ یہ کیسا فرض ہے؟۔ جس کاجواب مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی سے بھی مجھے نہیں مل سکا تھا۔
ابن رشد کی کتاب ”بدایة المجتہد نہاےة المقتصد” میںحدیث ہے ”آخری قاعدہ میں ریح خارج کردی تو نماز مکمل ہوگئی”۔ حدث ریح خارج ہونا،احدث ریح خار ج کرنا۔ احدث ” ارادةً ریح خارج کرنے کو فرض بنادیا”۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ فوت ہوایاانتقال کرگیا۔ ارادةً روح نکالنا مراد نہیں۔ جیسے انتقال کیلئے اختیار اور بے اختیاری مراد نہیں ہوتی ہے ۔اسی طرح ریح کے الفاظ کا حال ہے۔ اگرحدیث صحیح ہو تو مطلب یہی ہے کہ جس نے آخری قاعدہ تک نماز کے سارے ارکان ادا کرلئے تو پھر ریح نکل گئی تو اس کی نماز مکمل ہوگئی ہے۔
دیوبندی بریلوی اختلاف کا خاتمہ قاری محمد طیب ( مہتمم دارالعلوم دیوبند) کی اس نعت سے کم کریں۔ یہ غزوہ ہند یا غزہ نہیں بلکہ دیوبند کی داخلی لڑائی تھی۔
نبی اکرم شفیع اعظمۖ دکھے دلوں کا پیام لے لو
تمام دنیا کے ہم ستائے کھڑے ہوئے ہیں سلام لے لو
شکستہ کشتی ہے تیز دھارا ، نظر سے روپوش ہے کنارا
کوئی نہیں ناخدا ہمارا ، خبر تو خیر الانام لے لو
قدم قدم پہ ہے خوف رہزن، زمین بھی دشمن فلک بھی دشمن
زمانہ ہوا ہے ہم سے بدظن، تم ہی محبت سے کام لے لو
کبھی تقاضا وفا کا ہم سے، کبھی مذاق جفا ہے ہم سے
تمام دنیا خفا ہے ہم سے، خبر تو عالی مقام لے لو
یہ کیسی منزل پہ آگئے ہم، نہ کوئی اپنا نہ ہم کسی کے
تم اپنے دامن میں آج آقا، تمام اپنے غلام لے لو
یہ دل میں ارماں ہے اپنے طیب مزار اقدس پہ جاکے اک دن
سناؤں ان کو میں حال دل کا کہوں میں ان سے سلام لے لو

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہم شیعہ سنی اختلافات کی شدت کو کیسے کم کر سکتے ہیں؟

ہم شیعہ سنی اختلافات کی شدت کو کیسے کم کر سکتے ہیں؟

ہمارے امام ابوحنیفہہیں جن کے دور میں بنوامیہ اور بنوعباس کے جو حکمران گزرے ان کو پہچانتے نہیں؟

کیا اہل تشیع کو یہ حق نہیں کہ اپنا امام علی کوبنائیں اور انکے آگے پیچھے کے حکمرانوں کو بالکل بھی نہ پہچانیں؟

نبی ۖ نے فرمایا: ” جس نے اپنے زمانہ کے امام کو نہیں پہچاناوہ جاہلیت کی موت مرا”۔ امام ابوحنیفہ نے بنوامیہ و بنوعباس کے حکمرانوں کا زمانہ پایاتھا۔ لیکن ہم ان حکمرانوں کو نہیں پہچانتے ہیں ۔امام ابوحنیفہ ہمارے امام اعظم ہیں۔ امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل3امام بھی برحق ہیں۔ خلفاء راشدین حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علیچار یارہم حق مانتے ہیں۔
شیعہ3خلفاء اور چاروں امام کو نہیں مانتے۔ حضرت علی اور امام جعفر صادق کی فقہ جعفریہ کو مانتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل نے حدیث قدسی بیان کی کہ ”رسول اللہ ۖ نے فرمایا: اللہ نے مجھ سے فرمایا: تیرے چار یار ہیں ۔ ان میں سے علی ایک ہے ۔ علی، ابوذر، مقداد اور سلمان۔” شیعہ یہ بھی کہتے ہیں کہ امام کا تعلق زمانے کیساتھ ہوتا ہے۔ حضرت علی، حسن اور حسین کے بعد باقی9امام اپنے دور کے امام تھے جن میں سے آخری مہدی آج تک غیبت کی حالت میں ہیں۔ سنی نہیں سمجھتے کہ امام کا تعلق زمانے سے ہے لیکن چار امام کی الگ الگ تقلید کرتے ہیں ۔البتہ امام جعفر صادق سے پہلے اور بعد میں ائمہ اہل بیت ہیں تو فقہ جعفریہ بالکل بے معنی ہونا چاہیے۔ قرآن میں اولی الامر کی اطاعت کا ذکر ہے اور اس کا تعلق وقت کے امام کیساتھ ہے۔ اہل سنت کے ہاں امام سے اختلاف کی گنجائش ہے۔ شیعہ کے نزدیک امام معصوم ہوتا ہے اختلاف کی گنجائش نہیں۔
سپاہ صحابہ کے قائدعلامہ ضیاء الرحمن فاروقی شہیدنے کہا تھا کہ ہمارا شیعہ سے اصل اختلاف قرآن پر نہیں ۔ صحابہ پر بھی نہیں ۔ ہمارا ان سے اصل اختلاف عقیدہ ٔ امامت پر ہے۔ شیعہ بھی اصل اختلاف مسئلہ امامت کو سمجھتے ہیں۔
شیعہ اور سنی کو قریب لانے کیلئے کچھ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ رسول اللہ ۖ نے حجر اسود پر مکہ کے سرداروں کو خون خرابے سے بچایا تھا اور اس وقت نبوت کی بعثت بھی نہیں ہوئی تھی۔ مفتی محمد شفیع نے کہاتھا کہ ”پہلے القاب نہ تھے لیکن علم تھا۔ علامہ، مولانا، مفتی ، شیخ الحدیث وغیرہ کچھ نہ تھا۔ شیخ الہندمولوی کہلاتے تھے”۔ ان کے استاذ مولانا رشیداحمد گنگوہی فتویٰ دیتے تھے مگر مفتی نہیں کہلاتے تھے۔ مفتی اور مولانا کے القاب شیخ الہند کے بعد کی چیزیں ہیں۔
علماء کوہم ” مولانا” کہتے ہیں جس کامطلب ” ہمارا مولا”۔ اگر سنیوں کے اتنے ”مولانا” ہوسکتے ہیں تو کیا شیعہ کو مولا علی کی اجازت نہیںدے سکتے ؟۔
اہل سنت کے چاروں ائمہ کے نزدیک زکوٰة کیلئے قتال نہیں ۔ امام مالک وامام شافعیکے نزدیک بے نمازی کی سزاقتل ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک زد وکوب اور قیدکا حکم ہے یہاں تک کہ توبہ کرلے۔ ملاعمر نے حنفی مسلک پر عمل کیا لیکن موجودہ امیر المؤمنین صبغت اللہ اخوند نے اس پر عمل کرنے کو ترک کردیا۔
پنجاب میں مسافر بسیں نماز کیلئے کھڑی نہیں ہوتی ہیں اور شافعی مالکی مسلک سے تعلق رکھنے والے داعش کے مجاہد ان پر خودکش بھی کرسکتے ہیں۔
مفتی محمد شفیع نے معارف القرآن میں سورہ توبہ کی آیت سے بے نمازی اور زکوٰة کیلئے سزا کے حکم کو شریعت قرار دیا ۔ اگر نماز پڑھنے پر کسی کو مجبور کیا جائے تو کیا پتہ چلے گا کہ وہ غسل میں ہے یا بے وضو ؟۔ فائدہ کیا ہوگا جو ڈنڈے کے زور پر پڑھی جائے؟۔ بادشاہوں کی طرف سے جبری بیعت کا سلسلہ شروع ہوا تو مسجد کے اماموں نے بے نمازیوں کیلئے بھی سزائیں تجویز کرنا شروع کردیں۔ آج ہمارے ”مولانا صاحبان” نے فقہی مسائل کے ذریعے اپنا اقتدارقائم کیا ۔ عدالت سے عورت کو ”خلع” مل جاتا ہے لیکن مولوی اس کو بالکل نہیں مانتا ۔
عمر نے علی سے رہنمائی لی تو فرمایا لولاعلی لھلک عمر ” اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا”۔ فتح مکہ کے موقع پر علی نے مشرک بہنوئی کو قتل کرنا چاہا۔ اگر رسول ۖ نہ ہوتے تو علی بہن و بہنوئی کو نقصان پہنچاتے۔ رسول اللہ ۖ صحابہ کے مولاتھے۔ خولہ بنت ثعلبہ نے شوہر کی بات پر فتویٰ پوچھا تو نبیۖ نے فرمایا: ” اس پر حرام ہوچکی ہو”۔ عورت بحث وتکرار کررہی تھی کہ مجھے حرام….اللہ نے سورہ مجادلہ نازل فرمائی ۔ قد سمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجھا…”اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑ رہی تھی…” ۔ اللہ پھر سب کا مولا ہے۔
اگر فرقوں اور مسلکوں سے کوئی بھول ہوئی ہے تو سورہ بقرہ کی آخری آیت پڑھ کر اللہ سے معافی مانگ لیں ۔ پھر کافروں کے خلاف بھی مدد ہوجائے گی۔
” اے ہمارے رب ! ہم پر وہ بوجھ نہ لاد جس کی ہمیں طاقت نہیں اورہم سے درگزر فرما اور ہمیں معاف فرما اور ہم پر رحم فرما ۔ آپ ہمارے مولا ہیں ”۔
حسن و حسین امیر معاویہ اور یزید سے سنی کے ہاں بہت بہتر ہیں ۔ تو شیعہ کے نزدیک ابوبکر، عمر، عثمان سے علیکی بلندی مسئلہ نہیں۔ ابوسفیان نے ابوبکر کے خلاف اجازت مانگی لیکن علی نے اجازت نہیں دی۔ شیعہ علی کی جگہ ابوسفیان کے پیروکارنہ بنیں۔ علی نے اپنا حق سمجھنے کے باوجود تین خلفائ سے تعاون کیا۔ حسن معاویہ کے حق میں دستبردار اور حسین نے تین باتیں رکھی تھیں۔ واپس مدینہ یا سرحد پر یا یزید کے پاس جانے دیا جائے۔ کربلا کوفہ سے شام کی طرف27کلومیٹرہے تو یہ یزید کی طرف جانے کا ثبوت ہے۔ البتہ ناحق شہیدکردئیے گئے مگر اس کی ایسی تعبیر کہ حسن و علی اور باقی سب کی امامت بھی داؤ پر لگ جائے دانشمندی نہیں ۔پھر تو مہدی غائب کا نکلنا بھی مشکل ہوگا۔اگر شیعہ ان واقعات کو منبرومحراب پر بیان کریں جو قرآن وسنت اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں اور ان سے اختلاف کی گنجائش نہیں تو شیعہ علی کے عقیدہ الوہیت سے تھوڑانیچے اتریںگے۔ پھر شیعہ علماء کیلئے بھی اپنے جاہلوں سے مکالمے میں آسانی ہوگی۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

ہم مل بیٹھ کر اپنا گھر پاکستان بچائیں :محمود خان اچکزئی

ہم مل بیٹھ کر اپنا گھر پاکستان بچائیں :محمود خان اچکزئی

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز وہ پرندے ہیں جہاںبیٹھ جاتے ہیں وہ جگہ کھنڈر بن جاتی ہے۔

کس الیکشن کی بات کررہے ہیں ۔ دو سال وزیر اعظم تیسرے سال اس کو ہتھکڑیاں لگاؤ الٹا لٹکاؤ، گالیاں دو، کھینچو ۔ یہ جمہوریت ہے ؟۔ مصلحت پسندی زندگی میں نہ کی ہے انشاء اللہ اور نہ آگے کریں گے۔ الیکشن کیا بلا ؟ پھر پاکستان کے الیکشن۔ اگر آپ تین الیکشن کرادیتے ہیں تو ملک بن جاتا۔75سال میں ہم اقتدار میں نہیں رہے۔75سال میں پاکستانی قوم تشکیل نہیں دی، پاکستانی قوم ملت تشکیل کرنے میں ناکام رہے۔ کیا75سال اور انتظار کریں گے آپ کا؟۔
ظاہر خان:آپ کےPDMنے عمران خان کا خاتمہ اور نواز شریف لانے میں پشتونوں کو ساتھ لیا ، پشتونوں کی مشکلات پرPDMخاموش کیوں ہیں؟۔
محمود خان اچکزئی:PDMمیرے ساتھی ہیں۔ میں اس گناہ بے لذت میں شریک نہیں تھا۔ چیخ چیخ کراپنی بساط کے مطابق سبھی کو کہا: کھائی میں گررہے ہو۔ لاڑکانہ اور کراچیPDMکے جلسے میں کہا کہ عمران خان کی دشمنی میں یہاں تک جانا …PDMانتہائی جمہوری پروگرام تھالیکن میں کچھ نہیں کہتا…ہم سیاسی کارکن ہیں ہمارا ضمیر مطمئن ہے۔ ہماری پارٹی چھوٹی سہی، جو بڑی ہے۔ ہم اللہ اور پاکستان کی عوام کے سامنے سرخرو ہیں کہ انگریز سے لیکر اب تک نہ ہم نے کسی جرنیل کا ساتھ دیا ۔ ہر وقت مارشل لاؤں کی مخالفت کی۔ شہید عبد الصمد خان اچکزئی بھی قیدی بنے ۔ ہر غیر جمہوری بات کی ہم نے مخالفت کی ۔ یہ ہمیں پڑھایا گیا پاکستان کی بقاء کیلئے یہ ضروری سمجھتے ہیں۔ آج درخواست کرتا ہوں(toYou)کہ خدا کیلئے اس ملک پر رحم کریں۔ انتخابات کا اعلان کردیا ۔ دو انتخابات ماضی میں ہوئے پہلا سن1970، پاکستان بڑا مضبوط ملک تھا، پتہ نہ تھا کہ خدا نخواستہ حادثات ہوں گے۔ شیخ مجیب نے بنگال سوئپ کیا۔ پنجاب سندھ میں پیپلز پارٹی ، پشتون بلوچ علاقوں میں نیشنل پارٹی جیتی۔ الیکشن کے نتائج کو ماننے سے انکار کیا۔23مارچ کو مارشل لا ء لگا۔16دسمبر کو ہماری تاریخ کا سب سے خطرناک حادثہ ہوا۔9مہینے پور ے نہ ہوئے۔ لوگوں کو مارنے خریدنے سے کام نہیں بنتا۔ ہمارا ملک ٹوٹا۔ دوسرا سن1977ذوالفقار علی بھٹو دورمیں انتخابات۔ دھاندلی ہوئی قومی اتحاد بنا۔ رزلٹ نہ مانا، مردہ باد زندہ باد، مارشل لاء لگا۔ بھٹو کوپھانسی ہوگئی۔ اب اگر خدانخواستہ پرانی روش اختیار کی پتہ نہیں ہمارا کیا ہوگا۔ ہم مملکت پاکستان کیلئے درخواست کرتے ہیں کہ جو جیتے اس کو جیتنے دو۔ یہ فصلی بٹیرے ، یہ ایور گرین درخت اگر اچھے ہوتے تو محمد علی جناح کے کام آتے۔ لیاقت علی، غلام محمد ، جنرل ایوب ، یحییٰ کو سنبھالتے۔ پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ، یہ وہ پرندے ہیں کہ جہاں بیٹھتے ہیں وہ جگہ کھنڈر بن جاتی ہے۔ ان کو چھوڑئیے ۔ آئیں پاکستان کو بچائیں۔ جب سے یہ حالات ہوئے۔ ہم نے بار بار یہ بات کی کہ خدا کیلئے ملک بحرانوں میں ہے گول میز کانفرنس بلائیں۔ اس میں ملٹری والے، ججز، جرنلسٹ، پڑھے لکھے لوگ، دانشور، تاجر ، معیشت کے ماہر سب ہوں۔ ہم اکھٹے بیٹھ کر حل نکال لیں گے۔ دنیا نے کیا۔ ممکن کام ہے۔ بحرانی حالت میں لوگوں نے اپنے ملکوں کو بچایا، جاپان جرمنی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا جہاں کی پابندیاں لگائی گئیں ۔ سارے ملک انکے برباد ہوئے، ایٹم بم گرے ان پر، انسانوں نے بسم اللہ کیا۔ آج جاپان جرمنی کہاں ہیں؟۔ ہم بھی انسان ہیں کرسکتے ہیں۔ پرانی روش بدلنی ہوگی۔ دنیا کی طرز پر جمہوری پاکستان کی تشکیل کرنی ہوگی۔ معافی چاہتا ہوں لوگ پتہ نہیں اس کو برا مان لیں گے۔ خدانخواستہ ہماری کم علمی پر۔ پاکستان ہمارا گھر ہے پاکستان ایک کمرہ ہے۔ اس کمرے کو ہم جانتے ہیں، دیواروں کو چوہوں نے سوراخ کرکے برباد کردیا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی چھت کے شہتیروں (لکڑی کے بیم) کو دیمک کھاچکی ہے۔ انتظار نقصان دہ ہے گر جائے گا ۔ ہمیں اس کی تشکیل نوکرنی ہے۔ تشکیل نو وہی کہ آئین کی بالادستی ہوگی۔ ہر ادارہ آئین کے دائرہ کار میں ہوگا۔ منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہوگی۔ اب میں کیا کہوں؟ میں نہیں کہہ سکتا توبہ، بالکل سرکاری فنڈ کھانا شیر مادر کی طرح جائز ہے پھر کہاں ملک بنے گا۔ ہم جتنے مقروض ہیں ؟ میں اپنے ذہن میں یہ بالکل لا نہیں سکتا کہ ہم کتنے ہزار ملین ڈالر مقروض ہیں؟۔ اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ توبہ کرنی ہے توبة النصوح ہم سب سیاسی ہوں فلاں ہوں۔ کل سے آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے پرانے ساتھی کیا کہہ رہے ہیں۔PDMسمیت میرے دوست اور ساتھی میں ابھی تک ان کیساتھ ہوں ۔ ہم نے مصلحت پسندی سے کام کرکے اس ملک کو بربادی کے راستے پر ڈال دیاہے۔

_____تبصرہ نوشتہ دیوار_____
پاکستان کا یہ خطہ عالم اسلام کے مسلمانوں کیلئے مرکز ہے۔ محمود خان اچکزئی سب سے سینئر اور بے داغ سیاستدان ہیں۔ اگر بلوچستان و پختونخواہ سے الیکشن جیت بھی جائیں تو مرکز میں ان کی حکومت نہیں بن سکتی ہے۔ اپنے عزیر ساتھی عثمان کاکڑ کے بیٹے خوشحال کاکڑ کی قیادت میں اپنے دیرینہ ساتھیوں نے ان کی رفاقت چھوڑ دی ۔ اگر پنجاب سے نجم سیٹھی کی بیگم جگنو محسن، جاوید ہاشمی،چوہدری سرور، ڈاکٹر طاہرالقادری اور سندھ وکراچی، پشتون و بلوچ علاقہ سے انقلابی اور نظریاتی لوگوں کا اتحاد کرکے ایک مختصر منشور پر اکٹھا کیا جائے تو پاکستان کو بحران سے نکالے۔مصطفی نواز کھوکر، لشکری رئیسانی ، ڈاکٹر قادر مگسی، شاہد خاقان عباسی کی خدمات درکار ہوں گی۔MQM، جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام، تحریک انصاف ، تحریک لبیک وغیرہ سب جماعتیں اور شخصیات صرف مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر سب اس منشور کے تحت اتحادمیں شامل کی جائیں۔
سہیل وڑائچ نے کہا تھا کہ” اگلا الیکشن پنجاب میں بڈھے شیر نوازشریف اور ٹائیگر عمران خان کے درمیان ہوگا”۔ شیر چیتے نہیں گدھوں کی لڑائی دکھ رہی ہے۔ نوازشریف سندھ میں زرداری کو مولانا فضل الرحمن،MQM،GDAسے مل کر شکست دے گا اور زرداری اس کو وزیراعظم نہیں بننے دے گا؟۔ عسقلان کی اس حدیث اور قرآن سے پاکستان اور عالمی سطح پر بہت بڑا انقلاب آسکتا ہے۔آئین پاکستان علماء اور سیکولر طبقے نے مل کر بنایامگر عمل نہ کرسکے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

صلیبی جنگوں کے بعد عیسائی اور مسلمانوں کا کردار

صلیبی جنگوں کے بعد عیسائی اور مسلمانوں کا کردار

عیسائی حکمرانوں نے200سال صلیبی جنگیں لڑ کر مسلمانوں کو قریب سے دیکھا تو کیا بڑا سبق سیکھا؟۔

عسقلان قدیم دورسے مختلف لوگوں کے قبضہ میں رہاہے۔ معاویہ دور میں صلح سے مسلمانوں کے حوالے ہوا۔ مختلف ادوار میں عیسائیوں اور مسلمانوں میں منتقل ہوتا رہاہے۔ خلافت عثمانیہ اور انگریز قابض رہے۔ اسرائیل خریدتا اور قبضہ کرتا تھا۔2سو سال صلیبی جنگوں والے عیسائی القدس پر قبضہ چاہتے تھے۔ اُس دور میں پادری آج کے مسلمان جہادیوں کی طرح تھے جن کا حکمرانوں سے گٹھ جوڑ تھا۔ملالہ نے جب اس گٹھ جوڑ کی آواز اٹھائی تو سینیٹر مشتاق پنگوڑے میں سویا ہوا تھا۔ میں نے فجر کی آذان تھوڑی دیر سے دی تو پیر فاروق شاہ نے کہاکہ نماز نیند سے بہترکا جملہ نہ کہتے۔ چڑیا بھی جاگ چکیں۔ منظور پشتین نے دہشت گردی کے پیچھے وردی کا نعرہ لگایا تو مشتاق بھی شروع ہوگئے۔صلیبی جنگوں میں عیسائیوںنے قریب سے مسلمانوں کو دیکھا تو بہت متاثر ہوگئے۔ پادریوں کا اثر و رسوخ ختم کرکے جدید طرز تعمیر، تعلیم اور حکمرانی کواپنایا۔ پھر ترقی و عروج کی منزل پالی ۔ دنیا پر دنیاوی مفاد کیلئے حکمرانی کرنے لگے اور ان کے دل ودماغ میں مذہبی جہالت کی جگہ سیکولر ازم آگیا۔ القدس پر قبضہ کرسکتے تھے مگر مذہبی جنگ یہود اور مسلمانوں کے درمیان چھوڑدی ۔ آج عیسائیوں کے پاس ترقی یافتہ مغرب ہے۔ مسلمانوں کے حرمین کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں لیکن ان میں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی مسلمانوں کی وجہ سے صلیبی جنگوں میں ختم ہوچکی ۔ روس کے خلاف جہادیوں کو امریکہ نے استعمال کیا۔ ولی خان نے سعادت حسن منٹو اور مولانا فضل الرحمن وغیرہ کی موجودگی میں روس کو افغانستان سے انخلاء پر امن کا ایوارڈ دینے کی تقریب کا انعقاد کیا تھا۔ بینظیر بھٹو سے کہا تھا کہ” محترمہ خود خاتون ہو ۔ عرب پختون خواتین کو لونڈیاں بنانا چاہتے ہیں جو اپنی شلواروں کے ناڑے سروں پر باندھتے ہیں۔کیا یہ ہماری خواتین کو لونڈیاں بنائیں گے؟۔ افغانستان کابینہ (گل بدین، ربانی ،مجاہدین لیڈرز)کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہورہاہے ،اگر کل افغانستان میں پاکستانی کابینہ کا اجلاس عالمی قوتوں نے منعقد کیا تو کیا ہوگا؟۔ بینظیر کے دوسرے دورِ حکومت میں نصیراللہ بابر کے ذریعہ افغان طالبان کو لایا گیا ۔MQMکی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ۔ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس جاسکتے ہیں ۔اللہ نہ کرے کہ کراچی کے مہاجر کو واپس بھیجنے کا فیصلہ ہوجائے۔ اچھا کیا کہ متحدہ قومی موومنٹ نام بدل دیا ۔
سندھیوں کی غلطی نہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے دارالخلافہ اور شہروں پر بھی مہاجروں کا قبضہ تھا۔افغانی مہاجر کادیہاتوں اور کچی آبادیوں پر قبضہ ہوگا؟۔ مگر پولیس والے رشوت نہ دینے پر پاکستانیوں کو بھی افغانستان بھیج رہے ہیں۔ وزیر داخلہ فوجی ہو تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے ناجائز لینڈ مافیا بھاگا۔
ہفت روزہ تکبیر کراچی نے لکھا تھا کہ ”افغانستان میں مولانا فضل الرحمن کی ریاست کو ضرورت پیش آئی تو وہ بیرون ملک رفو چکر ہوگئے ”۔ جماعت اسلامی ہمیشہ اسٹیبلیشمنٹ کی اٹوٹ انگ رہی ہے لیکن پروین شاکر کی یاد تازہ کردی۔
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کردیا عشق کے اس سفر نے مجھے نڈھال کردیا
چہرہ ونام ایک ساتھ نہ یاد آسکے وقت نے کس شبیہ کو خواب وخیال کردیا
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں میرے خواب میرے خیموں کی طرح
جماعت اسلامی سید مودودی کے مشن احیائے دین کا کام شروع کرے۔ اگر مفتی تقی عثمانی اور جماعت اسلامی کو واقعی یہود سے نفرت ہے تو وہ بینکنگ کا سودی نظام (علامہ اقبال کے بقول: فرنگ کی جان پنجہ یہود میں ہے)کوکیوں اسلامی قرار دے دیا؟۔ سیدھے سادے لوگوں سے” کوکا کولا” کے بوتل گراتے ہو لیکن خود اس کے مضبوط معاشی نظام سے تنخواہ لے کر کھارہے ہو؟۔
اگر مفتی تقی عثمانی میں ایمان ہوتا تو اپنے استاذ، پیش رو مولانا سلیم اللہ خان صدر وفاق المدارس کی بات مانتا اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ، مفتی زرولی خان ، پاکستان بھر کے معروف علماء و مدارس کی بات مانتا ۔ مفتی محمود کی بات مانتا ۔ پان میں زہر کھلادیا اور دوسرے بھائی نے دورہ قلب کی خصوصی گولی حلق میں ڈالی جو نہ حکیم و ڈاکٹر تھا اور نہ دل کا مریض۔ مفتی محمود کی وفات کے بعد یہ تحریر لکھی کہ ”ہم بھائیوں نے چائے پینے سے منع کردیا تو مفتی صاحب نے کہا کہ میں خود زیادہ چائے پیتا ہوں مگر کوئی نہیں پیتا تو اس کو پسند کرتا ہوں۔ جس پر میں نے پان کا بٹوہ دکھایا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ مفتی صاحب نے کہا کہ یہ توچائے سے بھی بدتر ہے”۔ مولانا یوسف لدھیانوی نے لکھا ” مفتی تقی عثمانی نے اصرار کرکے پان کھلایا”۔ جس پر مفتی تقی عثمانی نے مولانا لدھیانوی شہید پر غصے کا اظہار کیا تھا۔ اب بیان180ڈگری بدل دیا کہ ” مفتی صاحب سے بڑی بے تکلفی تھی ۔ کہتے تھے کہ بھیا! لاؤ، ہم تمہارا پان کھائیںگے”۔ دارالعلوم کراچی میں اپنا ذاتی گھر لیا تو مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے فتویٰ دیا کہ ” وقف مال بیچنا اور خریدنا جائز نہیں ہے اور یہ بھی جائز نہیں کہ بیچنے والا خود خریدے”۔ جس پر ان کی سخت پٹائی لگائی تھی۔حالانکہ شریعت کا یہ قانون عالمی قانون بن چکا ہے۔
مفتی صاحبان افغانستان اپنے بچوں سمیت منتقل ہوجاتے تو شریعت کے ماحول کا فائدہ اٹھاتے ۔ مدارس کو تجارت کا مرکز بنانا چھوڑ دیں تو القدس کا معاملہ بھی حل ہوجائے گا۔جنرل ضیاء الحق نے فٹ بال گراؤنڈ دارالعلوم کراچی کو دیا تو اس کو تجارتی گودام بنادیا گیا۔ جس کا عوام کو بہت نقصان ہے لیکن نواز شریف، عمران خان، ابھی نندن اور کلبھوشن کو قید میں رکھنے یا نہ رکھنے سے عوام کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہے۔ مفتی تقی عثمانی عوام کی امانت نہیں لوٹا سکتا ہے۔
ملالہ یوسفزئی نے فلسطین کی مظلوم عوام کو3لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا ہے لیکن مالدار علماء و مفتیان کی طرف سے امداد کا اعلان نہیں ہوا ؟ ۔فلسطین اور مسلمانوں کے بچوں کی مظلومیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مولانا طارق جمیل نے اپنے بیٹے پر کس قدر سوگ کا مظاہرہ کیا ؟۔ فلسطین میں گھر گھر صفِ ماتم ہے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

عسقلان کی حدیث کے بارے میں اہم رہنمائی!

عسقلان کی حدیث کے بارے میں اہم رہنمائی!

عالم اسلام کے حکمران سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اسرائیل پر حملہ کیا تو وہی حشر دنیا کرے گی جو غزہ کا ہواہے؟

اسرائیل سے جنگ نہیں تو صلح سے غزہ کے مسلمانوں کو بچائیں،ورنہ مسلمان حکمرانوں کی پھر خیر نہیں ہے

عسقلان کا ذکر تورات میں ہے۔ جب عیسائیوں کو موقع مل گیا تو انہوں نے یہودیوں کو ارض مقدس سے بھگا دیا۔ حضرت عمر نے مشرق ومغرب کی دوسپر طاقتوں روم وفارس کو شکست دیدی اور بیت المقدس کی چابی حضرت عمر کے حوالے کردی گئی تو حضرت عمر نے یہود کو بیت المقدس آنے کی اجازت دی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے مکہ مکرمہ میں آباد کیا اور دوسرے بیٹے اسحاق علیہ السلام اور ان کی اولادجن میں انبیاء کی ایک لمبی فہرست ہے بیت المقدس میں آباد کیاجو اہل کتاب ہیں۔
اللہ نے فرمایا کہ یہوداور مشرک تمہارے سب سے بڑے دشمن ہیں ”آپ ضرور ایمان والوں کیلئے سب سے زیادہ دشمنی میں سخت یہودکو پائیں گے اور ان کوجو مشرک ہیںاور آپ ضرور ایمان والوں کیلئے سب سے زیادہ موودت میں قریب ان لوگوں کو پائیں گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں کیونکہ ان میںعلماء و مشائخ ہیں اوربیشک وہ تکبر نہیں کرتے ہیں”۔( المائدہ82:)
لیکن اللہ کا یہ حکم نہیں کہ یہود اور مشرکوں سے دشمنی رکھو۔ تب ہی تو حضرت عمر نے یہود کو ان کے اپنے قبلے کی زیارت کیلئے آنے پر پابندی ختم کردی۔ اور فلسطین کے لوگوں نے ان کو اپنی زمینیں بیچنا شروع کردیں۔ اگر مسلمانوں کی جگہ پر عیسائی ہوتے تو یہود پر پابندی بھی برقرار رہتی اور آبادی کی اجازت بھی نہ ملتی۔ اللہ نے نبی ۖ سے فرمایا کہ مشرکین مکہ سے کہو کہ”قل الا اسئلکم علیہ اجرًا الا المودة فی القربی ” جب نبی ۖ مشرکین مکہ سے قرابت داری کی موودت کے فطری تقاضے پر عمل کرنے کا مطالبہ کرسکتے ہیں تو کیاہمارا حق نہیں بنتا تھا کہ ہم بھی قرابت داری کا لحاظ رکھتے ہوئے مشرکوں سے موودت رکھتے؟۔ نبی ۖ اور مسلمانوں نے مشرکینِ مکہ سے قرابت داری کی فطری محبت رکھی تھی۔ فتح مکہ کے موقع پر اور دوسرے مواقع پر اس کا اظہار بھی ہوا۔
لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمؤمنین رء وف رحیمOفان تولوافقل حسبی اللہ…(سورہ توبہ ) بیشک تمہارے پاس رسول آئے جو تمہاری نسل سے ہے،ان پر بھاری پڑتا ہے وہ جس سے تم مشقت میں پڑو۔ تم پر حرص رکھتا ہے اور مؤمنوں پر مہربان اور رحیم ہے۔ اگر وہ روگردانی کریں تو کہو کہ مجھے اللہ کافی ہے”۔
نتیجہ یہ ہوا کہ جہالت کے سب سے بڑے سردار ابوجہل نے گردن کٹادی مگر اسلام قبول کرنے سے زخمی نڈھال نے موت کے منہ میںبھی انکار کیاتھا۔
مسلمان حسین پر فخر کرتے ہیں کہ اپنا سر دیا مگر یزید کی بیعت قبول نہیں کی۔
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سرداد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لاالہ الا اللہ است حسین
اگر جاہلیت کا قلع قمع اسلام نہ کرتا تو جاہل لوگ ابوجہل کے ترانے گاتے کہ سر داد نہ داد دست در دست محمد اپنی گردن کٹادی مگر اپناہاتھ نبیۖ کے ہاتھ بیعت کرنے کیلئے نہیں دیا۔ پھر ابوجہل کا بیٹا عکرمہ سچا پکا صحابی بن گیا۔ نبیۖ فرماتے تھے اس کے سامنے اس کے باپ کی برائی مت کرو۔ شیعہ ٹھیک کہتے ہیں کہ نبیۖ نے صحابہ سے فرمایا کہ میرے اہل بیت سے موودت رکھو ۔
نبیۖ نے یہود کے ساتھ میثاق مدینہ کیا تو فلسطین کے لوگ یہود سے میثاق مدینہ کے طرز پر معاہدہ کرسکتے ہیں۔نبی ۖ نے مشرکین مکہ سے صلح حدیبیہ کیا تو پاکستان ہندوستان سے صلح حدیبیہ کرسکتا ہے۔ قائد اعظم نے اگر اسرائیل کو حرامی بچہ کہا ہے تو قائداعظم قادیانیوں کو بھی مسلمان مانتا تھا اور سرظفراللہ قادیانی کو پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ بنایا تھا۔ انگریز نے سویت یونین کا راستہ روکنے کیلئے ہندوستان تقسیم کرکے پاکستان بنایا تھا۔ جس طرح آج ہماری اسٹیبلشمنٹ جو چاہتی ہے وہ کرتی ہے،اس طرح اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے جو چاہا وہ کیا ۔لیکن ان کی اسٹیبلشمنٹ فوج نہیں سول سیاسی قیادت تھی جن کے پاس دماغ اور صلاحیتیں تھیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ فوج ہے جس کا فرد واحد آرمی چیف ساری زندگی نوکری کرکے غلامانہ ذہنیت کا مالک بن جاتا ہے ، جس کا اپنا دماغ نہیں ہوتا وہ تمام سفید وسیاہ کا مالک بن جاتا ہے اور پوری قوم کو فوج کی طاقت سے ہنکاتا ہے۔ کٹھ پتلی پارٹیاں ان کے سامنے اوندھے منہ لیٹ جاتی ہیں اور جب جنرل قمر جاویدباجوہ کے ایکسٹینشن کا معاملہ آیا تو پارلیمنٹ میں قانون بھی بنادیا اور آرمی چیف کی زیادہ عمر تک مزید ایکسٹینشن کی قانونی اجازت رکھی۔
عسقلان غزہ سے صرف10کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اسرائیل کے سامنے غزہ کی پٹی ایسی ہے جیسے کراچی کی کوئی کچی آبادی پاکستان کے مقابلے میں ہے۔ اگر کچی آبادی کے28لاکھ مکین ڈفینس پر حملہ کرکے مار دھاڑ کریں توجو بھگتنا پڑے گا وہ سب جانتے ہیں۔ افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تو پاکستان سے54ہزار ڈرون حملے ہوئے ،4لاکھ افغانی مارے اور ہم نے پکڑ پکڑ کر لوگ امریکہ کے حوالے کئے۔امریکہ قطر ی مذاکرات سے نکلا۔فلسطین کے مظلوم عوام کی جانیں بچانے کیلئے روس اور دنیا سے رابطہ کرکے صلح کروائیں۔ اگر عسقلان کو مسلمان اپنی مرضی سے بیچ باچ کر خالی نہ کرتے اور خانقاہ بناتے تو سید عبدالقادرجیلانی کی خانقاہ نے سقوطِ بغداد کے بعدخلافت عثمانیہ قائم کرنے میں کردارادا کیاتھا۔رباط خانقاہ اور گھوڑوں کے اصطبل کو بھی کہتے ہیں۔ لیکن قرآن کا”رابطوا ”زبردست ہے جس سے ہم فلسطین اور انسانیت کی ساری نسل بچاسکتے ہیں۔ جن علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کیا،صلح سے دنیا مسلمانوں کا ساتھ دے گی۔ جس میں عیسائی، ہندو اور یہود شامل ہوں گے ۔ انشاء اللہ العزیز

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

لاکھوں افغان مہاجرکی واپسی غلطی یا صحیح فیصلہ ہے؟

لاکھوں افغان مہاجرکی واپسی غلطی یا صحیح فیصلہ ہے؟

انگریز نے تقسیم ہندسے روس ، چین، ایران، عرب، جاپان، جرمنی، کوریا…متبادل قوت کا راستہ روک لیا

سیدامیرشاہ کی قیادت میں محسود قوم نے افغان بادشاہ شیرعلی سے انگریز کیخلاف باہمی تعاون کا معاہدہ کیا

یورپی یونین جرمنی، اٹلی، فرانس، سوئیڈن، اسپین، ناروے، ڈنمارک و دیگر میں کسی ایک ملک کا ویزہ سب کیلئے ہوتا ہے۔ امریکہ اور کینیڈا میں بھی یہی ہے۔ ڈیورنڈ لائن پر ایسا گھر بھی ہے جس کا ایک دروازہ افغانستان اور دوسرا پاکستان میں کھلتا ہے۔ دونوںطرف ایک ہی خاندان کے گھر اور جائیدادیں موجود ہیں۔
نوازشریف یا عمران خان کیخلاف فیصلے پراپنا مقتدر طبقہ شرماتا گھبراتا نہیں تو طالبان مہاجرین کو خوش دلی سے قبول کریں۔ تنقید نہیںاپنا محاسبہ کریں۔ پشاور انگریز نے اسلئے آسانی سے فتح کیا کہ پنجاب کی سکھ حکومت نے بڑا ظلم کیا تھا۔ انگریز کے بعد مسلم لیگی شیر قیوم خان اورحکومت نے باچا خان سے وہ دشمنی کی جو انگریز بھی روا نہیں سمجھتا تھا۔ وزیرستان بالخصوص محسود نے مزاحمت کی مگر ملا پیوندہ انگریز سے100روپیہ لیتا تھا۔ قبائل کا نام نہاد مشران ملکان طبقہ تنخواہ دار تھا۔
اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ” پاکستانی وہ قوم ہے جو نہ خود ترقی کرتی ہے اور نہ ہمیں کرنے دیتی ہے”۔ لیکن برصغیر پاک وہندمیںہمارا چھوٹا ملک ہے۔ مہاتما گاندھی، اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی نسل درنسل تعصبات کی بھینٹ چڑھ گئے۔ کانگریس کی جگہ مودی آیا۔ آدھے ادھورے پاکستان کا سایہ دیوہیکل ہندوستان ہے یادیو کاسایہ ہم پر ہے؟۔ مفتی کفایت اللہ نے لکھا کہ ” انگریز نے جمعیت علماء اسلام کو جمعیت علماء ہند کے مقابلے میں بنایا”۔ مسلم لیگ انگریز نے بنائی تو ہندوتعصب بھی تھا۔ قائداعظم ، مادرملت، قائدملت اوربیگم لیاقت مبلغ قیادت، لاکھوں مہاجر ،لاؤ لشکر ،ریاستی مشینری پاک سرزمین کو جہیز میں ملے۔ جہیز کی بڑی مقدار کے سیلاب نے ہمیںکہیں کا نہ چھوڑا،آزادی ملی اور نہ اسلام آسکا۔ علامہ شبیراحمد عثمانی و مفتی شفیع کی جمعیت علماء اسلام نے سن1970میں مفتی محمود کی جمعیت علماء اسلام پر کفر کا فتویٰ لگایا، جو خود کو جمعیت علماء ہند کی نمائندہ کہتی ہے۔ پچھلے شمارہ میں علامہ شبیراحمد عثمانی کو غلطی سے شیخ الہند کا بیٹا لکھا۔ مولانا لاہوری کی والدہ کو فیس بک میں سکھ اور گوگل پر حافظہ قرآن لکھاہے۔مولانا طارق جمیل کا بیٹا کہتاہے کہ بھائی نے خود کشی کی اور بھائی کہتا ہے کہ غلطی سے گولی چل گئی ؟۔
ہم اپنا محاسبہ کرکے اپنی اصلاح کریں، افغانی اپنے گریبان میں جھانک کر اپنا محاسبہ کریں۔ طالبان اپنی عوام کو زراعت اور باغات کیلئے مفت زمینیں دیں تو ریاست مدینہ کی یاد بھی تازہ ہوگی ۔بھوک وبے روزگاری بھی ختم ہوگی ، حکومت کو بھی اچھا ٹیکس ملے گا۔ وانا وزیرستان کے وزیر افغان مہاجر کی محنت سے بن گئے اور اگر افغانستان میں محنت کا میدان مل گیا تو دہشت گردی نہیں ہوسکے گی۔ خوشحال خطہ ضرورت ہے۔ دہشت گردی سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے آئی ہے۔ ایک طبقہ خوشحال ،دوسرا بد حال ہو تو لامحالہ ماحول میں دہشتگرد ی آ سکتی ہے۔
سن1877میں میرے دادا سیدامیر شاہ کی قیادت میں محسودقبائل کا نمائندہ وفد افغان بادشاہ شیر علی خان سے انگریز کیخلاف باہمی تعاون کا معاہدہ کرنے گیا۔ پھر انکے بھائی سیداحمدشاہ کی قیادت میں بیٹنی قبائل کا وفد گیا۔ حوالہ درج بالا کتاب میں ہے۔ سن1878میں امیر شیر علی نے روس کے وفد کو دعوت دی۔ ہند کی انگریز سرکار ناراض ہوگئی اور افغانستان پر حملہ کیا پھر امیر عبدالرحمان اقتدار میں آیا ۔سن1893میں ڈیورنڈ لائن کامعاہدہ سالانہ18لاکھ روپیہ کے عوض کیا۔ علامہ اقبال نے وزیرستان کے محسود اور وزیر کو ”محراب گل افغان” کا تخیل دیا۔
سن1919افغان بادشاہ امیر حبیب اللہ خان قتل ہوا ۔پھرامیر امان اللہ خان سن1928تک بادشاہ رہا۔اسکی بیگم ثریا شام میں پیداہوئی جو خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ ثریا نے خواتین کی تعلیم کا افغانستان میں اہتمام کیا۔ کچھ لڑکیاں اعلیٰ تعلیم کیلئے ترکی بھیج دیں۔ لوگ بھی جدت کیخلاف مگر اصل سازش انگریز نے کی تھی۔ امیرامان اللہ خان کے خلاف شورش برپا کرکے بھاگنے پر مجبور کیا۔ برطانیہ کو ترقی یافتہ افغانستان اسلئے پسند نہ تھا کہ روس کا خطرہ تھا۔ جیسے آج امریکہ کو چین اچھا نہیں لگتا ۔ طالبان کو مہاجرین سے زیادہ بڑا مسئلہ داعش کا ہے۔ انگریز پاکستان کو نہ بناتا تو برطانیہ، امریکہ ، فرانس اجارہ دار نہیں بنتے ۔روس ،جرمنی ، ہندوستان ، برما،جاپان ، کوریا،چین، ترکی ،ایران، عرب مضبوط بلاک بنتے اور اسرائیل کبھی فلسطین پر مسلط نہ ہوتا۔امریکی گماشتوں نے فلسطین میں جہاد نہیں کرنے دیا۔
سکندر مرزانے نانا سید سلطان اکبر شاہ سے جٹہ قلعہ گومل کرایہ پر مانگا تو نانا نے کہا: ”میں افغان بھائیوں کے قتل کیلئے یہ کرایا پر نہیں دیتا”۔ بلیک لسٹ ہوا تو انگریز پولیٹیکل ایجنٹ سے کہا کہ جو تمہیں مارتے ہیں ان کو زمینیںدیں ہیں اور ہم نے قتل نہیںکیا تو نہیں دیتے؟۔ جس پر انگریز نے پنجاب میں زمین دی۔ امیر امان اللہ خان کی حکومت بحال ہوئی تو چچازاد نادر خان نے قبضہ کیا۔ سید ایوب شاہ آغا ولد سیداحمد شاہنے کابل سے اخبار نکالا۔ نادر خان نے غلط فہمی کی بنیاد پر پہلے توپ سے اڑانے پھرتاحیات جلاوطنی کی سزادی تھی۔ ظاہر شاہ ، سردار داؤد، نور محمد ترکئی، ببرک کارمل ، فضل امین، ڈاکٹر نجیب،مجاہدین حکومت، ملاعمر ، کرزئی ، اشرف غنی اور موجودہ دورتک سارے افغان اپنامحاسبہ اوراصلاح ضرور کریں۔
جو پیسہ افغان جہاد میں جرنیل، مذہبی اور سیاسی طبقات نے کمایا، وہ افغان مہاجرین کو آباد کاری کیلئے دیں! ۔ کم قیمت میں زندگی کا سرمایہ بیچنے والے امداد اور تحفظ کے مستحق ہیں ۔چندہ خور مافیا فلسطین کے نام پر اپنی تجوریاں بھرتا ہے۔ مہاجرین کو بھیجنے پر تعصب پھیل رہا ہے۔ ہمارے والد پیرمقیم شاہ ہندودوست سے جاتے وقت جائیداد قبول کرنا بھی اپنے روشن ضمیرکیخلاف سمجھتے تھے۔الحمدللہ

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv